کوئی پوچھنے والا نہیں 2

پچھلے دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ " دو معصوم بچوں کو گٹر نگل گئے" فوری طور پر جو پہلی بات ذہن میں آئے وہ کہ ان بچوں کے والدین پر کیا گزرا ہوگا؟ کس طرح سے ان بچوں کی ماں نے برداشت کیا ہوگا؟ اور ایک ماں کے دو دو لخت جگر ایک ساتھ ہی اس سے چھن جائیں تو اس ماں کے دل میں کیا گزری ہوگی؟

آخر کیوں؟ یہ سب کیوں؟ کیا ہے یہ سب؟ کہیں گٹر لوگوں کو نگل رہا ہے تو کہیں گٹر خود ابل رہا ہے اور آنے جانے والوں کے لیے پریشانیوں کا باعث بن رہا ہے کیا "کوئی پوچھنے والا نہیں؟" کسی کا دھیان اس طرف کیوں نہیں جاتی حالانکہ ہم ٹیکس بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں جو صفائی کرنے والا خاکروب کبھی بھولے بھٹکے صفائی کرنے آنکلے (شاذ و نادر) تو ان کو بھی نذرانے دیے جاتے ہیں لیکن نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے ہمارا سے مراد ہم مڈل کلاس لوگ، ہر پریشانی ہم مڈل کلاس لوگ ہی جھیلتے ہیں کیا آپ لوگوں نے کبھی سنا کہ ڈیفنس میں ابلتے ہوئے گٹر نے کسی بچے کو نکل لیا یا کلفٹن میں راہگیر کھلی گٹر میں گر گیا اگر ایسی کوئی خبر سنی بھی ہوگی تو وہ گٹر میں گرنے والا کوئی مڈل کلاس یا لوئر کلاس شخص ہی ہوگا۔

میں اپنے پچھلے مضمون میں عمومی طور پر پورے کراچی اور خصوصی طور پر اورنگی ٹاؤن میں ٹرانسپورٹ کی حالت زار کے حوالے سے بات کر رہا تھا میں اس کو جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ یہ خبر آپ لوگوں کی نظروں سے گزری ہوگی یا آپ نے خود مشاہدہ کیا ہوگا کہ شہر کو اورنگی ٹاؤن سے ملانے والی سڑک جو کہ بنارس چو ک سے گزرتی ہے یہاں پل کی تعمیرات جاری ہے اور دن رات کام ہورہا ہے۔ جس کے لیے اورنگی ٹاؤن کے رہائشی اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں اور اللہ سے اپنی جان کی امان بھی چاہ رہے ہیں وہ اس طرح کہ یہ پل جہاں ترقیاتی کام چل رہا ہے اس طرف کا سڑک بہت ہی بری حالت میں ہے ظاہر ہے کیوں نہ ہو تعمیرات کا کام جو چل رہا ہے جگہ جگہ پلر کے لیے کھدائی ہو رہی ہے لیکن پھر بھی ٹریفک یہاں سے رواں دواں ہے بلکہ رواں دواں کہنا مناسب نہیں ہوگی یہ بہتر ہوگا کہ بس ٹریفک یہاں سے زبردستی گھس گھسا کر چل رہی ہے۔ اور سڑک کی کنڈیشن ایسی بری ہے کہ بسوں منی بسوں کو گزرنے میں بہت ہی دقت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس سے زیادہ دقت تو ان سواریوں کو ہو رہی ہے جو ان بسوں میں سفر کر رہے ہوتے ہیں ان میں سے میں بھی ایک ہوں۔اتنے کھڈے پڑے ہوئے ہیں سڑک پر کہ گاڑی تقریبا 45 ڈگری ایک طرف کبھی 45 ڈگری دوسری طرف جھک جاتی ہے اور دل اچھل کر حلق میں آجاتا ہے اور ایسے میں لوگ اللہ کو یاد کر نے لگتے ہیں (ارے یہ طریقہ تو بہت اچھا ہے اللہ یاد دلانے کا) وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ گرتی نہیں الٹتی نہیں مگر کب نہ جانے خدانخواستہ الٹ جائے کسی کو نہیں پتا مگر پھر بھی زبردستی یہاں سے ٹریفک چل رہی ہے جس سے کام کرنے والے مزدورں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب اس جگہ کام چل رہا ہے تو ٹریفک کے لیے کیوں کھول رکھی ہے اس روڈ کو بند کیوں نہیں کر دیا جاتا جس طرح اورنگی ٹاؤن سے آنے والی گاڑی کام کی وجہ سے قصبہ موڑ والے روڈ سے آرہی ہے تو جانے کے لیے قصبہ موڑ والی روڈ کیوں استعمال نہیں کیا جا رہا ہے شاید کسی حادثے کا انتظار ہے کہ کوئی حادثہ ہو کسی کی جان جائے پھر یہاں کے لیے ٹریفک بند کیا جائے گا اور نہ صرف یہاں سے بسوں کے گزرنے کا پرابلم ہے بلکہ ٹریفک جام بھی ہو جاتا ہے اور لوگوں کا قیمتی وقت الگ ضائع ہوتا ہے گھنٹوں اس پریشانی میں لوگ بسوں میں بیٹھے ، کھڑے ، لٹکے اور چھتوں میں سوار انتظار کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ ٹریفک والے بھی ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں لیکن وہ ٹریفک کم کنٹرول کرتے ہیں زیادہ تر اپنی جیب کی کنٹرولنگ میں لگے رہتے ہیں کہ جیب خالی نہ رہ پائے نہ صرف ٹریفک والے بلکہ رینجرز اور پولیس کے جوان بھی وہاں موجود ہوتے ہیں لیکن "کوئی پوچھنے والا نہیں" جب خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوگا کسی معصوم کی جان جائے گی جب اس پر غور کیا جائے گا ابھی جیسے چلتا ہے چلنے دو۔

حالانکہ اورنگی سے آنے والی گاڑیاں اس راستے سے نہیں آتی بلکہ آنے کے لیے راستہ بند کیا ہوا ہے اور صرف جانے کے لیے کھلا ہے لیکن اسے بھی بند کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو اور کام کرنے والوں کو پریشانی نہ ہو اور کام کرنے والے بنا کسی رکاوٹ کے اطمینان سے کام کر سکیں۔ اور جیسے اورنگی سے نکلنے والی گاڑیاں متبادل راستے سے نکل رہی ہیں اسی طرح جانے کے لیے بھی وہی متبادل راستہ اختیار کریں اور ٹریفک والے اس کو اچھی طرح مانیٹر کریں تو ٹریفک جام کا پرابلم بھی نہ ہو۔ لیکن ہمارا ملک تو ایسا لگتا ہے اللہ کے سہارے ہی چل رہا ہے ہمارے حکمران تو اپنی میں لگے ہیں اور کسی کی توجہ عوام کی طرف نہیں ہے اور نا ہی کوئی اس بارے میں سوچ رہا ہے۔ اللہ پاک ہمارے ملک کو سلامت رکھے اور ملک کو چلانے والے محنت کشوں کو بھی ۔(میں تو کہتا ہوں کہ ملک کو حکمران نہیں یہ محنت کش لوگ ہی چلا رہے ہیں) کاش کہ کوئی ان محنت کشوں مزدوروں کو بھی کچھ سہولیات فراہم کرے کاش۔

اللہ پاک پورے ملک کو پورے شہر کو اور خصوصی طور پر اورنگی کو امن کا گہورا بنا اور کوئی ایسا حکمران آئے جو ملک کی شہر کی اور اورنگی کی قسمت بدل دے۔(آمین ثمہ آمین)

اورنگی کی خدمت کے لیے اورنگی ٹاؤن کی ایک ویب سائٹ بنا رہا ہوں پلیز وزٹ کریں اور رائے دیں کہ اس میں اور کیا کیا ہونا چاہیے یا ابھی اس میں کیا کمی ہے۔شکریہ ویب ایڈریس یہ ہے

www.hamaraorangi.tk