پاکستانی سیاست یا گورکھ دھندا

سیاست کہیں بھی خم و پیچ سے عاری تو نہیں ہوتی لیکن پاکستان کی سیاست تو ایک عجیب گو رکھ دھندا ہے۔ کبھی اس میں حکومت کا عمل دخل اور کبھی فوج کی دراندازیاں۔ میڈیا پر ایک شور ہے کہ آئی ایس آئی نے آئی جے آئی بنائی اور سیاست دانوں میں پیسے تقسیم کیے یعنی باا لفاظ دیگر انہیں خریدا گیا اور یہی وہ المیہ ہے جس نے ہمارے ملک کو ہمیشہ اپنے حصار میں لیے رکھا۔ ہمیں مارشل لا کا گلہ بھی ہے اور شکایت بھی اور یہ سچ بھی ہے کہ بار بار کے مارشل لا نے قومی اور بین الاقوامی طور پر ہمیں بے اعتبار بھی کر دیا ہے لیکن اگر ایک ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو ہمارے سیاستدانوں نے کبھی اپنے منصب کے شایانِ شان کر دار ادا نہیں کیا ان کی وفاداریاں چڑھتے سورج کے ساتھ ساتھ رہیں اور وہ اس کے لیے بڑے دھڑلے سے یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہو تی۔ پیسوں کی تقسیم اور قبولیت دونوں افسوسناک عوامل ہیں لیکن دکھ اور افسوس اسی بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں بات ضمیر کی نہیں مانی جاتی یا اسے بڑی آسانی سے گروی رکھ لیاجا تا ہے۔ سینٹ کے حالیہ انتخابات میں ایک خوف تھا کہ پھر فوج اور آئی ایس آئی کی مداخلت ممکن ہو سکتی ہے لیکن اس بار سیاستدانوں اور حکومت نے خود وہ کارنامہ سر انجام دے دیا جس کے لیے ہمیشہ وہ فوج سے شاکی نظر آتے ہیں اور سینٹ کی نشستوں کے لیے پیسے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ووٹ ضمیر کی آواز کے مطابق نہیں بلکہ رقم کے مطابق دیئے گئے ۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون جیتا اور کون ہارا ،کس کو کتنی نشستیں ملیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ قوم اپنے اس ایوانِ بالا سے کیا توقع رکھے جہاں پہنچنے والوں نے خود خریدوفروخت کر کے اپنی سیٹ خریدی اور جب وہ اس ملک کی قسمت کے فیصلے کریں گے تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ واقعی ملکی ضروریات اور مفادات کے مطابق فیصلے کریں گے نہ کہ اپنی ذات کے لیے اور اپنے فوائد کے لیے۔سیاست میں اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن اسے دور کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے پارٹی کی تبدیلی کوئی قابل فخر بات نہیں اور اگر ایسا کیا جائے تو پھر ببانگ دہل کیا جائے نہ کہ بظاہر تعلق ایک کے ساتھ اور بباطن ووٹ کسی اور کے لیے ۔ایک عام آدمی کی مجبوری کو تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنا ووٹ اپنی مرضی کے خلاف کسی ایسے امیدوار کو دے دیا جو اُس کے لیے قابل بھروسہ نہیں یا اُس نے یہ حق اپنے دل کی آواز کے مطابق استعمال نہیں کیاتو یقینا اس کی کوئی مجبوری ہوگی لیکن کروڑوں کے یہ مالک ممبران صرف ہل من مزید کی خواہش میں ایسا کرتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر ہمارے سیاستدان دو لاکھ اور پانچ لاکھ کے لیے بھی ہاتھ آگے بڑھا دیتے ہیں۔ اس میں لینے اور دینے والا دونوں مجرم ہیں لیکن لینے والا نہ لے تو دینے والا کس کو دے۔

ہم میں سے ہر ایک چونسٹھ سال کا رونا تو روتا ہے لیکن حالات کو بدلنے کی مخلصانہ کوشش کہیں سے ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ قومی جرائم میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ جی ہاں یہ ایک قومی جرم ہے کہ آپ اپنا نظر یہ بیچ دیں ،کسی پارٹی سے وابستگی کسی نظریے سے وابستگی ہوتی ہے اور اُس کو یوں برائے فروخت نہیں ہونا چاہیے اور اگر یہ سب ایوانوں کے اندر ہو تو پھر تو مزید دکھ دینے کی بات ہے کیو ں یہ عوام کی امانت کو فروخت کردیتے ہیں اور جس مینڈیٹ کے ساتھ اُنہوں نے اپنے نمائندوں کو یہاں بھیجا ہوتا ہے وہ آپ فنا ہو جاتا ہے ۔ دیگر اداروں مثلاََ آئی ایس آئی اور فوج سے سیاستدانوں کی شکایت کو بھی عوام تب ہی اہمیت دیں گے جب ان کا دامن صاف ہو لیکن جب خود وہ اس طرح کے جرائم میں ملوث ہو نگے تو دوسروں سے شکایت کی کوئی تو جیہہ عوام کو مطمئن نہیں کر سکے گی ۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 511931 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.