شاہیں کا جہاں اور

حال سے ماضی اچھاہو تو پچھتاوا ، برا ہو تو ایک خواب سے بڑھ کر نہیں ہوتا ۔رہنا تو بحرحال حال میں ہوتا ہے ۔اگر جان پر بن آئے تو جینا محال ہوتا ہے ۔کامیابی قدم چومے تو سر فخر سے بلند رہتا ہے ۔ ناکامی میں پاؤں کے جوتے کی دھول سر کو آتی ہے ۔زندگی محنت کا تقاضا کرتی ہے ۔ خواب کے بغیر تو لگن بھی بنا بال وپر کی ہوتی ہے ۔

اقبال نے اپنے شاہین کو بلندیوں کا تاج پہنایا ۔ جس نے پہاڑوں کی چٹانوں کو اپنا مسکن بنایا ۔ قصر سلطانی کے گنبد تو مٹی پر پڑے پتھروں سے دھول میں اَٹے ہیں ۔شاہین اپنی فطرت ، عادت اور خصلت میں دوسروں سے ممتاز رہتا ہے ۔بھوک سے نڈھال بھی مردار سے زندگی کی بھیک نہیں مانگتا ۔جینا ان کا وقار ، زندگی ان کی شکار ، جھکنے کے نہیں روادار ۔ مگر دوستی میں ہاتھوں سے اُڑ کر شکار پر لپکتے ہیں ۔خوبصورتی میں ان سے بڑھ کر بہت ہیں مگر قیمت میں ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔کیونکہ ان کا وقار پرواز سے ہے ۔ جینے کے انداز سے ہے ۔ حالانکہ ان کے شکار میں پرندے اور خرگوش ہی رہتے ہیں ۔

انسان کی پہچان کے اسباب میں سر فہرست گمراہی اور راست روی ہے ۔ اللہ جنہیں مومن کہہ کر مخاطب کرتا ہے ۔ وہ قصر سلطانی کے گنبد پر بسیرا نہیں کرتے ۔ جو ایسی خواہش رکھیں وہ شہباز نہیں ۔ اونچی پرواز میں کرگس بھی کم نہیں ہوتا ۔مگر بقول اقبال
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہان میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

جو پرواز کی طاقت رکھتے ہیں پاؤں ان کے زمین کی طاقت بھی رکھتے ہیں ۔انسان ہاتھ اور پاؤں سے زیادہ علم کی طاقت سے سرفراز ہوا ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں فرشتے اللہ کے حکم سے سر بسجود ہوئے ۔ اسی علم کی بدولت انسان پہلے خشکی پھر پانی اور آخر کار ہوا میں سواری کرنے کے قابل ہوا ۔اسی طرح نیزوں ، تلواروں سے لڑتا بھڑتا توپوں ٹینکوں سے ایٹمی ہتھیار لے جانے والے میزائلوں تک ایجادات سے سرخرو ہوا ۔علم کی بدولت تسخیر کی خوبیوں سے مالا مال ہوتا گیا اور روح انسانی کو پابند سلاسل کرتا چلا گیا ۔
قید میں ضمیر قفس کے ہے ہجوم تنہائی
پابۂ زنجیر ہے نفسِ طائر رہائی

اونچی اُڑان تو ہے مگر شاہین جیسی نہیں ۔جہان کرگس کا ہو تو اُڑان بھی اسی کی ہو گی ۔

بقول اقبال !
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اس میں مٹی کی فطرت ہے تو تحریص بھی مٹی سے ہے ۔ جس کا منبع مادیت ہے ۔

خاکی کے اوڑھنے بچھونے کو زندگی ہے پرائی

خود ہی کھیتی اُگاتا ہے اور ضرورت سے زیادہ اناج پر قبضہ بھی جماتا ہے ۔ مگر مٹی نے اناج کو اُُگانے کا ڈھنگ نہ بدلا ۔ انسان کے کھانے کا ڈھنگ ضرور بدل گیا ۔ بدل تو ہر انداز گیا ۔ میلوں دوری کا فاصلہ محبت بھرے خطوط سے ناپا جاتا تھا ۔ انٹر نیٹ نے قربت کی انتہا کر دی زیادہ تر دور کے رشتوں میں ۔ اپنے خلوص بھرے خطوط سے بھی محروم ہو کر رہ گئے ۔

بھاٹی گیٹ جرمن و لندن کے قریب ہو گیا مگر لوہاری گیٹ سے دور ہو گیا ۔
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96735 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.