یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔غیرمسلم
مردوخواتین کی ایک بڑی تعداداسلام کے دائرہ رحمت میں داخل ہورہی ہے۔یہ صورت
حال صرف پاکستان کی نہیں،بلکہ دنیابھرکی ہے۔یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔9/11 کے
بعد خاص طور پر قبول اسلام کی رجحان میں ریکارڈ اضافہ نوٹ کیا گیا
ہے،الجزیرہ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ نو برس میں تیس ہزار برطانوی
شہریوں نے اسلام قبول کرکیا اور صرف گذشتہ برس 5 ہزار افراد حلقہ بگوش
اسلام ہوئے اس کے علاوہ جرمنی فرانس میں سالانہ چار ہزار افراد اسلام قبول
کرتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ اسلام کی تعلیمات ہیں،جوہرمنصف مزاج شخص کے دل
ودماغ کواپنی جانب مائل کرتی ہیں۔اس موضوع پربازارمیں درجنوں کتابیں
موجودہیں۔آپ جس نومسلم کی داستان پڑھیے،خواہ وہ مردہویاعورت،آپ کے سامنے
ایک ہی بات آئے گی کہ انہوں نے اسلام کامطالعہ کیا،اس کی آفاقی وانفسی
تعلیمات پرغورکیا،اس میں اپنے مسائل کاحل تلاش کیا،جب سب کچھ اس دین فطرت
میں پایاتواسے اختیارکرلیا۔
غیرمسلم خواتین،خواہ کسی بھی دین،دھرم،مذہب اورسوسائٹی کی ہوں،مردوں کے
مقابلے میں زیادہ مسائل کاشکارہیں۔جب وہ دیکھتی ہیں کہ ان کاآبائی دین ان
کی عزت وناموس تک کی حفاظت نہیں کرسکتا،بلکہ اسے حقوق کا''لالی پاپ''دے
کرمردوں کے شہوانی وشیطانی جذبات کی تسکین کاذریعہ بنانے کے درپے ہے،توسلیم
الفطرت خواتین اس دین کی غلامی کاطوق اپنے گلے میں بصدخوشی ورضاڈالنے
کافیصلہ کرتی ہیں،جوان کے حقوق کاسب سے بڑاضامن ،سب سے زیادہ علم بردار
اورداعی ہے۔یہ آج سے نہیں،شروع سے ہورہاہے۔اس پرانہیں جس قسم کے حالات
کاسامناکرناپڑتاہے،وہ خندہ پیشانی سے قبول کرلیتے ہیں۔مسلمان معاشرہ انہیں
اپنے اندریوں سمولیتاہے کہ شریعت انہیں کفرکاطعنہ تک دینے کی اجازت نہیں
دیتی۔دوسری طرف ان کااپنامعاشرہ بھی انہیں بھلادیتاہے۔
یہ میڈیاوارکادورہے۔پروپیگنڈے کی قوت سے سچ کوجھوٹ اورجھوٹ کوسچ ثابت
کرنامعیوب نہیں بلکہ فیشن سمجھاجاتاہے۔کہیں تعلقات کام آجاتے ہیں توکہیں
سیاسی وابستگیاں ،کہیں پیسے کی چمک کام دکھاجاتی ہے توکہیں نادیدہ قوتوں
کادباؤ۔ازل سے یہی چیزیں اہل باطل کاہتھیاررہی ہیں۔
ہندوخواتین کاقبول اسلام کوئی اچھنبے کی بات ہے،نہ ان کاقبول اسلام کے
بعدمسلمانوں سے شادی کرنا،تاہم ''کھسیانی بلی کھمبانوچے''کے مصداق کچھ
بااثرہندواس حوالے سے سرگرم ہوگئے ہیں۔یہ لابی ایک تونومسلم ہندوخواتین
کومختلف حربوں سے پریشان کررہی ہے اوردوسرے اس سلسلے کوروکنے کے بھی درپے
ہے۔ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔ایک طرف انہیں بھارتی ہائی کمشنرکی آشیربادحاصل
ہے تودوسری طرف حکمرانوں اور قوم پرست سندھی رہنماؤں کی سپورٹ بھی ،یہی وجہ
ہے کہ پاکستان کااباحت پسندمیڈیاہی نہیں،بھارت کے نشریاتی ادارے اوربی بی
سی بھی منفی اورخالص مبنی برکذب پروپیگنڈے کے ذریعے اس لابی کے مذموم عزائم
کی راہیں ہموارکررہے ہیں۔
حال ہی میں میرپورماتھیلوسے تعلق رکھنے والی ایک نومسلمہ فریال کی پسندکی
شادی کواغوااورجبری شادی کانام دے کرجوطوفان بدتمیزی برپاکیاگیا…الامان
والحفیظ۔پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کی جانب سے عدالت میں نکاح نامہ پیش
کیے جانے کے باوجوداسے اسلام اورہندودھرم کی لڑائی کارنگ دینا،سندھی نوجوان
نویدشاہ کوپنجابی قراردے کراسے سندھ پنجاب کی لڑائی کارنگ دینا،لڑکی کے
بیان حلفی کے باوجودیہ کہناکہ اسے اغواکرکے جبری مسلمان بنایاگیاہے،غرض
ایسے ایسے پروپیگنڈے کہ شرافت،صداقت ودیانت بھی سرپیٹ کررہ جائے!!
کاش جذباتی قوم پرست نوجوانوں کومعلوم ہوتادھرتی ماتاکے تحفظ کے نام پر''جے
ماتا''کے نعرے لگاناان کے نامہ اعمال کی سیاہی میں ہی مزیداضافہ نہیں
کررہا،بلکہ ہندوانہیں مسلمان ہونے کے باوصف اپنے مذموم مقاصد کے لیے
استعمال کر رہے ہیں۔ورنہ مسلمان کوکسی طرح بھی یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ
کفرواسلام کے مسئلے میں عصبیت کامظاہرہ لرتے ہوئے کفارکاساتھ دے۔یہی عصبیت
تھی،جس نے ابوالحکم کوابوجہل بنادیاتھا،ماضی قریب میں افغانستان میں
مسلمانوں کواسلامی حکومت کے مقابل لانے والی چیزبھی یہی عصبیت تھی۔کاش!میرے
سندھی بھائی اوران کے لیڈراس رازکوسمجھ لیں۔ہم یہاں ان سندھی رہنماؤں کے
سامنے رکن قومی اسمبلی میاں عبدالحق بھرچونڈوی المعروف سائیں میاں مٹھوکی
روشن مثال رکھناضروری سمجھتے ہیں،جن کاکہناہے:دین سیاست اورہرچیزسے مقدم
ہے۔پی پی پی کارکن اسمبلی ضرورہوں،مگرایمانی تقاضوں پرسمجھوتہ نہیں
کرسکتا۔اللہ کرے حکمراں جماعت کے دوسرے سندھی سیاستدانوں،قوم پرستوں
اورکارپردازان عدل وانصاف کوبھی اس غیرت ایمانی کاایک شمہ نصیب ہوجائے!!اے
بساآرزوکہ خاک شدہ!!
زمینی حقائق یہ ہیں کہ فریال ایک عاقل بالغ لڑکی ہے،جس کی میٹرک سرٹیفکیٹ
میں تاریخ پیدائش 16جنوری 1992ء درج ہے۔وہ عدلیہ اورمیڈیاکے سامنے درجنوں
بارکہہ چکی ہے کہ اس نے مکمل رضاورغبت سے میاں عبدالحق بھرچونڈوی المعروف
سائیں میاں مٹھوکے نائب میاں عبدالحئی عرف شمن سائیں کے ہاتھ پراسلام قبول
کیااوراپنی پسندسے نویدشاہ نامی لڑکے سے شادی کی ہے۔
اس عمل سے اسے کوئی قانون نہیں روک سکتا،کیوں کہ وہ عاقل بالغ ہے اوراسے
اپنے فیصلے کرنے کامکمل اختیارحاصل ہے۔ہائی کورٹ بارکے صدرجناب محمودالحسن
نے بھی یہی باتیں کی ہیں،مگرجانے کیوں…دباؤہراصول پرغالب آجاتاہے!
آئین وقانون کے ''تقاضوں ''کوایک مرتبہ پھرپوراکرتے ہوئے ہائی کورٹ نے
نومسلم فریال کوپولیس کی تحویل میں دارالامان روانہ کرکے 26مارچ کوسپریم
کورٹ میں پیش ہونے کاحکم دے دیاہے۔وہ چیختی چلاتی رہی،دہائی دیتی رہی کہ
مجھے دارالامان نہیں جانا ،بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ جانا ہے، وہ اپنا جرم
پوچھتی رہی کہ کیاجس ملک کواسلام کے نام پرحاصل کیاگیااس میں اسلام قبول
کرنا اورایک عاقل بالغ مسلمان عورت کاپاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنے کے
لیے پسندکی شادی کرناجرم ہے؟کس قدربے حسی کاسماں تھا،جب ایک آزادعاقل بالغ
مسلمان عورت کوقانون کے محافظوں کے حکم پر قانون نافذکرنے والے اداوں کے
اہل کاردارالامان لے جارہے تھے۔ ،جس ماموں کے کہنے پراسے دارالامان
بھیجاگیاہے،اس کے حوالے سے اس نے شروع دن سے اپنے تحفظات کااظہارکیاہے
اوریہاں تک کہاہے کہ اگرمجھے اورمیرے شوہرکوکچھ ہواتواس کی ذمہ داری میرے
اس ماموں پرعایدہوگی۔ہائی کورٹ نے فریال کوجہاں بھیجاہے،ہرباخبرشخص جانتاہے
کہ وہاں نہ جان کوامان حاصل ہونے کی گارنٹی دی جاسکتی ہے اورنہ ہی عصمت
وایمان کی۔جس وقت یہ سطریں سپردقرطاس کی جارہی ہیں ،یہ افواہیں بھی گردش
کررہی ہیں کہ فریال نے دارالامان بھیجے جانے کے فیصلے سے دل برداشتہ
ہوکرخودکشی کی کوشش کی ہے۔اللہ میری اس نومسلم بہن کی جان ،ایمان اورآبروکی
غیبی ہاتھوں سے حفاظت فرمائے۔
یہ کیسے فیصلے ہیں جوقانون وآئین کی پاسداری کے نام پرمسلط کیے جارہے
ہیں؟احاطہ عدالت میں''جیے رام''کے نعرے لگاکردوقومی نظریے کی دھجیاں
بکھیرنے والوں کے خلاف یہ قانون جانے کب حرکت میں آئے گا؟کیاقانون میں کوئی
ایسی شق بھی ہے جودباؤ اورسیاسی وابستگی کی بنیادپرفیصلے دینے والے ججوں
پرکوئی قدغن لگاتی ہو؟اگرہاں!تووہ کب حرکت میں آئے گی؟کیااقلیتوں کواکثریت
پرحاوی کرنے کی کوششیں صرف اس لیے درست ہیں کہ ان کواہل ااختیار واقتدار کی
حمایت حاصل ہے؟کیاارباب عدل ان امورپرغورکرناپسندفرمائیں گے؟
جانے کب تک ''اوپروالوں کے دباؤ''کے تیشے آئین وقانون کایوں خون کرتے رہیں
گے۔
گزشتہ دنوں مقامی ہوٹل میں علمائے کرام نے اس حوالے سے پریس کانفرنس میں
اپنے تحفظات کااظہارکرتے ہوئے اہل اقتدارکواس جانب متوجہ کیاہے کہ محترمہ
فریال شاہ کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر مذہبی طبقے میں انتہائی تشویش
پائی جاتی ہے۔تما م علما کا مطالبہ ہے کہ تمام نومسلوں کو تحفظ دیا جائے
،جج صاحبان اور تمام لیڈاران اور مقتدر طبقے سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ
نومسلمہ فریال شاہ اور نومسلمہ ڈاکٹر حفصہ کو ان کا قانونی حق دیں ،انہیں
جلد از جلد انصاف فراہم کیا جائے ۔ورنہ ہم تمام مکاتب فکر کے علما سے ملکر
ملک گیر تحریک چلائیں گے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ
نومسلوں کوتحفظ نہیں دیتی اور ہماری ان نومسلم بہنوں ڈاکٹر حفصہ اور فریال
شاہ کو انصاف فراہم نہیں کیا جاتا اور ان پر ہونے والے ظلم کا سد باب نہیں
ہوتا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملات کومزیدبگڑنے سے بچانے کے لیے ہرطبقہ اس
حوالے سے شرعی وآئینی تقاضوں کی درست طریقے سے پاسداری کے لیے
اپناکرداراداکرے،تاکہ ہرقسم کے فسادکاسدباب ہوسکے۔لاوے کوپھٹنے سے پہلے
سردکرناہی عقل مندی کاتقاضاہے۔
مولانامحمدجہان یعقوب
جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی |