کلون نوری کا جنم

سائنس دانوں نے لیبارٹری میں کشمیر کے ہمالیائی علاقے میں پائی جانے والی نایاب نسل کی بھیڑ کی نقل تیار کرلی ہے جس سے قیمتی نسل کی ان بھیڑوں کی بڑے پیمانے پر افزائش کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

کشمیری نسل کی بھیڑوں سے دنیا کی اعلیٰ ترین اون حاصل کی جاتی ہے ۔ یہ اون دنیا بھر میں کشمیر کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ اون کی اس ورائٹی کو مقامی زبان میں پشمینہ بھی کہا جاتا ہے۔

کشمیر یا پشمینہ اون، وزن میں انتہائی ہلکی ہوتی ہے جب کہ یہ کسی دوسری اون کے مقابلے میں سردی سے محفوظ رکھنے کی زیادہ صلاحت رکھتی ہے۔ پشمینہ سے تیارکردہ شالیں، سوئیٹر اور ملبوسات دنیا بھر کی مارکیٹوں میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں جس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر وول کا ایک عام مردانہ سویٹر امریکی مارکیٹ میں ڈیڑھ سو سے دو سو ڈالر میں بیچا جاتا ہے۔

پشمینہ یا کشمیر وول ، مخصوص نسل کی بھیڑوں کے سینے کے بالوں سے حاصل ہوتی ہے۔ مگر اعلیٰ اور منفرد اون مہیا کرنے والی اس نسل کی بھیٹروں کی تعداد انتہائی کم ہے۔اور ان کی نسل میں بڑھوتری کی رفتار بھی بہت سست ہے۔ جس کی بنا پر پشمینہ کی رسد اس کی طلب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔اون کی اس ورائٹی کے مہنگا ہونے کا یہ ایک اہم سبب ہے۔
 

image


حال ہی بھارتی سائنس دانوں نے جینیاتی طریقے سے کشمیری نسل کی کم یاب بھیڑ کی نقل یا کلون بنانے میں کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی پہلی کلون بھیٹر کا نام نوری رکھا ہے۔

بھارتی زیر اہتمام کشمیر میں واقع شیر کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ حیوانات کے بائیو ٹیکنالوجی سینٹر کے سائنس دان ڈاکٹر ریاض احمد شاہ کا کہنا ہے کہ کلون بھیٹر 9 مارچ کو پیدا ہوئی ہے جس نے نایاب کشمیری بھیٹروں کی نسل میں تیز رفتار اضافے کا راستہ کھول دیا ہے۔

وادی کشمیر کے دستکار پشمینہ کو زیادہ تر شالیں بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو مقامی طور پربہت مہنگے داموں، یعنی تقریباً 200 ڈالر فی شال کی قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ جب کہ بیرونی ممالک میں اس کے دام کہیں زیادہ ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سالانہ 8 کروڑ ڈالر مالیت کی پشمینہ اون حاصل ہوتی ہے۔

وادی کشمیر میں اعلیٰ معیار کی اون فراہم کرنے والی بھیڑوں کی کئی نسلیں موجود ہیں، جن میں تبتی اور منگولیا نسل کی بھیٹریں خاص طورپر شہرت رکھتی ہیں۔ ان بھیٹروں کو چھوٹے چھوٹے ریوڑوں کی شکل برف پوش بالائی پہاڑی علاقوں میں پالا جاتا ہے۔اگرچہ ان کی اون بہت گرم ہوتی ہے لیکن اس میں پشمینہ جیسی نرمی اور ملائمت نہیں ہوتی ۔

پشمینہ پیدا کرنے والی بھیٹریں زیادہ تر لداخ کے دورافتادہ علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کی تعداد بہت کم ہے اور حالیہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مخصوص نسل مسلسل گھٹ رہی ہے۔ جب کہ سرحد کی دوسری جانب چین اپنے علاقے میں اون فراہم کرنے والی کشمیری نسل کی بھیڑوں کی افزائش پر خاصی توجہ دے رہا ہے۔
 

image


اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر کے تاجر بیرونی منڈیوں میں کشمیری شالوں کی مانگ پوری کرنے کے لیےپشمینہ اون کا ایک بڑا حصہ اب چین سے درآمد کررہے ہیں۔

کشمیری نسل کی پہلی کلون بھیٹر پیدا کرنے کے پراجیکٹ میں چھ اور سائنس دان بھی ڈاکٹر ریاض احمد شاہ کے ساتھ شامل تھے۔ انہوں نے ایک نئی ٹیکنیک کے ذریعے نوری نامی کلون بھیٹر پیدا کی ۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل میں انہیں دو سال کا عرصہ لگا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر شاہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کلون بھیٹریں پیدا کرنے کا ایک نیا اور معیاری طریقہ دریافت کیا ہے، جس سے اب انہیں دوسری کلون بھیٹر پیدا کرنے میں صرف چھ ماہ لگیں گے۔

ڈاکٹر شاہ کا کہناہے کہ ان کا طریقہ انتہائی کم قیمت اور سادہ ہے اور اس میں وقت بھی کم لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشمینہ اون دینے والی پہلی کلون بھیٹر نوری، کلوننگ کے مروجہ طریقوں کے تحت پیدا نہیں کی گئی، کیونکہ اس کے لیے انتہائی مہنگے ہائی ٹیک آلات اور کیمیکلز کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ اس کی بجائے مقامی وسائل اور سادہ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا۔

ڈاکٹر شاہ نے بتایا کہ وہ اس سے قبل کلون بھینس بھی پیدا کرچکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیری نسل کی بھیڑوں کی تیز تر افزائش کے لیے کلوننگ کی اپنی ٹیکنالوجی سے اس شعبے سے وابستہ افراد کی مدد کریں گے تاکہ ان کی آمدنیاں بڑھیں اور ان کی زندگی کا معیار بہتر ہو۔

ڈاکٹر شاہ کشمیری نسل کے سرخ ہرن کی بھی کلوننگ کرنا چاہتے ہیں، جس کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہے اور اس کی نسل دنیا سے مٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

   

YOU MAY ALSO LIKE:

Scientists in Indian-controlled Kashmir have cloned a rare Himalayan goat in hopes of boosting the number of animals famed for their coats of pashmina wool, used to make cashmere. Lead project scientist Riaz Ahmad Shah says the March 9 birth of a cloned female kid could lead to breeding programs for cashmere-producing goats in other Himalayan regions and mass production of the silky soft wool.