آخرت کی زندگی

بسم الله الرحمن الرحيم

تحریر :سید منور حسن امیر جماعت اسلامی پاکستان

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔ انسانی زندگی میں بھی اس عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی انسان اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ کوئی آدمی عقیدے میں پختہ ہو یا کمزور، یہ ضمنی بحثیں ہیں، لیکن اصلاً جس عقیدے کا حامل جو شخص ہوتا ہے اس کے اعمال، افعال، رویے اور کردار پر لازماً اس کا گہرا اثر اور چھاپ ہوتی ہے۔

عقیدۂ آخرت اس یقین کا نام ہے کہ یہ دنیا اور یہ زندگی فانی ہے۔ اس عالم کے بعد ایک دوسرا عالم وجود میں آنا ہے۔ جس طرح سے عالم دو ہیں، اس طرح سے زندگیاں بھی دو ہیں۔ گویا اس کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ اصلاً زندگی تو ایک ہی ہے، جس چیز کا نام ہم نے موت رکھا ہوا ہے، اس کی آمد سے وقتی اور عارضی طور پر محض زندگی کا مرحلہ بدل جاتا ہے مگر زندگی اور اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ اس زندگی کو ہم عارضی یا ناپائیدار زندگی کہتے ہیں، اور وہ زندگی جو موت کے دراوزے سے گزر کر شروع ہوتی ہے، پائیدار، باقی رہنے والی، دائمی اور ہمیشہ کی زندگی قرار پاتی ہے۔ قرآن پاک میں جابجا اس حوالے سے جواب دہی کا احساس اور آخرت کا حوالہ موجود ہے:
وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرہ ۲:۴) اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo(القیامۃ ۷۵:۳۶) کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟

تمام اعمال کی جواب دہی اسی عقیدۂ آخرت کی بنیاد پر ہے۔ محاسبۂ اعمال کی تفصیل قرآن پاک کے اوراق کے اندر بکھری ہوئی ہے۔ سورۂ واقعہ، سورۂ معارج، سورۂ حاقہ، سورۂ قیامہ، سورۂ تکویر اور سورۂ نبا، یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن میں قیامت اور آخرت کی ہولناکیوں اور مجرمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے، نیز روزِ محشر کی تفصیلات ہیں۔ سورج کا لپیٹ دیا جانا اور ستاروں کا بے نور ہو جانا، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، جو انسان جو کچھ لے کر آیا ہے، اس کو اپنا کیا دھرا سب معلوم ہوجائے گا، جب آسمان پھٹ جائے گا، ستارے جھڑ جائیں گے اور جب دریا ایک دوسرے سے مل کر بہہ نکلیں گے، جس دن صور پھونکا جائے گا اور یکایک قبروں سے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے، اور اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے اور پکاریں گے: ہائے ہماری کم بختی، کس نے ہماری خواب گاہوں سے ہمیں جگادیا اور یہ تو وہی قیامت کادن ہے، جس کا حق تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے اس کے بارے میں سچی خبریں ہم تک پہنچائی تھیں___ یہ وہ منظرکشی ہے جس سے تسلسل کے ساتھ آخرت اور اس کی جواب دہی اور اس حوالے سے انسانوں کے اعمال کو دیکھا اور پرکھا جانا سامنے آتا ہے۔

عقیدۂ آخرت اور تزکیہ
ایمان کے بعد انسانی زندگی کو سنوارنے، اس کو حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اوراس کو درست رُخ دینے کے لیے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے اگر کوئی عقیدہ ہے تو وہ آخرت کا عقیدہ ہے۔ آخرت کی فکر کے لیے یہ پوری منظرکشی قرآنِ مجید اور احادیث میں ملتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو مطلوب ہے،اس لیے کہ فکرِ آخرت انسانی جمود کو توڑنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ جب انسان بے عمل ہوجائے، غلط راہوں پر چل نکلے، گم کردۂ راہ ہوجائے، سب کچھ جانتے ہوئے عملی زندگی میں انجان سا بن جائے، تو یہ آخرت کی فکر انسان کے جمود کو توڑنے اور اس کے ایمان پر لگ جانے والے زنگ کو اُتارنے، دیگر افکار اور پریشانیوں سے کاٹ کر آخرت کے شعور کی طرف لانے کے لیے نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔

جناب صدیق اکبرؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرانے ساتھی تھے۔ عمر میں بھی دو ہی سال کا فرق تھا، گویا بچپن ہی سے ایک دوسرے کو دیکھتے آئے تھے۔ جناب صدیق اکبرؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! آپؐ پر تو بڑھاپا آگیا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ہاں، مجھے بوڑھا کر دیا سورۂ ہود، سورۂ واقعہ، سورۂ مرسلات، سورۂ نبا اور سورۂ تکویر نے۔ (ترمذی)

ان سورتوں کی اگر تلاوت کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ وہی سورتیں ہیں جن میں قیامت اور آخرت کا بیان ہے۔ ان میں اس پکڑ، بازپُرس اور تنبیہ کا بیان ہے جو آخرت برپا ہونے سے پیش تر کی جارہی ہے۔ نبی کریمؐ ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے تو آپؐ پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوجاتی تھی۔ آپؐ چونکہ داعیِ اعظم اور داعیِ اوّل تھے، اس لیے یہ خوف بھی آپؐ کو ستاتا تھا کہ اگر یہ لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے تو لازماً پکڑے جائیں گے،اور اس طریقے سے بارگاہِ رب العزت میں دھر لیے جائیں گے۔ یہ وہ کیفیت تھی کہ جس میں جواب دہی اور دوسروں کی نجات کے لیے فکرمند ایک داعی کی حیثیت سے آپؐ سرشار رہتے تھے۔ لوگوں تک پہنچنا، ان کے دلوں پر دستک دینا، ان کو سیدھے راستے پر لانا، جہنم کی آگ سے بچانا اور قبر کی پکڑ سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام جتن کرنا، ان کی فکرمندی کا عنوان تھا۔

اپنی گھریلو زندگی میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس فکرمندی میں گُھلے جاتے تھے۔ ان کیفیات کا تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی احادیث میں ملتا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے حضوؐر کو بارہا یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ اللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا ، ’’اے اللہ! مجھ سے آسان حساب لیجیے‘‘، تو میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! آسان حساب کی کیا صورت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایک شخص کے اعمال نامے کو دیکھے گا اور بس اس سے صرفِ نظر فرما لے گا، تو یہ آسان حساب ہوگا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! اس دن جس شخص سے واقعی پوچھ گچھ ہوگئی تو وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا، وہ شخص ہلاک ہوا۔ اسی لیے آپؐ نے یہ دعا بھی سکھائی۔

موت، ایک تلخ حقیقت
موت جس چیز کا نام ہے، اور جس سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہیں، یہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ موت کے بعد کے جو واقعات قرآن اور حدیث میں ملتے ہیں، وہ تو اور بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ ان کے تذکرے سے بھی آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اوراعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری دُور کرنے کا جذبہ انسان کے اندر پروان چڑھتا ہے۔ موت سے زیادہ یقینی چیز کوئی بھی نہیں۔ یہ بڑی ہی تلخ حقیقت ہے اور اس کڑوے گھونٹ کو پیے بغیر گزارہ بھی نہیں ہے۔ اس سے انسانوں کو مَفر نہیں ہے۔

حضرت عثمانؓ قبر کو دیکھتے تھے تو آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی تھی، اور پوچھنے پر فرمایا کرتے کہ قبر، آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، لہٰذا اس کو دیکھتا ہوں تو یہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ جس کے لیے یہ منزل آسان ہوئی، اس کے لیے ساری منزلیں آسان ہوئیں۔

حضرت سعد بن معاذؓ مشہور صحابی ہیں۔ ان کا انتقال ہوا تو نبی کریمؐ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپؐ ہی کے ہاتھوں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ جب قبر تیار ہوئی اور آپؐ اس کے سرھانے کھڑے تھے تو صحابہ کرامؓ نے سنا کہ آپؐ کی زبان سے نکلا: اللہ اکبر، اور قدرے توقف کے بعد آپؐ نے فرمایا: سبحان اللہ۔ صحابہ کرامؓ نے منظر کو دیکھا تو نبی کریمؐ سے دریافت کیا کہ یارسولؐ اللہ! ہم کچھ سمجھ نہ سکے۔ آپؐ کی زبان سے پہلے اللہ اکبر کا کلمہ بلند ہوا اور پھر کچھ وقفے کے بعد سبحان اللہ جاری ہوا، یہ کیا ماجرا ہے؟ کوئی واقعہ ہماری نظر میں نہیں آیا۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے اس برگزیدہ بندے پر جب قبر تنگ ہوگئی تو میری زبان سے نکلا: اللہ اکبر اور قبر کشادہ ہوگئی۔ پھر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور میری زبان سے نکلا: سبحان اللہ۔

حضرت سعد بن معاذؓ بڑے جلیل القدر صحابیؓ ہیں۔ نبی کریمؐ آپ کی نمازِ جنازہ پڑھا رہے ہیں۔ آپؐ ہی کے مبارک ہاتھوں ان کی تدفین عمل میں آرہی ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں سے قطع نظر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی کریمؐ کے ذریعے سے ہمیں یہ تعلیم دے رہا ہے کہ قبر کی پکڑ کسے کہتے ہیں، قبر کا سکڑ جانا اور اس کے نتیجے میں انسانوں کا بھینچا جانا کسے کہتے ہیں، اور قبر کی حقیقت کیا ہے!

حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے اَن گنت واقعات ہیں جو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے ملتے ہیں کہ وہ کس فکر کے اندر غلطاں و پیچاں رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبرؓ کہتے کہ کاش! میں تنکا ہوتا۔ اس کا کوئی حساب کتاب تو نہیں ہوتا، اور اس کی کوئی پوچھ گچھ تو نہیں ہوتی۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ کاش! کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ میں چھوٹ جاؤں۔

آخرت اور تصورِ دنیا
آخرت کا بہت گہرا تعلق فکرِ دنیا سے ہے۔ ان دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال ہی انسان کو راہِ راست پر رکھتا ہے۔ اگر انسان فکرِ دنیا کے اندر دُور تک چلا جائے توفکرِ آخرت اس سے گم ہوجاتی ہے۔ اس لیے فکرِ آخرت کی دولت پانے کے لیے خود دنیا کا تصور واضح اور دوٹوک ہونا چاہیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کے ساتھ چل رہے تھے کہ کوڑے کے ڈھیر پر بکری کا مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ آپؐ نے صحابہ کی طرف رُخ کر کے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بکری کے اس بچے کو ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرامؓ قدرے حیران ہوئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو بکری کا مرا ہوا بچہ ہے، ہم میں سے تو کوئی اس کو مفت میں لینا بھی گوارا نہیں کرے گا۔

ذرا دیکھیے کہ کس طرح آپؐ تعلیم دیتے ہیں، کیسے ذہنوں کو آمادہ کرتے اور لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حیثیت اس بکری کے مرے ہوئے بچے سے بھی کم تر ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس دنیا کی فکر میں ہم دن رات لگے رہتے ہیں، تگ و دو کرتے ہیں اور اسی کے غم میں نڈھال ہوتے، جوانی کے اندر بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں، اس دنیا کی یہ حیثیت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہے ہیں۔

آپؐ نے فرمایا: دریا کے اندر انگلی ڈالو اور باہر نکالو تو جو پانی اس انگلی کے اُوپر لگا رہ جائے گا، وہ دنیا کی زندگی ہے، اور جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی باقی رہے گا، وہ آخرت کی زندگی ہے۔

یہ دنیا تو لمحوں، مہینوں، اور برسوں کی اتنی طوالت کے باوجود بہت کم، بہت ہی بے مایہ اور بے حیثیت ہے، جب کہ آنے والی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی ہے، جس کی کامیابی اصل کامیابی اور ناکامی اصل ناکامی ہے۔ اس دنیا میں پائی جانے والی کامیابی عارضی ہے، پانی کا بُلبلہ ہے کہ ابھی ہے اور ابھی نہیں۔ یہاں کی ناکامی اور یہاں کا غم بھی بالکل عارضی ہے کہ وہ اچانک ختم ہوجاتا ہے۔ دنوں کی رفت گزشت کے نتیجے میں ذہنوں سے دُھل جاتا ہے۔ اس لیے تصورِ آخرت کے ساتھ ساتھ خود تصورِ دنیا بھی احادیث پاک میں بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔

حضرت ابوذر غفاریؓ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے۔ ملازم کو دیکھا تو اس کو آواز دی اور کہا کہ جاؤدیکھو میرے اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا اُونٹ ہے، وہ اللہ کی راہ میں دے دو اور قربان کر دو۔ کچھ دیر کے بعد ملازم آیا اور اطلاع دی کہ کام ہوگیا ہے۔ شام کو جب آپؓ اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ اُونٹوں میں سے جو سب سے اچھا سُرخ اُونٹ تھا، وہ اسی طرح زندہ سلامت کھڑا ہے۔ آپؓ نے ملازم کو بلایا اور کہا کہ نیک بخت میں نے تجھ سے کہا تھا کہ سب سے اچھا اُونٹ اللہ کے راستے میں دے دو، اور تو نے نہایت ہی مریل اُونٹ اللہ کے راستے میں قربان کردیا۔ اس نے کہا: یہ تو دراصل وہ اُونٹ ہے جو آپؓ سواری میں استعمال کرتے ہیں، بُرے وقت میں کام آتا ہے، سفر میں آپؓ کا ساتھ دیتا ہے، اس لیے میں نے اس اُونٹ کو رہنے دیا۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ ارے نیک بخت! تجھے پتا ہی نہیں کہ مجھے کس دن کی سواری کے لیے اُونٹ مطلوب تھا۔ جب کوئی سواری میسر نہ ہوگی تو اس لمحے کے لیے مجھے یہ اُونٹ مطلوب تھا۔ میں اس دن کے لیے یہ اُونٹ چاہتا تھا کہ جب کسی انسان کو سایہ بھی میسر نہ آئے گا اور کوئی بھی سہارا اس کو نہیں ملے گا___ یہ ہے تصورِ دنیا اور تصورِ آخرت۔ یہ تصور درست ہوگا تو فکر بھی درست ہوگی اور صحیح رُخ پر اس کی تشکیل ہوگی۔

آخرت اور تصورِ مال
اس زندگی میں تصورِ مال کا درست ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ مال کی حقیقت کیا ہے؟ وہ جو واقعہ آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے اور اُمہات المومنینؓ سے پوچھا کہ گھر میں کچھ کھانے کے لیے ہے؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج ایک بکری ذبح کی گئی تھی اسے محلے میں، رشتہ داروں میں اورعزیزو اقارب میں تقسیم کر دیا گیا ہے، بس دست کا ایک ٹکڑا باقی ہے۔ دیکھیے آپؐ نے کیا فرمایا؟ آپؐ نے فرمایا: جو دے دیا گیا، دراصل وہی باقی ہے اور جو رہ گیا وہ کس کے کام آنا ہے۔

اصل مسئلہ تو تصورات کا ہے۔ اگر تصورات درست ہوں گے تو فکر بھی درست اور ٹھیک ہوگی اور عمل کی وادی میں آدمی صحیح سمت کی طرف چلے گا۔ یہ تصورِ آخرت ہی تو ہے کہ جو دے دیا گیا وہی دراصل باقی ہے اور جو باقی رہ گیا، وہ بھلا کس کے کام آنا ہے۔

ہمارا روزمرہ کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جب دینے کا موقع آتا ہے تو بھلے سے بھلا آدمی بھی یہ سوچنے لگتا ہے کہ چلو گھر کی صفائی کا نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔ لوگ پھٹے پرانے کپڑے، گھسے پٹے جوتے اور ٹوٹے پھوٹے برتن اور دوسرا سامان وغیرہ نکال نکال کر راہِ خدا میں دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات نہیں ہوتی کہ میں یہ اپنے آپ کو دے رہا ہوں، اس لیے کہ جب ہم وہاں پر پہنچیں گے تو یہی پھٹے پرانے کپڑے اور ٹوٹے پھوٹے جوتے، اور گیا گزرا سامان ہمارا انتظار کر رہا ہوگا کہ تم نے اپنے آپ کو یہی دیا تھا نا۔ اب یہی کھاؤ، پیو اور عیش کرو!

ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہی نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ خیال تو یہی ہوتا ہے کہ راہِ خدا میں دیا جا رہا ہے۔ اگر انسانی ذہن اس بات کو سوچنے اور بالآخر اس کے مطابق اپنے یقین کو پختہ کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے کہ یہ دراصل میں اپنے آپ کو دے رہا ہوں، یہ فی الحقیقت خود میری ذات کے لیے سرمایہ کاری ہے، تو اس کا رویہ بدل جائے گا۔ پھر وہ بہتر سے بہتر دے گا، اچھے سے اچھا دے گا، جس چیز سے محبت کرتا ہے، اسی سے انفاق کرے گا۔ اس لیے تصورِ مال کا درست ہونا، تصورِ دنیا کا درست ہونا ضروری ہے اور اسی کے نتیجے میں تصورِ آخرت درست ہوتا ہے جو مطلوب ہے۔

روزِ محشر کا منظر
حضرت ابوسعید خدریؓ مشہور صحابی ہیں۔ نبی کریمؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے سورۂ مطففین کی آیت: یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (وہ دن جب تمام انسانوں کو بارگاہِ رب العزت میں لاکھڑا کیا جائے گا۔۸۳:۶) کی تلاوت کی اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! روزِ محشر جو ہزار سال سے بھی بڑا دن ہوگا، کس کے اندر یہ طاقت اور مجال ہوگی کہ اللہ کی بارگاہ میں کھڑا رہ سکے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ابوسعید! وہ دن نافرمانوں اور مجرموں اور باغیوں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔

مصیبت کا دن تو ویسے ہی بڑا سخت ہوتا ہے۔ مصیبت کی گھڑی ٹلنے کو نہیں آتی۔ کسی آزمائش سے انسان دوچار ہوجائے تو لگتا ہے کہ نہ معلوم کب سے اس آزمایش کے اندر گھرا ہوا ہے۔ کچھ یاد بھی نہیں آتا کہ کبھی خوشی و مسرت سے بھی ہم کنار ہوا تھا لیکن آپؐ نے فرمایا کہ مومنوں کے لیے اس دن کو آسان بنا دیا جائے گا اور وہ اپنے رب کے جلوے سے سرفراز ہوں گے، اور ان کے چہرے شاداں و فرحاں ہوں گے، سورۂ قیامہ کی آیت کَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَۃَ oوَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ oوُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ نَّاضِرَۃٌ (۷۵: ۲۰۔۲۲) کی گویا آپؐ نے تشریح فرمائی کہ اس روز کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے، شاداں و فرحاں ہوں گے، چمکتی دمکتی پیشانیوں کے ساتھ پُرامید نگاہوں کے ساتھ، اپنے رب کی طرف بڑھ رہے ہوں گے، اس نعمت کو لینے کے لیے اور انعامات کا مستحق ٹھیرنے کے لیے اور اپنے رب کے دربار سے سرخ رُو ہونے کے لیے۔

ایک طرف یہ منظر ہے کہ لوگ شاداں و فرحاں ہوں گے اور اُمید بھری نگاہوں سے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ وہاں ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ کچھ چہرے اُداس ہوں گے، آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی، اور ان کو یہ خیال ستا رہا ہوگا کہ عنقریب ایک کمرتوڑ سلوک ان کے ساتھ کیا جانے والا ہے۔ ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کی تصویر میں یہ فرق بڑا واضح ہوگا۔ ایک گروہ رحمتِ الٰہی کی اُمیدیں لیے ہشاش بشاش ہوگا، چمکتی پیشانیوں اور کھِلے چہروں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہوگا، وہیں دوسرا گروہ عذابِ الٰہی کے اندیشوں سے بدحواس، اور اپنے رب کی پکڑ اور اس کے دربار میں جو سلوک اس کے ساتھ کیا جانا ہے اس کی سختی سے بے حال ہوگا۔

روزِ محشر کا یہ بیان قرآن پاک کے اندر اور بہت سے مقامات پر موجود ہے اور احادیث میں نبی اکرمؐ نے تفصیل سے اسے بیان فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ میدانِ حشر کا یہ منظر موت کے دروازے سے گزر کر ہی نظر آئے گا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہم تو اس کے تذکرے سے بھی تھوڑے سے گریزاں اور کتراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نبی کریمؐ کی مجلسوں کا موضوع تو آخرت اور موت کی یاد ہوا کرتا تھا۔ لوگ اس حوالے سے اپنی پوری زندگی کو استوار کرتے اور اس کو بنیاد بناتے تھے۔ ادھر ہمارے ہاں اگر بھری بزم کے اندر کوئی موت کا تذکرہ لے بیٹھے تو لوگ اسے بدشگونی سمجھتے ہیں۔

جاں کنی کا مرحلہ
پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے جب پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی، وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ(القیامۃ ۷۵:۲۹)، یعنی جاں کنی کا مرحلہ۔ جب انسان نہ چل سکے گا، انھی پنڈلیوں کے بل پر ہی تو انسان چلتا پھرتا اور جولانیاں دکھاتا ہے۔ ادھر سے مال بھیجا، اُدھر سے چھڑا لیا، اُدھر اتنے لینے کے دینے اور اِدھر اتنے دینے کے لینے، یہاں اکاؤنٹ کھولا اور وہاں اکاؤنٹ کھولا، لمحوں کے اندر دولت مند بن گیا۔ اِدھر لوگوں کو ملازم رکھا اوراُدھر برطرف کر دیا، ایک قلم اور ایک دستخط سے نہ جانے کتنے لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرڈالا۔

پھر جب رب کی طرف لوٹنے کا سفر شروع ہوتا ہے تو ایک ایک کر کے منظر بدلتے چلے جاتے ہیں۔ کسی موذی بیماری یا طویل علالت کا زمانہ شروع ہوتا ہے تو وہی جہاں دیدہ، مشہور و معروف، محفل کی جان اور اپنے بچوں کے لیے آسمان کے تارے توڑ لانے کے لیے سرگرم فرد بستر سے لگا پڑا ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے بچوں کو بلاؤ، مگر بچے مال و دولت سمیٹنے میں اور مینجمنٹ کی ذمہ داریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ پیغام ملتے ہی کہتے ہیں کہ کس مصروف وقت میں ابّاحضور یا دادا جان نے ناگاہ طلب فرمایا ہے۔ ایک اُکتاہٹ، ایک بے زاری کی کلونس چہرے پر چھا جاتی ہے، اور جب آتے ہیں تو جلد واپس جانے کا بہانہ پہلے ہی سے گھڑ کے ساتھ لاتے ہیں۔ ابا حضور کی آنکھیں توو ہی ہوتی ہیں لیکن دھندلائی ہوئی اور دیکھنے سے انکاری۔ وہی کان ہوتے ہیں لیکن سننے سے عاری ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے پہچاننے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ زبان سے کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں پاتے۔ کہتے کچھ ہیں، مگر ادا کچھ ہوتا ہے۔ اس لمحے کوئی سعادت مند بچہ پکارتا ہے کہ بلاؤ ڈاکٹر یا حکیم کو، بلاؤ قاری صاحب کو کہ آیت کریمہ کا ختم کرائیں، سورۂ یٰس کی تلاوت شروع کر دو۔

یہ کوئی انوکھا منظر نہیں ہے، یہ عمل تو روز ہمارے گھروں میں ہوتا ہے۔ اس منظر سے تو ہم روز گزرتے ہیں اور پھر اُس کے بعد اُٹھ کر چلے آتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے کہ جو گن کر بتا سکے کہ اس نے کتنے لوگوں کو کندھا دے کر قبر تک پہنچایا ہے۔ ہم اَن گنت اور لاتعداد لوگوں کے جنازوں کو کندھا دیتے ہیں۔ وہ بھی اَن گنت اور لاتعداد ہیں کہ جن کی قبر کے کنارے کھڑے ہوکر، انسان کو قبر میں اُتارنے کا منظر ہم دیکھتے ہیں اور کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ذرا اس قبر کو اور گہرا کھودو اور میت کو مزید نیچے اُتارو۔ اسے نیچے اُتارنے میں پانچ چھے منٹ لگتے ہیں اور مٹی ڈالنے میں مزید چند منٹ۔ پھر اس کے اُوپر مٹی یا پتھر رکھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہوا کا تازہ جھونکا تک اسے نہ پہنچ پائے۔ مٹی ڈال کر اس دنیا سے اس کا رابطہ اور ناتا بالکل منقطع اور ختم کر دیا جاتا ہے___ مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ’اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا، اور اسی میں ہم تمھیں لوٹا رہے ہیں، اور اسی سے ہم تمھیں دوبارہ اٹھائیں گے‘‘۔

اس طرح سب لوگ جمع ہوکر میت کو منّوں مٹی تلے دبا دیتے ہیں۔ اس دوران میں کسی کو کوئی خوف نہیں آتا کہ یہ میرا دوست ہے، یہ میرا بھائی ہے، یہ میرا باپ ہے، یہ میرا بیٹا ہے، یہ میری ماں ہے، جسے ہم منوں مٹی تلے دبا رہے ہیں۔ یہ سارے دوست، احباب اور رشتہ دار ہی ہوتے ہیں۔ یہ پرائے نہیں، بلکہ اپنے ہوتے ہیں،یہ غیر نہیں، بلکہ دلوں میں بسے ہوتے ہیں کہ جن کی جدائی کے غم سے آنکھوں کے اندر نمی تیر رہی ہوتی ہے، جن کے لیے دلوں کے اندر گداز ہوتا ہے، خود خوف و خشیت کے اندر مبتلا ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انسان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جیسے باقی سب کوتو مرنا ہے، لیکن مجھے تو زندہ رہنا ہے ع
سامان سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں

موت کی یاد
موت کے جس دروازے سے گزر کر حشر کا میدان آتا ہے، اس موت کے بارے میں کوئی بات ایسی نہیں ہے کہ جو ہم سے پوشیدہ ہو، یاجس سے ہم لاعلم ہوں۔ ابتدا میں، مَیں نے چند احادیث کے ذریعے عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ موت کس طرح زندگی کا تعاقب کرتی ہے اور پھر موت خود زندگی بن جاتی ہے۔ کیسا ہی باصلاحیت اور بااختیار انسان ہو یا کتنا ہی تندرست و توانا انسان ہو، بالآخر موت کے ہاتھوں زچ ہو جاتا ہے۔ پھر چاروں طرف یہ خبر پھیل جاتی ہے۔ بہت سے لوگ سوگوار ہوجاتے ہیں لیکن اس خبر کو تو پھیلنا ہی ہوتا ہے۔ یہ ہم ہیں کہ اس کی آمد کا انکار کرتے ہیں۔ وہ جن کے ہاتھوں نہ معلوم کتنے سیکڑوں ہزاروں انسانوں کو شفا ہوئی ہوتی ہے، اور جن کے ہاتھوں لوگوں کے بقول ہمیشہ کامیاب آپریشن ہوتا ہے، خود اسی مرض کے اندر چلے جاتے ہیں۔ گویا جو دوسروں کے لیے مسیحا ہوتے ہیں، اپنی مدد آپ نہیں کرپاتے۔ کون کون سا منظر ہے، جسے ہم نے نہیں دیکھا ہے اور جس سے ہم ناواقف ہوں۔

اس لیے موت کی یاد کے حوالے سے، جوانتہائی یقینی حقیقت ہے، اور جس سے زیادہ کوئی یقینی بات نہیں ہے، اس سے غفلت کو دُور کرنا، غفلت کے پردوں کو ہٹانا، اور یہ بھولا بسرا سبق ذہنوں کے اندر تازہ کرنا، دانش مندی بھی ہے اور سعادت مندی بھی کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اس کو ہرگز دوام اور بقا نہیں ہے، جب کہ موت کے بعد کی زندگی کو بقا اوردوام ہے۔

شیخ جمال الدین کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ انھیں تاتاریوں نے گرفتار کرلیا اور موت بالکل آنکھوں کے سامنے تھی۔ تاتاری سردار نے تضحیک کے انداز میں ان سے پوچھا کہ شیخ تم زیادہ اچھے ہو کہ یہ کتا زیادہ اچھا ہے؟ شیخ نے ایک لمحے توقف کے بعد کہا کہ اگر میں اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں کہ میرا ایمان سلامت رہے تو میں اس کتے سے بہتر ہوں، لیکن اگر اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں کہ میرا ایمان سلامت نہ رہے تو یہ کتا مجھ سے بہتر ہے۔

وہ تاتاری سردار کی تضحیک کا نشانہ بھی نہ بنے اور پتے کی بات بھی کہہ گئے کہ اصل پہچان تو انسان کا ایمان ہے۔ یہ پہچان باقی ہے، تو پھر انسان ان راہوں پر چلتا ہے کہ جو مطلوب ہیں اور منزل کی طرف لے جانے والی ہیں۔

یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ارادے اور عزمِ مصمم کا تعلق مضبوط ایمان سے ہے۔ محض ایمان لانے کے اعلان کے نتیجے میں کسی ارادے پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل انسانی زندگی کو سنوارنے، حقیقی کردار کے سانچے میں ڈھالنے اور درست رُخ دینے اور منزل کا شعور بخشنے کے لیے آخرت ہی وہ عقیدہ ہے جو بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی سے فکرِدنیا اور فکرِآخرت میں اعتدال و توازن پیدا ہوتا ہے اور انسان کا تصورِ زندگی درست ہوتا ہے۔موت وہ اٹل حقیقت ہے جس کے تذکرے سے آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے اور اعمال کے اندر تضاد، تناقض اور منافقت و ریاکاری کو دُور کرنے کے لیے انسان کے اندر جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ قرآن و حدیث میں موت کی ہولناکی، اور روزِمحشر کے مناظر کو بار بار تازہ کرنے سے انسان خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے فکرمند ہوتا ہے ۔ وہ راہِ خدا میں بہترین مال دیتا ہے کہ اصل دینا یہی ہے۔ وہ علم و عمل میں مطابقت پیدا کرتا ہے۔ ہرلمحے اپنے جائزے اور احتساب کا اہتمام کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں جان و مال لٹا کر سبقت لے جانے والوں میں ہوجاتا ہے۔ یقیناًایسے ہی لوگ روزِ محشر شاداں و فرحاں اپنے رب کی رضا و خوش نودی اور اس کی جنت کے مستحق ٹھیریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں استقامت دے اور اپنی رضا و خوش نودی کا مستحق ٹھیرائے، آمین!
INAM UL HAQ AWAN
About the Author: INAM UL HAQ AWAN Read More Articles by INAM UL HAQ AWAN: 24 Articles with 27517 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.