عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مفتی رشید احمد گنگوہی

مولانا نور محمد تونسوی

عصر ہذا کے کج فہم معتزلہ جنہوں نے ہمارے اکابر علمائے دیوبند رحمہم اللہ میں سے جن جن حضرات کے عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ثابت کرنے کی مہم جاری کررکھی ہے ان میں قطب الارشاد امام ربانی حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نامی سرِفہرست ہے حالانکہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات قبر بہ تعلق روح مع الجسد العنصری کے قائل ہیں اس طرح وہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے سماع عند القبور کے عقیدہ کو اجماعی عقیدہ قرار دیتے ہیں وہ زائرین کو یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ قبر شریف پر سلام پڑھنے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب شفاعت کریں اور جس شخص نے اس کو کہا کہ آپ کی ذات اقدس پر میری طرف سے سلام پیش کرنا تو اس کی طرف سے سلام بھی عرض کریں اور اس کیلیے بھی آپ سے طلب شفاعت کریں اسی طرح حضرت گنگوہی رحمہ اللہ اس زمین والی قبر کو قبر کہتے ہیں ، عذابِ قبر کی صحیح صورت کے قائل ہیں اور عصر ہذا کے معتزلہ مندرجہ بالاعقائد میں سے کسی ایک عقیدہ میں بھی حضرت سے متفق نہیں ہیں اور شدت کے ساتھ ان عقائد کی تردید کرتے ہیں بلکہ شرک وکفر کے فتوے لگاتے ہیں بایں ہمہ مدعی بنے بیٹھے ہیں کہ ہم مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم مسلک ہیں اور وہ ہمارے ہم خیال ہیں حالانکہ ان کج فہموں کے خیالات اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد میں زمین وآسمان کا فرق ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے لہذا ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے سچے اور صحیح عقائد }جو کہ ان کی تصنیفات سے واضح ہیں {کو لکھ کر سادہ لوح طلبہ اور عوام کو دھوکہ بازوں کے دھوکہ سے بچا یا جائے اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے دامن کو جھوٹے الزامات سے پاک وصاف کیا جائے تاکہ حق؛حق کی صورت اور باطل؛باطل کی شکل میں کھل کرسامنے آ جائے۔ چنانچہ درج ذیل اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں جن سے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد کی وضاحت ہوتی ہے ۔

1مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی وراثت تقسیم کیوں نہ ہوئی ؟ بایں وجہ کہ آپ قبر شریف میں زندہ ہیں ونبی اللہ حی یرزق اس مضمون حیات کو بھی مولوی محمد قاسم صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسالے “آبِ حیات” میں بما لامزید علیہ ثابت کیاہے ۔”
ہدایۃ الشیعہ ص561ملحق تالیفات رشیدیہ

2حضرت مولانا گنگوہی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا :“اولیا ء اپنی قبروں میں زندہ ہیں یا مردہ ؟ اور اگر زندہ ہیں تو ہماری آواز سنتے ہیں یانہیں؟” حضرت نے جواب لکھا:“روح کو حیات ہوتی ہے قبر میں سب کی روح زندہ ہے ولی ہویا عامی اورسماع میں اختلاف ہے بعض مقر ہیں بعض منکر۔”
فتاوی رشیدیہ ملحق تالیفات رشیدیہ ص109

ضروری وضاحت:حضرت رحمہ اللہ کے مذکورہ بالاارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ہر میت کی روح کا اس کے جسم کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق ہوتاہے جس کی وجہ سے مردہ میں خاص قسم کی حیات پیدا ہوتی ہے اور وہ قبر کی کارروائی کو محسوس کرتاہے نیز یہ حیات ہرمردہ کو حاصل ہوتی ہے اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات سب سے ممتاز ہوتی ہے ۔

باقی حیاتِ قبر کو حیاتِ روحانی اور روح کی حیات اس لیے کہتے ہیں کہ عالم قبر و برزخ میں روح ظاہر ہوتی ہے اور جسم مستور ہوجاتاہے یعنی روح اصل ٹھہرتی ہے اور جسد اس کے تابع ہوتاہے برخلاف حیاتِ دنیاکے کیونکہ یہاں جسم اصل اور ظاہر جبکہ روح تابع اور مستور ہے اسی اصلیت کی وجہ سے حیات دنیا کو جسمانی حیات اور حیات قبر کوروحانی حیات کہتے ہیں حیات روحانی اور روح کا لفظ سن کر تعلق مع الجسد العنصری کی نفی سمجھنا ایسی ہی حماقت ہے جیسے کوئی شخص حیات دنیا کو حیات جسمانی کہنے کی وجہ سے روح کی شرکت کا انکارکر دے ۔ معلوم ہوا کہ حیات قبر کو روحانی کہنے سے جسم کی معیت اور اس کی شرکت کی نفی نہیں ہوتی چونکہ اس عالم میں روح اصل ہےاس لیے اس کا ذکر کیا گیا اورجسم بالتبع مذکور اور شامل ہے اس لیے اس کے ذکر کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔

3مولاناگنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے استعانت از اہل قبور کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رحمہ اللہ نے جواب تحریر فرمایا:“اس مسئلہ کی پہلے تحریرات ہوچکی ہیں کہ مائۃ مسائل اور اربعین مسائل مولانا محمد اسحاق مرحوم دہلوی کو دیکھئے چونکہ اب بندہ سے سوال کیا گیا ہے تو جواب مختصر لکھنا ضروری ہوا ۔ استعانت کے تین معانی ہیں ایک یہ کہ حق تعالیٰ سے دعا کرے کہ بحرمت فلاں میرا کام کر دے یہ باتفاق جائز ہے خواہ عند القبرہوخواہ دوسری جگہ اس میں کسی کو کلام نہیں ۔ دوسرے یہ کہ صاحب قبر کو کہے کہ تم میرا کام کردو یہ شرک ہے خواہ قبر کے پاس کہے خواہ قبر سے دورکہے اور بعض روایات میں جو آیاہے ۔اعیو نی عباد اللہ تو وہ فی الوقع کسی میت سے استعانت نہیں بلکہ عباد اللہ جوصحرا میں موجود ہوتے ہیں ان سے طلب اعانت ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کو اسی کام کے واسطے وہاں مقررکیا ہے تو وہ اس باب سے نہیں ہے اس سے حجت جواز پر لانا جہل ہے معنی حدیث سے۔ تیسرے یہ کہ قبر کے پاس جاکے یہ کہے کہ اے فلاں! تم میرے واسطے دعا کرو کہ حق تعالیٰ میراکام کر دیوے اس میں اختلاف علماء کا ہے ۔مجوز سماع موتیٰ اس کے جواز کے مقر ہیں اور مانعین سماع منع کرتے ہیں سوا س کا فیصلہ اب کرنا محال ہے مگر انبیاء علیہم السلام کے سماع میں کسی کو اختلاف نہیں اسی وجہ سے ان کو مستثنیٰ کیاہے اور دلیل جواز یہ ہے کہ فقہاء نے بعد سلام کے وقت زیارت قبرمبارک کے شفاعت مغفرت کا عرض کرنا لکھاہے۔پس یہ جواز کے واسطے کافی ہے اور جس کوقاضی صاحب نے منع لکھا ہے وہ دوسری نوع کی استعانت ہے حق یہ ہے کہ یہ مسئلہ مخلوط ہورہا ہے اور سماع موتیٰ کا مسئلہ بھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وقت سے مختلف فیہ ہے۔ مع ہذا سلام کرنے کو کوئی منع نہیں کرتا بہرحال یہ مسئلہ مختلفہ ہے اس میں بحث مناسب نہیں ۔
فتاوی رشیدیہ ملحق تالیفات اشرفیہ ص134

4حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:“اگر کسی کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی علیہ السلام دور سے خود خطاب سلام کا سنتے ہیں وہ کفر ہے خواہ السلام علیک کہے یا السلام علی النبی کہے اور جس کا عقیدہ یہ ہے کہ سلام وصلوۃ آپ کو پہنچایا جاتاہے ایک جماعت ملائکہ کی اس کام کے واسطے مقرر ہے جیسا احادیث میں آیاہے تو دونوں طرح پڑھنا مباح ہے ۔
فتاوی رشیدیہ ملحق تالیفات رشیدیہ ص55 ،103،139

5مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت باسعادت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:“اب جان لے کہ زیارت روضہ مطہرہ سرورِ کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کی افضل المستحبات ہے بلکہ بعض نے قریب واجب کے لکھا ہے اور فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جوکوئی میری قبر کی زیارت کرے اس کے واسطے میری شفاعت واجب ہوگی اور فرمایا ہے کہ جوکوئی میری زیارت کو آئے اور اس آنے میں اس کو محض زیارت ہی مقصود ہو اور کوئی حاجت نہ ہو تو مجھ پر حق ہوگیا کہ میں اس کا قیامت کو شفیع ہوں اور فرمایاہے کہ جو کوئی انتقال کے بعد میری قبرکی زیارت کرے تو مثل اس کے ہے کہ جس نے حالِ حیات میں میری زیارت کی ہو۔پس جس شخص پر حج فرض ہو تو اول اس کو حج کر لینا بہتر ہے ورنہ اختیار ہے چاہے حج پہلے کرے یا مدینہ منورہ پہلے ہوآوے غرض جب مدینہ کا عزم ہو تو بہتر ہے کہ نیت زیارت قبر مبارک مطہر کی کر کے جاوے تا کہ مصداق اس حدیث کا ہو جاوے کہ جو کوئی محض میری زیارت کو آوے شفاعت اس کی مجھ پر حق ہوگی۔
زبدۃ المناسک ملحق تالیفات رشیدیہ ص648

6 مزید لکھتے ہیں:“پھر روضہ کے پاس حاضرہواور سرہانے کی دیوار کے کونہ میں جو ستون ہے اس کے تین چار ہاتھ کے فاصلہ سے کھڑا ہو اور پشت قبلہ کی طرف کرے کچھ بائیں طرف مائل ہوکرتاکہ چہرہ شریف کے خوب مواجہ ہووے اور باادب تمام اور باخشوع کھڑا ہو اور زیادہ قریب نہ ہو اور دیوار کو ہاتھ نہ لگائے کہ محل ادب اور ہیبت ہے اورحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لحد شریف میں قبلہ کی طرف چہرہ مبارک کیے لیٹے ہوئے تصورکرے اور کہے ۔
السلام علیک یارسول اللہ
السلام علیک یا خیر خلق اللہ
السلام علیک یاخیرۃ اللہ من خلق اللہ
السلام علیک یا حبیب اللہ

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرے ا ور شفاعت چاہے ، کہے :یارسول اللہ اسالک الشفاعۃ واتوسل بک الی اللہ فی ان اموت مسلما علی ملتک وسنتکاور ان الفاظ میں جس قدر چاہے زیادہ کرے مگر ادب اور عجز کے کلمات ہوں لیکن سلف یہاں الفاظ مختصر کہنے کو جہاں تک اختصار ہومستحسن رکھتے ہیں اور بہت پکار کر نہ بولے بلکہ آہستہ خشوع اور ادب سے بہ نرمی عرض کرے اور جس کا سلام کہنا ہو عرض کرے السلام علیک یا رسول اللہ من فلاں بن فلاں یتشفع بک الی ربک پھر بقدر ایک ہاتھ کے پیچھے کو ہٹ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر سلام کہے …الخ
زبدۃ المناسک ملحق تالیفات رشیدیہ ج5ص650

7حضرت مولانا گنگوہی رحمہ اللہ سے کسی غیرمقلد کے بارہ میں سوال کیا گیا یا خود غیر مقلد نے سوال کیا :“اگر کوئی حاجی صاحب مدینہ منورہ نہ جائے کیونکہ راستہ پر خطر ہے قافلے لٹ رہے ہیں اور روپیہ بھی کرایہ وغیرہ پر خرچ ہوگا تو کیاگناہ ہوگا ؟ کیونکہ مدینہ جانا فرض واجب نہیں ہے۔ تو حضرت نے جواب لکھا:“مدینہ نہ جانا اس وہم سے کمی محبت فخر عالم علیہ السلام کا نشان ہے ایسے وہم سے کوئی دنیا کا کام نہیں ترک ہوتا زیارت ترک کرنا کیوں ہوااور راہ ہرروز نہیں لٹتی اتفاقی بات ہے یہ کوئی حجت نہیں مگر ہاں واجب بھی نہیں بعض کے نزدیک بہر حال رفع یدین وآمین بالجہر سے زیادہ موجب ثواب و برکت کا ہے اس کو تو باوجود فساد اور خوف آبروکے بھی ترک نہ کریں اور زیارت کو احتمال و وہم سے بھی ترک کردیں اس کو بھی تامل کر کے دیکھ لیں کہ کون سا حصہ کمال ایمان کا ہے اور روپیہ خیرات میں صرف ہونا سعادت ہے… الخ
فتاوی رشیدیہ ص379

قارئینِ کرام! مذکورہ بالا اقتباسات میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے جو مسائل اور عقائد بیان فرمائے ہیں عصر ہذا کے معتزلہ ان میں سے کسی ایک عقیدہ اور کسی ایک مسئلہ کو نہیں مانتے بلکہ ان پر نکیر شدید کرتے ہیں اور شرک وبدعت کے فتوے لگاتے ہیں اور پھر بھی دعوی ہے کہ ہم حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک اور عقیدہ پر ہیں۔فواسفا علی ضیعۃ العلم والادب نامعلوم یہ الٹی گنگا کب تک بہتی رہے گی اور نامعلوم طلبہ کرام کب تک دھوکہ کھاتے رہیں گے۔

عام موتیٰ کے سماع میں حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کا موقف:
یہ بات واضح ہوگئی کہ مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سماع عندالقبور کے صرف قائل نہیں بلکہ اس کو اجماعی عقیدہ قرار دیتے ہیں باقی رہے عام موتیٰ تو اس بارہ میں چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں جن سے ان کا موقف واضح ہوتا ہے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے عام موتیٰ کے سماع کے بارے میں سوال کیا گیا اورآپ نے جواب لکھا:
1یہ مسئلہ عہد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف فیہا ہے اس کا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا تلقین کرنا بعد دفن کے اس پر ہی مبنی ہے جس پر عمل کرے درست ہے۔
فتاوی رشیدیہ ملحق تالیفات رشیدیہ ص؟؟؟؟؟؟
2مولاناگنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ جب سماع موتیٰ کے حضرت امام صاحب قائل نہیں تو پھر فقہائے حنفیہ تلقین میت کو کیوں تحریر فرماتے ہیں؟ تو مولانا نے جواب لکھا کہ مسئلہ سماع میں حنفیہ باہم مختلف ہیں اور روایات سے ہر دو مذہب کی تائید ہوتی ہے پس تلقین اسی مذہب پر مبنی ہے کیونکہ اول زمانہ قریب دفن کے بہت سی روایت اثبات سماع کرتی ہیں اور حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے اس باب میں کچھ منصوص نہیں اور روایات جو کچھ امام صاحب سے آئی ہیں شاذ ہیں۔
فتاوی رشیدیہ ملحق تالیفات رشیدیہ ص233
3حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے سماع موتیٰ کے متعلق سوال کیا اور آپ نے جواب میں تحریر فرمایاکہ مسئلہ سماع موتیٰ کا قرن اول مختلف ہوا ہے اب اس کا فیصلہ تو ممکن نہیں مگر بتقلید اپنے مجتہد مقلد کی کوئی ترجیح کی جانب اگر میلان کرے تو مضائقہ نہیں ۔۔۔۔۔۔لہذا حسب قاعدہ مرحج جانب عدم سماع ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چونکہ فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے وما انت باسمع منہم سنا تھا تو ان کے نزدیک یہ حدیث بھی قطعی تھی سو جو کچھ معنی انہوں نے سمجھے اس فہم کی وجہ سے اگر تخصیص کریں ہوسکتاہے ۔ ورنہ خودحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو خود حدیث میں تاویل کی اور آیت کو بحال رکھا اورجمع کردیا الحاصل ارحج مذہب عدم سماع کا ہے حسب قواعد
لطائف رشیدیہ ملحق تالیفات رشیدیہ ص676

قارئین کرام! حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مذکورہ بالا اقتباسات میں غو رکرنے سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں :
1مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عام موتیٰ کا عدم سماع راجح ہے۔
2مسئلہ سماع عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے مختلف فیہ ہے دونوں جانب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔
3اس مسئلہ میں اب فیصلہ کرنا ناممکن ہے ۔
4 سادات حنفیہ بھی اس مسئلہ میں مختلف رائے رکھتے ہیں ۔
5زمانہ دفن کے قریب بہت روایات سماع کا اثبات کرتی ہیں۔
6سماع موتیٰ کی جانب بھی قوی ہے۔
7اگر گوئی شخص سماع موتیٰ کا قائل ہوکر تلقین میت کرے تو درست ہے اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ منقول نہیں ہے اور اس بارے میں امام صاحب سے جوروایات آئی ہیں وہ شاذ ہیں۔

مذکورہ بالا باتوں میں بجز عدم سماع عام موتیٰ کے عصر ہذا کے معتزلہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی بات میں متفق نہیں ہیں جبکہ عدم سماع میں بھی برائے نام اتفاق ہے کیونکہ عدم سماع سے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو بالاجما ع مستثنیٰ فرماتے ہیں اور یہ لوگ سب سے پہلے انہیں کے سماع کی نفی کرتے ہیں ۔

حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس مسئلہ میں فیصلہ ناممکن ہے جبکہ یہ لوگ قائلین سماع پر شرک وکفر کے فیصلے کرچکے ہیں حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ فروعی مسئلہ ہے کیونکہ دونوں جانب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں حتی کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے ہاں سماع موتیٰ نص قطعی سے ثابت ہے جبکہ یہ لوگ ایمان اور عقیدہ کے لیے عدم سماع کو ضروری قرار دیتے ہیں۔

عصر ہذا کے معتزلہ کی بے ڈھنگی چال:
اس دور کے معتزلہ جب کہیں عدم سماع موتیٰ کا قول دیکھتے ہیں تو فوراً اس کو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام پر فٹ کر کے ان کے سماع کی نفی کر دیتے ہیں حالانکہ سماع کا قول کرنے والے خود انبیاء کرام علیہم السلام کو عدم سماع سے مستثنی کرچکے ہیں اسے کہتے ہیں مدعی سست گواہ چست اور اسے کہتے ہیں تاویل القول بما لا یرضیٰ بہ القائل یقین رکھئے اور کسی دھوکہ باز کے دھوکہ میں نہ آئیے جن جن حضرات نے بھی عدم سماع کو ترجیح دی ہے وہ سب حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سماع کے قائل ہیں کیونکہ اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ میں کسی ایک شخص کا نام نہیں ملتا جس نے انبیاء کرام علیہم السلام کے سماع کا انکار کیا ہو ۔اللہ ہم سب کو اکابرکی راہ پر استقامت نصیب فرمائے ۔آمین
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 121811 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.