غیبت

اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا’’اورکوئی کسی کی غیبت نہ کیاکرے‘‘حضورؐ نے ارشادفرمایا’’غیبت زناسے سخت ترہے‘‘کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی ایسی بات کہناکہ اگروہ سنے تواس کوناگوارہو۔اگرچہ وہ بات اس کے اندرموجودہی ہواوراگروہ بات اس میں نہیں تووہ غیبت سے بڑھ کربہتان ہے اسی طرح کسی کی نقل اتارنے سے مثلادباکردیکھنا،لنگڑاکرچلنابھی غیبت ہے بلکہ یہ زیادہ براہے ۔غیبت کامذموم ہونا(قرآ ن وحدیث سے)ظاہرہے کہ اس کی مضرت دین ودنیادونوں میں ہے دنیاکی مضرت تویہ ہے کہ اس سے باہمی تشویش ونااتفاقی ہوتی ہے آپس میں فسادہوجاتاہے اوردین کی مضرت یہ ہے کہ قیامت کے دن غیبت کرنے والے کی نیکیاں اس کومل جائیں گی جس کی غیبت کی تھی اوروجہ اس کی یہ ہے کہ غیبت حق العبدہے جب وہ معاف کرے گاتب معاف ہوگا غیبت گناہ جاہی ہے (یعنی حب جاہ سے پیداہوتی ہے )اس کے بعدبعدندامت نہیں ہوتی بلکہ فخرکرتاہے جوموجب عجب بھی ہوااورعجب اس میں لازم ہے کیونکہ غیبت آدمی جبھی کرتاہے جبکہ اپنے آپ کوپاک سمجھے ۔نیزغیبت جب کبھی ہوتی ہے توکسی ایسی بات کے بعدہوتی ہے جوخلاف طبع ہوجب وہ بات ناگوارہوتی ہے تواس کاذکرزبان پرآجاتاہے اوریہ شکایت اورغیبت غصہ ہی کانیتجہ ہے اگرغصہ نہ آئے یاآدمی اس ناگواری خاطرکوضبط کرلے توشکایت ہی نہ ہو۔نیزمشاہدہ ہے کہ غیبت کے وقت دین کابالکل خیال نہی رہتا۔نہ ایذاسے دریغ ہوتاہے )نہ جھوٹ اورفریب ہے ۔یادرکھوغیبت کرنے والااورسننے والادونوں برابرہیں البتہ چندصورتوں میں خاص لوگوں کی غیبت کرناجائز ہے ۔اول مظلوم شخص ظالم کی شکایت اگرافسراعلیٰ تک پہنچائے اوراپنے اوپرسے ظلم رفع کرنے کی نیت سے اس کے مظالم بیان کرے توگناہ نہیں ۔البتہ ظالم کے عیوب ایسے لوگوں سے بیان کرناجنہیں اس کوسزادینے یامظلوم کے اوپرسے ظلم رفع کرنے کی طاقت نہ ہوبدستورغیبت میں داخل اورحرام ہے ۔دوم کسی شخص سے کوئی بدعت یاخلاف شرع امرکے رفع کرنے میں مددلینی یاکسی کواس کے فتنہ سے بچاناہوتواس سے بھی ا ن بدعتی لوگوں کاحال بیان کرنااگرچہ غیبت ہے مگرجائزہے۔سوم مفتی سے فتویٰ لینے کیلئے استفسارمیں امرواقعی کااظہارکرنابھی جائزہے اگرچہ اس اظہارحال میں کسی کی غیبت ہوتی ہو۔چہارم،اگرکوئی شخص کسی سے نکاح یاخریدوفروخت کامعاملہ کرتاہے اورتم کوعلم ہواکہ اس معاملے میں ناواقفیت کی وجہ سے اس کانقصان ہوگااس کونقصان سے بچانے کیلئے اس کاحال بیان کردینابھی جائزہے ۔پنجم،اگرکوئی شخص کسی ایسے نام ہی سے مشہورہوگیاجس میں عیب ظاہرہومثلاًکانا،لنگڑاتواس نام سے اس کاپتہ بتلاناغیبت میں داخل نہیں ہے پھربھی اگردوسراپتہ بتلادوتوبہترہے تاکہ غیبت کی صورت پیدانہ ہو۔ موجودہ دور میں سب کو غیبت کی گناہوں کا پتہ ہے بلکہ یہ ارشاد نبوی تو سب کو معلوم ہے کہ غیبت کی اتنی بڑی گناہ ہے جیسے ایک شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو مگر پھر بھی ہر کوئی اس گناہ میں مبتلا ہے گھر سے لیکر بازار تک اور دفتر سے لیکر پارلیمنٹ ہاؤس تک ہرعمر کے مرد و خواتین غیبت میں مصروف نظر آتے ہیں بلکہ جہاں بھی دو لوگ ملتے ہیں ان کے درمیاں تیسرے بندے کی غیبت ہی چل رہی ہوگی وہ اس انداز میں تیسرے بندے کی بات کر رہے ہونگے جیسے یہ ان کا قانونی حق ہے بلکہ یہ تو لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ سابن گیا ہے ہر گلی،ہر نکڑ اور ہر چوراہے میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا ہوگا جس میں مسلمان بھائی کی غیبت میں مصروف نہ ہو بظاہر دیکھنے اور سننے میں ہمیں غیبت کرنے اور سننے میں ایک لطف سا محسوس ہوتا ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے کہ ہم کوئی بہت ہی نیک کام کر رہے ہوں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جس کی اپنے کولیگ سے نہیں لگتی تو وہ اپنے کسی ہمراز کو جس کو وہ اپنا رازدار سمجھتا ہے اسے اپنے دوسرے کولیگ کے متعلق بتانا شروع کردیتا ہے کہ یار وہ اس قسم کا ہے تو دوسرا سننے والا بھی جوابا کہتا ہے کہ ہاں میں نے بھی اس کے بارے میں ایسا محسوس کیا ہے حالانکہ اس میں ایسی کوئی بات بظاہر نہیں ہوگی ہر کسی کو روزانہ ایسی صورتحال سے کہیں نہ کہیں واسطہ پڑ رہا ہوگا جب دو ا شخاص اپس میں بات کر رہے ہوں گے جب آپ کی آمد ہوتی ہے تو دونوں کو چپ سی لگ جاتی ہے تو جان لینا چاہیئے کہ یہ دونوں اپ کے خیر خواہ ہیں کیوں کہ ان کی غیبت سے آپ کے گناہ کم ہوتے ہیں اور ان کے زیادہ ہورہے ہوتے ہیں جس کو وہ عادت سے مجبور ہوکر نہیں جانتے یا جانتے ہوں بھی تو انجان بنتے رہے ہوں گے کیوں کہ ان کو مزہ جو آتا رہا ہوگا موجودہ دور میں تو غیبت کرنا عام ہوگیا ہے خواتین کو تو اس کے سوا کوئی کام نہیں جہاں بھی دو خواتین اکھٹی ہوگئی تیسری کی برائی شروع ،اور وہ وہ نقطے نکال دیئے جاتے ہیں کہ بندہ سوچ بھی نہیں سکتا بہت سی خواتین تو محفلوں میں جاتی ہی اس لئے ہیں کہ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں کسی کے خلاف باتیں کرلیں ایک کے خلاف بول کر دوسری سے اسی پہلی والی کی غیبت شروع ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے عورتوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بہت بولتی ہیں ایک محقق نے اس پر تحقیق کرنی چاہی کہ عورتیں زیادہ بولتی ہیں یامرد تو اس کے لئے اس نے ایک دن اپنے دن بھر کی تمام باتیں یعنی تمام الفاظ نوٹ کرنے شروع کئے جب وہ رات کو گھر آیا تو وہ مجموعی طور پر بتیس ہزار الفاظ بول چکا تھا جبکہ اسکی بیوی نے اس وقت بتیس ہزار الفاظ بولنے شروع کردیئے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ دن بھر میں کتنی لوگوں کی غیبت کرچکی ہوں گی ان باتوں پر خواتین کو برا نہیں منانا چاہیئے کہ میں ان کو زیادہ الزام دے رہاہوں کہ وہ زیادہ غیبت کرتی ہیں بلکہ یہ دیکھنے میں آیا ہے اس حوالے سے جب ایک مقامی این جی او میں کام کرنے والے فیصل نے بتایا کہ آج کے دور میں جب ہر طرف ٹینشن کا ماحول ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں کہ ایک شخص کے پیچھے بات کی جائے ہم اگر نہ کریں تو دیگر لوگ تو ہمارے خلاف لازمی بات کریں گے تو ہم کیوں نہ کریں ہمارے دفتر میں ہم اکثر اپنے کولیگس کے پیچھے باتیں کرتے ہیں اور وہ ہمارے پیچھے لگے ہوتے ہیں تو بات برابر ویسے میں تو اس کو برا نہیں سمجھتا حالانکہ اس کا گناہ بہت ہے مگر کیا کریں اس کے بنا رہ نہیں سکتے کیوں کہ جب فری ہوتے ہیں تو لازم ہے کوئی مشغلہ تو ہونا چاہیے جس سے تھکان دور ہو اور اس سے کوئی خوبصورت مشغلہ نہیں ہے اسی طرح ٹی وی چینل سماع میں کیمرہ مین ذکاء نے بتایا کہ لوگوں کے ساتھ وقت زیادہ آگیا ہے اس لئے وہ غیبت کنے میں مشغول نظر اتے ہیں جب ان کو کام ہوگا تو وہ غیبت سے دور رہیں گے آپ اردگرد نظر دوڑا کردیکھیں تو جو لوگ مصروف زندگی گزار رہے ہوں گے وہ اس بیماری سے دور ہوں گے مگر جو لوگ فری ہوں گے وہ اس میں زیادہ مصروف ہوں گے اور اپنے بھائیوں کا گوشت نہیں کھائیں گے -
A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak: 19 Articles with 20357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.