مشرکین_مکّہ اور آج کے بعض
نام-نہاد مسلمان :
دلیل_قرآن مجید =>
اکثر لوگ الله پر ایمان لاکر بھی شرک کرتے ہیں - سورہ یوسف: ١٠٦...
اور اگر (اے نبی! صلے الله علیہ وسلم) آپ ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین
کو کس نے پیدا کیا تو وہ (مشرک) کہدینگے کہ ان کو غالب اور علم والے (الله)
نے پیدا کیا (الزخرف:٩)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس
کائنات) کو؟ اور (تمہارے) کام میں لگا دیا سورج اور چاند کو؟ تو (اس کے
جواب میں) یہ سب کے سب ضرور بالضرور یہی کہیں گے کہ اللہ ہی نے, تو پھر یہ
کہاں اُلٹے جا رہے ہیں؟(العنکبوت:٦١)
کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ زمین اور"جو کچھ"زمین میں ہے"سب"کس کا
ہے؟ یہ جھٹ ضرور بول اٹھیں گے کہ"اللہ"کا۔ کہو کہ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟
(ان سے) پوچھو کہ سات آسمانوں کا کون مالک ہے اور عرش عظیم کا (کون) مالک (ہے؟)
یہ جھٹ ضرور کہیں گے (کہ)"اللہ"۔ کہو ، پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ ان سے کہو ،
بتائو اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر ملکیت(حکومت)کس کی ہے؟ اور کون ہے وہ
جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور
کہیں گے کہ (ایسی بادشاہی تو)"اللہ"ہی کے لیے ہے۔ کہو پھر تم پر جادو کہاں
سے پڑ جاتا ہے؟(المومنون:٨٤-٨٩)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے نازل فرمایا پھر اس سے زمین
کو اس کے مرنے کے بعد (کس نے) زندہ کیا تو کہہ دیں گے کہ خدا نے۔ کہہ دو کہ
خدا کا شکر ہے۔ لیکن ان میں اکثر نہیں سمجھتے(العنکبوت:٦٣)
تو پوچھ کون روزی دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمین سے یا کون مالک ہے کان
اور آنکھوں کا اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو
زندہ سے اور کون تدبیر کرتا ہے کاموں کی سو بول اٹھیں گے کہ اللہ تو تو کہہ
پھر ڈرتے نہیں ہو(یونس:٣١)
تو پھر وہ (مشرکین_مکّہ) کافر کیوں کہلاۓ؟
جواب: کیونکہ انہوں نے نیک بندوں/اولیاء کے بتوں (جن کے نام ود، سواع، یغوث،
یعوق اور نسر-قرآن=نوح:٢٣; اور آج نیک بندوں کی قبروں کو مسجد(سجدے-گاہ)
بناکر) عبادت (والے افعال) کر کے"شرک"کرتے تھے.
دلیل_قرآن مجید =>
جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا وہ تو "بندے"ہیں"تم جیسے",بھلا پکارو تو ان
کو پس چاہیے کہ وہ قبول کریں تمہارے پکارنے کو، اگر تم سچے ہو(الاعراف:194)
ایسے شرکیہ کام وہ کیوں کرتے تھے؟
جواب: کیونکہ وہ ان بندوں(بتوں) کو "تقرب" اور "شفاعت" کا "وسیلہ"ماننے کے
سبب ایسا کرتے تھے
دلیل_قرآن مجید =>
دیکھو خالص عبادت خدا ہی کے لئے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور
اولیاء(دوست)بنائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم
کو خدا کا*مقرب*بنادیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں خدا ان میں ان
کا فیصلہ کردے گا۔ بےشک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا.(الزمر:3)
اور یہ (لوگ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ
بگاڑ ہی سکتی ہیں اور نہ کچھ بھلا ہی کر سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدا
کے پاس ہماری*شفاعت*کرنے والے ہیں۔ کہہ دو کہ کیا تم خدا کو ایسی چیز بتاتے
ہو جس کا وجود اسے نہ آسمانوں میں معلوم ہوتا ہے اور نہ زمین میں۔ وہ پاک
ہے اور (اس کی شان) ان کے شرک کرنے سے بہت بلند ہے.(یونس:١٨)
یہ لوگ جن کو (خدا کے سوا) "پکارتے" ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں(قرب
کا)*وسیلہ*تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (خدا کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے
اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک
تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے(اسرا / بنی اسرائیل:٥٧)
=========================================================
[نوٹ: ظاہری اسباب کے تحت کسی سے مدد مانگنا شرک نہیں، شرک تو کسی کو
غائبانہ (دوری سے) مدد کے لئے پکارنا ہے]
=========================================================
اس (قرآنی مثال) سے (خدا) بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا
ہے اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو [البقرہ:٢٦]
گمراہ-لوگوں کا "قرآن و حدیث"سے"شرک" کو "جائز" کرنے کی گمراہانہ-کوششوں*
اور *من-چاہی(خود کی بنائی)تفسیروں* کی حقیقت :
. ١) الله کے سوا کسی*غیر-الله*سے مدد لینا = اے ایمان والو! *صبر* اور *نماز*(کے
وسیلے)*سے*(الله کی) مدد لیا کرو بےشک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے. [البقرہ:١٥٣]
سوال = تو کیا اس آیت کو اس طرح کسی نے مان-کر *نماز* اور *صبر* کو مدد کے
لئے پکارا؟ ہرگز نہیں، بلکہ ان نیک اعمال کو الله کی مدد کا وسیلہ/زریعہ
بنایا.
(٢)اولیاء کو مدد کے لئے پکارنے کا وسیلہ بنانا? = اے ایمان والو! خدا سے
ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے (کے لئے تقویٰ-نیک اعمال) کا*وسیلہ* تلاش
کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو.[المائدہ:٣٥]
یہاں وسیلہ کی تفسیر*تقویٰ اور نیکی* ہے، اور مدد کے لئے پکارنے کو
نیک-بندوں/اولیاء کو*وسیلہ* مشرکین_مکّہ بناتے تھے.(اسرا / بنی اسرائیل:٥٧)
(٣) الله کی "عطا سے" کے نبی علیہ السلام بھی *مشکل-کشا* ہیں? = ...اور
میں(حضرت عيسى علیہ السلام) اچھا کرتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو
اور جلاتا ہوں مردے اللہ کے حکم سے...[آل-عمران:٤٩]
الله نے قرآن میں تو یہ بھی فرمایا ہے=اور جب کہے گا اللہ اے عیسٰی مریم کے
بیٹے تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوا
اللہ کے کہا تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق
نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہو گا تو جانتا ہے جو
میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے
والا چھپی باتوں کامیں نے کچھ نہیں کہا انکو مگر جو تو نے حکم کیا کہ بندگی
کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور تمہارا اور میں ان سے خبردار تھا جب تک ان
میں رہا پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو تو ہی تھا خبر رکھنے والا ان کی
اور تو ہر چیز سے خبردار ہے [المائدہ:١١٦-١١٧]
غائبانہ-دوری سے مدد کے لئے کسی کو پکارنا عبادت ہے =اور کہتا ہے تمہارا رب
مجھ کو پکارو کہ پہنچوں تمہاری پکار کو بیشک جو لوگ تکبر کرتے ہیں میری*عبادت*سے
اب داخل ہوں گے دوزخ میں ذلیل ہو کر. [الغافر:٦٠]
(٤) الله کے نبی علیہ السلام بھی*گنج بخش*ہیں = پھر ہم نے ہوا کو ان کے
زیرفرمان کردیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے ان کے حکم سے نرم نرم چلنے لگتی.
اَور دیووں کو بھی (ان کے زیرفرمان کیا) وہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ
مارنے والے تھے. اور اَوروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے. (ہم نے
کہا) یہ ہماری بخشش ہے (چاہو) تو احسان کرو یا (چاہو تو) رکھ چھوڑو (تم سے)
کچھ حساب نہیں ہے.[ص: ٣٦-٣٩
تو ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ رضی الله عنہ نے الله کے سوا/ساتھ
,ان نبیوں/ولیوں سے (عیسایوں اور مشرکوں کی طرح) ان کے جانے کے بعد کبھی
غائبانہ-دوری سے مدد کیوں نا مانگی؟ اور کیا ان سے زیادہ قرآن کی سمجھ آپ
کو ہے؟
امت_مصطفیٰ صلے الله علیہ وسلم شرک نہیں کر سکتی؟=
الحديث رقم 39 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات
النَّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401، وفي کتاب : الرقاق،
باب : مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيها، 5 /
2361، الرقم : 6061، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : إثبات حوض
نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1795، الرقم : 2296 وأحمد بن
حنبل في المسند، 4 / 153.]
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔
بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک
مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی
ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد"تم"(صحابہ رضی الله عنہ
کی جماعت)شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت
میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ ‘‘(الله تعالیٰ نے اس سے بھی ان کو محفوظ رکھا اور ان
کی اتباع پر اپنی رضا اور جنّت جیسی عظیم کامیابی کا فرمان جاری فرمایا=القرآن؛التوبہ:١٠٠)]
اس مذکورہ بالا حدیث میں صحابہ رضی الله عنھم کو خطاب ہے جن سے الله نے ان
کی حفاظت فرمائی، اور مندرجہ ذیل احادیث سے امت_مصطفیٰ صلے الله علیہ وسلم
میں شرک پر عمل-پیرا ہونے کا ثبوت ملتا ہے :
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 101 ,فتنوں کا بیان : جب تک کذاب نہ نکلیں
قیامت قائم نہیں ہو گی, حدیث مرفوع] مکررات14 قتیبہ، حماد بن زید، ایوب،
ابوقلابة، ابواسماء، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری
امت کے کئی قبائل مشرکین کے ساتھ الحاق نہیں کریں گے اور بتوں کی پوجا نہیں
کریں گے پھر فرمایا میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ہر ایک کا یہی دعویٰ
ہوگا کہ وہ نبی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی
نبی نہیں آئے گا. یہ حدیث صحیح ہے]
سننابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ,859 فتنوں کا بیان : حدیث متواتر حدیث مرفوع
مکررات 14 سلیمان بن حرب، محمد بن عیسی، حماد بن زید، ایوب، ابوقلابہ،
ابواسماء، حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو آزاد کردہ غلام ہیں حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا یا یوں فرمایا کہ
میرے پرودگار نے میرے لیے زمین کو سکیڑ دیا پس مجھے زمین کے مشارق ومغا رب
دکھائے گئے اور بیشک میری امت کی سلطنت عنقریب وہاں تک پہنچی گی جہاں تک
میرے لیے زمین کو سمیٹا گیا اور مجھے دو خزانے سرخ وسفید دیے گئے اور بیشک
میں نے اپنی پروردگار سے اپنی امت کے لیے یہ سوال کیا کہ انہیں کسی عام قحط
سے ہلاک نہ کیجیے اور نہ ان کے اوپر ان کے علاوہ کوئی غیر دشمن مسلط کردے
کہ وہ ان کو جڑ سے ختم کردے۔ اور بیشک میرے پروردگار نے مجھ سے فرمایا کہ
اے محمد۔ بیشک میں جب فیصلہ کرتا ہوں تو پھر وہ رد نہیں ہوتا اور میں انہیں
کسی عام قحط سے ہلاک نہیں کروں اور نہ ہی ان پر کوئی غیر دشمن مسلط کروں
اگرچہ سارا کرہ ارض سے ان پر دشمن جمع ہو کر حملہ آور ہوجائیں یہاں تک کہ
مسلمانوں میں سے آپس میں ہی بعض بعض کو ہلاک کردیں گے اور بعض بعض کو قید
کردیں گے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک مجھے
اپنی امت پر گمراہ کرنے والے اماموں (مذہبی رہنماؤں) کا ڈر ہے اور جب میری
امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی اور قیامت
اس دن تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے بعض قبائل مشرکین سے جا
ملیں گے اور یہاں تک کہ میری امت کے بعض قبائل بتوں کی عبادت کریں اور بیشک
میری امت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی
ہے اور میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت میں سے
ایک طائفہ ہمیشہ حق پر رہے گی ابن عیسیٰ کہتے ہیں کہ حق پر غالب رہے گی اور
ان کے مخالفین انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر
آجائے۔]
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 832 حدیث مرفوع مکررات 14 ہشام بن عمار،
محمد بن شعیب بن شابور، سعید بن بشیر، قتادہ، ابوقلابہ، عبداللہ بن زید،
ابواسماء، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے زمین کے مشرق و مغرب
کو دیکھ لیا اور مجھے دونوں خزانے (یا سرخ) اور سفید یعنی سونا اور چاندی
دیئے گئے (روم کا سکہ سونے کا اور ایران کا چاندی کا ہوتا تھا) اور مجھے
کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) سلطنت وہی تک ہوگی جہاں تک تمہارے لئے زمین
سمیٹی گئی اور میں نے اللہ سے تین دعائیں مانگیں اول یہ کہ میری امت پر قحط
نہ آئے کہ جس سے اکثر امت ہلاک ہو جائے دوم یہ کہ میری امت فرقوں اور
گروہوں میں نہ بٹے اور (سوم یہ کہ) ان کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال
نہ ہو (یعنی باہم کشت و قتال نہ کریں) مجھے ارشاد ہوا کہ جب میں (اللہ
تعالی) کوئی فیصلہ کرلیتا ہوں تو کوئی اسے رد نہیں کر سکتا میں تمہاری امت
پر ایسا قحط ہرگز مسلط نہ کروں گا جس میں سب یا (اکثر) ہلاکت کا شکار ہو
جائیں اور میں تمہاری امت پر اطراف و اکناف ارض سے تمام دشمن اکٹھے نہ ہونے
دوں گا یہاں تک کہ یہ آپس میں نہ لڑیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور جب
میری امت میں تلوار چلے گی تو قیامت تک رکے گی نہیں اور مجھے اپنی امت کے
متعلق سب سے زیادہ خوف گمراہ کرنے والے حکمرانوں سے ہے اور عنقریب میری امت
کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں) مشرکوں سے جا
ملیں گے اور قیامت کے قریب تقریبا جھوٹے اور دجال ہوں گے ان میں سے ہر ایک
دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میری امت میں ایک طبقہ مسلسل حق پر قائم رہے
گا ان کی مدد ہوتی رہے گی (منجانب اللہ) کہ ان کے مخالف ان کا نقصان نہ کر
سکیں گے (کہ بالکل ہی ختم کر دیں عارضی شکست اس کے منافی نہیں) یہاں تک کہ
قیامت آجائے امام ابوالحسن (تلمیذ ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ جب امام ابن ماجہ
اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ حدیث کتنی ہولناک ہے]
[مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کا ہے:-سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث
نمبر 1085 حدیث مرفوع مکررات 2 38 - زہد کا بیان : (243)ریا اور شہرت کا
بیان ۔محمد بن خلف عسقلانی، رواد بن جراح، عامر بن عبداللہ ، حسن بن ذکوان،
عبادہ بن نسی، حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کا ہے
میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج یا چاند یا بت کو پوجیں گے لیکن عمل کریں گے
غیر کے لئے اور دوسری چیز کا ڈر ہے وہ شہوت خفیہ ہے۔]
اس (قرآنی مثال) سے (خدا) بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا
ہے اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو [البقرہ:٢٦] |