خلاء سے شمسی توانائی کا حصول


سورج اور ان پینلز کے درمیان بادل حائل نہیں ہو سکیں گے
سائنسدان خلاء میں انجنیئرنگ کے ایک بہت بڑے منصوبے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں اور اگر اس پر عمل ہوتا ہے تو یہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی تعمیر سے بھی بڑا منصوبہ ہو گا۔

یورپ، جاپان اور امریکہ کے یہ سائسندان زمین کے مدار میں قدرے کم بلندی پر بہت بڑی شمسی پراتیں یا سولر پینل لگانے کا جائزہ لے رہے ہیں جن سے فیکٹریوں اور گھروں کے لیے کم قیمت شمسی توانائی حاصل کی جا سکے۔

زمین کی آب و ہوا سے اوپر قطار اندر قطار سولر پینل لگانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ سورج کی شعاعوں اور ان پینلوں کے درمیان بادل حائل نہیں ہو سکیں گے اور یوں شسمی توانائی کا مسلسل حصول ممکن ہو سکے گا۔

خیال کی حد تک یہ منصوبہ زبردست ہے لیکن اس میں کئی بڑے مسائل ہو سکتے ہیں جن میں اتنے بڑے سولر پینل بنانے اور پھر ان پینلوں سے توانائی کو زمین تک پہنچانے کے عمل میں درپیش تکنیکی چیلنج شامل ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس منصوبے میں اتنے ہی بڑے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے جو شاید صدیوں پہلے مصر میں اہرام تعمیر کرتے وقت پیش آئے ہوں گے۔

امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون کے خلاء اور قومی سلامتی کے شعبے کے سینئر اہلکار لیفٹیننٹ کرنل پال ڈیمپہاؤس کا کہنا ہے کہ سولر پینلوں کی تعمیر کے لیے راکٹوں کی ایک فوج چاہیے ہوگی جو ہزارہا ٹن بھاری اشیاء کو خلاء میں پہنچا سکے۔ ’اس کے لیے راکٹوں کو کئی چکر لگانا پڑیں گے، ہر دوسرے ہفتے یا مہینے ایک چکر نہیں بلکہ ہر ہفتے یا ہر ماہ سینکڑوں چکر۔‘

پینٹاگون کی ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خلاء میں شمسی پراتوں کی ایک طویل قطار بنانا تکنیکی طور پر ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ روبوٹکس کی دنیا میں ہونے والی ترقی سے خلاء میں کم وقت میں بڑی بڑی چیزیں تعمیر کرنا آسان ہوگیا ہے۔
اسی طرح امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی ایک منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے جس کا مقصد خلائی شٹل کی جگہ ایسی خلائی گاڑیاں بنانا ہے جنہیں کم قیمت میں خلاء میں بھیجا جا سکے۔ فی الحال خلائی شٹل کو ایک بار خلاء میں بھیجنے پر نصف ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔

 یورپی خلائی ایجنسی کے ایک سینیئر افسر کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ خلاء سے شمسی توانائی حاصل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد اگلے بیس سال میں ممکن ہو جائے گا۔
تاہم اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی تعمیر جیسا ایک اور عظیم منصوبہ شروع کر رہے ہیں۔

رابرٹ لینوے کا کہنا تھا کہ منصوبے میں نجی کمپنیوں کی شمولیت سے اخراجات میں کمی آ سکتی ہے لیکن اس سلسلے میں بنیادی اخراجات بہرحال حکومتوں کو ہی برداشت کرنا ہوں گے۔

یہ چیز مستقبل میں ممکن ہو جائے گی۔ جو کام کرنے والا ہے وہ ہے کم خرچ شمسی پینلوں کی تعمیر، انہیں آسمان پر پہنچانا، ان پر ٹکرانے والی شمی توانائی کو مائیکرو ویو توانائی میں تبدل کرنا اور پھر اس توانائی کو زمین تک پہنچانا ہے۔ تکنیکی اعتبار سے یہ سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ اصل میں بات ساری پیسے کی ہے۔

لیفٹیننٹ کرنل ڈیمپہاؤس بھی اس سلسلے میں پرامید ہیں اور ان کہنا ہے کہ درپیش تکنیکی اور معاشی مسائل اپنی جگہ لیکن اس منصوبے کے فوائد بالکل واضح ہیں۔

 اس منصوبے سے خلاء میں دیگر منصوبوں کے امکانات کے دروازے کھل جائیں گے اور اگر ہم اس کو ایک بین الاقوامی منصوبہ سمجھ کر اس پر عمل کر سکیں تو اس سے قدرتی وسائل پر بڑھتے ہوئے دباؤ جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کے فوائد ساری زمین کو ملیں گے۔

ہم ایک مرتبہ وہاں پہنچ جائیں تو ہم دیکھیں گے کہ وسائل اور امکانات کی ایک پوری دنیا ہماری سامنے ہوگی۔
YOU MAY ALSO LIKE: