بن بلائے ولیمہ خوری کا مزہ

شادی میں شرکت کے لئے لوگ قیمتی ،رنگ برنگے اور بھاری بھرکم قسم کے کارڈز چھاپتے ہیں اور دوستوں کو بھیجتے ہیں تاکہ وہ اُن کی خوشیوں میں شریک ہوں مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کو شادی میں شرکت کے لئے کسی کارڈ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ بن بلائے ،منہ چھپائے اور صرف عمدہ ولیمے کی آس لگائے شادی میں آتے ہیں اورکھانے پر یوں ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے سالوں سے بھوکے ہوں (سالوں سے مُراد بیوی کے بھائی نہیں ہے)ویسے ولیمہ کا لفظ سُن کر منہ میں پانی آگیا ہے پانی سے یاد آیا ہم کئی جماعتوں سے پیاسا کوا کی کہانی پڑھتے آ رہے ہیں اگر کوا اُس وقت ولیمے کے بارے میں سوچ لیتا تو ہو سکتا ہے اُسے اتنی محنت نہ کرنی پڑتی کیونکہ جب ولیمے کے لفظ نے میرے منہ میں پانی پیدا کر دیا ہے تو کیا کوے کے منہ میں پانی نہ آتا چلو چھوڑو اس قصے کو اپنا قصہ آگے بڑھاتے ہیںمیں اکثر سوچتا ہوں اگر ولیمہ نہ ہوتا تو اُن لوگوں کا پیٹ کون بھرتا جن کا پیٹ ولیمے والے دن بھرتا ہے( جن کا مطلب اصلی والا جن نہیں ہے)۔ولیمہ کھانا بھی ایک فن ہے کیونکہ اکثر ولیموں سے مجھے خالی پیٹ ہی گھر آنا پڑا ہے ۔ولیمے کے لئے جس مہارت،چابک دستی اور پُھرتی کی ضرورت ہوتی ہے وہ مجھ میں کبھی پیدا نہیں ہو سکی نہ جانے کیسے لوگ پلک جھپکتے ہی اپنی پلیٹ میں مُرغے کی ٹانگیں بھر لیتے ہیں جیسے گھر میں روز بیوی سے ٹانگیں (لاتیں) کھاتے رہتے ہیں۔ہمارے ایک دوست ایسے فنکار لوگوں کو لیگ کیچر کا خطاب دیتے ہیں ۔اکثر ولیموں میں ہم ایسے فنکار لوگوں کو کھاتا دیکھ کر ہی آنکھوں آنکھوں میں سیر ہو جاتے ہیں اور ہنسی خوشی بن کھائے ہی واپس آجاتے (اپنے قدموں پر)۔اور کئی فنکار لوگوں کو کسی سہارے پر جاتے دیکھا ہے۔ایسے ہی ایک فنکار کا واقعہ یاد آرہا ہے جو کھانے میں ماہر خیال کئے جاتے تھے کہتے ہیں
ایک ولیمے میں وہ حسبِ معمول بن بُلائے شریک ہوئے ۔جب کھانا کھا کر واپس جا رہے تھے تو شادی والوں نے روکا اور پوچھا یار یہ بتاﺅ کھانا کیسا تھا ؟؛؛ کھانا تو سب نے کھایا ہے آپ مجھ سے ہی کیوں پوچھ رہے ہیں ولیمے والے بولے ؛؛ آپ واحد آدمی ہیں جنہوں نے تمام ڈشیں کھائی ہیں بلکہ خوب مہارت سے کھائی ہیں ؛؛ دل میں شرمندگی محسوس کرتے ہوئے جواب دیا ؛؛ کھانا لاجواب تھا؛ اُنہوں نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے کہا ؛مہربانی فرما کر اپنا نام پتا بتاتے جائیے تاکہ اگلی بار ہم کارڈ بھیج کر بُلا سکیں؛یہ سُن کر وہ کہتے ہیں مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا-

ویسے بندے کو ڈھیٹ ہونا چاہیے ایسی بے عزتی آنی جانی چیز ہے بلکہ ایسی بے عزتی کو گھول کر پی جانے والے لوگوں کاہاضمہ ٹائیٹ ہوتا ہے اور بندہ ولیموں میں خوب جی بھر کے کھا سکتا ہو۔

پہلے میں اتنا زیادہ کھانا کھانے والوں کو دیکھ کر حیران اور پشیمان ہوتا تھا مگر جب سے ایک ٹی وی پروگرام میں دیکھا اور سُنا کہ ایک صاحب ہیں جو دو دیگیں مُرغ مسلم بمعہ دو اڑھائی لٹر پیپسی اور ایک جگ دہی ڈکار جاتے ہیں اور پھر حیرت انگیز بات یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک کلاک دو کلاک کے بعد اُنہیں پھر بھوک لگ جاتی ہے۔آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ موصوف کوئی پہلوان نما سی چیز ہوں گے پر نہیں دوستو وہ صاحب دھان پان سے ہیں دیکھ کر اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ اتنا کھاتے ہوں گے۔

ویسے بندہ کھائے ضرور مگر دوسروں کے حصے کا نہ کھائے ۔ایک دانا کا قول اِسی تناظر میں کھانے کو ملا سوری دوستو دماغ ،زبان اور ہاتھ پھسل گئے میرے اِس طرح پھسلنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ لوگ اِسی طرح کھانے پہ پھسل جاتے ہونگے بہرحا ل بات ہو رہی تھی کہ دانا نے کہا ہے کہ ؛ بندے کو کھانے کے لئے نہیں جینا چاہیے بلکہ جینے کے لئے کھانا چاہیے ؛یہ بات یقینا اُس نے لوگوں کو ولیمہ کھاتے دیکھ کر کہی ہو گی۔

جب ولیمے کے لئے پُکار پڑتی ہے تو لگتا ہے جیسے کوئی میراتھن ریس شروع ہو گئی ہے یہ منظر دیدنی ہوتا ہے بھاگم بھاگ ،دھکم پیل ،چھینا چھپٹی اور واویلا عجیب افراتفری کا عالم ہوتا ہے گویا ہر بندے کی اوقات کُھلی کتاب کی طرح سامنے ہوتی ہے۔ولیمے کے بعد کا منظر بھی خوب ہوتا ہے ۔بکھری پلیٹیں ،ادھ کھائی بوٹیاں ، بکھری روٹیاں ، میزوں پر سالن اور پانی جیسے جنگ کے بعد کسی شہر کا منظر ہو۔

بن بُلائے ولیمہ کھانے والے کہتے ہیں کہ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اُنہیں مُرغی ،چاول ،چھوٹا گوشت ،بڑا گوشت ،بریانی ،وغیرہ ولیمے میں ہی ملتا ہے اور تو وہ کہیں سے نہیں کھا سکتے اِس لئے وہ ولیموں میں بغیر بلائے چل پڑتے ہیں مگر اُن کو میں کہتا ہوں کہ بھائیو! کھاﺅ ضرور مگر پیٹ سے اجازت لیکرکیونکہ اَن پرایا ہے تو پیٹ تو اپنا ہی ہے۔میرے ایک دوست کے والد جب پوچھو ہسپتال میں پائے جاتے ہیں بعد میں معلوم ہوا کہ موصوف دراصل ولیمہ خوری جیسی بیماری میں گِٹے گوڈوں تک پھنسے ہوئے ہیں۔ایسے لوگوں کی زبان کی لذت ،پیٹ کے بڑھتے گھیرے اور ہاتھوں کی آنیاں جانیاں روکنے کے لئے حکومت نے ؛ون ڈش ؛ کا قانون متعارف کرایا۔مگر ولیمہ خوروں اور بن بُلائے ولیمہ خور اِس قانون کو خاطر میں نہ لائے ،ویسے قانون کو کون خاطر میں لاتا ہے؟اُن کا شکوہ ہے کہ پہلے ون پونی ڈشیں کھانے کو مل جاتی تھیں اب ایک ہی ڈش پر گذارا کرنا پڑتا ہے۔ اِس حکومت کو ووٹ دیتے وقت ہم بھی سوچیں گے۔

ہمارے ایک مہربان جو کھانا کھانے میں اتنے مگن ہو جاتے تھے کہ نہ اردگرد کا ہوش ہوتا اور نہ اپنا ۔نان سٹاپ کھاتے تھے کئی بار جیب کٹی،کئی بارموبائل کڈ نیپ ہوا مگر اُن کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔اُن کا قول ہے کہ پیسے اور موبائل دوبارہ مل سکتے ہیں مگر اچھا ولیمہ قسمت سے ملتا ہے۔میں گلی محلوں میں پھکی اور معجون بیچنے والوں کو دیکھتا تو سوچا کرتا تھا کہ آخر یہ لوگ کیوں دندناتے پھرتے ہیں مگر جب ولیمہ خوروں کے بارے میں سوچا تو بات کھل کر سامنے آگئی کہ ولیمہ خور دراصل اِن ہی کے بل پر یوں ولیمہ خوری کرتے ہیں ۔

ولیمہ خوری کا شکار لوگوں سے کئی بار سوال کیا کہ آخر وہ لوگ اتنا زیادہ کیوں کھاتے ہیں؟اور کھاتے ہو تو پھر بن بلائے ولیموں میں کیوں شرکت کرتے ہو؟ پہلے تو وہ لوگ تھوڑے شرمندہ ہوتے ہیں پھر کھسیانی کھسیانی مسکراہٹ سے ،نپے تلے الفاظ کے ساتھ گویا ہوتے ہیں چور جیسے تھانیدار کے سامنے ڈرے سہمے لہجے میں بولتے ہیں ؛بات دراصل یہ ہے کہ جیسے ڈھول بجے توناچنے والے بے اختیار ناچنے لگتے ہیں اسی طرح ولیمے کا سُن کر ہم بے اختیار ہو جاتے ہیں وہ بلائیں یا نہ بلائیں ہم جیسے تیسے پہنچ جاتے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ہوتی کہ کھانا کیسے اور کتنا ہمارے پیٹ میں جا گھستا ہے اُس وقت ہم بے خود اور بے سُدھ ہوتے ہیں۔اُن کی ان معصومانہ باتوں پر بندہ نہ ہنس سکتا ہے اور نہ رو سکتا ہے-

دوستوں ! جب تک ولیمے ہوتے رہین گے تب تک بن بُلائے ولیمہ خور مفت کی اُڑاتے اور پیٹ کا دوزخ بھرتے رہیں گے۔اور ہم اِن پر یوں ہی لکھتے اور قلمکاری کی موشگوفیاں کاغذوں پر منتقل کرکے آپ تک پہنچاتے رہیں گے۔
Muhammad Kamran Shehzad
About the Author: Muhammad Kamran Shehzad Read More Articles by Muhammad Kamran Shehzad: 7 Articles with 5317 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.