سر زمین عرب سے اسلام کا سورج
طلوع ہوا اور پورے آفاق کو ایسا روشن و منور کیا کہ کردار چمکنے لگے، اخلاق
دمکنے لگے، افکار مہکنے لگے، دل ایمان کے نور سے آشنا ہوئے۔ اسلام نے فکر و
نظر کو بالیدگی عطا کی، پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے علوم و
فنون کے وہ اسرار و روامض واضح کیے جن کے تصور سے عقل و ذہن عاجز تھے۔ رحمت
عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ”علم“ کا مزاج عطا فرمایا اور کیوں نہ
ہو کہ علم کا نصیبا اسی بارگاہِ ناز سے چمکا، فکر کو دانش و فہم اسی ذات
پاک سے حاصل ہوئی، اور وہ ذات ایسی کہ جس کا پڑھانے والا رب کریم، اللہ
اللہ! قرآن مقدس خود ارشاد فرماتا ہے: اَلرَّحمٰنُo عَلَّمَ القُراٰنَ
”رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا“، اسی آفتاب فضل و کمال کی بارگاہ اقدس
سے روشنی ملی، انبیا بھی روشن ہوئے اور اتقیا بھی، امام محمد شرف الدین
بوصیری (م694ھ) فرماتے ہیں
فَاِنَّہ شَمسُ فَضلٍ ھُم کَوَاکِبُھَا
یُظھِرنَ اَنوَارَھَا لِلنَّاسِ فِ¸ الظُّلَم
ترجمہ: کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب فضل و کمال ہیں اور انبیائے
کرام ستارے ہیں جو اسی آفتاب کی روشنی انسانوں کو تاریکیوں میں دکھاتے رہے
ہیں۔
علم و حکمت کو آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مومن کی متاع
فرمایا ہے، اسی لیے مسلمان اس کے حصول میں سب سے آگے رہے ہیں، اور وہ علم
جو اسلام سے بے خبری کی بنیاد پر ہو اس سے متعلق مبلغ اسلام علامہ شاہ
عبدالعلیم میرٹھی رضوی لکھتے ہیں: ”حصول علم کی اس تمام جدوجہد کے باوجود
انسان صرف جزوی طور پر ہی کسی ایسی حقیقت کو پا سکتا ہے جس کا انکشاف حال
میں ہو رہا ہے یا ماضی میں ہو چکا ہے۔ مستقبل کے بارے میں وہ بالکل بے خبر
ہے۔ وہ استقرائی طریقے سے نتیجہ نکالنا چاہتا ہے مگر اس نتیجے پر خود اسے
مکمل یقین نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں علم ہیئت سے بھی مدد لینے کی کوشش کرتا
ہے مگر بے سود۔ ماضی، حال اور مستقبل کا جامع اور یقینی علم اس کے بس سے
باہر ہے۔“
قرآن کا تصور علم اس خامی سے مبرا ہے اور کامل، جس نے ماضی و حال اور
مستقبل کے وہ یقینی اصول دیے کہ عقل حیران و شش در ہے۔ وہ علم سائنس ہو یا
جغرافیا، علم ہیئت ہو یا زیجات، علم معاش ہو یا علم نفس، علم سماجیات ہو یا
علم اخلاقیات یا سیاسیات ہر ایک میں انسانی راہ نمائی قرآن نے کی ہے اور
انسانی فکر کو آوارہ و بے لگام ہونے سے بچایا ہے۔ مطالعہ کائنات کا تصور
کسی مذہب میں نہیں ہے یہ صرف اسلام میں ہے، اللہ کریم کا ارشاد ہے:
اِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ وَاختِلَافِ الَّیلِ وَ النَّھَارِ
وَالفُلکِ الَّتِی تَجرِی فِی البَحَرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَآ
اَنزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِن مَّآئٍ فَاَحیَا بِہِ الاَرضَ بَعدَ
مَوتِھَاوَ بَثَّ فِیھَا مِن کُلّ ِ دَآبَّةٍ وَّتَصرِیفِ الرِّیٰحِ وَ
السَّحَابِ المُسَخَّرِ بَینَ السَّمَآئِ وَالاَرضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَومٍ
یَّعقِلُونَ (سورةالبقرة:164)
”بے شک آسمانوں اورزمین کی پیدائش اوررات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ
دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اوروہ جو اللہ نے آسمان سے پانی
اتار کر مردہ زمین کو اس سے جلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے
اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کاباندھا ہے
ان سب میں عقل مندوں کے لیے ضرور نشانیاںہیں۔“ (کنزالایمان)
فکری وسعت سے بھر پور ضابطہ اس وقت پیش کر دیا گیا تھا جب آفاق و انفس کے
مطالعے کا تصور نہیں تھا.... اور انسانی فکر کو اسلام نے وہ بالیدگی عطا کی
جس سے مطالعہ سائنس کی راہیں ایستادہ اور ہم وار ہوئیں۔ جب کہ مذاہب عالم
”مذہب“ کہلاتے ضرور تھے لیکن اپنے خالق سے منکر تھے اس بنیاد پر وہ ”جہل
مرکب“ کا شکار تھے اور حقیقت میں وہ مذاہب ذہنی اختراع کا نتیجہ تھے اور
انسانوں کے تیار کردہ اس بنیاد پر وہ انسانی راہ نمائی سے قاصر تھے، اسلامی
مفکر علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی نے سچ ہی کہا تھا:
”رایل ایشیاٹک سوسائٹی آف سنگھائی( Royal Asiatic Society of Shanghai ) کے
ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میں نے واضح کیا تھا کہ سائنس اور مذہب کے
باہمی تضادکا مفروضہ صرف غلط فہمیوں کی بنیاد پر ہے اور مجھے انتہائی مسرت
ہوئی کہ میری اس بات کو غیر معمولی طور پر سراہا گیا۔ بلا شبہہ جن لوگوں کے
نزدیک مذہب اور سائنس کے مابین تضاد موجود ہے وہ حقیقتاً مذہبی نظریہ کو
غلط معانی دیتے ہیں، وہ در اصل مذہب نہیں ہے وہ دیومالائی قصے ہیں اور
توہمات کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب بہ ذات خود ایک سائنس ہے۔“
اسلام کی تعلیمات نے ذہنوں کو نئی راہ دی، اور فکری پستی کا خاتمہ کیا جس
سے سائنسی انداز فکر کو ترقی ملی، قرآن نے غور و فکر کی تعلیم دی، نظام
کائنات میں غور و فکر، اللہ کریم کی بنائی ہوئی اشیا میں غور و فکر....
آسمان بنایا وسیع و کشادہ.... سورج بنایا چمکتا اور روشن.... ستارے بنائے
جو شب کو جگ مگاتے.... چاند بنایا تاب دار و دمکتا اور تاریکی و دور
کرتا.... آفاق کا حسن.... پھولوں کی رنگینی.... چمن کی خوب صورتی.... افلاک
کی تابانی.... جھرنوں کی ترنم خیزی.... آب شاروں کی نغمگی.... پرندوں کی
مدح طرازی.... ہواؤں کی نغمہ ریزی.... بادلوں کا بننا.... آفاق پہ چھا
جانا.... بجلی کا کڑکنا.... بارش کا برسنا.... کھیتوں کا لہلہانا.... زمیں
کا سیراب ہونا.... ہر ایک میں نشانیاں ہیں، حکمت و تدبر کا پہلو ہے، اور
قرآن مقدس نے دعوت دی:
(الف) وَیُرِ یکُم اٰیٰتِہ لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ (سورة البقرة:73) ”اور
تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ کہیں تمہیں عقل ہو“ (کنزالایمان)
(ب) قَد بَیَّنَّا لَکُم الاٰیٰتِ اِن کُنتُم تَعقِلُونَ (سورة آل
عمران:118) ”ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنا دیں اگر تمہیں عقل ہو“
(کنزالایمان)
(ج) اِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ وَاختِلَافِ الَّیلِ
وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لّاُِولِی الاَلبَابِ (سورة آل عمران:190) ”بے شک
آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں
عقل مندوں کے لیے“ (کنزالایمان)
(د) وَلِیَعلَمُوآ اَنَّمَا ھُوَاِلٰہ وَّاحِد وَّلِیَذَّکَّرَ
اُولُواالاَلبَابِ (سورة ابراہیم:52)”اوراس لیے کہ وہ جان لیں کہ وہ ایک ہی
معبود ہے اور اس لیے کہ عقل والے نصیحت مانیں“ (کنزالایمان)
قرآنی بنیاد پر سائنسی موشگافی نے عربوں کو دنیا کا قاید بنا دیا۔ اس کا
اعتراف بے گانوں نے بھی کیا ہے، ہمبولیٹ (Humboldt) کہتا ہے: ”عربوں نے
دریائے فرات سے لے کر اسپین اور وسطی افریقا تک کی اقوام پر اپنا اثر و
رسوخ بڑھایا.... ان کی بے مثال علمی کاوشوں نے تاریخ عالم میں ایک یادگار
دور کا اضافہ کیا۔“
طلوع اسلام سے قبل یورپ اندھیروں کا مسکن تھا یہ اندھیرے علم سے نا آشنائی
کی بنا پر تھے، جس کے سبب انسانی قدروں سے وہ ناواقف تھے، اور انسان کہلاتے
ہوئے بھی حیوان سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور تھے، تمدن سے بے خبر اور
تہذیب سے عاری تھے، بریفالٹ (Briffault) لکھتاہے: ”سائنس عرب معاشرہ کی طرف
سے موجودہ دور کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے، اس کے اثرات بعد میں نمودار
ہوئے، عربوں نے اپنے عہد اقتدار میں جو عظیم کارنامے انجام دیے ان کے اثرات
اسپین کی ثقافت ختم ہونے کے بعد نمایاں ہوئے۔ یہ صرف سائنس ہی نہ تھی جس نے
یورپ کو نئی زندگی عطا کی بلکہ اسلامی تہذیب کے گونا گوں اثرات نے یورپی
زندگی میں روح پھونکنے کا کام کیا۔“
اہل یورپ نے اسلامی تہذیب کے مقابلے میں اپنی انسانیت سوز تہذیب کو رواج
دیا تا کہ مسلمان اپنے سنہرے دَور سے دور جا پڑیں، انھوں نے علم تو
مسلمانوں سے لیا اور تمدن اپنا رایج کیا.... اسی لیے علم آج زحمت بن کر رہ
گیا ہے، علم اور اسلام کے اخلاقی تمدن میں اتحاد کے سبب علم ”رحمت“ تھا اور
جب اسے اس اصول سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی تو علم تو موجود رہا مگر اخلاقی
اقدار زوال سے دوچار ہو گئیں.... اور یہی یہود و نصاریٰ کی سازش تھی، اقبال
نے مشاہدے کے بعد کہا تھا
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اسلامی نظامِ علم کی اساس پر جن مفکرین نے ایجادات و اختراعات کی دنیا میں
خوش گوار انقلاب برپا کر کے ذہنوں کو بالیدگی عطا کی اُن میں اِن اساطین کا
نام نمایاں ہے: ابنِ سینا، البیرونی، عبدالرحمن صوفی، عمر ابن خلدون، یعقوب
ابن طارق، مسلمہ المغربی، ابن ھشام، ابنِ رُشد، ابن ھیثم (الہیثم)، ابنِ
یونس، ابو نصر فارابی، جابر بن حیان، ابوبکر محمد ابن زکریا الرازی اور ان
جیسے بے شمار سائنس دانوں نے علم و فن کے اجالے برپا کیے.... چند ارباب علم
و فن کی شعبہ ہاے علم میں تحقیق کی اجمالی جھلک بہ طور مثال دیکھیں.... علم
طبیعیات (Physics) میں ابن الہیثم کا نام بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، اس نے
کرہ فضائی کے انعطاف کا نظریہ پیش کیا، علم بصارت میں نئے آفاق تلاش کیے،
رزنر(Risner) نے اس موضوع پر ان کی کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا جس
سے مغربی علما نے استفادہ کیا، اس نے علم و حرکت اور گرتے ہوئے اجسام کی
رفتار و جگہ اور وقت کے اصول پر بھی بحث کی.... جابر بن حیان جنھیں علم
کیمیا (Chemistory) کا بانی کہا جاتا ہے ان کے بارے میں ابن خلکان کی راے
یہ ہے: ”اس نے دو ھزار صفحات پر اپنا کام مرتب کیا جس میں اپنے آقا (امام)
جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے پانچ سو مسائل کا جواب تحریر کیا۔“.... تجرباتی
علوم میں مشاہدات کی اہمیت پر جابر بن حیان کا ایک اصول دیکھیں، وہ کہتے
ہیں: ”سب سے ضروری امر یہ ہے کہ عملی کام اور تجربات کرنے چاہئیں، چوں کہ
جو عملی کام نہیں کرتا اور نہ ہی تجربات کرتا ہے وہ منزل مقصود تک کبھی
نہیں پہنچ سکتا۔“.... راقم کی رائے یہ ہے کہ جابر بن حیان کی علمی بصیرت
امام جعفر صادق کی شاگردی کے سبب ہے اور بہ الفاظ دیگر یہ اہل بیت کا فیضان
ہے.... الرازی نے طب پر دو سو کتابیں لکھیں.... طب و حکمت کو اسلامی اسپین
میں جتنا فروغ ملا اس کی مثال نہیں ملتی.... علم الحیوانات میں الامیری کی
شہرت زیادہ ہے.... اسی طرح ارضیات، ہیئت، میڈیکل سائنس، معاشیات، ریاضی،
فلکیات، جیومیٹری وغیرہ کے بنیادی ضوابط بھی مسلم مفکرین کے ایجاد کردہ
ہیں.... جداول (Astronomical Table) میں ابوالوفا کا چرچا رہا ہے، اس علم
میں ماضی قریب کے اسلامی سائنس داں اور ماہر علم و فن امام احمد رضا کی
تحقیقات و تصنیفات بھی اہم حیثیت رکھتی ہیں.... اس نابغہ عصر نے علم و فن
کے 70 سے زیادہ شعبوں میں محیرالعقول کارنامے انجام دے کر بیسویں صدی میں
قرن اول کے اسلامی مفکرین کی یاد تازہ کر دی، جس پر آپ کی ہزار سے زیادہ
تصنیفات جن میں تقریباً نصف شایع ہیں شاہد ہیں۔
دوسری طرف مسند حدیث و افتا کے ذریعے روحوں کو اُجالنے اور نکھارنے والے
حکما جو اسلام کی شرعی حدود کے محافظ ہیں، نے بھی معاصر علوم میں موشگافی
کر کے یہ فکر دے دی کہ؛ ایک طرف ایک فرد دین کے علم کا ماہر ہو تو دوسری
طرف وہ دنیوی علوم میں بھی مہارت رکھتا ہو.... اور اسی اصول کی بنیاد پر جب
تک ارباب علم اسلامی سوسائٹی میں جنم لیتے رہے ملت اسلامیہ کو موثر قیادت
ملتی رہی اور ہم دوسروں کے محتاج نہ تھے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے
ایسی شخصیات جنھوں نے دین کے پلیٹ فارم پر کام کرتے ہوئے معاصر علوم میں
بھی سبقت حاصل کی، اور قوم کی راہ نمائی کی ان میں امام ابو حنیفہ، امام
غزالی، امام جلال الدین سیوطی، امام رازی، غوث اعظم محی الدین جیلانی، مجدد
الف ثانی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور امام احمد رضا بریلوی قابل ذکر
ہیں.... جن کی علمی خدمات سے اب تک اسلامی تاریخ کے صفحات روشن ہیں اور بے
گانوں کی نگاہیں بھی خیرہ ہو رہی ہیں.... ضرورت ہے کہ اسلاف کے کارہاے
علمیہ سے استفادہ کر کے قوم کی سر بلندی کے لیے کاوشیں کی جائیں، جن کی
بنیاد اسلامی اصول و ضوابط پر ہے، جن میں روشنی ہی روشنی ہے اور کام یابی
ہی کام یابی۔ اللہ کریم ہمیں فکری وسعت کے ساتھ بصیرت بھی دے.... |