بیٹیوں پر ظلم کی نئی داستان

کائنات کے وجود میں آنے کے بعد ہی سے بنت حوا ظلم کے پہاڑ تلے کراہتی رہی ہے۔بس کچھ آفاقی ادیان کے عروج کے زمانہ میں اُن کی سلطنت میں چین وسکون ملا یا کچھ اسکے نزدیک تر۔حجاج بن یوسف ہو یا عباسی خلیفہ کی مسلم خاتون کی داد رسی ‘یہ سب ملا کر چند ہی ایسے واقعات ہیں جو حقیقت میں اس کی فلاح اور درد کو محسوس کرکے اُٹھائے گئے۔وگرنہ یونان‘روم‘عراق‘اور دیگرممالک کی قبل مسیح کی تاریخ بھی عورت کی تذلیل کرتی نظر آتی ہے لیکن بغور مطالعے کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ جب تلک روم ویونان نے عورت کوعیاشی کا مرکز نہیں بنایااُن کی سلطنت کی بنیادیں قائم ودائم رہیں جوں ہی یہ عظیم سلطنتیں جنسیات کی جانب متوجہ ہوئیں ان کی عظیم الشان حکومتوں کی چولیں ہلنے لگیں اور بغیر کسی زلزلہ کے تباہ وبرباد ہوگئیں۔

فلورنس نائیٹ انگیل کو دنیا کی پہلی نرس ماناجاتاہے۔شاید یہ پیشہ اختیار کرتے ہوئے اُسے نتائج کی سنگینی کا اندازہ نہ تھاکہ اُس کے بعد میں آنے والی نرسوں کے ساتھ معاشرہ کیا سلوک روا رکھے گا۔اور وہ یقینا آفاقی مذہب کی حقانیت سے بھی بہرہ ور نہ ہوگی۔فارسی مصرعے کا مفہوم ہے

”خدمت میں عظمت ہے“۔لیکن حدودوقیود سے نکل کر خدمت بھی عذاب بن جاتی ہے۔اور عورت ومرد کا نکاح کے بغیر باہمی رابطہ انسانی معاشرے کیلئے سم قاتل ہے۔

جو کچھ منی پاکستان میں یا پنجاب میں نرسوں کے ساتھ کیا گیا وہ ہمارے معاشرے کی بے حسی کی منہ بولتی تصویرہے۔خصوصا کراچی میں جب نرسوں نے گورنر ہاﺅس کی جانب پیش قدمی کرناچاہی تو انہیں کسی عریاں فلمی سین کا حصہ بنا دیاگیا‘فلموں میں مصنوعی بارش کے ذریعے اداکارہ کو گیلا کرکے مخصوص مقاصد حاصل کیئے جاتے ہیں ۔اور یہ ایسے مناظرہوتے ہیں کہ بہن ‘بھائی یا باپ بیٹی اکھٹے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے (اگر باحیاہوں)۔

ممکن ہے گورنرہاﺅس کے اردگرد کے علاقہ کو ریڈزون قراردے دیاگیاہو۔لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جب مصرمیں امرائے سلطنت پر الزام لگتاہے کہ وہ غلام ہیں اور بغیر فروخت وآزاد ہوئے وہ حکومت کا حصہ نہیں بن سکتے تو وہ سربازار بکتے ہیں اور عدالتی حکم کی تعمیل کرتے ہیں ۔لیکن آج کی دنیامیں تو عینکیں بھی بلٹ پروف پہنی جاتی ہیں‘جب حکمرانوں کے خوف کا یہ عالم ہو گا تواُس دھرتی یا اُس ملک کے عوام کتنے محفوظ ہوں گے۔شیرخدا سے کسی نے پوچھا :آپ محافظ کیوں نہیں رکھتے؟ جواب ملا موت میری حفاظت کررہی ہے جب تلک اُس کا وقت نہیں آجاتا میں محفوظ ہی رہوں گا۔غیر ملکی سفیر آتاہے تو ٹیلے پر بے فکر لیٹے مسلمان خلیفہ سے کہتاہے آپ نہتے ہیں اور آپ کو خوف نہیں آتاجبکہ ہمارا حاکم تو درجنوں سپاہیوں میں بھی پرسکون نہیں ہوتا‘ تو اُسے بتایا جاتاہے کہ مسلمانوں کا خلیفہ عدل کرتاہے اس لیئے کسی سے خوف نہیں کھاتا سوا اللہ کے۔اور جسے اللہ کا خوف نہ ہو وہ تو ہوا سے ہلتے درختوں کے پتوں سے بھی خوف کھاتاہے‘وہ کبھی بھائی ‘باپ ‘بیٹی تو کبھی بیوی کی جان بھی لے لیتاہے۔

بہرطور پاکستان کی سپریم کورٹ نے نرسوں پر تشدد کے واقعات کا نوٹس تولے لیا اب دیکھنایہ ہے کہ قوم کی بیٹیوں کو نیم برہنہ کرنے والوں کو کیا سزا دی جاتی ہے۔ہر بار کالی وردی کو موردالزام ٹھہرانا درست نہیں ۔یہ تو حکم کے پابند ہیں۔ہرافسر کے اوپر ایک افسر ہوتاہے اور پھر آخری افسر کے اوپر کوئی لاڈلا حاکم جو گورنمنٹ سرونٹ نہیں ہوتا۔ہر بار صرف ملازم ہی کو کیوں سزاوار ٹھہرایاجاتاہے ‘جس زبان سے یہ احکامات جاری ہوتے ہیں اُسے کیوں نہیں سزا ملتی ۔ہربار آخرکیوں مظلوم لوگ ظالم ہی کو کیوں پارلیمنٹ بھیجتے ہیں۔ممکن ہے شاید تریسٹھ برس سے ہم اسی جرم کی پاداش میں قید بامشقت گزار رہے ہیں بغیر جیل اور ہتھکڑیوں کے۔یہ جدید قید ہے آپ بھی سمجھدار ہیں ہر بات کو کھول کے بیان کرناممکن نہیں ۔سیانے کہتے ہیں”اسب گول تے کجھ نہ پھول “لہذا ہم سیانوں کی باتوں پر عمل کریں کیونکہ ہمارے حاکم چاہے وہ گورنمنٹ افسر ہی کیوں نہ ہوں اپنے آپ کو اقتدار اعلٰی کا مالک سمجھتے ہیں اور اگر ہم نے بات کھول دی تو پھر کام خراب ہوجائے گا۔جیسے نرسوں کا ہوا۔بے چاری سرعام ذلیل ورسوا ہوئیں ‘اس بار نرسوں کوبھی سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اپنے رب کی ‘اپنے بھگوان کی ‘اپنے خالق کی مرضی کے مطابق کام کرتی ہیں۔۔۔لیکن سوچنے کی بات ہے اگر نرسوں کو چھوڑ بھی دیاجائے تو بھی اس معاشرے میں بنت حوا کے لیئے روز ظلم وزیادتی کی نئی داستان رقم کی جاتی ہے۔شاید مرد اسے اپنی سلطنت تسلیم کرتاہے اور یہ بھول جاتاہے کہ اُسے نکاح کے لائنسس ‘یا بیٹی ‘ماں کے ولی ہونے کے باوجود رب کریم کے احکامات کی بھی پیروی کرنی ہے ۔عورت کسی بھی روپ میں ہو اُس کی جاگیرہرگزنہیں۔اپنے حاکم کی استثنی پر باتیں کرنے والے حوا کی بیٹی کے حاکم بن جاتے ہیں او ر خود کو ہر آئین ‘قانون اور دینی احکامات سے ماوراتصور کرتے ہیں۔شاید ہمیں نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ کے اوپر بھی ایک طاقت ہے اور اُس سے برتر بھی ایک خالق کی طاقت ہے جب اُس نے نوٹس لے لیاتو پھر یاد رکھنے کی بات ہے ”کہ فطر ت جب انصاف پر اُترتی ہے تورحم نہیں کرتی“۔اللہ میرے وطن کو محفوظ رکھے اور ہمیں عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔امین۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188587 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.