ہنگری

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(Hungary)
( 4اپریل:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

”ہنگری “یورپ کے وسط میں واقع ہے۔اس کا رقبہ کم و بیش 36000مربع میل ہے جو 93000مربع کلومیٹر بنتاہے۔ہنگری یورپ کا ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں تاریخ میں کئی بار تبدیل ہوئیں،کبھی اسکی حدودمیں اضافہ ہوا توکبھی کمی دیکھنے میں آئی۔موجودہ ہنگری چاروں طرف سے خشکی میں گھراہوا ہے اس کے شمال میں سلواکیہ کاملک ہے،شمال مشرق میں یوکرائین کی ریاست ہے،مشرق میں رومانیہ واقع ہے ،جنوب میں یوگوسلاویہ اور کروشیا جیسے ممالک ہیں ،جنوب مغرب میں سلووینیا ہے اورمغرب میں آسٹریا واقع ہے۔نقشے پر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا جغرافیائی اعتبار سے کئی ممالک نے ہنگری کا محاصرہ کیاہوا ہے۔ساحلوں سے محرومی ہنگری کی محرومیوں میں سے ایک ہے۔”بڈاپسٹ“یہاں کا دارالسلطنت ہے جس کے بیچوں بیچ ہنگری میں بہنے والا مشہور دریاگزرتا ہے۔یہ شہر دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ ہنگری کی قومی ثقافت اور روزمرہ زندگی کا آئینہ دار بھی ہے ۔ہنگری کو انتظامی طور پر نو حصوں میں یا صوبوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔یہاں کی آب و ہوا خشک اور ٹھنڈی ہے ،سردیوں میں -4ڈگری اور گرمیوں میں 23ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت رہتا ہے تاہم کبھی کبھی بہت شدید قسم کی گرمی بھی پڑتی ہے۔فصلوں کے موسم میں قدرت یہاں بہت بارشیں برساتی ہے جس کی سالانی شرح 500سے 600ملی میٹر تک ریکارڈ کی جاتی ہے۔

ہنگری ایک زمانے میں سلطنت روما کا حصہ تھا،یہ چوتھی صدی عیسوی کی بات ہے ۔پھر آہستہ آہستہ رومی حکومت کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی توجرمانک قبائل کے لوگ یہاں قابض ہوگئے جن کے بعد کچھ عرصہ تک یہاں غلاموں کا کنٹرول بھی رہا۔اسکے بعد تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے تاریخ میں بہت سے قبائل اور گروہوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے یہاں حکومتیں کیں یا لوٹ مار کابازار گرم کیاتاآنکہ یہ خطہ بازنطینیوں کے زیرتسلط آگیا۔لیکن نہ معلوم کہ تب بھی بازنطینی حکمران یہاں مکمل اور مضبوط گرفت نہ رکھ سکے۔ سولھویں اور سترھویں صدی میں ہنگری ترک سلطانوں کے زیراثر آگےااور یہاں پر مسلمان حکومت کرنے لگے۔ترکوں نے ایک طویل عرصہ یہاں حکومت کی۔یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ کے بادشاہ تک جاہل ،ان پڑھ اور انتہائی بدتمیز ہوا کرتے تھے۔خود عیسائی مورخین نے وضاحت سے لکھا ہے کہ مذہب عیسائیت میں پڑھنے لکھنے کو گناہ قرار دینے کے باعث یورپ کابہت بڑا علاقہ اور بے شمار اقوام و قبائل جہالت اورگمراہی کے تاریک غار میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔عربوں نے اندلس میں اور ترکوں نے وسطی یورپ کے علاقوں میں علم کی شمعیں روشن کیں جن کی بنیاد پر آج کا یورپ تہذیب و تمدن کا گہوارہ نظر آتا ہے۔مسلمانوں کے جانے بعد صدیوں تک یورپی بادشاہوں نے مسلمانوں کی کتب کے تراجم کرائے اور تب ایک نئی سائنس کی بنیاد رکھی۔لیکن افسوس کہ یورپ اسلام سے محروم رہا اور صد افسوس کہ مسلمان اپنی علمی میراث سے محروم ہو گئے۔

ہنگری کی سب سے پہلی تاریخ عربی میں لکھی گئی اور مسلمانوں نے لکھی،یہ نویں صدی عیسوی کی بات ہے۔اصل ہنگری کے باشندے”فینو“نسل کے قبائل کی اولاد سے ہیں ،جن پر سب سے پہلے ترکوں کی زبان نے اپنے اثرات ڈالے۔ترکوں اور ہنگریوں کی تعلقات کی ایک طویل داستان ہے جو کہ قبل از اسلام کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔ابو حامد الغرناطی (متوفی 1170ئ)نے جو ایک فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاح بھی تھے انہوں نے اس وقت کے ہنگری میں تین سال گزارے اوریہاں کے حالات پر بہت عمدہ اورمفصل تحریریں لکھیں۔چوہدویں اور پندرویں صدی کے دوران ترکوں اور ہنگری کے بادشاہوں میں طویل مخاصمت رہی اور میدان جنگ آئے روز گرم کیے جاتے رہے۔ہنگری کے بادشاہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتے گئے اور قدرت عثمانیوں پر مہربان ہوتی گئی تاآنکہ سلطان سلیمان اول(1520-1566)نے ہنگری میں اپنی افواج داخل کر دیں اور1541ءمیں مسلمان سپاہ نے ہنگری کے دارالحکومت پر قبضہ کرلیا۔کم و بیش ساڑھے تین سو سالوں کے طویل اقتدار کے بعد بیسویں صدی کے آغاز میں یہاں اسلامی اقتدار کا سورج غروب ہوا اور کیمونسٹ اقتدار غالب آ گیا۔

ہنگری میں دوتہائی آبادی شہروں میں رہائش پزیر ہے،اس میں سے ایک تہائی تو صرف دارالحکومت میں ہی رہتی ہے جس کی بڑی وجہ اس شہر میں صنعتوں کی کثرت ہے جس کے باعث لوگوں کو روزگار آسانی سے میسر آجاتا ہے اور مصنوعات سستے داموں مل جاتی ہیں۔تاہم بڑے بڑے علاقوں کے مکینوں کی تعداد بھی 40,000سے کم ہے۔نوے فیصد لوگ یہاں کے مقامی ہنگری نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی مادری زبان”مگیار“بولتے ہیں۔اٹھارہ سال کی عمر سے زائد افراد کے لیے فوجی تربیت لازمی ہے ،یہ تربیت ایک سال سے کم مدت کی ہوتی ہے۔بیس فیصد لوگ زراعت سے وابسطہ ہیں جبکہ ہنگری کی دوتہائی زمین قابل کاشت اور زراعت کے لیے بہت مفید ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لوگوں میں زراعت کی طرف توجہ کم ہی رہی ہے،اسکے باوجود ہنگری اپنی خوراک میں خود کفیل ملک ہے۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے ہنگری کی حکومت نے گزشتہ کئی سالوں سے کارخانہ سازی پر خصوصی توجہ دے رکھی ہے اور زیادہ تر لوگ کارخانوں کے روزگار سے وابسطہ ہو گئے ہیں۔خوراک،تمباکو،لکڑی اور کاغذکی پیداوار میں ہنگری دنیا میں اپناایک نام رکھتا ہے۔اسکے علاوہ بھی بہت سی پیداواری اشیا ہنگری میں بنائی جاتی ہیں۔انڈسٹری کی معاونت کے لیے حکومت نے سڑکوں کا وسیع جال بچھایا ہے اور ریلوے کا بھی بہت نظام ہنگری کے اندر متحرک ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہنگری میں سوویت روس کانظام حکومت اپنایا گیا،جس میں ایک ہی پارٹی ملک کانظم و نسق سنبھالتی ہے۔1948میں کیمونسٹ پارٹی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے باہم اشتراک کیا اور مل کر ایک نئی پارٹی ”ہنگرین ورکرزپارٹی “بنالی جسے 1956میں ہنگرین سوشلسٹ ورکرز پارٹی کانام دے دیا گیا جبکہ باقی تمام پارٹیوں کو بزور ختم کردیاگیا۔1989ئ،سقوط ماسکو،تک یہ نظام چلتا رہا لیکن پھر افغان مجاہدین کے ہاتھوں کمیونزم کی بدترین شکست کے بعد پوری دنیا کی طرح ہنگری میں بھی روس کی باقیات ختم ہوئیں اور اکتوبر1989ءکو پرانے دستور میں ایک سو ترامیم کر کے تو اسے ہنگری میں نافذ کر دیاگیا۔اس نئی ترامیم کے مطابق ایک سے زائدپارٹیاں ملکی سےاست میں حصہ لے سکتی ہیں اور ملک میں نمائندہ جمہورطرزکی حکومت اور آزاد انتخابات کانظام قائم ہوا۔اس نئی ترامیم کے مطابق انتظامیہ اور مقننہ کو الگ کردیاگیااورآزاد عدلیہ قائم کی گئی۔اب ہنگری میں 386ارکان پر مشتمل منتخب پارلیمان ملک کے لیے قانون سازی کرتی ہے جسے 18سال سے زائد عمر کے مردو خواتین چارسالوں کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ مملکت کے لیے صدر ،سپریم کورٹ کے سربراہ اور دیگر انتظامی و جمہوری اداروں کے نگرانوں کا تقرر بھی پارلیمان ہی کرتی ہے۔وزیراعظم اور وزرا مملکت کا انتخاب بھی پارلیمان میں سے ہی ہوتا ہے جبکہ صدر پانچ سالوں کی دو مدتوں تک منتخب ہوسکتا ہے اورآئین کے مطابق صدر مملکت ہی ملکی افواج کا آئینی سپہ سالار ہوتا ہے ۔اس وقت ہنگری میں کم و بیش دو سو پارٹیاں سیاست میں حصہ لے رہی ہیں لیکن ان میں سے صرف چھ کے نمائندے ہی ایوان تل پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

1948میں جب ہنگری کے اندر سوویت روس کا نظام اپنایا گیا تو تمام سکولوں کوبھی قومیالیاگیا،اب اگرچہ وہاں نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن بہت کم،ملک میں جامعات بھی ہیں لیکن زیادہ تر کالجز ہی درجہ تخصص تک تعلیم فراہم کرتے ہیں۔یہی صورتحال صیغہ صحت کے ساتھ بھی ہے کہ تمام اسپتال گورنمنٹ کے ہی تھے لیکن اب بہت سے نجی اسپتال بھی وہاں عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔1990کی قانون سازی کے بعد سے یہاں مذاہب کو آزادی دی گئی ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف عیسائی اکثریت کا تعصب ابھی بہت کچھ باقی ہے۔اگرچہ ہنگری کی مسلمان لابی حکومت کے ایوانوں میں بھی اپنا اثرورسوخ رکھتی ہے لیکن اسے بہت مشکلات کا سامنا ہے ۔دارالحکومت کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود انہیں اپنی مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے۔یورپی ممالک کی مسلمان تنظیمیں اب اس طرف پوری طرح متوجہ ہیں کہ ہنگری کے مسلمانوں کو انکے جائز حقوق جو کہ ہنگری کے دستور میں درج ہیں انکو دلوائے جائیں۔انہیں مسلمان تنظیموں کے نمائندے وقتاََ فوقتاََ ہنگری کا دورہ بھی کرتے ہیں لیکن مذہبی بنیادوں پر عیسائی برادری اور سیاسی بنیادوں پر اشتراکی فکر کے حامل کیمونزم کی باقیات مسلمانوں کے شدید مخالف ہیں کیونکہ کیمونزم نے ماضی قریب میں اسلام کے ہاتھوں ہی بدترین شکست کھائی ہے۔یہ عجیب طرزتعامل ہے کہ ہنگری کے لوگوں کو جہاں مسلمانوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر انکا مشکور ہونا چاہیے کہ جہاد افغانستان کے باعث ہنگری کو ایک فاشسٹ نظام سے آزادی ملی ہے اورآج ہنگری ایک جمہوری ریاست کے طور پر اپنی آزاد شناخت رکھتا ہے اس کے برعکس وہاں مسلمان مشکلات کا ہی شکار ہیں۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 572760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.