قرآن پاک کی آیت مبارکہ، انما
المومنون اخوۃ کے مطابق تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان سب کا
دکھ درد اور ان کے مسائل ایک ہیں لہذا زیر نظر آرٹیکل میں میں نے امت مسلمہ
کے مسائل اور ان کے حل کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا ہے جو قارئین کے لیے
یقینا مفید ثابت ہوگا-
امت کے مسائل کی فہرست یوں تو بہت طویل ہے جن میں سے کچھ مسائل یہ ہیں؛
۱۔ دین اسلام سے دوری
اسلام ایک ایسا دین ہے جسے دین فطرت کہتے ہیں اسلام کسی انسان کا بنایا ہوا
نظام نہیں ہے یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے مگر افسوس صد افسوس۔۔۔ کتنا بڑا
المیہ ہے کہ آج اس مکمل نظام اور بے مثال دین کے پیروکاروں پر عرصہ حیات
تنگ ہوتا چلا جا رہا ہے اس وقت پوری دنیا کے اسلامی ممالک اور ان میں بسنے
والے مسلمان گوناگوں مسائل کا شکار ہے اس وقت دنیا میں اگر کوئی قوم سب سے
زیادہ مظلوم ہے تو وہ مسلمان قوم ہے دنیا میں اگر کسی قوم کا خون سستا ہے
تو وہ مسلمانوں کا ہے-
مسلمانوں کے ساتھ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے جتنے ذلیل ہو رہے ہیں اس کی اصل
وجہ مذہب سے روگردانی ہے،امت کی موجودہ تباہی،ذلت اور خواری کی سب سے بڑی
وجہ دین سے بغاوت اور اللہ کے دشمنوں سے دوستی ہے، امت مسلمہ کی ذلت کی سب
سے بڑی وجہ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی سے روگردانی ہے،اللہ کی کتاب قرآن
کے احکامات پر عمل کرنے کی بجائے اسے صرف تبرک کی کتاب بنا دیا گیا ہے،امت
کی خواری کی اصل وجہ یہی ہے۔
ایک باوقار زندگی گزارنے کے لیے مسلمانوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات کی طرف
رجوع کرنا ہوگا،غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کائنات کی تمام تخلیقات خالق
کائنات کی پیروی کر رہی ہیں،مسلمان امت کی نجات کا اصل راستہ وحی الہی کی
پیروی میں ہے،اللہ سبحانہ و تعالٰی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
احکامات کی پیروی ہی میں ممکن ہے۔اللہ کی کتاب قرآن پاک کی ہدایات کو پڑھ
کر ان کو اپنی زندگی میں عملی طور پر اپنانے ہی میں امت کا عروج پوشیدہ
ہے،اس عظیم الشان کتاب کو محض تبرکا پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں جبتکہ اس کو
معاملات،اخلاقیات،ریاست ومعیشت میں قانونی حیثیت نہ دی جائے۔
۲۔ اتحاد کی کمی
وہ دین جو بڑی شان سے عرب سے نکلا تھا وہ آج دنیا میں غرباء کی سی زندگی
گزار رہا ہے اور اس کا اصل سبب امت مسلمہ کی آپس کی نااتفاقی ہے،۱۹۲۴ میں
مسلمانوں کی روحانی طاقت خلافت کا خاتمہ کیا گیا جس کی وجہ سے امت آج ۵۶
ریاستوں میں بٹ چکی ہے فرقہ پرستی اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے،ہر مسلمان
حکمران صرف اپنی ریاست کی بہتری کا سوچتا ہے تمام اسلامی ممالک آج استعماری
قوتوں کے مظالم کا شکار ہیں،کشمیر ہو کہ فلسطین،عراق ہو یا
افغانستان،صومالیہ ہو یا پاکستان۔۔۔ہر ایک ریاست حکمرانوں کی آپس کی نا
اتفاقی کی وجہ سے ذلیل و خوار ہے۔ مسلمان حکمران اور عوام دونوں امت کے
اجتماعی مفاد پر انفرادی مفاد کو ترجیح دے رہیں ہیں۔
مسلمان امت نااتفاقی کی اس دلدل سے نکل سکتی ہے اگر وہ فرقہ پرستی کا خاتمہ
کر کے اتحاد اور یکجہتی کے شعور کو فروغ دے،سب سے پہلے اپنا وطن کے نعرے کو
چھوڑ کر مظلوم مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں کا ساتھ دے،اغیار سے وفاداری کی
بجائے مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لیے متحد ہوں مسلمان حکمرانوں کو نسلی ،لسانی
اور جغرافیائی امتیازات سے نکل کر آفاقی تصور کو اپنانا ہوگا،امت کے ہر خطے
کے مسلمان کا درد محسوس کر اس کے حل کے لیے باقی حکمرانوں کو ساتھ مل کر
کام کرنا ہوگا،حکمرانوں کا مکمل اتحاد ہی باطل کے منصوبوں کی ناکامی کا سبب
بن کر امت کو ماضی جیسا عروج دے سکتا ہے۔
۳۔مسلم ممالک پر مغربی تہذیب کے اثرات
مسلم امت کا تیسرا بڑا مسئلہ مغربی تہذیب کے زیر اثر آجانا ہے آپس کی نا
اتفاقی اور روپے پیسے کی فراوانی نےمسلمانوں کو اسلامی تہذیب و ثقافت سے
ہٹا کر مغربی کلچر کا پیروکار بنا دیا ہے،مغربی تہذیب کی چکا چوند
نےممسلمانوں کومادیت پرستی کا پیروکار بنا دیا ہے،اقوام مغرب کے کھوکھلے
مذاہب جس میں نہ تو ہدایات ہیں اور نہ انسانیت کی حقیقی رہنمائی،مسلمان اسی
تہذیب کے پیچھے چل پڑے ہیں،مغربی تہذیب کی گمراہ کن تعلیمات اور بے دین
فلسفوں میں آج کا مسلمان اپنی نجات تلاش کر رہا ہے،اسلامی کلچر کی سادگی کو
چھوڑ کر مغربی اقوام کی پر تکلف اور عیاش طرز زندگی اپنا چکا ہے،علوم
اسلامیہ کے حصول،اسلامی لباس ،عربی زبان کو دقیانوسی جان کر اس سے بغاوت کر
چکا ہے،ترقی اور کامیابی کا راستہ صرف مغربی تہذیب اور مغربی علوم کو ہی
مانا اور سمجھا جاتا ہے۔
کوئی بھی قوم اپنی ثقافت کو اپنا کر ہی لازوال شناخت پا سکتی ہے،مسلمان امت
اگر اپنا کھویا مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کو وحی الہی کی دی
گئی ثقافت کو ترقی دینے ہوگی،عیاشی،فحاشی،پرتکلف اور بناوٹی زندگی کی بجائے
اسلام کی سادگی کو اپنانا ہوگا۔
اسلامی تہذیب و ثقافت،اسلامی اقدار،اسلامی ادب جس میں عربی زبان خصوصی طور
پرشامل ہے،کو رواج دینا ہوگا،مغربی نظام کے گمراہ کن فلسفوں اور تعلیمات کو
ترک کرنا ہوگا۔
۴۔ دیانتدار لیڈرز کا فقدان
عالم اسلام کا ایک اور بڑا مسَلہ دیانت دار حاکموں کا فقدان بھی ہے جب رہبر
رہزن بن جائے تو قافلے کبھی منزل کا پتہ نہیں پا سکتے اس وقت دنیا میں ۵۶
سے زائد اسلامی ممالک ہیں لیکن بدقسمتی سے ان ممالک کی بھاگ دوڑ ایسے
حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہیں جو عالمی طاقتتوں کا آلہ کار ہیں -
وطن عزیز پاکستان کی مثال ہی لے لیجیے کہ اس نظریاتی مملکت کو ۶۰ سال سے
زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک مخلص حکمران نہ مل سکے،ڈکٹیٹرز اور
جمہوری حکمران اس کو مسلسل لوٹ رہے ہیں،تمام امت پر کرپٹ اور درد دل سے
عاری حکمران مسلط ہیں،اسی طرح مصر،تیونس،لیبیا،یمن ،شام اور اکثر مسلم
ممالک طویل عرصے سے ایسے حاکموں کے ماتحت ہیں جو صر باطل کی خوشنودی کے لیے
اپنے ہی لوگوں کا خون بہا رہے ہیں،ان حکمرانوں کی وفاداریاں اسلام دشمنوں
کے ساتھ ہیں،اپنے مسلمانوں کے ساتھ ان کی غدداریاں کسی سے چھپی نہیں ہیں۔
عالم اسلام اگر اپنے مسائل کا سنجیدہ حل چاہتا ہے تو اس کو اپنے لیے مخلص
حکمرانوں کا انتخاب کرنا ہوگا ،نظام خلافت کو دوبارہ سے قائم کرکے آمریت کا
خاتمہ کرنا ہوگا،حکمرانوں کے چناؤ میں دینداری اور دیانتداری کی خصوصیات کو
مدنظر رکھنا ہوگا،سال ہا سال سے مسلط حکمرانوں کو جڑ سے اکھاڑ کر مخلص
لوگوں کے انتخاب کرنے سے ہی کرپٹ اور غددار آمروں سے نجات مل سکتی ہے اور
یہی امت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ممد و معاون ہوگا۔
۵۔شعبہ تعلیم
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے تعلیم ایک بنیادی ضروت ہے جدید دور میں وہ
اقوام ترقی پر ہیں جو تعلیم کے میدان میں آگے ہیں اس لیے کسی بھی ملک کے
تعلیم یافتہ ہونے کے لیے ضروری ہیں کہ اس ملک کا تعلینی معیار بلند ہو،جبکہ
اگر دیکھا جائے تو مسلم امہ معاشرے کے اس پہلو کی طرف بالکل توجہ نہیں دے
رہی اور اسلامی ملک میں معیار تعلیم بہت پست ہے،اس کی سب سے بڑی وجہ نصاب
تعلیم کی کمزوریاں بھی ہیں مسلمان ممالک میں پڑھایا جانے والا نصاب دین و
دنیا دونوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی
صلاحیتوں کو دیکھے بغیر انہیں مختلف شعبوں میں زبردستی پڑھانے پر مجبور کیا
جاتا ہے-
طبقاتی نظام تعلیم ایک اور بڑا سبب ہے اردو اور انگلش میڈیم سکولز نے
مساوات کا خاتمہ کر کے طبقاتی نظام رائج کر دیا ہے اسی طرح دینی اور دنیاوی
علوم میں تفریق بھی موجود ہے جس نے امت کو ڈاکٹرز، انجینئرز،سیاستدان اور
حکمران تو دیے مگر ان میں دیانت داری،اخلاص ،تقوی اور مسیحائی کی صفات آج
تک نہ پیدا کرسکا۔
اسلامی نظام تعلیم کے ذریعے مسلم معاشروں میں کردار سازی کا کام کیا جائے
تعمیر سیرت کے کام پر توجہ دی جائے اور زندگی کےہر شعبہ میں ایسے افراد تیا
رکیے جائے جو دین کے لحاظ سے مستحکم ہوں جو اللہ کا خوف رکھنے والے ہوں-
ایسے افراد زندگی کی جس شعبہ میں جائیں گے خواہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا
شعبہ ہو یا معیشت و سیاست کا،وہاں ایک نمایاں تبدیلی آئی گی،نظام تعلیم کے
نصاب کو دینی و دنیاوی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے ،طبقاتی نظام تعلیم کا
خاتمہ کرکے تعلیم کو عام اور سستا کیا جائے،اخلاقی اقدار کو نصاب تعلیم کا
لازمی حصہ بنادیا جائے،مدارس اور سکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب وقت کے
تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے،ایسا ہی ایک جامع نظام تعلیم امت کو ہر لحاظ سے
قابل افراد دے کر ہمیں اس ذلت کی دلدل سے نکال سکتا ہے
۶۔ جہاد سے روگردانی
امت مسلمہ کا ایک اور بڑا مسئلہ جہاد سے روگردانی بھی ہے مسلمان، استعماری
طاقتوں کے ہتھیاروں کے رعب میں آچکے ہیں ،توکل علی اللہ کا درس بھول کر صرف
ہتھیاروں پر بھروسہ کرنے لگے ہیں-
غیر مسلم اقوام کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوکر اس میں اس بری طرح خود کو
پھنسا کر ان کی ثقافت کے خلاف جہاد کرنا بھول چکے ہیں اسی طرح مرکزی حکومت
خلافت کے خاتمے سے مسلمان ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں اس تقسیم نے ان کے اجتماعی
دفاع کے تصور کو ختم کردیا ہے ہر مسلمان ریاست جہاد کی اصل روح سے غافل
ہوچکی ہے،مادیت پرستی اور موت کی محبت نے مسلمان کو جہاد سے دور کر دیا ہے۔
جہاد مسلمان امت کی روح ہے جس میں امت کے عروج کا راز پوشیدہ ہے،مسلمان امت
موجودہ ذلت اور غلامی سے جہاد کے راستہ سے ہی نکل سکتی ہے۔
امت کے حکمران اتحاد کے ذریعے اپنی افواج مقبوضہ مسلمان علاقوں کو استعمار
سے آزاد کرانے کے لیے سنجیدگی سے قدم اٹھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اس
ذلت سے آج ہی نکل جائیں،مسلمان امت کو مرکزی فوج بنانے کی ضرورت ہے جو
مقبوضہ مسلمان ممالک کو ظلم سے نجات دلاسکیں،جہاد کا درس عام کیا جائے اور
اس کے لیے معیشت میں خصوصی حصہ مختص کیا جائے،جس سے لوگوں کو جہاد میں حصہ
لینے کی ترغیب ملے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی امت پر خصوصی رحم فرمائے۔آمین |