ائمہ اور خطباء اصلاح و تبدیلی کے مضبوط ستون

ڈاکٹر صلاح الدین سلطان
شرعی مشیر بیرائے اسلامی امور۔ مملکت بحرین

میں اس وقت اصلاح و تبدیلی کے دس نکات پر گفتگو کروں گا۔

پہلا نکتہ: یہ ہے کہ مساجد کی زیارت کے بجائے مساجد کو آبادکرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ ( اور ہم یہ بتا چکے ہیں کہ مساجد کو آباد کرنے سے ہماری مراد عددی اور نوعیتی دونوں ہی پہلو ہیں) صحیح بات یہ ہے کہ اس مقام پر ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم خاص طور پر علماءکرام سے خطاب کریں۔ کیوں کہ وہ اس تبدیلی کی اساس ہیں۔ وہ مسجد کے قائد اور امام ہیں۔ یہ جمعہ، عیدین اور دیگر مواقع جیسے وفات، تفریح، خوشی وغیرہ کے مواقع پر لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ ائمہ کرام ہمارے عزیز بھائی اور اصلاح کے نقیب ہیں۔

علماءکرام آبروئے شہر ہیں اگر نمک ہی خراب ہو جائے تو مزہ کون درست کرے گا؟

اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ ذمہ داری دی گئی ہے، اس بات کو مختلف آیات ونصوص میں ہمارے لئے بیان کیا گیا ہے ”اللہ تعالٰی تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات کو بلند کرتا ہے“ ۔” اللہ کے بندوں میں سے علماءہی اللہ سے ڈرتے ہیں“۔ ”اللہ گواہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ملائکہ اور اہل علم انصاف پر قائم ہیں، نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے،وہ غالب اور بڑی حکمت والا ہے“

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات یہ ہونی چاہئے کہ ہم نوکری نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ہم داعی ہیں، پیغام رساں ہیں، ہم ایک پیغام کے حامل ہیں، ہمیں ایک امانت سپرد کی گئی ہے ، کبھی مسجدوں میں جا کر اور امامت کرکے ، اور ہر جمعہ کو خطبہ کے ذریعہ ہفتہ واری دروس کے ذریعہ لوگوں کی ازدواجی پریشانیوں کو حل کرکے، اولاد کی مشکلات جو ان کے والدین کے ساتھ ہیں اور معاشی دشواریاں، اداروں کے درمیان اختلاف ، خاندانی اختلافات کو دور کر کے ۔

میں اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ ہر امام چاہے نہ چاہے بے انتہا مشغول ہوتا ہے، اس لئے کہ لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور اس احساس کے ساتھ آتے ہیں کہ یہ حضرات ان کی روز مرہ کی مشکلات سے چھٹکارا دلانے میں ایک بڑا جز ہیں اور یہ کہ یہ حضرات ان کو مشکلات کے حل کے لئے بہترین رائیں پیش کرسکتے ہیں اور اس پر ان کو قدرت ہے۔

ہروقت اس خیال کا استحضار رہنا چاہئے کہ ہم اللہ تبارک و تعالٰی کے بندے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے علوم شرعیہ یعنی قرآن وسنت کے علم سے نواز کر ہمیں اپنے دیگر بندوں میں اعزاز عطا کیا ہے ، لہذا ہم ایک نمونہ بنیں اور اس نیّت کے استحضار کے ساتھ اللہ تعالٰی کے اس فرمان کو بھی یاد رکھیں ”اے ایمان والو تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے، اللہ تعالٰی کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر خود عمل نہیں کرتے“ ۔ اور اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ”تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو “ نیز اللہ تعالٰی کا فرمان ہے ”و ما ارید ان اخالفکم الی ما انہاکم عنہ“ (اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں)۔

ایک صحابی رسول فرماتے ہیں کہ جب جب میں نے امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ کیا تو ان آیات کو ضرور یاد کیا۔ مجھے امید ہے کہ ہم بھی ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ہمیں خشیتِ قلبی اور دلیل شرعی کا استحضار ہونا چاہئے تاکہ ہم اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کر سکیں ، اور لوگوں پر دین کو گڈ مڈ نہ کریں ، اور اللہ تعالٰی کے دین میں کوئی نئی بات نہ پیدا کریں۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے بعض ائمہ اپنے سبق کو بھول گئے، وہ علم سے اپنا رشتہ برقرار نہیں رکھتے۔ علم کے لئے سب سے بڑی آفت اس کو چھوڑ دینا ہے۔ پھرجب ایسے شخص سے کوئی سوال کیا جاتا ہے اور وہ اس سوال سے متعلق پہلے پڑھ چکا ہوتا ہے لیکن اس وقت اس کی معلومات میں الجھاؤ ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ اس سوال کا جواب دیتا ہے اور صرف اس لئے دیتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ اسے اس معاملہ سے متعلق علم نہیں ہے ۔

امام مالک ؒفرماتے ہیں کہ کوئی عالم ”لاادری“ (یعنی میں نہیں جانتا) کہنا چھوڑ دے توگویا یہ اس کی ہلاکت ہے۔ مراکش سے ایک آدمی طویل سفر کر کے امام مالکؒ کے پاس آیا اور اس نے ان سےچالیس سوالات کئے لیکن امام مالکؒ نے ان میں سے صرف چار سوالوں کے جواب دیے دیگر سوالوں سے متعلق فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ اس شخص نے کہا کہ آپ امام مالک ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میں نہیں جانتا، تو امام مالک ؒ نے کہا کہ تمہیں کس نے یہ بتا دیا کہ میں ہر چیز جانتا ہوں ۔

ہاں، ہمارے یہاں کچھ ایسے امام بھی ہیں جو ہر بات کا جواب دیتے ہیں، ہر مسئلہ پر فتویٰ دیتے ہیں ، اللہ تعالٰی ہمیں ایسا کر نے سے محفوظ رکھے۔ جب انسان یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا تو اللہ تعالٰی کے نزدیک اس کا مقام و مرتبہ بلند ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالٰی لوگوں کے درمیان بھی اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔

لہذا امام اور عالم کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر قلبی خشیت ہو۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے” اے نبیؐ، ان سے کہو “تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرا لیا!" اِن سے پوچھو، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟ “۔

محترم ائمہ کرام مجھے امید ہے کہ ہمارے اندر بھی وہی خوف ہوگا جو خوف صحابہ کرام ؓمیں تھا کہ جب ان میں سے کسی ایک سے سوال کیا جاتا تو وہ دوسرے کی طرف منتقل کرتا اوردوسرا تیسرے کی طرف اور اسی طرح چوتھے پانچویں کی طرف حتی کہ مسئلہ دوبارہ پہلے کے پاس آجاتا۔ وہ اللہ تعالٰی کے دین میں کوئی فتویٰ دینے سے ڈرتے تھے۔

ابن قیم ؒفرماتے ہیں کہ فتویٰ کی کثرت یا تو علم کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے یا علم کی کمی کی وجہ سے ۔
ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص ہر چیز سے متعلق فتویٰ دیتا تھا۔ ایک بار کچھ لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اس شخص سے ہم اس سے کسی ایسے لفظ کا معنی پوچھیں گے جو زبان میں موجود ہی نہیں ہےچنانچہ انہوں نے ایک لفظ "الخنفشار" وضع کیا اور اس سے پوچھا جناب عالی عربی لفظ "الخنفشار" کا معنی کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، "الخنفشار" وہ چیز ہے جس سے کوئی چیز بندھی ہوتی ہے، عربوں کا مقولہ ہے
لقد عقدت محبتکم فوادی کما عقد الحلیب الخنفشار
تمہاری محبت نے میرے دل کو اس طرح باندھ دیا ہے جیسے کہ دودھ "الخنفشار" کو باندھ دیتا ہے۔ وہ اپنی طرف سے معنی گھڑنے میں بہت مشاق تھا کیوں کہ "الخنفشار" کے لفظ کا عربی زبان میں کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔

امام حسن بصریؒ اور امام شعبیؒ

اصل بات یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ کی خشیت ہو اور وہ بغیر علم کے کوئی جواب نہ دے۔

علماءکرام کے لئے قلبی خشیت کا ہونا از حد ضروری ہے خصوصا امت کی نجات کے کاموں میں کیونکہ جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ امام کسی چیز سے متعلق فتوی دیتا ہے لیکن خود اس کا عمل اس کے خلاف ہے یا یہ کہ وہ ہر چیز سے متعلق فتوے دیتا ہے یا کسی مسئلہ میں اس کا عمل صحیح نہیں ہے یہ معاملہ اس بات کےلئے کافی ہے کہ لوگ امام سے دور ہوجائیں۔ امام لوگوں کی خوشی کی فکر نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالٰی کی خوشنودی کے لئے کوشش کرتا ہے۔ عراق کے گورنر عمر بن ہبیرہ نے امام حسن بصری اور امام شعبی کو بلا بھیجا۔ وہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒکے انتقال کے بعد ان سے کسی چیز سے متعلق فتوی پوچھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا تھا کہ عمر بن عبد العزیز ؒ وفات پا چکے ہیں اور اب ان کی جگہ پر ولید بن عبد الملک مسلمانوں کا خلیفہ ہے۔ ہمیں اللہ تعالٰی نے خلیفہ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ پر اب کیا کیا جائے؟ کیونکہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے ایسے خطوط آتے ہیں جن میں سے کچھ باتیں اللہ کی رضا والی ہوتی ہیں اور کچھ اس کی ناراضگی والی۔ میں ایسے میں کیا کروں؟

تو امام شعبی ؒنے ایسی بات کہی جس میں ولید بن عبد الملک کے لئے مہربانی تھی اور عراق کے گورنر عمر بن ہبیرہ کے لئے بھی نرم بات تھی۔ پھر اس نے اس کو والی بنا دیا، اس کے علاقہ گورنری میں اور اضافہ کر دیا اور خراسان ، ایران اور دیگر علاقوں کو بھی اس کے ماتحت کردیا۔

نتیجہ کیا ہوا؟ جب امام شعبی ؒاس گفتگو سے فارغ ہوئے جس میں درمیانی راہ کی بات کہی گئی تھی تو امام حسن بصری کی باری آئی۔ عمر بن ہبیرہ نے ان سے پوچھا امام آپ کیا فرماتے ہیں؟

حسن بصری ؒ نے عمر بن ہبیرہ سے کہا کہ اے ابن ہبیرہ ولید کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرو، ولید کے معاملہ میں اللہ سے خوف کرو نہ کہ اللہ تعالٰی کے حکم کے بارے میں ولید سے ڈرو، اے ابن ہبیرہ اللہ تعالٰی تجھے ولید سے بچا لے گا لیکن ولید تجھے اللہ تعالٰی سے نہ بچا سکے گا۔ اے ابن ہبیرہ اس دن سے ڈر جس دن کہ تو تنہا ہوگا اور تیرے نیک اعمال کے سوا تیرے ساتھ کوئی نہ ہوگا۔ اور پھر حسن بصری ؒاس کو نصیحت کرتے رہے یہاں تک کہ وہ رو پڑا اور حسن بصری ؒکو قریب کیا گیا اور شعبی ؒکو دور کر دیا گیا، لوگوں نے پوچھا کہ کیا بات ہوا ؟

جب لوگوں نے سوال کیا تو امام شعبیؒ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اللہ تعالٰی انہیں بہترین جزادے۔ ایسا کرنے والے لوگ بہت کم ہیں، انہوں نے کہا کہ ابن ہبیرہ نے مجھے اور حسن بصری کو بلایا اور ہم سے سوال کیا تو میں نے ایسی گفتگو کی جس میں امیرالمومنین اور ابن ہبیرہ دونوں کے لئے نرم گوشہ تھا۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ اس طرح میں ان دونوں کی رضا مندی حاصل کر لوں گا لیکن اللہ نے ان کی رضا مندی سے مجھے دور کر دیا۔ امام حسن بصری نے اپنی گفتگو میں اللہ تعالٰی کی رضامندی طلب کی تو اللہ نے انہیں اس سے قریب کر دیا اور قسم خدا کی انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے میں نا واقف تھا۔ یعنی حسن بصری نے جو گفتگو کی اس سے وہ واقف تھے لیکن بہادری یہی ہے کہ انسان حق بات کہے اور لوگوں کے سامنے حق کا اعلان کرے لیکن ایسی شجاعت نا درونایاب ہے۔ اسی سے متعلق احمد شوقی نے کہا ہے :
إن الشجاعة في القلوب كثيرة .. ورأيت شجعان العقول قليل
بے شک دل میں بہادری تو بہت ہوتی ہے لیکن میں نے ایسے لوگوں کو بہت کم پایا ہے جو عقلی طور پر بہادر ہوتے ہیں۔

عقلی طور پر بہادر
ذہنی طور پر بہادر وہی لوگ ہیں جو وہی بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں ہوتی ہے وہ لوگ حق کو چھپاتے نہیں ہیں اور وہ ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ حق یہ ہے، ائمہ کرام سے بھی میری خواہش ہے کہ وہ اس حق کا اعلان کریں، وہ ہمارے ان فلسطینی بھائیوں کے حق کا اعلان کریں جو صہیونی غاصبین کا مقابلہ کر رہے ہیں، میں یہ چاہتا ہوں کہ ائمہ کرام یہ اعلان کریں کہ یہ گھناونا حملہ امت کے مسلمات پرہے، قرآن و سنت پر ہے، صحابہ پر ہے، ہماری فقہی تاریخ پر ہے،بلکہ ہماری پوری اسلامی تاریخ پر ہے۔

میں یہ چاہتا ہوں کہ ائمہ کرام اس بات کا اعلان کریں کہ یہ بے لگامی جو ہمارے اسلامی ممالک میں رائج ہو رہی ہے اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، ائمہ کرام اس بات کا اعلان کریں کہ دشمنان خدا کے تئیں اطاعت شعاری اور ان کی فرما نبرداری قطعا جائز نہیں، نہ تو شریعت اس کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی عدل پرمبنی سیاست۔

اس بات کا اعلان کریں کہ یہ گھٹیا فلمیں دین و اخلاق ، تخلیقی صلاحیت اور ہر چیز کو بربادی کی طرف لے جارہی ہیں،یہ نوجوان لڑکوں، لڑکیوں اور مرد و خواتین کی صورتوں کو بد نماکر رہی ہیں۔

میں چاہتاہوں کہ ہمار ے برادران ائمہ کرام دیر سے ہونے والی شادی اور کثرت طلاق کی طرف بھی توجہ دیں اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں شادی نہ کرنے (تجرد)کے پھیلتے رجحان کی طرف متوجہ ہوں، منشیات سے مقابلہ کا عہد کریں، ہم ارادہ کریں کہ ہم اس سلسلہ میں تنظیموں کی مدد کریں گے کہ ہم کیسے ایک ہوں، ایک دوسرے کے مخالف نہ ہوں۔ ہم اس مغربی منصوبہ کا مقابلہ کریں جو یہ چاہتا ہے کہ ہماری عربی اور اسلامی خصوصیت کو ختم کردے۔

یہ ہماری ذمہ داری ہے اگر ہم ان ذمہ داریوں کو پورا نہیں کریں گے تو ”سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں تو ہم نے اس کے لئے بہت ایسے لوگ مقرر کر دیے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں“۔

حدیث شریف میں وارد ہو اہے کہ سید الشہداحمزہؓ اور ایک آدمی کسی ظالم حکمراں کے پاس کھڑے ہوئے تھے تو اس نے کسی بات کا حکم دیا اور اس نے انکار کر دیا تو اس نے اس کو قتل کر دیا۔

لوگ کسی امام سے اسی وقت دوری اختیار کرتے ہیں جب اس میں کوئی ایسی بات دیکھتے ہیں جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہو یا یہ اللہ تعالٰی کے احکامات میں سے کسی حکم کے بجالانے میں کمزوری کا مظاہرہ کر رہا ہو، ایسے موقعہ سے لوگ اس سے برگشتہ ہو جاتے ہیں، اس سے دور ہو جاتے ہیں اور دوسرے امام کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور جب انہیں کوئی امام نہیں ملتا تو کسی جوشیلے نوجوان کو لے آتے ہیں جو علم سے عاری ہوتاہے ،ہمارے نوجوان ایک بے علم نوجوان امام اور ایسے بزرگ جو حق کو جانتے ہوئے کہہ نہیں سکتے، کے چکر میں ضائع ہو جاتے ہیں۔

اور اللہ تعالٰی آواز دے کر کہہ رہا ہے "بے شک جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایتوں کو باوجود کہ ہم اس کو لوگوں کے لئے کتاب (آسمانی )میں واضح کر چکے ہیں چھپاتے ہیں، ان پر اللہ کی لعنت ہے اور تمام ہی لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کر لی، درست عمل کرنے لگے اور حق بات کو ظاہر کر دیا۔ یہی لوگ ہیں کہ میں ان کی توبہ قبول کروں گا اور میں خوب توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوں (البقرہ 159، 160)۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جہاں جس حال میں ہوں حق پر ثابت قدم رہیں، خوب جان لیں کہ اسلام کی چکی ایک دائرہ ہے لہذا اسلام جیسے جیسے چکر لگاتا ہے تم بھی اسی کے ساتھ چکر لگاتے رہو۔

ائمہ کی بہادری
حکومتیں بکھر جائیں گی۔ مال و دولت ختم ہو جائے گا ، منصب اور عہدے اپنی انتہاکو پہونچ جائیں گے اور صرف اللہ تعالٰی کی ذات باقی رہے گی جتنے ذی روح روئے زمین پر موجود ہیں سب فنا ہو جائیں گے اور (صرف) آپ کے پروردگارکی ذات جو کہ عظمت والی اور احسان والی ہے باقی رہ جائے گی (الرحمن 26-27)۔

امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی ؒمحض اپنے علم کی وجہ سے امام نہیں تھے بلکہ حق پر اپنے قوت و استقلال کی وجہ سے امام تھے چنانچہ وہ کبھی بھی حق کے معاملہ میں کسی سے صلح کے لئے نہیں تیار ہوئے جیسا کہ ایک محقق نے لکھا ہے کہ امام شافعیؒ اموی خلافت کے ساتھ منافقانہ رویہ رکھتے تھے، افسوس اس کی بے انتہا جہالت پراور ظاہر و باطن کی سختی پرامام شافعیؒ تو اموی خلافت کے 18سال بعد پیدا ہوئے۔ اموی خلافت 132ھ تک ختم ہو چکی تھی اور امام شافعیؒ 150ھ میں پیدا ہوئے اور 204ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔

یہ وہ ائمہ ہیں جو معمولی انحراف یا بعض شرعی مسائل کے ترک پر، بادشاہوں کے مقابلے میں بھی حق کے ساتھ کھڑے رہے۔

ائمہ کرام کے اندر بھی یہی کیفیت ہونی چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حکومت کے خلاف تقریر کرنے لگیں۔ نہیں، بلکہ ہم تو حق کے ساتھ ہیں۔ جب تک کہ حکومت اور نظام، حق کے ساتھ ہے ہم اس کے ساتھ ہیں اور جب نظام حق کے خلاف ہو تو ہم اس کو نصیحت کری اور ہماری یہ نصیحت صرف اللہ کے لئے ہو، کیونکہ دین مکمل طور پر خیرخواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول نصیحت و بھلائی کس کے لئے ہے تو آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لئے اور مسلمانوں کے امام کے لئے۔

میں یہ چاہتاہوں کہ یہ زندہ، پختہ صلاحیت، بالغ نظر علماءکرام جو امت کی قیادت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور ان مختلف آراء کے درمیان وحدت پید اکرنے کی کوشش کررہے ہیں، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومتوں کو علماءکے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش ضروری ہے۔

میرے دینی و ایمانی بھائیوجب مغلوں نے 656ھ میں سر زمین عراق پر حملہ کیا تھا، 20لاکھ عراقیوں کا قتل عام کیا تھا، کتب اسلامی کی ایک بڑی تعداد تباہ و برباد کر دی تھی، پوری پوری لائبریری کو دجلہ و فرات میں غرق کر دیاتھا اور من جملہ کئی اسلامی ملکوں عراق اور شام کے علاقوں میں قتل و غارت گری کی تھی، تواس کے بعد ابھی دو سال بھی نہیں گذرے کہ علماءاور سیاسی طاقتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے، سیف الدین قطز اور عمر بن عبد السلام دونوں مل گئے اور پھر اسلامی ممالک میں ہونے والے قبضہ کے خلاف ایک مشترکہ انقلاب بر پا ہوا تاکہ اس قبضہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، اس کے تمام امکانات کو ختم کر دیا جائے۔ چنانچہ زبردست کامیابی ہوئی، ہلاکو قتل کیا گیا اور مسلمانوں کو عین جالوت کے معرکہ پر فتح حاصل ہوئی ۔

مجھے یقین ہے کہ باہم کوشش بے حد ضروری ہے تا کہ ہم واضح نکات پر اکٹھاہوں اور اپنی امت کو اس مغربی غلامی کے مقابلہ پر ابھا ر سکیں، جو بعض جگہوں پر صرف عسکری قبضہ نہیں ہے بلکہ طاقت و قوت ، وسائل اور ہمارے اسلامی مملک کی قوتوں پر قبضہ ہے۔

میں تو یہ کہتا ہوں کہ ائمہ کرام ہمارے ملکوں اور ہمارے وسائل پر ہونے والے اس قبضہ کو دور کرنے میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ علمی صلاحیتوں جن کی عالم اسلام و عرب میں کوئی کمی نہیں ہے اور حکومتوں کے درمیان مشترکہ اتحاد قائم ہو اور حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے بھاءیوں یعنی ائمہ کرام کو اس لئے اس تحریک کےلئے تیار کیا ہے تاکہ مسجدوں کی زیارت کے بجائے ان کو آباد کیا جائے اور مثالی آّباد کاری یہ ہے کہ ائمہ کرام امت کے عام افراد کے ساتھ امت اسلامیہ کے اندر بیداری پیداکرنے کے لئے مخصوص رول ادا کریں، میں نے ان کلمات کو اس امید پر قلم بند کیا ہے کہ ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے لئے متاثر کن ہوںگے (دینی خطاب کے آداب و قواعد ۔۔۔۔۔سب سے پہلی چیز اصول و بنیاد ہیں)

اسلام کے واضح عقیدے اور اس کے بلند اخلاق ، اس کی شریعت عادلہ ، اس کا بالکل ظاہر اعتدال و توسط، اس کے شرعی احکام ، اس کے کلی مقاصد اور اس کے انفرادی اور اجتماعی حقوق کو حاکم و محکوم کے لئے ، مرد و عورت ، مال دار اور غریب ، اور کمزور اور طاقت ور کے درمیان جمع کرنا جس طرح کہ اس نے مادیت اور روحانیت ، واقعیت اور خیال ، عالمگیریت اور علاقائیت ، قدامت اور معاصرت ، جد و جہد اور آرام وراحت ، ذاتی تربیت اور دوسروں کی اصلاح ، عقل اور نقل ، ماضی سے تعلق ، حال و مستقبل کی تعمیر اور تعدد مشترک کے احترام کو جمع کر دیا ہے۔

اہم ضوابط
دینی اور اجتماعی قیادت کے ان ہی اصولوں کی رو سے ہم اپنے بھائیوں کو مندرجہ ذیل اصولوں کی تاکید کرتے ہیں :
اول :اللہ سے محبت اور خوف کے عقیدے کوراسخ کرنا، سب سے پہلے توحید ربوبیت اور دوسری چیز الوہیت۔اور اللہ کے فیصلہ پر راضی ہونا اس معنی میں کہ ہم لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالٰی کا خوف پیدا کرنے کے بجائے ان کے اندر اللہ تعالٰی کی محبت پیدا کریں، اور اللہ نے جو نعمتیں اپنے بندوں پر کی ہیں اس کا ذکر پہلے کریں پھر ان کو اس بات سے آگاہ کریں کہ اللہ نے ان چیزوں کا حکم دیا ہے اور ان احکامات کا پابند کیا ہے ۔

بہت سے ائمہ کرام کو ہم سنتے ہیں کہ وہ اس انداز سے خطاب کرتے ہیں کہ تمہیں یہ کرنا ضروری ہے، تم پر یہ واجب ہے ، تم پر یہ فرض ہے، میں یہ چاہتا ہوں کہ ان سے اس انداز میں مخاطب ہوں کہ اللہ نے ہمیں بہت سی نعمتیں عطاکی ہیں،خیر سے نوازا ہے، اللہ تعالٰی بڑے کمال والا اور جلال مطلق کا مالک ہے۔ یہ انداز لوگوں کے دلوں میں اللہ کی محبت پیدا کرے گا۔

امام بخاری نے روایت کیا ہے کہ ”لوگوں کے اندر اللہ کے لئے بغض نہ پیدا کرو“ بہت سے علماءکرام موجودہ وقت میں ایسے ہیں جن کی زبان نہایت ہی متاثر کن اورسحر انگیز ہے۔ ان کے پاس لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، نوجوان ان کے پاس آتے ہیں، نوجوان لڑکیاں اور عورتیں ان کے دروس میں حاضر ہوتی ہیں۔

۲:حسن اخلاق پر ابھارنا ، کیوںکہ ہم اس وقت حقیقی اخلاقی بحران میں مبتلا ہیں، لوگوں کو حسن اخلاق پر ابھاریں، اور یہ کہ تمام مخلوق کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں، ہر ذی روح کے ساتھ رحم کا معاملہ کریں اور دنیا کی تعمیر پر ابھاریں۔ دنیا میں فساد یا ہلاکت بر پا کرنے سے بچنے پر ابھا ریں ۔

۳: شرعی گوشوں کو پیش کرنے میں توازن بر قرار رکھیں ، خصوصا حقوق کی پاسداری کے سلسلے میں جو انفرادی اور اجتماعی حقوق ہیں، حاکم اور محکوم کے حقوق ہیں ان کے سلسلہ میں توازن رکھیں کیوںکہ اگر کوئی بیٹھ کر صرف ایک بات سنے گا یعنی عورت کے بجائے صرف مردوں کے حقوق یا مردوں کے بجائے صرف عورتوں کے حقوق، اسی طرح حاکم کے بجائے صرف محکوم کے حقوق یا محکوم کے بجائے صرف حاکم کے حقوق کا ذکر ہو تو ایسی صورت میں وہ محسوس کرے گا کہ اس امام کے اندر عدل اور انصاف نہیں ہے۔

معاشرے کے اندر جس طرح ہمیں حقوق حاصل ہیں اسی طرح ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو حاصل ہیں انہیں شہریت کے حقوق حاصل ہیں۔ جس کی اور استحکام کے لیے ہمارے ائمہ اور برادران کی طرف سے کوشش بہت ضروری ہے تاکہ ہم داخلی امن وامان قائم کر سکیں اور ہمارے شہروں، ملکوں،اور مقدس مقامات کی حفاظت کی خاطر دشمنوں سے مقابلے کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر سکیں ۔

۴:دین کی خاطر سب سے پہلے ولاءکی تاکید ، ولاء(ہمدردی )سب سے پہلے دین کے لئے ہو، اس کے بعد خاندان، معاشرہ، ملک اور امت اسلامیہ کے لئے ہو اور عالمی انسانی بھائی چارہ کے لئے ہو، اور اس بات کی تاکید ہو کہ یہ مختلف رشتے ایک دوسرے کو تقویت پہونچاتے ہیں،ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔

۵:جب استشہاد کرنا ہو تو قرآنی آیات، صحیح احادیث ، صحابہ کے اقوال ،علماءاور مفکرین امت اسلامیہ کی باتوں کو استشہاد میں پیش کیا جائے اور ان کو زندگی میں روزانہ پیش آنے والے واقعات کے ساتھ مربوط کر کے انہیں بیان کیا جائے، بعض ائمہ کرام کو ہم نے سنا ہے کہ وہ صرف قرآن وسنت کے حفظ کردہ نصوص کو سنانے پر اکتفاءکرتے ہیں، اس طریقہ سے بہتر تو سی ڈی کا استعمال ہوگا ۔

ہم یہ چاہتے ہیں کہ قابل فہم نصوص بیان کئے جائیں، تفصیلی اور واضح نصوص بیان کئے جائیں، پھر ان نصوص کو واقعات کے ساتھ مربوط کیا جائے جیسا کہ اما م شاطبی ؒ نے کہا ہے کہ علم تین طرح کے ہیں۔ پہلے دو تو کسب (ذاتی کوشش) سے حاصل ہو سکتے ہیں، مگر آخری تو اللہ تعالٰی کی طرف سے اپنے بندوں پر خاص فضل و احسان سے ملتا ہے۔

ہماری منشاء یہ ہے کہ موجودہ واقعات کو قرآن و سنت سے مربوط کر نے کی یہی صلاحیت ہمارے پاس ہو، قدامت اور معاصرت کے درمیان جمع کرنے کی قابلیت ہو ، اصول و ثوابت میں سختی اور فروعات میں نرمی ہو، دعوت کے اندر بشارت وخوشخبری اور فتوی کے سلسلہ میں آسانی پیدا کرنے کا ملکہ ہو ۔

مسلمانوں اورغیر مسلموں کے ساتھ رواداری کے سلسلے میں توازن برقرار رہناچاہئے ہمارے دین، ملک ، مقدس مقامات اورعزت و آبرو کا مکمل دفاع ہو۔

اسلام دین رحمت ہے، لیکن کیا اللہ نے یہ آیات نہیں اتاری”اے نبی کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے اور (آخرت میں) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے “(التوبہ 73)۔ اسلام ہر فرد بشر کے لئے دین رحمت ہے ”ہم نے آپ کو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“ (انبیاء107) لیکن وہ لوگ جو مسلمانوں سے جنگ کر رہے ہیں، جو اللہ و رسول کے ساتھ بر سر پیکار ہیں، جو ہماری سر زمین پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں، جو ہماری بہترین چیزوں کو لوٹتے ہیں۔ جو ہمارے بچوں کو فتنے میں مبتلا کر رہے ہیں، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ مطلقا رحم دل ہو جائیں”محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں تیز ہیں اور آپس میں مہربان ہیں “ (الفتح29)

ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ مسلمان ہر مسلما ن کے حق میں سلامتی ہے اور ہر انسان کے لیے اصلاح کرنے والاہے، جب کوئی غیر مسلم کتاب اللہ اور ہدایت رسول کی مخالفت کرے اور اس سے جنگ کرے ایسے وقت میں اس شخص سے مقابلہ کرنا مسلمان پر واجب ہے۔

دینی خطابات کے اندر توازن اختیار کرنا ضروری ہے، صلح پسندوں کے ساتھ نرمی اور مخالفین اور محاربین کے ساتھ قوت و طاقت کی بات کی جائے۔ ہمارا دوسرا اقدام یہ ہو کہ ہم مسجدوں کی محض زیارت سے آگے بڑھ کر انہیں آباد کرنے والے بنیں۔

جزاکم اللہ ، و شکراللہ لکم ، والسلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ

1۔ قرآنی آیات نقل اور ترجمہ
2۔ خالص عربی الفاظ کا اردو میں استعمال نہ کیا جائے
3- کاما کا خیال رکھا جائے۔
4- طویل جملوں پر خصوصی توجہ کہ معنی کی ترسیل ہور ہی ہے یا نہیں۔
5- ے کا استعمال
Ishteyaque Alam Flahi
About the Author: Ishteyaque Alam Flahi Read More Articles by Ishteyaque Alam Flahi: 32 Articles with 32132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.