کسی آزاد، عاقلہ، بالغہ کا نکاح
اس کی رضا مندی سے بغیر ولی کے منعقد ہو سکتا ہے کہ نہیں؟؟؟
از
حشمت بنت گل دین
اس بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب مختار یہ ہےکہ آزاد، عاقلہ،
بالغہ کا نکاح اس کی رضا مندی سے بغیر ولی کےمنعقد ہوجائے گا کیونکہ بلوغت
کے بعد لڑکی عقل ممیز کی بدولت لڑکے کی مانند متصور ہوگی۔
•جس طرح لڑکا بلوغت کے بعد نماز،روزہ،حج ،زکاۃ اور دوسرے شرعی احکام کا
مکلف بن جاتا ہے بالکل اسی طرح بلوغت کےبعد لڑکی پر بھی مذکورہ عبادات اور
دوسرے شرعی احکامات واجب ہو جاتے ہیں۔
•عاقل، بالغ لڑکے پر اولیاء کو ولایت اجبار حاصل نہیں ہے یعنی اولیاء اس کو
نکاح پر مجبور نہیں کر سکتے، اس طرح بالغہ لڑکی پر بھی ولایت اجبار حاصل
نہیں ہے اور یہ ایسا ہی ہے جس طرح بالغہ لڑکی اپنے مال میں تصرف کر سکتی
ہے،اس کے باپ کے لئے اس کے مال میں تصرف کی اجازت نہیں ہے۔اس طرح
باکرہ(كنوارى) بالغہ اپنے نفس میں بھی تصرف کی مختار ہوگی یعنی وہ اپنے نفس
کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔(اشرف الہدایہ ،ص۵۱)
اگرچہ عاقلہ، بالغہ لڑکی کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا پورااختیار حاصل
ہے لیکن شریعت نے نکاح کرانے کا مطالبہ ولی سےکیا ہے اور وہ لڑکی کی
رضامندی سے اس کا نکاح کرائے گا۔
اعتراض:
اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب عورت با اختیار ہے تو پھر نکاح کا مطالبہ ولی سے
کیوں کیا جاتا ہے عورتوں سے کیوں نہیں؟؟؟
جواب:
یہ اس لئے کہ ایسا کرنے سے عورتوں کی طرف بے حیائی منسوب کی جائے گی کیونکہ
عورتیں مردوں کی مجالس کی طرف نکلنے میں حیا محسوس کرتی ہے۔اگر ایسا کرے گی
تو لوگ ان کو بے حیا کہیں گے۔
ولی کا حق اعتراض:
اگر عاقلہ، بالغہ لڑکی اپنا نکاح غیر کفو میں کریں یعنی ایسے خاندان میں
کریں جو ولی کے لئے ننگ و عار کا سبب ہو، ایسی صورت میں ولی کو حق اعتراض
حاصل رہے گا کہ وہ اس نکاح کو ختم کرادیں یا باقی رکھے لیکن یہ اختیار بھی
تب تک ہے جبتک عورت حاملہ نہ ہو۔
دلائل:
حدیث: عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : الأيم أحق بنفسها من
وليها والبكر تستأذن في نفسها وإذنها صماتها۔ رواہ مسلم
( سیدنا ابن عباس رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:بیوہ
عورت اپنے نکاح کا اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ جب کہ کنواری عورت سے(
اس کے ولی کے ذریعہ) اجازت لی جائے اورکنواری کی اجازت اس کا خاموش رہنا
ہے۔ ) اسےمسلم نے روایت کیا ہے۔
کنواری یا بیوہ کے ولی کو ان کی اجازت اور رضامندی کے بغیر نکاح نہیں کرنا
چاہئے۔
حدیث:
لا تنكح الأيم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن ) . قالوا يا رسول
الله وكيف إذنها ؟ قال ( أن تسكت )۔
رواہ البخاری
حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے:نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیوہ کا
پوچھے بغیر نکاح نہ کیا جائے اور کنواری عورت سے اجازت لئے بغیراس کا نکاح
نہ کیا جائے۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کنواری عورت کی اجازت کیا ہے؟آپ
نے ارشاد فرمایا: اگر وہ خاموش رہے (اور انکار نہ کریں) تو یہی اس کی اجازت
ہے۔) اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
ولی کو عورت کی مرضی کے خلاف نکاح کرنے کے لئے زبردستی نہیں کرنی چاہئے۔
حدیث:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-تُسْتَأْمَرُ الْيَتِيمَةُ فِى
نَفْسِهَا فَإِنْ سَكَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا وَإِنْ أَبَتْ فَلاَ جَوَازَ
عَلَيْهَا رواہ ابو داود
(حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنهسے روایت ہے:نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کنواری
عورت اپنے نکاح کے لئے پوچھی جائے گی اگر جواب میں خاموش رہے تو یہی اس کی
اجازت ہےاگر انکار کردے تو اس پر زبردستی نہ کی جائے۔)) اسےابوداود نے
روایت کیا ہے۔
عورت کی مرضی کے خلاف اس کا ولی زبردستی نکاح کرا دے تو عورت شرعی عدالت
سےاپنا نکاح منسوخ کرانے کا حق رکھتی ہے۔
حدیث:
خنساء بنت خذام الأنصارية أن أباها زوجها وهي ثيب فكرهت ذلك فأتت النبي صلى
الله عليه و سلم فرد نكاحها رواہ البخاری
(خنساء بنت خذام الأنصارية رضي الله عنها سے روایت ہے کہ وہ بیوہ تھی اور
اس کے باپ نے اس کانکاح کر دیا جبکہ وہ اسے نا پسند کرتی تھی چنانچہ وہ نبی
کریم ﷺ نے کی خدمت میں حاضر ہوئی اور( اس کا ذکر کیا) رسول اللہ ﷺ نے باپ
کا پڑھایا ہوا نکاح توڑ دیا) اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
حدیث:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِىَّ –صلى الله
عليه وسلم- فَذَكَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِىَ كَارِهَةٌ
فَخَيَّرَهَا النَّبِىُّ –صلى الله عليه وسلم-.رواہ ابو داود
(سیدنا ابن عباس رضي الله عنهما فرماتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی نبی کریم
اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ اس کے والد نے اس کا نکاح
کردیا ہےحالانکہ وہ اسے ناپسند کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس کو اختیار دے
دیا(چاہے تو نکاح باقی رکھے چاہے تو ختم کردے) ) اسے ابوداودنے روایت کیا
ہے۔) |