گفتگو :حامد العطار
اس گفتگو میں ڈاکٹر صلاح سلطان مستشار شرعی : سپریم کونسل برائے اسلامی
امور و وزارت اسلامی امور حکومت بحرین نے اجماع سے متعلق علمی دھماکہ کے پس
منظر میں اجماع پر گفتگو کی ہے اور اس کی حجیت پر سوال قائم کیا ہے۔
ہم تمام فقہی اور اصولی کتابوں میں یہ پڑھتے ہیں کہ اجماع بذات خوداسی طرح
حجت ہے جس طرح کہ قرآن و سنت، بعض تفصیلات کے متعلق اختلافات کے باوجود حجت
ہے، لیکن ڈاکٹر صلاح سلطان کا خیال یہ ہے کہ اجماع نہ حجت اور دلیل ہے اور
نہ ہی ادلۂ شرعیہ میں شامل ہے بلکہ کہ یہ محض فکر ہے اور ایک ایسا نظریہ
ہے جس کا فقہی واقع کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سو سال کا زمانہ گزرنے کے بعد بھی ہماری فقہ
ماہرین اصول فقہ کے متعین کردہ قیاس اور اصول سے کسی ایسے فقہی حکم کے وجود
پر دلیل قائم نہیں کر سکی جو متفق علیہ ہو، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اس میں
عنعنہ (فلاں نے فلاں سے سن کر کہا)، روایت اور وساطت سے کام نہیں چلے گا
بلکہ اس کے لئے کھلی وضاحتوں کی ضرورت ہے اور دو بدو گفتگو کی ضرورت ہے اور
آج کی یہ گفتگو اسی مقصد کے لئے رکھی گئی ہے ۔
— اصل بات یہ ہے کہ علمی مسائل سے متعلق مباحث کے دوران اسکالر یہ نہیں
دیکھتا کہ علماءاس کے خیال کو قبول کریں گے یا رد کر دیں گے بلکہ اس کے ذہن
میں یہ بات ہوتی ہے کہ جو کچھ دلائل کی روشنی میں اس پر واضح ہوا ہے اسے
پیش کر دے، لوگوں کی خواہش کے مطابق کوئی بات پیش کرنا تو انتہائی نا مناسب
بات ہے ، اوربات سامعین کی طلب پر نہیں پیش کی جاتی خواہ سامعین عالم ہوں
یا جاہل، ہم تو وہ چیز پیش کرتے ہیں جو سامعین کی اصلاح کرے اور جو قرآن و
سنت کے نصوص کے تقاضے کے مطابق ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ
ہمارے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ ہم پہلے سے تسلیم شدہ کسی مسئلہ کو لے لیں
اور اس میں تاکید پیدا کرنے کے لئے نصوص کے اندر توڑمروڑکریں اس میں تبدیلی
کریں ۔
بہت سے ایسے تسلیم شدہ مسائل ہیں جن کو ہمارے علماءعہد بہ عہد بغیر کسی
تحقیق کے نقل کرتے چلے آ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں مسئلہ اجماع کو بغیر
کسی سابقہ اصول کے موضوع بحث بنایا اور اجماع کے متعلق سابقہ علماءکے قائم
کردہ اصول جن پر قرآن و سنت کے نصوص قطعیہ دلالت نہیں کرتے ان پر اعتماد
نہیں کیا۔
افشائےراز
میں یہ چاہتا ہوں کہ آج آپ کے سامنے ایک راز ظاہر دوں وہ یہ کہ میں اجماع
کے متعلق چھ مہینے تک پڑھتا رہا، اس دوران میں نے اصول فقہ کی بہت سی
کتابوں کو دیکھا اور تب مجھے احساس ہوا کہ اجماع کا نظریہ اور تصور عملی
واقعیت سے زیادہ محض ایک خیال ہے، پھر میں نے یہ سوچا کہ یہ بات مجھے اپنے
استاد محمد بلتاجی حسن سے کہنی چاہئے۔ محمد بلتاجی ایک متبحر عالم تھے مگر
تھوڑے سخت مزاج تھے، میں کبھی کبھی یونیورسٹی سے مصری ریلوے اسٹیشن تک ان
کے ساتھ جاتا تھا اور راستے میں بعض علمی مسائل پر گفتگو بھی ہوتی تھی مگر
اس بار جب میں نے اجماع سے متعلق اپنے نظریہ سے انہیں آگاہ کرنے کا ارادہ
کیا تو اپنے دل میں ایک بات ٹھان لی تھی کہ اسٹیشن پہونچنے کے بعد ہی اس
مسئلہ پر کوئی گفتگو کروں گا تاکہ گاڑی آنے سے پہلے مجھے ایک دو سخت کلمات
ہی سننے پڑیں۔
اسٹیشن پہونچنے کے بعد میں نے ان سے عرض کیا کہ میں چھ مہینے سے اجماع سے
متعلق مطالعہ کر رہا ہوں، اور مطالعہ کے بعد مجھے یہ محسوس ہورہاہے کہ
مسئلہ اجماع میں فکری اور شرائط کی سطح پر نظر ثانی او ر تحقیق کی ضرورت ہے
اور اس موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ محض نظریہ ہے جس کا ان علمی واقعات
سے جسے صحابہؓ کرام نے پیش کیا تھا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
میں یہ بات کہتے ہوئے منتظر تھاکہ معمول کے مطابق، وہ اپنے سخت اندازمیں
میری طرف متوجہ ہوں گے لیکن اس کے بر خلاف وہ یہ کہتے ہوئے میری طرف مڑے
کہ” بیٹے تم باغیانہ گفتگو کر رہے ہو“ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے تیس
سالوں سے میرا بھی یہی خیال ہے لیکن اپنی کم ہمتی کی وجہ سے اس موضوع سے
متعلق کچھ لکھنے اور صراحت کرنے سے ڈرتا رہا، مگر تم لکھو اوراگر تم اپنا
نقطۂ نظر ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو میں تمہاری طرف سے دفاع کروں گا ۔
جب میں وہاں سے واپس ہو ا تو مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ میرے جسم
میں نئی روح پھونک دی گئی ہو اس لئے کہ میں اس وقت تک دو باتوں میں متذبذب
تھا یہ کہ اگر انہوں نے مجھ سے اجماع کے متعلق اسی طرح لکھنے کی خواہش ظاہر
کی ہے جیسا کہ عام علماءلکھتے ہیں تو میں اس موضوع سے صرف نظر کروں گا اور
مطالعہ کے ایک سال کو قربان کر دوں گا اور اس وقت کا انتظار کروں گا جب میں
اس انداز سے لکھ سکوں جس سے مجھے اطمئنا ن حاصل ہوسکے۔
لیکن ڈاکٹر بلتاجی نے میری یہ پریشانی دور کر دی اور میں کتب فقہ کے مطالعہ
میں غرق ہوگیا اس میں تبحر پیدا کرتا رہا اور جب میرا مطالعہ مکمل ہوا تو
میرا ایک الگ نظریہ قائم ہو چکا تھا، میرا یہ نظریہ غلط بھی ہو سکتا ہے
لیکن مجھے امید ہے کہ ان شاءاللہ میرا یہ نظریہ صحّت سے قریب تر ہوگا۔
مقالہ کی تکمیل کے بعدمیں نے حجیت اجماع میں غلو سے متعلق ایک اور مقالہ
تیار کیا اور ایک ایسی علمی نشست میں میں نے اسے پیش کیا جس میں صرف
استاتذہ تھے۔ ایک استادنے کہا کہ علم اصول فقہ میں یہ ایک تبدیلی ہے، میں
نے ان سے کہا کہ یہ "اعتدال کی راہ" اختیار کرنے کی ایک کوشش ہے، اس کے بعد
تقریبا دس سا ل تک اس کو عمومی طور پر شائع کرنے کے سلسلے میں متردد رہا
لیکن مشوروں او ر استخاروں کے بعد اس امید پر میں نے اسے شائع کرنے کا
ارادہ کیا کہ یہ کتاب علم اصول فقہ میں حقیقت اور نظریہ کے درمیان موجود
دوری کو کم کرنےکا ذریعہ ثابت ہوگی ۔
اجماع کا مفہوم
٭اصول فقہ کے نظریہ سازوں کے نزدیک اجماع سے کیا مراد ہے اگر پہلے آپ اسے
واضح کریں تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوگا ؟
— اصول فقہ کے نظریہ سازوں کی تعریف کے مطابق ”اجماع آپ ﷺ کی وفات کے بعد
کسی ایک زمانے میں امت کے مجتہدین کا کسی حکم شرعی پر متفق ہونا ہے“
اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام مجتہدین کا متفق ہونا ضروری ہے اور اگر سب کا
اتفاق نہ ہو اور کسی ایک نے بھی مخالفت کر دی تو اجماع کا ثبوت نہیں ہو
گامزید یہ کہ یہ معاملہ مجتہدین پر موقوف ہے اور اس میں کسی غیر کا دخل
نہیں ہوسکتا۔
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اجماع کا ثبوت آپﷺکی وفات کے بعد ہی ہو سکتا ہے
نیز یہ کہ اجماع کا دائرۂ کار شرعی علمی امور ہیں نہ کہ عقائد و اخلاق۔
اور یہ کہ تعین زمانہ کی شرط نہیں ہے بلکہ آپﷺ کی وفات کے بعد کسی بھی
زمانے میں محض مجتہدین کے اتفاق سے اجماع ثابت ہو جائے گا۔
اصول فقہ کے نظریہ سازوں کے ذریعہ کی گئی اجماع کی تعریف میں مَیں نے جن
چیزوں کو نوٹ کیا وہ یہ ہیں:
اجماع کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق کبھی بھی اجماع کا ثبوت نہیں ہو
سکتا بلکہ اس کے اہم ارکان پر بھی اتفاق نہیں ہوگا، مثلا اجماع میں عوام کا
دخول شرط ہے یا صرف مجتہدین کا؟اور کیا کسی خاص مسئلہ کے متعلق ہر زمانے
میں اجماع کا ثبوت ضروری ہے یا کسی خاص زمانے میں اتفاق ہو جانا کافی ہے؟
اور کیا وہ تمام معاملات میں حجت ہے یا عام دینی معاملات میں اور خاص شرعی
مسائل میں؟
سخت تلاش و جستجو کے باوجود مجھے اجماع کی کوئی ایک تعریف صحابہ کرامؓ،
تابعین، تبع تابعین اور چاروں ائمہ کے یہاں نہیں ملی اور نہ ہی دوسری صدی
ہجری کے عظیم فقہاءکرام لیث بن سعد، امام اوزاعی، محمد بن اسحق، شیبانی اور
امام ابو یوسف کے یہاں ہی ملی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسائل جن میں اجماع ہوگا وہ ایک نیا مسئلہ ہوگا
مثلا وجوب صلوۃ اجماع پر موقوف ہے کیاکہ مجتہدین اکٹھا ہوں اور نئے سرے سے
اس کی حجیت ثابت کریں؟ حتی کہ یہ کہا جائے کہ نماز کی فرضیت کتاب اللہ اور
سنت رسول اللہ اور اجماع سے ثابت ہے اسی طرح حرمت زنا اور دیگر قطعی مسائل
کے متعلق بھی یہی کہا جائے (امام جوینی کے مطابق قطعی حکم وہ ہے جس میں کسی
اور کی مدد کی ضرورت نہ ہو) ۔
٭مذاہب اربعہ کا حجیت اجماع کے متعلق کیا موقف ہے؟
— اصول فقہ کی مختلف کتابوں کے مطالعہ کے بعد بڑی وضاحت کے ساتھ یہ نتیجہ
ہمارے سامنے آئے گا کہ اجماع کا مسئلہ ائمہ اربعہ کے یہاں محل نظر ہے یا اس
میں شک ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کے یہاں مسئلہ اجماع مبہم ہے اور اس سلسلے میں کوئی وضاحت
نہیں ملتی، اجماع سے متعلق امام مالکؒ کا جو قول ہے وہ اجماع سکوتی
اوراجماع اہل مدینہ کے ساتھ خاص ہے جو کہ علم اصول سے مختلف ہے، امام
شافعیؒ کی غالب رائے اجماع سے متعلق یہ ہے کہ کسی ایسے مسئلہ میں نص قطعی
پر اتفاق ہو جانا جس سے کوئی مسلمان نا واقف نہ ہونیزاجماع کا ثبوت صرف عہد
صحابہؓ میں ہی ہو سکتا ہے، امام احمدؒ کا جو اآخری قول نقل کیا گیا وہ یہ
ہے کہ انہوں نے اجماع سکوتی کے خیال کو اختیار کیا ہے اور جس کا انہوں نے
ذکر کیا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے جب کہ اجماع سکوتی کی حجیت میں بہت
اختلاف ہے اسی بنیا د پر یہ قول محل نظر ہے جس کی تردید کرتے ہوئے اصولیوں
کی بڑی تعداد اس بات کی قائل ہے کہ چند فرقوں جیسے نظامیہ، امامیہ اور بعض
خوارج کو چھوڑ کر جمہور کے نزدیک اجماع حجت ہے، لیکن یہ قول اس وجہ سے محل
نظرہے کہ اجماع کی حجیت میں اختلاف اس سے بہت زیادہ ہے۔
٭اجماع سکوتی کیا ہے ؟
—کسی مسئلہ پرمجتہدین کااتفاق قول صریح کے ساتھ ہو تا ہے اور کبھی ایسا
ہوتا کہ کسی ایک شخص یا چند لوگوں کا قول ہوتا ہے اور بقیہ لوگ خا موش ہوتے
ہیں تو اسے بھی اصولیوں کی اصطلاح میں اجماع کہا جاتا ہے، لیکن پہلے کو
اجماع صریح اور دوسرے کو اجماع سکوتی کہا جاتا ہے۔
٭لیکن جو لوگ اجماع کی حجیت کے قائل ہیں ان کے پاس بہت سارے دلائل ہیں۔
مثلا وہ لوگ اللہ تعالٰی کے اس فرمان کو دلیل میں پیش کرتے ہیں ”مگر جو شخص
رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر
چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو، تو اُس کو ہم اُسی طرف
چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین
جائے قرار ہے“(النساء: 115)
—تفسیر اور اصول کی کتابوں سے مراجعت کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ اس آیت
سے حجیت اجماع پر استدلال کرنے میں اتفاق نہیں ہے مثلا اکثر مفسرین نے اس
آیت کے حجیت اجماع سے متعلق ہونے پر کوئی گفتگوہی نہیں کی ہے جیسے عبداللہ
بن عباسؓ، شیخ المفسرین امام طبریؒ وغیرہ، جب کہ طبریؒ مفسر ہونے کے ساتھ
ساتھ فقیہ بھی ہیں اور ان کا زمانہ اور امام شافعیؒ کا زمانہ ایک ہی ہے
لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کو امام شافعیؒ کا اس آیت سے حجیت اجماع پر
استدلال کرنا معلوم رہا ہو گا۔
٭اس سلسلہ میں ان مفسرین کا موقف کیا ہے جو آیا ت احکام کی تفسیر کرنے پر
خاص توجہ دیتے ہیں، میری مراد وہ مفسرین ہیں جو فقیہ اور اصولی دونوں ہیں۔
—آپ کے سامنے امام سیوطیؒ ہیں، جو فقیہ، اصولی اور محدث ہیں اس آیت کی
تفسیر میں اجماع کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے اور قاضی ابن عربی جو آیات
احکام کی تفسیر کرتے ہیں، ان کی تفسیر میں اس آیت پر گفتگو نہیں کی گئی ہے،
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے اندر کسی عملی معاملہ کے ضمن میں کوئی
دلیل موجود نہیں ہے۔
٭اگر اس آیت کا فقہی عملی پہلو سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر اس آیت سے کیا
مراد ہے؟
—اس آیت کی دلالت کا پہلو عقیدہ سے متعلق ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ کی مخالفت سے
مراد اسلام سے پھرنا، نبی سے دشمنی کرنا اور ان کو چھوڑدینا ہے، اس طرح کہ
نبی کے حکم کی مخالفت کی جائے جیسا کہ طعمہ بن ابیرق نے کیا، اس نے مدینہ
میں چوری کی، جس کی سزا میں آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا لیکن وہ
مرتد ہو کر مکہ سے فرار ہو گیا اسی کے متعلق یہ آیت نا زل ہوئی ہے۔
٭لیکن کیا ایسے مفسرین نہیں ہیں جنہوں نے دلالت آیت سے حجیت اجماع کی طرف
اشارہ کیا ہے؟
—نہیں ایسے مفسرین بھی ہیں جنہوں نے اس کی طرف اچھی طرح اشارہ کیا ہے، کچھ
لوگوں نے اس آیت سے حجیت پر استدلال کیا ہے لیکن انہوں نے اس استدلال کی
ترجیح یا وجہ بیان نہیں کی ہے۔ وہ مفسرین جنہوں نے اپنی تفسیروں میں اس کا
ذکر کیا ہے ان میں جصاص حنفی، قرطبی مالکی اور ابو سعود وغیرہ قابل ذکر
ہیں۔
لیکن مجھے اس سے زیادہ وہ تفاسیر ملی ہیں جن میں اس آیت سے حجیت اجماع پر
استدلال کی مخالفت کی گئی ہے۔ ان میں ابو حیان اندلسی ہیں جن کا خیال یہ ہے
کہ یہ آیت کفار کے وعید سے متعلق عام ہے اور اس کا فروعی مسائل سے کوئی
تعلق نہیں ہے۔
ان کی تائید امام شوکانی نے بھی کی ہے، کیوں کہ یہ آیت اس صورت حال پر
منطبق نہیں ہوتی جب کسی نے اجتہاد کیا اور اسی زمانے میں کسی نے اس کی
مخالفت کر دی، امام طبری کے مطابق یہ آیت فقط ان لوگوں کے لئے وعید ہے جو
مومنین کے راستے کو چھوڑتے ہیں اور ان کی مخالفت کرتے ہیں، شیخ رشید
رضاکہتے ہیں کہ یہ آیت نبی پاک کے زمانے میں مومنین کے راستے کے متعلق اتری
تھی لہذا یہ کہاں سے ثابت ہو ا کہ اجماع نبی پاک کے زمانے کے بعد بھی ثابت
ہو سکتا ہے۔ شیخ شلتوت کے خیال میں اس آیت سے حجیت اجماع پر استدلال کرنا
آیت کو اس کے محل سے ہٹانے کے مترادف ہے اور نص کی تفسیر ایسی بات سے متعلق
ہوگی جس پر آیت دلالت ہی نہیں کرتی اور آیت کو اس کے موضوع سے ہٹانا اور
ایسا معنی پہنانا ہوگا جو اس میں موجود نہیں ہے۔
اصولیوں کا موقف
٭ اس آیت سے اصولیوں کے استدلال سے متعلق کیا رائے ہے؟
سب سے پہلے امام شافعیؒ نے اس آیت سے حجیت اجماع پر استدلال کیا ہے جیسا کہ
امام مزنی روایت کرتے ہیں کہ میں ایک روز امام شافعیؒ کی خدمت میں حاضر تھا
اتنے میں ایک بزرگ اونی لباس میں ملبوس عصا تھا مے ہوئے آئے اور جب امام
شافعیؒ کی با رعب شخصیت پر نظر پڑی تو سیدھے ہو کر ایک کھمبے سے ٹیک لگا کر
بیٹھ گئے، اپنے کپڑے کو برابر کیا پھر امام شافعیؒ سے پوچھا کہ اللہ کے دین
میں حجت کیا کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ کتاب اللہ۔ پوچھا: پھر؟ انہوں نے
کہا: سنت رسول اللہ۔ پوچھا: اس کے بعد؟ کہا: کہ امت کا اتفاق!
اس بزرگ نے کہا کہ یہ تیسری چیز کہا ں سے آگئی؟ کیا یہ اللہ کی کتاب میں
موجود ہے، امام شافعیؒ تھوڑی دیر خاموشی کے ساتھ سوچتے رہے، تب اس بزرگ نے
کہا کہ میں آپ کو تین دن کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر آپ اس دوران کوئی آیت پیش
کر سکے تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کو لوگوں سے دور ی اختیار کرنی پڑے گی۔ اس کے
بعد امام شافعیؒ تین دن تک باہر نہیں نکلے، تیسرے روز جب عصر اور مغرب کے
بعد باہر نکلے تو ان کے چہرے کا رنگ بدلا ہو ا تھا، پھر وہی بزرگ آئے اور
سلام کر کے بیٹھ گئے اور کہا کہ میرے سوال کا کیا ہو ا؟ امام شافعیؒ نے کہا
کہ ہاں اور اعوذ با للہ اور بسم اللہ پڑھ کر قرآن کی یہی آیت تلاوت فرمائی
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ
وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ
وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا یہ آیت سننے کے بعد بزرگ نے
کہا کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔
امام شافعیؒ کے اس آیت سے حجیت اجماع پر استدلال کرنے کے بعد بہت سے
اصولیوں نے ان کی اتباع کی اور یہ سمجھتے رہے کہ اجماع کی حجیت پر دلالت
کرنے والی یہ سب سے اہم آیت ہے، باوجود اس کے کہ اس روایت کی کوئی سند نہیں
اور اس کا بناوٹی ہونا واضح ہے۔
٭اس آیت سے استدلال سے پہلے یعنی جب امام شافعیؒ حجیت کے ثبوت کے لئے تین
دنوں تک دلیل تلاش کر رہے تھے، اس وقت بھی اگر ان کا موقف یہی تھا تو کس
بنیاد پر تھا کہ انہوں نے دلیل کے ملنے سے پہلے ہی اجماع کو حجت قرار دے
دیاتھا؟
—میرا یہ خیال ہے کہ جب امام شافعیؒ نے قرآن و سنت کے ساتھ اجماع کو بھی
حجت قرار د یا تھا تو ان کے ذہن میں قرآن کی یہ آیت رہی ہوگی ”اے ایمان
والو! اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے ذمہ
داروں کی بھی“ (النساء 59)۔
اولی الامر سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت کے لئے میں نے تیس سے زیادہ تفاسیر
کا مطالعہ کیا۔ ان تمام تفاسیر میں اولی الامر سے امراء اور علماءمراد لیا
گیا ہے۔
اور اصل با ت یہ ہے کہ پہلے زمانے میں امراءعالم ہوتے تھے، جیسے کہ جب ابو
جعفر منصور نے امام مالکؒ کو اس کتاب کی تدوین کا حکم دیا جسے موطا امام
مالک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس وقت اس نے کہا تھا کہ”میں ا س بات سے
بخوبی واقف ہو ں کہ اس وقت روئے زمین پر آپ سے اور مجھ سے بڑا کوئی عالم
نہیں ہے“ اور اس نے کچھ اصول بنائے جن کی روشنی میں امام مالکؒ نے موطا کو
جمع کیا، ان اصولیوں میں سے چند یہ تھے: ابن عباسؓ کے وہ اقوال جن میں نرم
پہلو اختیار کیا گیا ہے اور ابن عمرؓ کے وہ اقوال جن میں سختی کا پہلوہے ان
کو چھوڑ دیا جائے۔ اسی طرح ابن مسعودؓ کے شواذ (وہ اقوال جو جمہور سے الگ
ہوں ) کو چھوڑ دیا جائے۔
اگر علماءاور حکام انتظامی امور سے متعلق کسی بات پر متفق ہو جائیں تو ان
کی اطاعت واجب ہوگی جیسے افغانستان میں اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ گاڑی میں
ڈرائیور کی نشست داہنی جانب ہوگی اور دیگر عرب و خلیجی ممالک میں یہ طے ہوا
کہ ڈرائیور کی نشست بائیں جانب ہوگی ایسے معاملات میں اطاعت واجب ہے،
چنانچہ عرب ممالک میں کسی بھی شخص کا یہ اصرار درست نہیں ہوگا کہ نہیں میں
ایسی ہی کار خریدوں گا جس میں ڈرائیور کی نشست دا ہنی جانب ہو، اس طرح کا
اتفاق انتظامی امور میں سہولت اور معاملات کی انجام دہی کے لیے ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے اتفاق میں شرعی اصول کی بنیاد پر یہ شرط نہیں
لگائی جاتی کہ ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے، اوراطاعت اولی الامر خدا اور
رسول کی اطاعت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، چنانچہ خود حدیث شریف میں ارشاد ہے ”تم
میری اطاعت انہیں معاملات میں کرو جس میں مَیں اللہ کی اطاعت کرتا ہو ں“
مزید یہ کہ اگر ہم اس آیت میں غور کریں تو اس میں جو امر کا صیغہ اطیعو ا
ہے وہ اولی الامر کے ساتھ مکرر ذکر نہیں کیا گیا ہے، اور امام شافعیؒ نے جب
اتفاق امت کا ذکر کیا تھا تو ان کا مقصد یہی انتظامی امور سے متعلق اتفاقات
تھے جو لوگوں کی سہولت کے لئے کئے جاتے ہیں۔
٭یہ تو خیر امام شافعیؒ کی بات ہوئی دیگر اصولیوں کے متعلق کیا خیال ہے؟
—دیگر اصولیوں کی بات کی جائے تو بہت سے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں، ان کا
طریقۂ استدلال یہ ہے کہ اتباع غیر سبیل المومنین (مومنوں کے راستے کے
علاوہ کی اتباع کرنا) اور مشاقة الرسول (رسول کی مخالفت کرنا) کو ایک ساتھ
ذکر کرنا اور دونوں پر وعید ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دونوں کے
راستے کے علاوہ کی اتباع حرام ہے، اور جب ان کے علاوہ کے راستے کی اتباع
حرام ہے تو اس راستے کی اتباع واجب ہوگی جو رسول کا اور مومنین کا راستہ
ہے، چنانچہ اجماع کااتباع کرنا ان کے راستے کا اتباع ہے اور اجماع کی
مخالفت آیت میں مذکور وعید کا مستحق ہونا ہے۔
اصول فقہ کے کچھ ایسے بھی نظریہ ساز ہیں جو آیت سے حجیت اجماع پر استدلال
کا انکار کرتے ہیں ان میں ابن حزم، امام جوینی، امام غزالی،امام شوکانی
وغیرہ ہیں، امام ابن حزمؒ تو یہ کہتے ہیں کہ سبیل المونین سے مراد اتباع
نصوص ہے، امام جوےنیؒ کہتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے اس آیت سے حجیت اجماع پر
استدلال کرنے میں تکلف سے کام لیا ہے۔ آیت میں غیر سبیل المومنین سے اللہ
تعالی کی مراد سبیل الکفر ہے، اور اس آیت سے حجیت اجماع پر استدلال کرنے
میں اور بھی بہت سے احتمالات ہیں اور قطعی مطالب میں محتملات کو دلیل بنانا
درست نہیں ہے۔
امام غزالیؒ کا یہ کہنا ہے کہ آیت اسی مقصد کے لئے نص نہیں ہے بلکہ مراد
نبی کریم سے جنگ کرنا اور ان کی نصرت کو چھوڑ دینا ہے اور یہ معنی با لکل
ظاہر ہے جو آسانی سے ذہن میں آتا ہے، اسی طرح کا قول امام شوکانی سے بھی
منقول ہے۔
خلاصہ
٭اس آیت سے حجیت اجماع پر استدلال سے متعلق آپ کے پورے مطالعہ کا خلاصہ کیا
ہے؟
—میں درج ذیل نتیجے تک پہونچا:
۱۔ اس آیت سے حجیت اجماع پر استدلال کا وجود نہ عہد صحابہ میں تھا اور نہ
عہد تابعین و تبع تابعین میں اور نہ ہی یہ استدلال مشہور و معروف تھا اور
نہ ہی یہ استدلال خفی قریب کے مفہوم میں ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ
بات امام شافعیؒ پر پوشیدہ نہیں رہتی اور وہ سوال کرنے والے کے سامنے سوچتے
نہیں اور نہ ہی تین دن تک قرآن میں کوئی ایسی آیت تلاش کرتے جو اتفاق امت
پر دلالت کر رہی ہو اور پھر ان کو یہ آیت ملی جس سے انہوں نے بہت ہی دُور
کا استدلال کیا ہے، ہم امام شافعیؒ کی تمام تر عظمتوں کا اعتراف کرتے ہیں
لیکن جو بات مجھ پر واضح ہوئی وہ یہی ہے کہ اس آیت سے استدلال کرنے میں ان
سے ذرا سی چوک ہوگئی۔
۲۔ اس آیت سے حجیت اجماع پر استدلال اس لئے بھی کمزور ہے کہ اس کی تفسیر
میں مجتہدین کی جو تخصیص کی گئی ہے وہ بلا دلیل ہے، لہذا ہم بغیر کسی تخصیص
کے سبیل المومنین یا سبیلہم کو مجتہدین کے اجتہاد کے ساتھ کیسے خاص کر دیں۔
۳۔تیسری بات جس سے آیت سے حجیت اجماع پر استدلال اور بھی کمزور ہو جاتا ہے
وہ یہ ہے کہ اس استدلال میں مفہوم مخالف کا اعتبار کیا گیا ہے اور مفہوم
مخالف کی حجیت میں اختلاف ہے جیسا کہ امام غزالیؒ کی رائے ہے کہ شرط ثبوت
حکم پر اسی وقت دلالت کرتی ہے جب شرط پائی جائے اور اگر شرط نہ پائی جائے
تو حکم پر دلالت مکمل نہیں ہوگی، اور مفہوم مخالف جوامام شافعیؒ کے یہاں
حجت ہے اس میں شرط کا مفہوم نہیں ہے بلکہ اس میں صفت، تعداد، حد اور زمان و
مکان کا مفہوم ہے، نیز یہ کہ شرط کا مفہوم احناف کے نزدیک بھی حجت نہیں ہے۔
میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ جمہور مفسرین کی رائے درست ہے اورآیت میں سبیل
الکفر کی اتباع مراد ہے۔ بعض فروعی مسائل میں اختلاف مراد نہیں ہے، اس رائے
کی تائید آیت کے سبب نزول سے بھی ہوتی ہے جو گر چہ کہ مخصص نہیں ہے لیکن
نصوص کی تفسیر کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور جسے میں نے ترجیح دیا ہے۔ امام
طبریؒ نے روایت کیا ہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت ان اللہ لا یغفر
ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء و من ےشرک با للہ فقد ضل ضلالا
بعدا۔
دونوں آیتیں طعمہ بن ابیرق کے بارے میں نازل ہوئی تھیں جس نے مدینہ میں
چوری کی تھی اور نبی کریم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ مرتد
ہو کر مکہ بھاگ گیا، اور مشرکین سے جا ملا۔ مکہ میں ہی ارتداد کی حالت میں
مر گیا، یہ دونوں آیتیں اسی کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔ |