اندلس میں اسلام کا تاریخی دور
تقریبا ً آٹھ سو سال پر پھیلا ہوا ہے۔ان آٹھ صدیوں میں مسلمانوں کو زندگی
اور تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔انہوں نے ایک
اجنبی سرزمین پر مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والوں،مختلف زبانیں بولنے
والوں،اور مختلف مزاہب کے ماننے والوں کو ایک ریاست کے سائے میں متحد و
منظم کیا۔ابتدائ کی چند صدیوں میں مسلمانوں کو جو کامیابیاں نصیب ہوئیں وہ
قابل فخر بھی ہیں اور لائق ستائش بھی۔لیکن قومیں کامیابی اور کامرانی پر
پہنچتے ہی ایک کڑے امتحان سے دو چار ہوتیں ہیں۔ان کے عروج کالمحہ اس لحاظ
سے بڑا کٹھن ہوتا ہے کہ یہ عروج اکثر خود پسندی،عیش کوشی،لذت اندوزی اور تن
آسانی کے وہ رجحانات پیدا کر دیتا ہے جو ان کو زوال و انحطاط کی راہ پر ڈال
دیتے ہیں۔اندلس کے مسلمان بھی نشیب و فراز کے انہی ادوار سے گذرے ۔اندلس کی
تاریخی داستان میں وہ عظیم کارنامے بھی ملتے ہیں جن پر فخر کرنا بجا
ہے۔لیکن یہ داستان محض شاندار کارناموں کی داستان ہی نہیں ،اس کاایک حصہ
نہایت سنگین کو تاہیوں پر بھی مشتمل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اندلس کے شاندار
کارناموں کی داستان کما حقہ بیان کی جاسکتی ہے اور نہ ہی سنجیدہ تجزیہ و
تحلیل کے ذریعے اس بات کو پوری طرح نمایاں کیا جا سکتا ہے کہ وہ کیا
کوتاہیاں تھیں جن کے باعث سر زمین اندلس،جس میں اسلامی تہذیب کے بعض شاندار
ترین باب رقم ہوئے،اس میں نہ صرف یہ کہ اسلام کا سیاسی اقتدار ختم ہوا بلکہ
مسلمانوں کے وجود کو ہی بتدریج ختم کر کے رکھ دیا گیا،ہزار ہا شاندار اور
حسین مساجدکی یہ سرزمین صدیوں تک اذان کی گونج سے محروم رہی۔وہ ملک جس میں
اللہ کی عبودیت کا ایک حسین ترین نقش مسجد قرطبہ کی صورت میں آج بھی نظر کو
خیرہ کرتا ہے ،وہاں پانچ سو سالوں تک مسلمانوں کو سجدہ کی بھی اجازت نہ
تھی۔کیا اس لیے کہ جس پیغام اور بلند مقصد کے عشق نے ابتدائ میں مسلمانان
اندلس کے دلوں کو زندگی اور عمل کی حرارت سے معمور کر دیا تھا،اس پیغام اور
اس مقصد سے ان کے عشق میں تدریجاً کمی آتی چلی گئی اور یہ آگ آہستہ آہستہ
ماند پڑتی چلی گئی ؟اسلامی اندلس کے سقوط کی جتنی بھی وجوہات تھیں ان سب
میں امت مسلمہ کے لیے بڑی عبرت بھی ہے اور عظیم سبق بھی۔
اندلس میں علم دوستی کی بہتات تھی اسی لیے یہاں ہر قسم کے علوم و فنون کو
غایت درجے ترقی کرنے کا موقع حاصل ہوا۔یہاں قرآن وتفسیر،حدیث و فقہ،فلسفہ و
کلام،تصوف و احسان،تاریخ و سیرت نگاری،طبیعات و کیمیا،طب وجراحت غرض کہ ہر
میدان میں بیش قیمت کارنامے انجام دئیے گئے اسی طرح ہر علم وفن میں ایسے
لوگ پیدا ہوئے جن کو علمی تاریخ میں ایک عظیم مقام حاصل ہوا۔تفسیر میں
قرطبی(رح) اور ابن العربی مالکی(رح)،فلسفہ و تصوف میں ابن عربی (رح)،ابن
رشد،حدیث میں یحیی ابن یحیی اللیثی،بقی بن مخلد اور ابن عبد اللہ،تاریخ میں
لسان الدین ابن الخطیب،سیرۃو مغازی میں قاضی عیاض،فقہ میں ابن حزم،اصول فقہ
میں شاطبی،طب وجراحت میں ابن بیطار المالکی اور الزھراوی ،غرض یہ کہ اندلس
کے ماضی پر نظر دالی جائے تو ممتاز اہل علم و فکر کا ایک پورا کارواں رواں
دواں نظر آتا ہے۔
اندلس کی شہرت کی بڑی وجہ یہاں علم اور علم والوں کا دور دورہ ہونا بھی
ہے۔زیر نظر مضمون میں اندلس کی علمی سرگرمیوں کا مختصر جائزہ لینا مقصود
ہے۔اندلس میں شاندار فتح کے بعد سب سے پہلے عبدالرحمن الداخل نے لوگوں میں
علم و ادب کا شوق بیدار کیا اور اس کے لیے اس نے مشاعروں اور مناظروں کی
مجالس منعقد کروانے کا اہتمام کیا۔اندلس کی حقیقی ترقی کا اغاز عبد الرحمن
ثانی کے عہد حکومت سے ہوا۔دنیا بھر سے علمی و ادبی کتب کی فراہمی اپنے ملک
میں یقینی بنائی۔بڑی اور کار آمد مطالعہ گاہیں تعمیر کروائیں۔اور عوام میں
علم کا شعور بیدار کرنے کی بڑی حد تک کامیاب ہوا۔یوں آہستہ آہستہ اندلس کی
سرزمین علم کی روشنی سے منور ہونے لگی،جبکہ یورپ ابھی جہالت کی تاریکی میں
ڈوبا ہوا تھا۔اندلس کے مرکزی کتب خانہ میں کئی لاکھ کتب خانہ موجود
تھیں۔اہل اندلس کی کتابوں سے دلچسپی اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ صرف
قرطبہ شہر میں بیس ہزار سے زائد کتب فروشی کی دکانیں تھیں۔تعلیم عام ہو گئی
تھی۔ہر جگہ وسیع تعداد میں مدارس قائم ہو گئے تھے۔سینکڑوں طالبعلم یہاں علم
حاصل کرنے دور دور سے آنے لگے۔صرف قرطبہ شہر میں چالیس سے زیادہ مدارس
تھے۔ان جامعات میں تفسیر، حدیث، فقہ، ادبیات، تاریخ اور فلسفہ کے علوم
پڑھائے جاتے تھے۔قرطبہ شہر میں جامعہ قرطبہ کے نام سے عالیشان درس گاہ قائم
کی گئی تھی جسے دنیا کے تمام تعلیمی اداروں میں نمایاں مقام حاصل ہو گیا
تھا۔یہاں نہ صرف مسلمان تعلیم حاصل کرتے تھے بلکہ یورپ،ایشیا اور افریقہ کے
بھی تشنگان علم اپنی پیاس بجھانے کے لیے یہاں آتے تھے۔
اندلس کی علمی حیثیت اس قدر روشن ہو گئی تھی کہ ایک انگریز مفکر لکھتا ہے:
’’سپین﴿اندلس﴾کے تقریباً ہر آدمی کو لکھنا پڑھنا آتا تھا اور یہ اس زمانے
کی بات ہے جب مسیحی یورپ میں بس علم کی مبادیات ہی کو جانا جاتا تھا اور یہ
مبادیات بھی بس بڑی حد تک گنتی کے چند لوگ جانتے تھے‘‘
علمائے اندلس نے قرآنی علوم اور تفسیری ادب میں بیش قیمت اضافہ کیا ہے۔چند
ایک کا مختصرتذکرہ کیا جاتا ہے۔جس سے اندازہ ہو گا کہ اندلسی اہل علم کے
مرتبہ و مقام،ان کی قرآن حکیم سے وابستگی اور دینی حمیت کے آئینہ دار ہیں۔
﴿۱﴾الجامع لاحکام القرآن للقرطبی(رح)
یہ قرآن کریم کی ایک مقبول اور نہایت مفید تفسیر ہے۔ان کے مصنف کا نام ابو
عبد اللہ محمد بن احمد بن ابو بکر ہے۔وہ اندلس کے مشہور شہر قرطبہ کی طرف
منسوب ہو کر ’’قرطبی‘‘کہلاتے ہیں۔
﴿۲﴾احکام القرآن لابن العربی(رح)
اس کتاب کے مصنف کا نام ابو بکر محمد بن عبد اللہ المعافری الاندلسی
الاشبیلی ہے۔اندلس کے انتہائی بلندپایا علمائ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ابن
العربی کی یہ تفسیر فقہی انداز کی تفسیر ہے اور تفسیر میں اعلی مقام رکھتی
ہے۔
اس کے علاوہ ’’البحر المحیط لابی حیان‘‘ اور’’ تفسیر القرآن الکریم لابن
العربی‘‘ بہت مشہور تفاسیر ہیں۔
سرزمین اندلس میں جہاں دیگر علوم پروان چھڑے وہاں علم حدیث بھی اہل علم و
تحقیق کی توجہ کا مرکز رہا۔اس خطہ میں ایسے محدثین پیدا ہوئے جن کی تصنیفات
آج تک دنیا میں پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔
اندلسی علمائ نے مختلف ممالک میں جا کر وہاں کے علمائ سے علم حدیث کا فیض
حاصل کیا اور واپس آ کر اپنے ملک میں عام کیا۔اکثر علمائے حدیث نے قرطبہ
شہر کو اپنا مرکز بنایا اور یہیں علم حدیث کی مجالس منعقد کیں۔ان علمائ میں
قاسم بن اصبغ،بقی بن مخلد،محمد بن وضاح اور بے شمار محدثین کرام کے نام
ملتے ہیں جو کہ قرطبہ کی مساجد سے وابستہ ہیں۔اس کے علاوہ سینکڑوں ایسے نام
ہیں جن کو اگر ذکر کیا جائے تو صفحات بھر جائیں وہ بھی اندلس ہی کی سرزمین
پر علم حدیث کا نورانی علم بکھیرتے رہے۔
اس کے علاوہ سیرت نگاری میں اندلسی علمائ نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔جن
میں مشہور ابن عبد البر کی ’’الدرر فی اختصار المغازی و السیر‘‘قاضی عیاض
کی ’’کتاب الشفائ بہت مشہور ہیں۔
اندلس میں فقہ کا بھی بہت قابل قدر کام ہوا۔اندلس میں زیادہ تر مالکی فقہ
کی ترویج ہوئی۔یہاں بڑے بڑے فقیہ حضرات نے اسلامی فقہ کی تدوین اور خدمات
سر انجام دیں۔ان میں مشہور فقیہ یحیی بن یحیی مصمودی،زیاد بن عبدالرحمن،عبد
الملک بن حبیب،ابن عبد البر اور قاضی ابو بکر بن العربی کے نام قابل ذکر
ہیں۔
علم تاریخ میں بھی اہل اندلس نے بڑا حصہ ڈالا۔اندلس نے الرازی جیسا باکمال
مورخ دنیا کو دیاجو تاریخ،ادب،شعرو شاعری اور قوت حفظ و ضبط میں ممتاز
حیثیت رکھتا تھا۔ان کی ’’تاریخ اندلس اور ’’انساب مشاہیر اہل الاندلس‘‘بہت
مشہور ہے۔
غرض یہ کہ اہل اندلس نے علم و فنون کو حاصل کرنے میں لگن اور محنت کا ثبوت
دیا۔اور دنیا کے ایک خطہ میں ایسی عظیم الشان سلطنت قائم کی جس کی کوئی
نظیر نہیں ملتی۔دنیا حیران ہے کہ ایک ایسی عظیم قوم جس نے اپنے اصلی وطن سے
ہزاروں میل دور سمندر پار ایک ایسی دنیا بسائی جس کی سیاسی،ثقافتی اور علی
روایات انسانی تاریخ کا ایک قابل فخر کارنامہ ہیں۔ایک ایسی سلطنت جس کی
سیاسی ہیبت اور فوجی قوت و برتری سے ایک عالم لرزہ براندام تھا اور جس کی
اندرونی خوشحالی بھی مثالی تھی۔لمحہ فکریہ ہے کہ اتنی عظیم قوم اس خطہ ارضی
سے یوں محو ہو گئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں اور آج اگر اس خطے میں اس کی عظمت
رفتہ کے شواہد و آثار موجود نہ ہوتے تو دنیا اسے من گھڑت افسانہ سمجھتی۔اس
لیے اندلس کی تاریخ دلچسپ ہونے کے ساتھ بڑی عبرت آموز بھی ہے۔
آج اندلس ، موجودہ اسپین میں موجود جامعہ قرطبہ کے شواہد و آثار ہمیں بھولا
ہوا سبق یاد دلاتے ہیں۔آج بھی جب کوئی مسجد قرطبہ کے ویراں محراب کو دیکھتا
ہے تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔اس کے بوسیدہ مناروں سے ایک صدا سب کو سنائی
دیتی ہے۔کہ قوموں کی زندگیوں میں عروج و زوال ضرور آتے ہیں اگر ان مصائب
اور تکالیف کا سامنا نہیں کرو گے جو آزمائش کی صورت میں اللہ رب العزت کسی
قوم پر نازل فرماتے ہیں تو بڑی شاندار قوموں کے نام و نشان تک مٹ جایا کرتے
ہیں۔اگر تھوڑی سی عزت کے لیے اللہ کے دشمنوں سے اپنے ملکوں کے سودے کرو گے
توآنے والی دنیا تمہارے کھنڈرات دیکھ کر تمہیں یاد کر لیا کرے گی۔اگر ذاتی
خواہشات اور اقتدار کے غلام بن جاؤ گے اور اس کے لیے اپنوں کا ہی خون
بہانا شروع کر دو گے تو قوموں کا زوال ایسا شروع ہو جاتا ہے جس میں سوائے
تباہی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اگر اپنی جماعتوں میں اتحاد قائم نہ کرو
گے،اگر آپس کے اختلافات میں پڑ کر منتشر ہو جاؤ گے تو ایسے مٹ جاؤ گے کہ
تمہاری باقیات پر آنے والا مورخ تماری تباہ و بربادی کا سبب تلاش کرے
گا۔میرے ملک میں یہ سب کچھ ہوا نتیجتاً آج میرے صحن میں جہاں کسی وقت
ہزاروں لوگ سجدہ ریز ہوتے تھے،وہاں سالوں گزر گئے کوئی سجدہ کرنے والا نظر
نہیں آتا۔
آج اندلس کی یہ حالت ہے اگر کسی ملک کا کوئی مسلمان مسافر وہاں کسی جگہ میں
نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو جائے تو وہاں کے لوگ رک رک کر حیرت اور تعجب کی
نظر سے اس مسافر کو نماز پڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔شاید ذہن کے کسی گوشے میں اس
مسافر کو نماز پڑھتا دیکھ کر ان کو ذرا بھر خیال ضرور آتا ہو گا۔کہ ایسا
کوئی عمل ہمارے آباؤ اجداد بھی کرتے تھے۔
دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں،آسماں
آہ کے صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں
روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں |