ایسی سحر ملے ہمیں جو بارِ شب اُٹھا سکے

عربی کے جو الفاظ عرشِ اعظم سے نکل کر ایک مہتمم با لشان فرشتے کے ذریعہ ایک مہتمم بالشان رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوتے ہوئے ہم تک پہنچے ہیں، اِن کے معانی و مفاہیم تک اِنسانی ذہن کے فہم و ادراک کی رسائی نہ صرف یہ کہ دُنیا کی کسی زبان میں ممکن نہیں بلکہ اِن کی ترجمانی بھی بڑی مشکل سے ممکن ہو سکتی ہے، چاہے وہ مشرقِ وسطےٰ میں بولی جانے والی خود عربوں کی عربی زبان ہی کیوں نہ ہو۔ایک ایسے زمانے میں جب کہ کتاب اللہ کو مذہبی کتاب کہہ کر اِس کو زندگی کے پرائیوٹ معاملے سے جوڑ دیا گیا ہو،اگر ربّانی الفاظ سے دوری مسلسل بنی رہتی ہے تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ گو کہ عالمی سطح پر مخلصین کی ایک جماعت اِس دوری کو پاٹنے میں دِن رات، صبح و شام برابر لگی ہوئی ہے۔ہم بھی بساط بھر کوشاں ہیں کہ نطقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی معرفت جن الفاظ نے فضاﺅں کو تقدس کی خوشبو سے معطّر کر دیا تھا، اُن الفاظ سے ہماری کم از کم اجنبیت تو دور ہو جائے۔یہ مرحلہ اگر طے ہوجاتا ہے تو پھر تدبر اور تفکر کے ذریعہ اِن الفاظ کا لسانی و تاریخی پس منظر، اِن کے معانی و مفاہیم کی روح اور اِن میں پنہاں پیغام کی گہرائیوں کا پتہ لگانے کا دروازہ اُمید ہے کہ اِنشاءاللہ کھل کر رہے گا۔

خالق و مالکِ کائنات جو ادوار کا خالق ہے، جو زمانوں کا خالق ہے، ہر زمانے کے اِنسانوں کا خالق ہے ،اِنسانوں کی سمجھ بوجھ کے معیار ہی کانہیں بلکہ ہراِنسان کی ذہنی سطح کا بھی تخلیق کارہے، اپنی کتاب کو ایسی مختصر مگرپر مغز آیتوں سے مزیّن فرمادیا ہے کہ جن میں گیرائی بھی ہے اورگہرائی بھی۔فہم و ادراک کی جن میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں اور ایسی آسانیاں جو بہ یک وقت دانشمندوں کی دانشوری کو بھی ہدایت کے اُجالے عطا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عام آدمیوں کی سطحِ فہم کا لحاظ رکھنے والی بھی ہیں کہ ہر سطح اورہر صلاحیت کے افراد غور و فکر پر آمادہ ہو سکیں۔ مثالیں بھی ایسی کہ جن سے اِن کا رات دن کا واسطہ رہتاہے اور کسی دور کا انسان کیوں نہ ہو اِن سے ناواقف نہیں رہ سکتا ،۔ مثلاً اُس اِنسان کو پاگل قرار دیا جائے گا،جس کا یہ دعویٰ ہو کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی آسمان سے پانی کے برسنے کا منظر نہیں دیکھا ۔اِسی طرح گرمی کی شدت سے زمین کا شق ہونا،بارش کے موسم میں اِس کا دوبارہ زندہ ہوجانا، زمین سے نباتات کا اُگنا ،اِس پر باغات کا پھلنا پھولنا، انسانی زندگی کی بقا کے لئے رزق اورProvisionsکی فراہمی جیسے واقعات پر مشتمل ایک بے عیب نظام کامشاہدہ وہ مسلسل کرتا رہتا ہے، ہر زمانے میں کرتا رہتا ہے اور زمین کے ہر خطے میں کرتا رہتا ہے۔پھر جانوروں کی غذا کا سامان بھی یہاں کس طرح فراہم ہوتا ہے ، اِسے بھی وہ مسلسل دیکھتا رہتا ہے۔ اِن سے اسے دودھ اور گوشت کے علاوہ چرم جیسی دیگر کئی کارآمد اشیاءمہیا ہوتی رہتی ہیں۔چنانچہ قرآنی آیتوں کے فہم کے بارے میں ایک فہیم و ذکی شخص اپنی نام نہاد ذہانت کے بل پرقرآنی آیات سے بے نیازی نہیں برت سکتا نہ اِحساسِ برتری کا شکار ہو سکتا ہے اور نہ ایک سادہ مزاج عام آدمی اپنی نام نہاد سادگی کے بل پر اِنہیں مشکل کہہ کر اِن سے دوری اِختیار کرنے کی جرات کر سکتا ہے ۔یہ اِن آیتوں ہی کا کمال ہے کہ یہ بلالحاظ ملک و قوم، علاقہ و سرحد، ادوار اور وقت، اِنسانوں کی ہدایت کا یکساں طور پر ایک Liveذریعہ بن جاتی ہیں۔

اِسے محض انسان کی بد بختی کہیے کہ وہ ہدایت کی جستجو ہی سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور الکتاب سے دوری، چاہے وہ کسی بھی کامپلکس کے تحت ہو، اِس طرزِعمل کے حتمی نتیجہ کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔مثلاً اسّیویں سورة کی چوبیسویں تا بتیسویں آیات ملاحظہ ہوں۔ اِن آیات پر تدبر کے ذریعہ توحید کی حقیقت کسی بھی معیار کے آدمی پر واضح ہو جائے گی:” اپنی غذائی ا جناس پر اور اشیائے خورد و نوش پر اِنسان ذرا غور تو کرے! بے شک ہم ہی نے آسمان سے ایک مقررمقدار میں بارش بر سائی ۔ایک مناسب انداز سے زمین کو بھی ہم نے ہی شق کیا ۔پھر ہم نے اِس زمین میں غلے اورفوڈ گرینس اُگائے اور انگورجیسے پھل اور ترکاریاں بھی اورزیتون اور کھجور کے قبیل کے پھل بھی اور نوع بہ نوع میوﺅں سے لدے پیڑوں پر مشتمل گھنے باغات اور خوراک اور سامانِ زندگی کی فراہمی، تمہارے لئے بھی رزق اور تمہارے جانوروں کے لئے چارہ بھی۔ “

اللہ کی توحید کی اِس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُس نے زمین پر بسنے والی مخلوق کے لیے مذکورہ غذائی نظام کھڑا کیا جس کو نہایت سادہ سی لفظیات کے حوالے سے بیان کردیاگیا۔اگر اِلٰہ واحد نہ ہو تو غذاکی فراہمی کے نظام میں شامل اِن محرکات میں یہ غیر معمولی تال میل ہر گز نہیں ہوسکتا تھا۔مخلوق کی فراہمی غذا کایہ کامل نظام ایک خالق اور ایک Master ہی کے کنڑول میں ہے اور اِنسانی فلاح کے لیے مفید نتائج پیدا کر رہا ہے۔اگر اس منظم نظام کی کوئی ایک کڑی بھی غائب ہوجائے تو سارے کے سارے انسان مل کر بھی اسے جوڑ نہیں پائیںگے نہ اپنی زندگی میں غذا کی بنیادی ضرورت پوری کر سکیں گے۔ یہ ہیں اُن بے شمار احسانات میں سے کچھ احسانات جن کے جواب میں مالک کائنات کے حضور جذبہ تشکر سے اِنسانی سروں کو جھک جانا چاہیے۔لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ عام طور پر ایسا نہیں ہے۔خدا کے بے پناہ احسانا ت سے فائدہ اُٹھانے والے یا تو غفلت کا شکار ہیں یا ”شانِ بے نیازی“ کی حماقتوں میں مبتلا ہیں۔ یہ غافل لوگ روز مرّہ کے اِن مقبول ِ عام مناظر کو دیکھتے تو ہیں لیکن اِن کی علت سے بے خبری اِنہیں توحید کی طرف راغب ہونے نہیں دیتی۔اگرچہ کہ خالق و مالک ہمارے شکریہ سے بے نیاز ہے، لیکن اُس کا یہ فضل ہے کہ وہ اپنے شکر گزار بندوں سے والہانہ محبت کرتا ہے اور اپنے فضلِ خاص سے اِنہیں نوازتا بھی ہے۔اِس لیے کیا یہ خود اپنے مفاد میں نہیں کہ ہم رب کے شاکر بندے بنیں اور نعمتوں کی کبھی ختم نہ ہونے والی بارشوں سے فیض یاب ہوتے رہیں....!!

واضح رہے کہ ایک طرف ہم شکر گزاری کی روش اختیار کرکے خدا کی رضا کے حقداراور اجر کے مستحق بننے والے ہیں تو دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہماری ناسپاسی ہماری باز پرس کا سبب بن جائے گی۔ عقل ِعام بھی یہی کہتی ہے اور ہر اِنسان کا ضمیر بھی گواہی دے گا کہ جن نعمتوں کا ہم بے دریغ استعمال کرتے رہے ،اُن کی جواب دہی اپنے رب کے ہاں ضرور کرنی ہے۔ نعمتوں کے بے جا یا بجا استعمال کی بیلنس شیٹ خدا کے حضورضرور پیش کی جانی ہے۔اِس کے لیے ہمیں اپنی یہ حیثیت کبھی بھولنی نہیں چاہئے کہ ہماری پیدائش بے مقصد نہیں۔ ہم اپنے ضمیرسے پوچھیں تب بھی اور کتاب اللہ سے رجوع کریں تب بھی ہمیں رب تعالےٰ کے اعلان کی گونج سنائی دے گی کہ :”میں نے انسانوں کو، اور نظر آنے والی یا نظر نہیں آنے والی تمام مخلوق کو صرف اور صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری غلامی کو تسلیم کرلیں اور صرف میری ہی عبادت کریں۔ “اکاون ویں سورةزاریات کی چھپنویں آیت میں اِس پیغام کو نہایت سادہ الفاظ میں پیش کیا گیا ہے:....”وَمَا خَلَقتُ الجِنَّ وَالِنسَ ِلَّا لِیَعبُدُونِ “.... باشعور انسان ہی یہ بات سمجھ پاتے ہیں اور اقراربھی کرتے ہیں کہ جس رب نے مجھے زندگی بخشی، میری ضرورتوں کی تکمیل کا مکمل نظم میری پیدائش سے پہلے ہی اس زمین پر فرما دیا،جس نے تمام مخلوق کو میری خدمت پر مامور فرما دیا، جس نے آسمان سے بارش بھی میرے ہی لیے نازل فرمائی اور اس بارش کے سسٹم سے میرے لئے غذائی اجناس کی فراوانی فرمائی،وہ اپنے کاموں میں کسی پارٹنر کو مطلق گوارہ نہیں کرتا۔باشعور انسان یقین رکھتے ہیں کہ اس مکمل سسٹم میں کسی اور کا کوئی عمل دخل، اختیار اوراقتدار ہر گزممکن نہیں ہے، نہ ہوسکتا ہے۔پینتیسویں سورة کی تیسری آیت دیکھیے،کتنے واضح الفاظ میں یہ ہم سے سوال کرتی ہیں:”لوگوں، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں، اُنہیں یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے(مسلسل) رزق سپلائی کر رہا ہے؟(حقیقت تو یہ ہے کہ)کوئی معبود اُس کے سوا(موجود ہی ) نہیں(جو تمہاری ضرویاتِ اغذیہ کا ذمہ دار ہو).... آخر کہاں سے تم فریب کھائے جا رہے ہو؟“

جب ہم رب تعالےٰ کی نعمتوں کو یاد کرتے ہیں تو لازماً ہم میں عاجزی و انکساریHumbleness کے جذبات پیدا ہوں گے۔ ہم میں شکر کے جذبات پنپنے لگیں گے۔جس وقت ہم شکر کے جذبات اپنی ذات پر طاری کرلیں گے تو قرآن کی آیتیں خوشخبریوں اور بشارتوں کے ساتھ حاضر ہو جائیں گی۔چودھویں سورة ابراہیم کی ساتویں آیت میں ایسی ہی خوشخبری موجود ہے:”اورتمہارے لیے تمہارے رب کا یہ کھلاAnnouncement ہے (اور تمہیں اِس اعلان کے ذریعہ خبردار کیا جاتا ہے )کہ اگر تم شکرگزاری کی زندگی گزارو گے، تو میں تمہیں مزید(نعمتوں سے) نوازوں گااور اگر تم نے ناشکری کی روش اِختیار کی تویاد رکھو کہ میری سزا بھی بڑی سخت ہے۔ “

ہمارا خالق ومالک اپنی عطا کردہ نعمتوں پر، ہم سے کیسے اور کس طرح کا شکر چاہتاہے؟ اگر ہم اس کے لئے رب کی کتاب سے رجوع کریں تو ہمیں ایک مضبوط لائحہ عمل ملتا ہے جس پر عمل آوری ہمیں شکر گزار بندہ بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوگی۔یہ لائحہ عمل ہم کو چھیاہتر ویں سورة کی ساتویں تا دسویں آیت میں ملتا ہے:” (شکر ادا کرنے والے Gratefulلوگ) وہ ہوں گے جو( دنیا میں)نذر ( اور اپنے Commitmentsپورے کرتے )رہے ہوں گے اورقیامت کے اُس دن سے ڈرتے رہے ہوں گے جس کی آفت کا پھیلاﺅ( شش جہات میں )بڑی وسعت لیے ہوئے ہوگا۔ اور(اُن کا شیوہ یہ رہا ہوگا کہ وہ) اللہ کی محبت کی جستجو میں مسکین اور یتیم اور اسیروں یا Captives کو کھانا کھلاتے ر ہے ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ ہم صرف اللہ کی (رضا کی)خاطر تمہارے طعام کا انتظام کر رہے ہیں۔(اِس کارِ خیر کے عوض) ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ اِظہارِ تشکرہی کے خواستگار ہیں....، ہم توبس اپنے رب کی جانب سے برپا ہونے والے اُس دن کے عذاب کے خوف سے اور اُس کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے لرزتے ہیں ( اور یہی خوف ہے جو ہمیں اپنے کمٹ منٹس کی بحسن و خوبی ادائیگی میں مصروف رکھتا )ہے جو(اپنی نوعیت کے اعتبار سے) ایک سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔“

یہی وہ آیت ہے جہاں ہمیں شکر گزاری کے اصل طریقہ کار سے واقفیت حاصل ہوتی ہے جس سے نہ جانے کتنے ہی ”نکو کار“ اورنہ جانے کتنے ہی ”دیندار “ عوام ناواقف ہیں۔ شکر گزاربندوں کی علامت یہ ہے کہ وہ خود اپنی ہی دنیا میں مگن نہیں رہتے، بلکہ وہ جانتے ہیں کہ جو نعمتیں اللہ نے انہیں دے رکھی ہیں ان میں کن کن لوگوں کا کس قدر حصہ ہے۔ پھر وہ کوشش کرتے ہےں کہ ان تک انکا حصہ پہنچادیا جائے۔پھر وہ ضرورتمند بھوکوں کے کھانے کی فکر اور انتظام کرتے ہیں۔ یتیموں، Orphans & Destitutes کی پریشانیوں میں ہر ممکن مدد کے لیے وہ تڑپتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ حالات کے قید و بند میں پھنسے لوگوں کے یا فی الواقع سزا کاٹ رہے قیدیوں کے کام آتے ہیں۔پھر ان کا قولاً اور عملاً یہ رویہ ہوتا ہے کہ جن کی مدد کی جارہی ہے، انکی طرف سے انہیں کسی قسم کی شاباشی یا بدلہ وصول نہ ہو۔اِس کا تو کوئی خیال اور تصور تک اِن کے ذہنوں کے کسی گوشے سے چھو کر تک نہیں گزرتا۔بلکہ وہ تو صرف اور صرف اپنے رب کی رضاکے لئے یہ کام کرتے رہتے ہےں۔ نعمتوں کی شکرگزاری کے اِن اُمور سے وہ اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ اِنہیں کسی اِنعام کی فکر ہوتی ہے نہ انتظار۔بلکہ وہ تو سامنے والے کے شکریہ کے بھی منتظر نہیں رہتے۔دراصل انہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ ایک دن انہیں اور ساری انسانیت کو مالکِ کائنات کے سامنے حساب کے لئے پیش ہونا ہے۔وہ شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ وہ دن کوئی آسان دن ثابت ہونے والا نہیں ہے۔بلکہ وہ ایک پریشان کن دن ہوگا۔وہ اپنے اچھے یا برے عمل کو جاری رکھنے کا دن نہیں ہوگا ۔ بلکہ اعمال کا رزلٹ آﺅٹ کیے جانے کا دن ہوگا۔ نیتوں کوطشت از بام کرنے کا دن ہو گا۔انسان کے رویوں اور اُس کے اندرون کی کیفیات کو جانچنے کا دن ہوگا۔ اس دن کی اپنی ہی ایک الگ سخت گیری ہوگی۔اس دن تو یوم تبلی السرآئر فما لہ من قوة ولا ناصرکا معاملہ ہوگا۔ سارے بھید اور سارے اسرار کھول کر رکھ دئے جانے کا دن ہوگا۔کسی انسان کے پاس کوئی قوت، کوئی طاقت نہیں ہوگی اپنے آپ کو بچانے کے لئے....کوئی سُپر پاور بھی کسی کی مدد کو آگے نہیں بڑھے گا۔کوئی ڈالر کام آئے گا نہ روپیہ، ریال نہ دینار....یہاں تو صرف وہ اعمال کام آئیں گے جو رب کی شکر گزاری کے لیے انجام دیے گیے ہوں گے۔

تو کیا اب بھی اِس حقیر قلم کار کے اور اِس کے قارئین کے ہاتھ دعا کو نہیں اُٹھیںگے؟اپنے لیے ، اپنے متعلقین کے لیے، اپنے ہم وطنوں کے لیے، اپنے قارئین کے لیے، اپنے سامعین کے لیے کہ ہمارا مولا ہم پر رحم فرمائے اور اِس دن کی سختیوں سے ہمیں بچالے۔؟کیا اب بھی ہم نیکیوں کی اپنی خود ساختہ فہرست ہی کو مقدم رکھیں گے؟کیا ہم انسانیت کی فلاح کے کاموں کی اُس فہرست پر عمل نہیں کریں گے جو مذکورہ آیت میں درج ہے یا قرآن کے دیگر مقامات پر موجود ہے ، جس پر عمل پیرا ہو کر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ چھوڑا ہے؟آئیے ....ہم اپنے رب کے آگے گڑ گڑا کر اپنی خطا کار آنکھوں کو نم کر لیں اور اپنے دامن کے داغوں کو اِن آنسوﺅں سے دھو لیں کہ مولا ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے اُن حقوق کو ادا کریں جو ہم پر نکلتے ہیں.... جنہیں ہم ابھی تک ادا کر نہیں پائے ہیں۔مولاتو ہی ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف فرما نے والا ہے۔ہمیں اِن نعمتوں کے ساتھ ایک اور نعمت عطا کر اور وہ نعمت ہے بخشش کی نعمت.... آمین۔رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا اِنَّکَ اَنتَ السَّمِیعُ العَلِیمُ وتُب عَلَینَااِنَّکَ اَنتَ التَّوَّاب’‘ الرَّحِیمُ ۔ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیرِ خَلقِہ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہ وَاَصحَابِہ اَجمَعِینَ بِرَحمَتِکَ یَااَرحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔

ہے کوئی یتیم نواز، مسکین نواز و اسیر نواز بندہ خدا جو اپنے شکر گزاربندہ خدا ہونے کا ثبوت فراہم کر سکے؟
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83311 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.