روحانی ترقی اور کمال باطنی کا
آخری لازمی نتیجہ شوق شہادت ہے۔﴿سیرت سید احمد شہید﴾
یہ بات یقینی ہے کہ کوئی روحانی ترقی کے کتنے ہی منازل کیوں نہ طے کر
لے،اخلاص و للہیت میں جس قدر کیوں نہ ڈوب جائے،روحانی و قلبی قوت کی
بلندیوں کو چھونے لگے،ریاضت و عبادت میں کتنا ہی کمال کیوں نہ حاصل کر
لے،صفائی و باطن اور تہذیب نفس کے لئے لیل و نہار یکساں کر دے،لیکن تصوف کے
اس درجے کو پہنچ کر بھی اسے اگر مزید روحانی ترقی اور کمال باطنی کے اوج
ثریا کو چھونا ہے تو اسے اعلائ کلمۃ اللہ کے لئے جانبازی،سرفروشی اور جہاد
و قربانی کے پرخار راستوں کا چناؤ کرنا ہو گا۔تب جا کر وہ اس درجے کو
پہنچے گا جو روحانی ترقی اور کمال باطنی کا آخری اور لازمی نتیجہ ہے۔اور وہ
ہے شوق شہادت۔جس کے لئے میدانوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور اپنے خون سے ان
میدانوں کو سیراب کرنا پڑتاہے۔
تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے
لئے مجددانہ کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ان میں سے اکثر افراد روحانی حیثیت
سے بلند مقام رکھتے تھے ۔ان کا حلقہ احباب ہزاروں کی تعداد میں تھا وہ
جانتے تھے کہ روحانی ترقی کا آخری نتیجہ حاصل کرنے کے لئے وہ مبارک عمل
ضروری ہے جسکے لئے سید الانبیاء محمدﷺ ستائیس مرتبہ میدان میں اترے
تھے۔باوجود اسکے کہ سیدالانبیاء محمدﷺروحانیت کے ایسے اعلیٰ و ارفع مقام پر
تھے جس کے قریب بھی آج تک کوئی نہیں پھٹک سکتا۔لیکن ’’ثم احیی ثم اقتل‘‘کی
شکل میں ایک خوبصورت نمونہ اور ایک خوبصورت سبق چھوڑ گئے۔چنانچہ ایسی بہت
سی مثالیں تاریخ کے اوراق پر جگمگا رہی ہیں جنہوں نے روحانی حیثیت کے بلند
مرتبہ کے ساتھ ساتھ ’’جہاد‘‘جیسے با برکت عمل کو اپنی زندگی میں جاری و
ساری رکھا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوئے۔اور ان میں سے بعض تو شہادت
جیسے عظیم مرتبہ پر فائز ہو کر روحانی ترقی کی آخری منزل کو پا گئے۔
زیادہ دور نہ جائیں ان آخری صدیوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں الجزیرہ کے عظیم
صوفی مجاہد امیر عبد القادر الجزائری،سوڈان کے محمد احمد السوڈانی،امام
سنوسی وغیرہ روحانی حیثیت سے نہ صرف بلند مقام پر فائز نظر آتے ہیں بلکہ
مرد میدان بن کر سپہ سالار کی حیثیت سے جلوہ افروز بھی نظر آتے ہیں۔حضرت
سید احمد شہیدؒ ایک عزیز القدر روحانی پیشوا اور مثالی شیخ الطریقت ہونے کے
ساتھ ساتھ قائد مجاہدین بھی تھے۔
ہندوستان میں جب اکبر کے دور میں ساری سلطنت کا رخ اور دھارا الحاد و لا
دینیت کی طرف ہونے لگا۔بادشاہ اکبر اپنے وقت کا طاقتور ترین حاکم تھا۔جو
غیر مسلموں کی رفاقت میں رہ کر اسلام کا امتیازی رنگ مٹانا چاہتا تھا۔اس
وقت ایک درویش نے تن تنہا اس سے مقابلہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا،اور اپنے یقین
و ایمان،اخلاص و للہیت اور جانبازی و سرفروشی کے ساتھ اس کے سامنے سیسہ
پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے اور ایک انقلاب برپا کر دیا۔ان انقلاب
کے بانی امام الطریقت حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ تھے۔
انیسویں صدی عیسوی میں جب عالم اسلام پر فرنگی’’تاتاریوں‘‘ کی یورش ہوئی تو
ان کے مقابلے میں اسلامی دنیا سے جو لوگ سر پر کفن باندھ کر میدان عمل میں
اترے ان میں سے اکثر و بیشتر صوفی،شیوخ و طریقت اور اصحاب سلسلہ بزرگ تھے
جن کے تزکیہ نفس اور سلوک راہ نبوت نے ان میں دین کی حمیت ،کفر کی
نفرت،دنیا کی حقارت اور شوق شہادت کی آگ بھڑکا دی تھی۔ان کے لئے جینا اتنا
ہی مشکل ہو گیا تھا،جتنا دوسروں کے لئے مرنا مشکل تھا۔شوق شہادت کی تڑپ اور
محبت نے ان میں تن آسانی اور راحت طلبی کی زندگی دشوار کر دی تھی۔انہیں
میدان جہاد میں بہادری کے جوہر اور شہادت کی موت آسان اور خوشگوار لگنے لگی
تھی۔
الجزائر﴿مغرب﴾میں امیر عبد القادر الجزائری جو کہ ایک پلند پایہ صوفی،عالم
و ادیب اور عالی دماغ تھے نے فرانسیسیوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔اور
1832ء سے 1847ء تک ناکوں چنے چبوائے رکھے۔ فرانسیسیوں کو چین سے بیٹھنے دیا
نہ خود چین سے بیٹھے۔اور شجاعت و بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ مغربی
مصنفین نے ان کی جہادی زندگی پر کتابیں لکھ ڈالیں۔آپ نہ صرف نظری طور پر
صوفی تھے بلکہ عملاً اور ذوقاً بھی صوفی و شیخ تھے۔لیکن شوق شہادت کی تڑپ
نے ان میں اور ان کے رفقاءمیں ایسی روح پھونک دی تھی جس سے انہوں نے اپنے
وقت کی طاقتور اور مضبوط ترین فرانسیسی فوج کو پے درپے شکست دی۔
تصوف اور جہاد کی جامع شخصیات میں ایک اور روشن شخصیت ’’شیخ امام شامل
(رح)‘‘بھی ہیں۔جنہوں نے مشیخیت سے امارت اپنے ہاتھ میں لی تھی۔اور روس کے
خلاف 25 برس تک مقابلہ جاری رکھااور مختلف معرکوں میں ان کو زبردست فتح
حاصل ہوئی۔اور روس کے خونخوار فوجی ان کا نام سنتے ہی کانپنے لگتے تھے۔روس
نے اپنی بہت بڑی جنگی طاقت امام شامل ؒ کے علاقے داغستان کی طرف روانہ
کیں۔لیکن اس کے باوجود بھی شیخ امام شامل نے دس برس تک جنگ جاری رکھی۔یہاں
تک کہ شہادت سے سرفراز ہوئے۔
تصوف و جہاد کی جامعیت کی ایک اور درخشاں مثال سید احمد الشریف السنوسی کی
ہے۔آپ بلند پایہ صوفی اور شیخ الطریقت تھے۔جب آپکے علاقے میں اٹلی کی فوجوں
نے یلغار کی تو سید احمد سنوسی نے علم جہاد بلند کیا۔اور پندرہ سال تک اٹلی
کو اس علاقے میںقدم نہ جمانے دیا۔امیر شکیب ارسلان لکھتے ہیں کہ امام سنوسی
غیر معمولی صبرو استقامت کے مالک تھے۔اولوالعزمی ان کے پروقار چہرے سے
دکھائی دیتی تھی۔ایک طرف وہ اپنے تقوٰی اور عبادت کے لحاظ سے اگر وہ اپنے
زمانے کے ابدال میں شمار ہونے کے قابل ہیں تو دوسری طرف شجاعت کے لحاظ سے
دلیران زمانہ کی صف میں شامل ہونے کے مستحق ہیں۔ اس زمانے میں سنوسی تحریک
کی سب سے بڑی خانقاہ ’’صحرائے اعظم ‘‘میں واقع’’ واحۃ الکفرہ‘‘میں واقع
تھی۔یہ خانقاہ افریقہ کا سب سے بڑا روحانی مرکز اور اور جہاد کا دارلتربیت
تھی۔
ہندوستان میں تو تصوف و جہاد کا ایسا خوبصورت اور عجیب امتزاج و اجتماع
ملتا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔اس سلسلہ میں حضرت سید احمد شہیدؒ کا تذکرہ
تو لازمی ہے۔ان کی یہ جامعیت مسلمات میں سے بلکہ حد تواترکو پہنچی ہوئی
ہے۔ان کے رفقائے جہاد اور ان کے تربیت یافتہ حلقہ احباب میں جوش جہاد اور
شوق شہادت کے واقعات قرون اولیٰ کی یادیں تازہ کرتی ہیں۔ان کی تحریک قرن
اول کا بچا ہوا ایک ایمانی جھونکا تھا۔جو تیرھویں صدی میں چلا تھا۔جس نے
دکھا دیا تھا کہ ایمان ،توحید اور صحیح تعلق باللہ اور راہ نبوت کی تربیت و
سلوک میں کتنی قوت اور تاثیر ہے۔اس ایمانی تحریک نے بتا دیا کہ جہاں ایک
مجاہد کو پختہ جوش و جذبہ اور ایثار و قربانی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں صحیح
روحانیت،صفائی باطن اور اصلاح نفس کی بھی سخت حاجت ہوتی ہے۔اس مبارک جماعت
کا ہر سپاہی جذبہ جہاد سے لبریز اور تقوٰی کے بلند مرتبہ پر فائز تھا۔تصوف
اور جہاد کا ایسا حسین امتزاج شاید ہی کسی تحریک میں ملتا ہو۔
حضرت سید شہیدؒ کے بعد شاملی کے محاز پر دیوبند کے سرخیل حضرت حاجی امداد
اللہؒ مہاجر مکی،حافظ ضامنؒ شہید،حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ ،اور حضرت
مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے وقت کے ولی اللہ بھی انگریزوں کے خلاف صف
آرائ نظر آتے ہیں۔کسی کو شہادت سے نوازا جاتا ہے،کسی کو قید تنہائی اور کسی
کو جلا وطنی کی مشقت سہنی پڑتی ہے لیکن مجال ہے کہ اپنے موقف سے ذرا برابر
بھی منحرف ہوئے ہوں۔
غرض یہ کہ ہر زمانے میں اہل سلسلہ اور اصحاب رشد دینی جدوجہد اور جہاد فی
سبیل اللہ کے کام سے فارغ اور گوشہ گیر نظر نہیں آتے۔
اس زمانے میں جہاں ہر طرف جہالت اور بے دینی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے۔اور ہر
طرف مایوسی کا عالم ہے۔جہالت نے دلوں اور دماغوں کو تاریک راہوں کی طرف
دھکیل دیا ہے۔گناہوں میں صبح و شام لتھڑے ہوئے انسانوں کو روشنی کی اب امید
نہیں رہی ہے۔اس تاریکی کے عالم میں ایک روشن کرن نے راستہ دکھایا ہے۔امید
کی کرن دلوں میں جگائی ہے۔جس سے مایوسیوں کے بادل چھٹنے لگے ہیں۔دلوں میں
ایک نیا جذبہ اور جوش انگڑائی لے کر بیدار ہوتا محسوس ہورہا ہے۔تعلق مع
اللہ اور دینی حمیت و غیرت دلوں میں جاگتی اور آنکھوں میں سجتی نظر آنے لگی
ہے۔گناہوں کی دلدل میں پھنسے انسان اب نیکیوں کے رستے پر گامزن ہونے لگے
ہیں۔مردہ دلوں میں ایسا انقلاب برپا کرنے والے آیۃ اللہ فی الجہاد حضرت
الشیخ مولانا محمد مسعو ازہر حفظہ اللہ ہیں۔جو ایک عظیم مجاہد ہیں۔اللہ کے
راستے کے سپاہی ہیں۔علم و عمل کے راہی اور بات کے پکے ہیں۔کفر ان کے نام سے
آج لرزہ براندم ہے۔ہزاروں دلوں کی دھڑکن ہیں۔شہیدوں کے ساتھی اور میدان
جہاد کے غازی ہیں۔متعدد اکابر امت نے انہیں بیعت تصوف اور اجازت تصوف سے
سرفراز فرمایا ہے۔اور خود اکابرین اور بزرگان دین نے بھی ان کے دست اقدس پر
بیعت جہاد فرمائی ہے۔حضرت حفظہ اللہ تعالیٰ نہ صرف خود تعلق مع اللہ میں
شناور ہیں بلکہ اپنے حلقہ مجاہدین میں بھی اس کی خوب تلقین و تعلیم کو ممکن
بناتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس مبارک جماعت نے حضرت سید احمد شہید (رح) اور ان
کے رفقائ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت کم وقت میں ایسے کارنامے انجام دیے
کہ آج ایک دنیا حیرت زدہ ہے اور کفر کی طاقت چور چور ہو چکی ہے۔اور دوسری
طرف تعلق مع اللہ اور اصلاح نفس کے لئے بھی انتہائی کوشاں ہے۔اس مبارک
جماعت کا ہر فرد جہاں میدان جہاد میں کفر پر تابڑ توڑ حملے کرکے ان کو جہنم
واصل کر رہا ہے ،وہاں راتوں کواللہ اللہ کی ضربیں،استغفار کی صدائیں بھی
بلند کر رہا ہے اور اپنے اندر یقین و محبت کی وہ روح پیدا کر رہا ہے جو
تصوف کے اہم ترین مقصد اور نتائج ہیں۔
آج تصوف و جہاد کی جامعیت کی مثال یا سید احمد شہیدؒ کے مبارک قافلے کی
جھلک دیکھنی ہو تو اس مبارک جماعت میں شامل ہو کر دیکھیں۔یقیناً جذبہ جہاد
کی قندیلیں اور محبت الٰہی کے چشمہ دلوں سے ابلتے محسوس کریں گے۔ |