کرپشن کی لعنت

ایک بادشاہ نے ایک قیدی کی موت کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسے لے جا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے قیدی اپنی مایوس ہو کر بادشاہ کو بُرا بھلا کہنے لگا جب اپنی موت کا یقین ہو جائے دل سے ہر قسم کا خوف نکل جاتا ہے بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے وزیر ایک نیک اور رحم دل انسان تھا اُس نے کہا کہ یہ کہہ رہا ہے کہ جو لوگ غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں تو اللہ پاک ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔بادشاہ نے جب یہ بات سنی تو قیدی کیلئے اس کے دل میں رحم آ گیا اور بادشاہ نے اس کی سزا معاف کرتے ہوئے اس کی آزادی کا حکم دے دیا لیکن دربار میں موجود ایک اور وزیر جو پہلے وزیر سے حسد کرتا تھا وہ بادشاہ سے کہنے لگا کہ ہمارے مرتبے کے لوگوں کو بادشاہ کے سامنے سچ بولنا چاہیے اُس قیدی نے تو آپ کی شان میں بڑی گستاخی کی ہے وہ آپ کو گالیاں دے رہا تھا بادشاہ کو اس کی بات سن کر بہت غصہ آیا اور کہنے لگا کہ مجھے تمھارے سچ سے تو اس کا جھوٹ اچھا لگا جو مصلحت آمیز تھا جس نے ایک انسان کی جان بچا لی تمھارا سچ تو اپنے اندر بہت بڑا فتنہ لیئے ہوئے ہے۔ داناﺅں کا کہنا ہے کہ فتنہ انگیز سچ سے مصلحت آمیز جھوٹ بہت بہتر ہے ۔بادشاہ جن لوگوں کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اُنہیں بادشاہ کے سامنے اپنی زبان سے نیک کلمات ہی نکالنے چاہیئے اس کے بعد بادشاہ نے کہا کہ میں نے وزیروں کے محل کے باہر لکھا ہوا دیکھا تھا اے بھائی دنیا ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتی اپنا دل اپنے خالق کے ساتھ لگاﺅ یعنی اپنے دل کی دنیا اللہ کی یاد سے ہمیشہ آباد رکھو اور یہی ہمارئے لیئے کافی ہے اس دنیا کے سازوسامان پر بھروسہ نہ کرو کیونکہ اس نے تمھارئے جیسے لاتعداد لوگوں کی پرورش کی اور پھر ان کا نام تک بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جب کوئی پاکیزہ روح دنیا سے رخصت ہوتی ہے تو ا س نیک انسان کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اُسکی جان کسی تخت پر نکلے یا زمین پر۔یہ حکایات شیخ سعدی ؓ کی مشہور زمانہ کتاب گلستان سعدی سے لی گئی ہیں،جسکے تراجم دنیاکی بہت سی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔وہ بھی زمانہ ہوا کرتا تھا کہ ہمارے سکولوں میں فارسی زبان میں گلستان سعدی بھی پڑھائی جاتی تھی۔لیکن جب سے انگریزوں کے قدموں سے ہماری سرزمین آشنا ہوئی تو ہم سے یہ سب چھین لیا گیا۔ان حکایات کی جگہ ہمارے بچوں نے humti dumti, set on a wall پڑھنا شروع کر دیا۔ہم سے پھر برکت بھی چھین لی گئی۔ہم اپنے ملک میں پیدا ہونے والی چیزوں کو ترسنے لگے،ہمیں بھوک کے چکر میں ڈال دیا گیا۔حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے،کرپشن کا دور دورہ ہوگیا،رشوت لینا عام سی بات ہوگئی۔پہلے پہل اگر کسی شخص کے بارے میں لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ وہ رشوت خور ہے تو اُسکے خاندان میں کوئی رشتہ نہیں کرتا تھا۔لیکن اب تو یہ حالات ہیں کہ ایک پتھر اُٹھائیں اُسکے نیچے سے بھی آپکو ایک رشوت خور ضرور ملے گا۔بھلے دانشور کرپشن کے خلاف تقرریں کرتے رہیں لیکن کسی کے کان پر جُوں نہیں رینگتی۔میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اُن کا ایک سرکاری دفتر میں جائز کا پھنسا ہوا تھا کہتے کہ میں جب بھی وہاں جاتادفتر والے کوئی نا کوئی بہانا بنا کر ٹال دیتے۔میں سمجھ گیا کہ یہ بغیر رشوت لیئے میرا کام نہیں کریں گے مجبور ہو کر کہا کہ جناب جو لینا ہے لے لو لیکن میرا کام کر دو تو اُنھوں نے بڑی ہمت سے مجھ سے پانچ ہزار طلب کر لیئے اِس پر میں نے کہا کہ یہ بہت زیادہ ہیں میں دو ہزار دئے سکتا ہوں لیکن وہ پانچ ہزار پر بضد تھے ابھی یہ بحث چل رہی تھی کہاایک اہلکار آیا اور اپنی آستین چڑھاتے ہوئے کہنے لگا کہ یار نماز میں دس منٹ ہیں جلدی کرو میں نے ابھی وضو بھی کرنا ہے تمھاری اس فضول بحث میں میری نماز قضا ہو جائے گی۔ دراصل امانتداری ختم ہو چکی ہے اور ہر شخص راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتا ہے لوگوں کی اکثریت مال کے فتنے میں مبتلا ہے۔ ان بزرگوں کے کلام میں روحانیت ہے یہ پڑھنے والے کی کایا پلٹ دیتی ہیںلیکن اب زمانہ بہت بدل چکا ہے ہر کوئی آمدنی کے حصول میں سر سے پاﺅں تک ڈوبا ہوا ہے ۔ہم حضرت محمدؓ کے فرمودات پڑھتے ہیں لیکن ہم پر ان کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا انھوں نے یہ نے یہ بات کتنی وضاحت سے کہی ہے کہ رشوت دینے ولا اور رشوت لینے والا دونوں دوزخی ہیں ۔ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں،اساتذہ سے اچھی اچھی باتیں سیکھتے ہیں،قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں لیکن ایک بہت ہی اہم بات بھول جاتے ہیں کہ اِن تمام تر اعمال کی افادیت اُس وقت ہے جب ہم اپنے لیئے رزق حلال کی تلاش کریں اور حرام سے بچیں کیونکہ حرام پر صرف اور صرف عذاب ہے۔ہمارے پاک وطن کو کرپشن کی لعنت نے ناپاک کر دیا ہے۔کیا حکمران کیا عوام سب اس میں مبتلا ہیں ورنہ مملکت خدا میں سب کچھ موجود ہے ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔لیکن کرپشن کا کینسر ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر ختم کر رہا ہے۔ایسے حالات میں اللہ پاک سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمیں رشوت کی لعنت سے بچائے ۔آمین
Naseer U Din
About the Author: Naseer U Din Read More Articles by Naseer U Din: 3 Articles with 2787 views Naseer-u-din is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in Urdu language. His most notable column "SACH KA SAAMNA.. View More