چاند اور ٹائی ٹینک

(اپنے وقت میں دنیا کا سب سے بڑا جہاز ٹائی ٹینک 15 اپریل 1912 کو غرقاب ہوا تھا۔)

جس طرح جان ہے تو جہان ہے بالکل اُسی طرح چاند ہے تو زمین ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تو چاند کے وجود کا صدقہ ہے کہ زمین اپنے محور پر جھکی ہوئی ہے یعنی تھوڑی سی ترچھی ہے۔ اگر یہ کجی، ٹیڑھ یا تِرچھا پن نہ ہو تو زمین سیدھی ہو جائے۔ اور اگر زمین سیدھی ہو جائے تو اُس پر ایک ہی موسم ہو۔ اب یہ موسم کیا ہوسکتا ہے، اِس کا کسی کو کچھ اندازہ نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ سال بھر بارش ہوتی رہے، یا سال بھر سردی ہی رہے یا پھر ہمیشہ سورج آگ برساتا رہے۔ یعنی موسموں کی بدلتی ہوئی کیفیت کے لیے ہمیں چاند کا مرہون منت ہونا چاہیے۔ زمین پر پتہ نہیں کِس کِس کے کون کون سے احسانات ہیں۔ اِس غریب پر اپنے اور بسنے والوں سے زیادہ احسانوں کا بوجھ ہے!

ایک زمین پر کیا موقوف ہے، شعر و ادب اور بالکل خصوص اردو شاعری بھی چاند کی احسان مند ہے۔ چاند نہ ہوتا تو ہمارے شعراءکو پتہ پتہ کون کون سے طریقے وضع کرنا پڑتے اپنے دِل اور دوسروں کے دِلوں کی بات بیان کرنے کے! ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ہماری شاعری نہ ہوتی تو چاند بے روزگار ہوتا! اردو کے شعراءنے چاند کو مختلف دھندوں پر لگا رکھا ہے! ہمارے بعض شُعراءنے تو چاند کو مخاطب کرکے ایسے عجیب و غریب مضامین باندھے ہیں کہ کہیں کوئی چاند سے مُخبری کردے تو بے چارہ شرم سے چاندنی چاندنی ہو جائے! کبھی چاند سے کہا جاتا ہے کہ اُس کی ٹھنڈی، ملائی جیسی چاندنی میں جیا جلا جائے! دل کو جلانے کا اہتمام کسی بے دردی نے کیا اور الزام آگیا چاند پر! کبھی چاند سے کہا جاتا ہے کہ چھپ نہ جانا۔۔ اور کب تک؟ جب تک گیت گایا جارہا ہے! اے شاباش اے! یعنی بے چارے چاند کو ہماری شوقیہ گلوکاری کا بھی پابند ہونا پڑتا ہے! کوئی چاند کو ڈاکیے کا کردار سونپنے پر تُل جاتا ہے اور اُس سے کہتا ہے کہ اُن سے میرا پیام کہہ دینا! کوئی چاند پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ اونچی کھجور سے تک رہا ہے! جب چاند ہے ہی سب سے بلند تو اُس پر تانک جھانک کا الزام عائد کرنا اچھی بات نہیں!

چاند بے چارہ کیا جانے کہ اُسے دیکھنے پر بھی لڑائی ہوتی ہے۔ عید کے موقع پر وہ بہتوں کے درمیان فساد کی جڑ بن جاتا ہے! عید کے لیے چاند کی تلاش بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ رویتِ ہلال کمیٹی والے عید منانے کے لیے آسمان پر چاند تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور نئی نسل اپنی منشاءکا چاند چھت سے قریب ہی کسی اُفق پر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں! آسمان پر چاند نہ بھی دکھائی دے تو اپنے چاند کی رویت سے نئی نسل کی چاند رات ہو جاتی ہے! عید پر چاند کا عجیب ہی معاملہ ہوتا ہے۔ دِکھائی دے تو لڑائی اور نہ دِکھائی دے تو تنازع! پہلی کے چاند میں چمک دمک برائے نام بھی نہیں ہوتی مگر شوّال کا چاند میڈیا کے ساتھ مل کر آگ لگانے کا ہُنر سیکھ گیا ہے!

ویسے چاند کی ”واردات پسندی“ کوئی نئی بات نہیں۔ ماہرین نے بتایا کہ 15 اپریل 1912 کو اُس وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز ٹائی ٹینک چاند کے باعث ڈوبا تھا! پگھلے ہوئے دِلوں کو لیکر دُنیا کے سفر پر روانہ ہونے والا ٹائی ٹینک چاند کی پگھلائی برف کے ہاتھوں پانی پانی ہوا یعنی پانی میں جا سویا۔ اچھا خاصا اپنے محور پر آرام کرنے والا چاند جنوری 2012 سے کِھسکتا کِھسکتا زمین کے قریب آنا شروع ہوا۔ اور اُس کی کشش سے 13 اپریل کو گرین لینڈ میں برف کا ایک بڑا تودہ اور چند چھوٹے تودے پگھل کر اُس بحری راستے میں آگئے جس پر ٹائی ٹینک رواں تھا۔ اِنسان کا بنایا ہوا ٹائی ٹینک قدرت کے پیدا کردہ ٹائی ٹینکز سے ٹکرا گیا۔ اور اِنسان کی کاری گری کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اِنسان کا بنایا ہوا دیو ہیکل جہاز محض جہاز نہ تھا، پورا بیڑا تھا جو پہلے ہی سفر کی ابتداءمیں یخ بستہ پانیوں کی گہرائی میں غرق ہوا!

محسن احسان کو خواب میں آکر تنہائی کے راس آنے کی ”نوید“ سُنانے والا چاند اگر اگر ٹائی ٹینک کے کسی مسافر کے خواب میں آکر برفانی تودوں کے پگھلنے کی خبر بھی دے جاتا یا کوئی ٹِپ ہی دے دیتا تو اُس کا کیا بگڑتا! مگر نہیں صاحب! چاند کو تو گرین لینڈ کے پانیوں میں خوابوں کے لیے عید کا چاند ثابت ہونا تھا اور قیامت ڈھانی تھی سو ڈھائی۔

ٹائی ٹینک بھی کیا جہاز تھا! ایک دُنیا تھی جو اُس میں آباد تھی۔ اُس وقت کی جدید ترین سہولتوں کا اِس جہاز کے مسافروں کے لیے اہتمام کیا گیا تھا۔ ٹائی ٹینک ایک رومانی سفر پر نکلا تھا۔ جمع پونجی کا بڑا حصہ خرچ کرکے لوگ خوشی خوشی سفر پر روانہ ہوئے کہ کُھلے سمندر میں پورے چاند کی روشنی سے محظوظ ہوں گے اور اپنے اپنے چاندوں سے دِل کی بات کہیں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! دِلوں کی برف پگھلنے پر یا پگھلانے کے لیے گھروں سے نکلنے والے اصلی برف کے پگھلنے پر موت کے قدموں میں یخ بستہ ہوگئے!

جس وقت ٹائی ٹینک ڈوبا، عشرے پر موجود مسافر بہت قریب دکھائی دینے والے چاند سے پھوٹنے والی چاندنی کے سِِحر میں گم تھے! اُن کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ قدرت نے چاند کو قریب بھیج کر اُنہیں اِس دُنیا کی رنگینیوں سے دور لے جانے کا اہتمام کیا ہے! ٹھنڈے چاند کے اِتنے گرم اثر کے بارے میں کوئی بھلا کیوں سوچتا؟

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک چھوٹے جہاز کے عملے نے راستے میں آ جانے والے برفانی تودوں کی اطلاع ٹائی ٹینک کے عملے کو ریڈیو پیغامات کے ذریعے دی تھی مگر؟ بڑے جہاز کے لوگ چھوٹے جہاز والوں کی بات کو خاطر میں کیا لاتے! ٹائی ٹینک پر مواصلاتی نظام مارکونی کمپنی کے زیر انتظام تھا۔ اُنہیں اپنے مواصلاتی نظام کی دُرستی پر کچھ زیادہ ہی ناز تھا! بس، یہ تکبر آڑے آگیا۔ ٹائی ٹینک چلانے والوں کی بدمزاجی سے چڑ کر چھوٹے جہاز کے عملے کے لوگ چپکے بیٹھ رہے۔ بعد میں جب ٹائی ٹینک چلانے والوں نے مدد طلب کی تو انہوں نے جواب دینا گوارا نہ کیا! اِنسان کی کاری گری کے شاہکار کو قدرتی کی کھڑی کی ہوئی رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ خود اِنسانی مزاج کے ٹیڑھے پن نے بھی ڈبویا!

ٹائی ٹینک کے غرقاب ہونے کے لیے تنہا چاند کو مُوردِ الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا۔ چاند بے چارہ تو خود بھی ڈوب ہی جاتا ہے۔ سفر کے آغاز سے قبل دعوٰی کیا گیا تھا کہ یہ جہاز ڈوب نہیں سکتا۔ وعدے کرنے والے رب کو دعوے پسند نہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524819 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More