کوئی ذرا نہ ہنس کر دِکھائے

جواز و عدم جواز کی منزل اب بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہنسنا ہو یا رونا، اب ہم کچھ کرنے کے لیے جواز اور نہ کرنے کے لیے عدم جواز کے محتاج نہیں رہے۔ اگر آپ کے پاس وقت کچھ زیادہ ہے، کاٹے نہیں کٹتا اور مارے نہیں مرتا تو پریشان نہ ہوں۔ کسی بھی محفل میں بس ذرا حالات کا ذِکر چھیڑ دیجیے اور پھر دیکھیے کہ لوگ حالات کی سنگینی ثابت کرنے کے لیے کتنی دور کی کوڑیاں لاتے ہیں اور کِس کِس طرح روتے، رُلاتے ہیں! ہمارے ہاں لوگوں کو رونے کا بہانہ چاہیے۔ اِس معاملے میں کچھ لوگ تو بالکل چابی والے گڈے کی طرح ہوتے ہیں یعنی چند جملوں کے ذریعے چابی دیجیے اور پھر خاموشی سے کونا پکڑ کر تماشا دیکھیے! حالات کی خرابی، بدامنی، مہنگائی، حکومت کی بے حِسی، اپنوں کی ناقدری، غیروں کی بے رغبتی، دوستوں کی بے اعتنائی، واقفیت رکھنے والوں کی اجنبیت .... غرض کون سا موضوع ہے جس میں ہمت ہے کہ بچ کر نکل جائے!

اور اگر ہنسنے کو جی چاہے تب بھی کوئی بات نہیں۔ کوئی بھی بات آپ کو ہنسا ہنساکر بے حال کرسکتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر اب ہنس ہنس کر بے حال ہی تو ہونا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش اِس لیے ہے کہ ہم ماضی کی ”حسین“ یادوں میں یا پھر مستقبل کے ”دل فریب“ خوابوں کی دنیا میں گم رہنا چاہتے ہیں۔ حال کی تلخی ہم سے برداشت نہیں ہو پاتی، اِس لیے ہنستے ہنستے یا روتے روتے ”بے حال“ ہونے کو ترجیح دی جاتی ہے!

اہل مغرب سے ہمیں بہت سے شِکوے ہیں۔ وہ اِتنے مصروف رہنے لگے ہیں کہ رونے اور ہنسنے کے لیے بھی وقت نکالنا پڑتا ہے! بیشتر تو ہنسنا اور رونا بھول ہی بیٹھے ہیں۔ ہنسنے کے لیے بہانے ڈھونڈنے پر وہ جتنی محنت کرتے ہیں اُتنی محنت تو اب ہمارے ہاں اعلیٰ سطح پر تحقیق کے لیے بھی نہیں کی جاتی! حد یہ ہے کہ مغرب میں بہتوں کو اب ہنسنے کے لیے آپریشن کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے! دل، گردے، پتّے، ہرنیے، جگر اور دماغ کے آپریشن کے بارے میں تو آپ نے سُنا ہوگا۔ ہنسنے کے لیے آپریشن؟ یہ کیا بات ہوئی؟ ہالینڈ کا ہیو باس دو سال سے متواتر ہنس رہا ہے۔ دو سال قبل اُس کے نچلے دھڑ کا ایک آپریشن ہواتھا۔ تب سے اب تک اُس کی ہنسی ہے کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اور اِس ہنسی کے باعث لوگ اُس کے پاس نہیں رُک رہے! ڈچ حکومت کو معیشتی بگاڑ پر قابو پانے کی اُتنی فکر لاحق نہ ہوگی جتنی ہیو باس کی بیوی، بھائی، بہن کو یہ سوچ کر لاحق ہے ہنسی کے اِس گول گپّے کو کس طرح کنٹرول کیا جائے! ہم چاہیں گے کہ باس کے بھائی بہن اور بیوی کو نفسیات کے اُن ماہرین کی گوشمالی کریں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہنستے گاتے جینے سے اِنسان بیمار نہیں پڑتا اور گھر میں کوئی پریشانی قدم نہیں رکھتی!

ہیو باس ہالینڈ میں پیدا ہوا اور وہیں بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھا ہے مگر حق یہ ہے کہ مزاج اور نفسیاتی ساخت کے اعتبار سے وہ کھرا اور سچّا پاکستانی ہے! دِل اور مُنہ کھول کر متواتر اور بلا جواز ہنسنے، بلکہ ہنستے رہنے پر اُسے پاکستان کی اعزازی شہریت دی جانی چاہیے! آج پاکستان میں کون ہے جو ہنستے رہنے کے لیے کوئی جواز تلاش کرنے کی زحمت گوارا کرتا ہے؟

دنیا بھر میں لوگ ہنسنے کے لیے کچھ نہ کچھ پڑھتے ہیں۔ ہمارے ہاں پڑھنے کے بجائے دیکھنا کافی ہے۔ اور بالخصوص الیکٹرانک چینلز کی نشریات۔ جن ڈراموں کو سنسنی خیز قرار دیا جاتا ہے اُنہیں دیکھ کر ہنسی کے فوّارے چھوٹتے رہتے ہیں! اور کامیڈی کے نام پر تیار کئے جانے والے ڈرامے اِنسان کو ”ڈیتھ بائے لافٹر“ کی منزل تک لے جاتے ہیں! جب سے سیاسی موضوعات پر بحث کو ٹی وی چینلز پر پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، پاکستانی قوم ہنسنے اور قہقہہ لگانے کے معاملے میں overdose کا شکار ہوگئی ہے!

مغرب کے لوگ اب تک پس ماندہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہنسنے کے لیے اُنہیں آپریشن کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے! کیسی روبوٹک زندگی ہے کہ ہیو باس ہنسنے کے mode میں آنے کے لیے آپریشن تھیٹر کے بیڈ پر لیٹنے کا مُکلّف ہوا۔ ہم ایسے کسی بھی آپریشن کے محتاج نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اب آپریشن کے لیے تھیٹر کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی! اور سچ تو یہ ہے کہ آپریشن کے نام پر رچائے جانے والے ڈراموں نے پورے معاشرے کو ”لافٹر تھیٹر“ میں تبدیل کردیا ہے!

ہمیں وہ لوگ پسند نہیں جو حکومت پر عوام کی مشکلات میں اضافے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ میر تقی میر کے بقول
یہ تو نہیں کہ ہم پر ہر دم ہے بے دِماغی
آنکھیں دِکھاتے ہیں تو چتون میں پیار بھی ہے!

حکومت اگر رُلاتی ہے تو اُس سے کہیں زیادہ ہنساتی بھی ہے۔ غور کیجیے کہ لوگوں کو ہنسانے کے لیے وزراءکی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کو اگر آپ محض داخلی اُمور کا انچارج سمجھتے ہیں تو آپ کی سادگی پر قُربان جائیے! عبدالرحمٰن ملک کا بُنیادی ہر اہم اِشو کی غلاظت پر چند ہلکے پھلکے جُملوں کا چھڑکاؤ کرنا ہے تاکہ عوام کی قوتِ شامّہ پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے اور وہ ہنستے گاتے رہیں! حکمرانوں کے مقرر کئے ہوئے لوگوں کا کام صرف جلتی پر تیل چھڑکنا نہیں، پانی ڈالنا بھی ہے! کسی بھی گڑبڑ کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے پیش کی جانے والی وضاحت سے اہل وطن کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وزیر داخلہ کی باتیں سُن کر ہنسنے والوں کو نارمل اِنسان بنانے کے لیے میڈیکل کی دُنیا کبھی کوئی خصوصی آپریشن دیافت اور تجویز کرے!

پاکستانی قوم کو اللہ نے ایسے حکمرانوں سے نوازا ہے جو، بلا مبالغہ، ہر وقت ہنسانے کا اہتمام کرنے میں یدِ طُولٰی رکھتے ہیں۔ پالیسی اور اقدامات دونوں سے ہنسی کے سَوتے پھوٹتے ہیں۔ ایسے میں ہنسی پر قابو پانا بہت بلند روحانی مرتبے پر فائز ہونے کی کوشش کرنے جیسا لگتا ہے! اگر کسی طرح ہم ہیو باس کو ہم اپنے ہاں لے آئیں تو شاید اُس کی ہنسی کو بریک لگ جائے کیونکہ ہالینڈ میں تو صرف ہنسنا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ بھی سوچنا ہے کہ اِنسان کِس کِس بات پر ہنسے! سُنا ہے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہی اُصول پر ہیو باس پر بھی اطلاق پذیر ہو اور ہنسنے والا باس ہنسانے والے باس کو دیکھ کر کچھ شرمندہ ہو اور ہنسنا بھول جائے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524861 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More