سیاست کی ٹوپی، نیٹو رسد کا کبوتر

گرمیوں کی آمد آمد ہے۔ ایک طرف بجلی پیدا کرنے والے ادارے لوڈ شیڈنگ پیدا کر رہے ہیں جس پر عوام کا پارہ چڑھ رہا ہے اور لگتا ہے کہ اِس بار عوامی احتجاج کا پارہ آلے کو توڑ کر باہر آ جائے گا! اور دوسری طرف اسلام آباد کی سیاسی کڑھی میں اُبال کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وفاق اور پنجاب ایک بار پھر اِس طرح لڑ رہے ہیں کہ گلی میں کھیلتے بچے بھی آپس میں لڑنے کے لیے اُن سے داؤ پیچ سیکھنے کے مُوڈ میں دکھائی دے رہے ہیں! اِس لڑائی میں بہت کچھ گھسیٹا جارہا ہے، گڑے مُردھے اُکھاڑے جارہے ہیں اور ”بات پہنچی تری جوانی تک“ والی کیفیت بار بار پیدا کی جارہی ہے! معاملہ طعن و تشنیع سے ایک قدم آگے بڑھ کر لعن طعن کی منزل میں داخل ہوچکا ہے۔ اقتدار اور سیاست سمیت بہت سی باتوں پر اور اُس سے کہیں زیادہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجی جارہی ہے! اہل وطن ایک بار پھر حیران و پریشان یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے سے وہ قاصر ہیں کہ کون سَچّا ہے اور کون جُھوٹا! خوش نصیبی کی بات یہ ہے کہ فریقین ہماری آپ کی تمام مشکلات خود ہی دور کردیتے ہیں۔ کوئی بھی معاملہ اُٹھتا (یا اُٹھایا جاتا) ہے اور پھر اچانک پتہ چلتا ہے کہ
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا!

ملک میں توانائی کا بحران ہے مگر صدر زرداری نے ایک بار پھر اپنی توانائی کے ”بے فضول“ استعمال کو ترجیح دی ہے یعنی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شریف برادران کا سیاست کا ککھ بھی پتہ نہیں! اُن کی طرف سے ویسے تو درجنوں اُمور کے عندیے مِل چکے ہیں، مگر اِس بات کوئی اشارہ اب تک نہیں ملا کہ شریف برادران کو سیاسی طور پر بوڑم ثابت کرنے کی کوشش وہ کبھی ترک کریں گے یا نہیں! انہوں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے بھارت کے شہر اجمیر روانہ ہونے سے قبل لاہور میں شریف برادران پر (نہ جانے کون سی بار) فاتحہ پڑھ ڈالی!

سب کو اپنی اپنی تمنا اور ضرورت کے مطابق ہی ملتا ہے۔ میڈیا کو سنسنی خیزی چاہیے، سو کسی نہ کسی بہانے بیدار ہوتی اور ہاتھ لگتی رہتی ہے۔ بظاہر اِشو ختم ہوچلے تھے اور الیکٹرانک میڈیا والے پریشان تھے کہ کریں تو کیا کریں؟ ایسے میں صدر زرداری نے اسلام آباد چھوڑ کر لاہور کا رُخ کیا اور تنازعات نے تیزی سے اُبھر کر میڈیا کی راہ لی! بے چارے تجزیہ کار پریشان تھے کہ موضوعات کی پلیٹ تو خالی ہوچلی ہے، اب کیا اور کِس طرح بولیں گے! لیجیے، پلیٹ کے خالی ہونے کا رونا رونے والوں کو ”تَسلا“ بھر کر موضوعات اور اشوز مل گئے!

صدر زرداری نے مصرع طرح دیا تو مسلم لیگ (ن) میں جواب آں غزل کے طور دو غزلہ اور سہہ غزلہ کہنے والے حرکت میں آگئے۔ اور پھر بھرپور جوش و خروش کے ساتھ سیاسی مُشاعرے نے اسٹارٹ لے لیا! پیپلز پارٹی والوں کو یہ زُعم تھا کہ وہ جوش میں کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں۔ اب مسلم لیگ (ن) نے اِس معاملے میں اُنہیں مُنہ دینا شروع کردیا ہے۔ یہ مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے زیادہ پیپلز پارٹی کی ناکامی ہے! بابر اعوان پر خود اُن کو اور پیپلز پارٹی کو بہت ناز ہوگا مگر کیا ہم رانا ثناءاللہ کو کسی بھی اعتبار سے کمتر گردان سکتے ہیں؟ انتخابی موسم آنے کو ہے۔ اب ہمیں سیاسی مُشاعروں کی آؤ بھگت کے لیے تیار رہنا چاہیے! مُشکل ہے تو بس اِتنی کہ سیاسی مُشاعروں میں چپقلش اِس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ حاضرین و سامعین کی سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ کب داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیں اور کب چُپکے بیٹھ رہیں! کبھی داد دینے پر سیاسی حمایت کا ٹَھپّہ لگتا ہے اور کبھی خاموش رہنے پر! واہ واہ پلک جھپکتے میں آہ آہ میں تبدیل ہوجاتی ہے!

مرزا تفصیل بیگ کو معاملے میں کسی نہ کسی ایسی ویسی بات کی بُو سُونگھنے میں کمال حاصل ہے۔ ہم نے بارہا مشورہ دیا ہے کہ ایئر پورٹ پر نوکری کرلیں تو ٹھیک ٹھاک کمائیں گے۔ ایک بار تو ہمارے مشورے کا بُرا مان کر اُنہوں نے خاصا پالتو سا مُنہ بھی بنایا۔ ہم نے کہا ہاں، بس یہی ورژن چاہیے! یہ سُن کر اُنہوں نے از خود نوٹس کے تحت ہمیں پندرہ دِن کا ریلیف دیا یعنی بات چیت بند رکھی!

مرزا کو حکومتی سطح پر ہر معاملے سے نُورا کشتی کی بُو آتی رہتی ہے۔ ہم اِس معاملے میں اُنہیں کِسی حد تک معذور سمجھتے ہیں۔ مُعاملات کچھ ایسے رہے ہیں کہ لوگ اعلیٰ سطح پر ہر عمل کو شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ کبھی کبھی ہفتہ پندرہ دن چپقلش جاری رہتی ہے اور پھر صُلح ہوتی ہے تو لوگوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ دِکھائی دے رہا تھا وہ تو بس ٹوپی ڈرامہ تھا! اقتدار کے فٹ پاتھ پر مجمع لگانے والے شعبدہ باز کبھی رومال سے سو کا نوٹ نکالتے ہیں اور کبھی ٹوپی سے کبوتر برآمد کرکے داد پاتے ہیں!

نیٹو رسد کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں بظاہر ٹھنی ہوئی تھی۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ مگر پھر یہ ہوا کہ سارا دھواں چھٹ گیا اور مطلع پر اب امریکہ نواز رویّہ صاف جھلک رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے نیٹو رسد کی بحالی سے متعلق پارلیمانی سفارشات کو منظور نہ کرنے کا عندیہ سا دیا تھا مگر سعودی نائب وزیر خارجہ کے دورے کے بعد تمام معاملات بحسن و خوبی طے پاگئے اور مولانا کے تحفظات ختم ہوگئے! صدر نے تاجکستان میں کیا کہا اور کیا سُنا، یہ تو ہم نہیں جانتے مگر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جنوبی کوریا میں امریکی صدر سے ملاقات میں بھی کچھ ایسا ہی کہا، سُنا ہوگا! ثابت ہوا کہ بڑوں کی بڑوں سے ملاقاتیں غریب کے نالے نہیں کہ رائیگاں جائیں! عوامی لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے بحفاظت نکلنے میں مدد دینے کے معاملے میں فراخ دِلی دکھاتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن نے مل کر پوری قوم اور میڈیا کے سامنے ایک بار پھر ٹوپی سے کبوتر نکالا ہے!

مسلم لیگ (ن) نے حکومت کے خلاف ملنے والے ہر موقع کو اِس طرح ضائع کیا ہے جیسے کوئی جون جولائی کی گرمی میں پانی گرم کرکے اُس میں برف پگھلائے! ایک زمانہ تھا کہ پنجابی فلموں کی بڑھکیں اہل وطن کا دل بڑھایا کرتی تھیں۔ اب ٹکٹ خرید کر پنجابی فلم دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ بڑھک کی ٹھرک مِٹانے کے لیے آپ سیاست دانوں اور بالخصوص نواز لیگے کے فائر برانڈ رہنماؤں کے بیانات پڑھ اور سُن سکتے ہیں!

ہمارا خیال ہے موجودہ پارلیمنٹ کے مینڈیٹ کی بچی کھچی مدت میں بھی مرزا کی تمنا پوری نہ ہوسکے گی۔ کوئی بھی ڈِھشُم ڈِھشُم اصلی تے نسلی نہیں ہوگی اور تُو تُو میں میں سے شروع ہونے والا ہر معاملہ نُورا کشتی کی منزل پر پہنچ کر دَم توڑتا رہے گا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484254 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More