بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کُوچے سے ہم نکلے

ایک بزرگ سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ کے کتنے صاحبزادے ہیںبزرگ نے نہایت ہی پیار سے جواب دیا کہ چار بیٹے ہیں ۔کُچھ وقت گزر گیااور دوبارہ وہ بندہ اُسی بزرگ سے ملا اُس نے پھر وہی سوال کیا اب بزرگ کا جواب تھوڑا مختلف تھا اس بار اُس نے صرف دو کی ذمہ داری قبول کی ۔سائل انتہائی حیران کُن حالت میں ایک دفعہ پھر بزرگ سے پوچھنے لگا کہ جناب اُس دن جب آپ سے ملاقات ہوئی تھی تب تو آپ نے چار بیٹے بتائے تھے آج آپ دو کہہ رہے ہیں۔بزرگ نے اپنی صفائی بیان کرتے ہوئے کہا تھے چار مگر اب ایک کی شادی ہوگئی اور ایک شاعر ہے باقی میرے دو بیٹے ہیں۔کوئی دو یا چار دِن پہلے میانوالی میں ایک "مشاعرہ "منعقد ہونا تھا ۔دور دور سے بلکہ بہت دور سے مہمانانِ گرامی مدعو تھے ۔لاہور ،راولپنڈی ،سرگودھا یہاں تک کہ لندن سے بھی لوگ اِس مشاعرے میں شریک ہونے کو آئے تھے ۔میرے ذمہ اَن کے ساتھ کُچھ وقت گزارنا تھاسو گزارا۔لاہور سے آئے ہوئے ایک صاحب بہادر کافی عرصہ سے مجھے بھی اِس مشاعرے پر لیکر جانے کے لیے پُر اسرار تھے ۔ہم سے بھی اِنکار نہ ہو سکا اور حامی بھر لی۔محفل سے پہلے کُچھ وقت میانوالی کی ایک مشہور اور ہر دلعزیز شخصیت کے پاس گزارا ۔کافی کُچھ سیکھا ۔وہیں یہ لطیفہ بھی سیکھا جس کا ذکر آغاز میں کر آیا ہوں۔بارِش کا سلسلہ بھی جاری تھا مگر چھُٹی کی نہ تو اجازت تھی نہ ہی ہم میں سے کُچھ دوست ایسی غلطی کرنا چاہ رہے تھے۔قصہ مختصر کہ بارش کے اندر بھیگ کر میں اُن لوگوں کو اس مقام تک لے گیا جہاں ادبی محفل کا انعقاد ہونا تھا۔صاحب بہادر مجھ سے پہلے وہاں موجود تھے ۔پِنڈال سج چکا تھا ۔ہر طرف پھول ہی پھول نظر آرہے تھے ۔لوگ بھی خاصی تعداد میں بیٹھے تھے اور تعدادمیں اضافہ بھی ہو رہاتھا۔کُچھ لمحے میں پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔معروف شعراءنے اپنا کلام سنانا شروع کر دیا ساتھ ہی کچھ بچوں اور بچیوں نے بھی محفل کو چار چاند لگائے ۔مگر صاحب بہادر جو لاہور سے تشریف لائے تھے اُن کے ساتھ ایسا ہی بر تاﺅ کیا گیا جیسے عوامی نمائندگان اپنے گھر آنے والے اُن لوگوں کا کرتے ہیں جنہوں نے ان کو کامیاب بنایا ہوتا ہے۔صاحب بہادر بار بار انتظامیہ کی طرف دیکھتے نظر آئے مگر میں ان کی آنکھوں میں موجود سوال دیکھ تو سکتا تھا مگر جان نہیں سکتا تھا۔شعرا کو عموماََ ملن ساز اور مہمان نواز تصور کیا جاتا ہے مگر وہاں تو ایسا کوئی بھی عمل دیکھنے کو نہ ملا۔صاحب بہادر تو نہ جانے کِن مجبوریوں کی بنا پر وہاں پر ڈٹے رہے۔مگر میں عدم توجگی اور غیر مہمان نواز رویے سے تنگ آکر اُٹھ کھڑا ہوا۔کہتے ہیں صحبت کا انسان کی عادات اور اس کے قول و فعل پر کافی اثر پڑتا ہے ۔اور اثر تو نہ لے سکا مگر جب سب کچھ جانتے ہوئے بھی صاحب بہادر نے فرار کی وجہ دریافت کی تو میرے لب پر بے ساختہ صرف یہی لفظ تھے "بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوُچے سے ہم نکلے" نہ جانے وہ اس کی کیا وجہ سمجھ رہے ہوں مگر میرے نزدیک شاعر معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔اگر ایک معاشرے میں اس خطے کی تہذیب کی جھلک تک نہ ہو جس کے لوگ اس کو سن رہے ہوں یا جس کی سر زمیں پر اس کا انعقاد کیا جا رہا ہو تو اگر ایسا کہا جائے کہ وقت اضائع کرنے کے مترادف ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔اللہ تعالیٰ کی پاک اور بے نیاز ذات ہمیں اپنے آباﺅ اجداد کی ثقافت اور علاقے کی روایات کو سنبھال رکھنے کی اور ان کے تقدس کی اہمیت کا اندازہ لگانے کی صلاحیت دے۔(آمین)۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 47724 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More