عقیدہ حیات النبیﷺ اور مولانا محمد قاسم نانوتوی

شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی مسئلہ حیات النبی ﷺ کے متعلق دور حاضر کے اکابر دیوبند کا مسلک اور ان کا متفقہ اعلان کے نقل فرماتے ہیں:
”حضرت اقدس نبی کریم ﷺ اور سب انبیا کرام علیہم الصلوة والسلام کے بارے میں اکابر دیوبند کا مسلک يہ ہے کہ وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ اور ان کے ابدان مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں۔ اور جسد عنصری کے ساتھ عالم برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے۔ اور حیات دنیوی کے مماثل ہے۔

صرف يہ ہے کہ احکام شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں۔ لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور يہیں جمہور محدثین اور متکلمین اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے، اکابر علماء دیوبند کا مختلف رسائل میں يہ تصریحات موجود ہیں۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی کی تو مستقل تصنیف حیات انبیاء پر”آب حیات“ کے نام سے موجود ہے۔ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب جو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کہ ارشد خلفاء میں سے ہیں ان کا رسالہ ”المہند علی المفند“ بھی اہل انصاف اور اہل بصیرت کےلئے کافی ہے۔ اب جو اس مسلک کے خلاف دعویٰ کر ے اتنی بات یقینی ہے کہ انکا اکابر علما دیوبند کے مسلک سے کوئی واسطہ نہیں

اس تصریح کے بعد اب ہم بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کا ایک نایاب مکتوب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں جس میں حضرت نانوتوی نے عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریح و تفصیل میں خوبصورت کلام کیا ہے ۔ ملاحظہ کریں یہ مکمل مکتوب:
مکتوب بنام مولوی محمد صدیق صاحب مرادآبادی در اِثبات حیات النبی
سراپا عنایت سلامت۔السلام علیکم! کل جو آپ کا عنایت نامہ پہنچا، کیفیت مندرجہ کو دیکھ کر طبیعت بہت گھبرائی، ہنوز اور تحریر ون سے چنداں فراغت نہ ہوئی تھی کہ ایک اور سر پر آن پڑی، تِس پر مفصل لکھوں تو کہاں تک لکھوں۔ یہ بحث ایک دریائے ناپید کنار ہے اور اختصار کیجئے تو کہاں تک! دریا کو کوزہ میں لانا دشوار۔ اس لئے فقط عقیدۂ دل سے آگاہ کئے دیتا ہوں اس ضمن میں کسی دلیل یا مثال کی طرف بھی اشارہ ہوجائے تو ہو جاویں۔

انبیائ کرام﴿علیہم السلام﴾ کو انہیں اَجسام دنیاوی کے تعلق کے اِعتبار سے زندہ سمجھتا ہوں، یہ نہیں کہ مثل شہدائ اُن ابدان کو چھوڑ کر اور اَبدان سے تعلق ہوجاتا ہے، یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ شہدائ کے مال میں میراث ہوئی اور انبیائ کرام علیہم السلام کے مال میں میراث جاری نہ ہوئی،حالانکہ ’’یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین‘‘ سب کو عام ہے، عوام ہوں یا رسول اللہ۔ شہدائ کی ازواج کو بعد عدّت معروفہ نکاح کی اجازت ہوئی، رسول اللہ کی ازواج کی شان میں یہ حکم آیا:
’’ ولا تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ‘‘

حالانکہ عموم ’’و احل لکم ما روائ ذلکم‘‘ جس سے حلت غیر منکوحہ فارغ العدۃ سمجھ میں آتی ہے اور عموم ’’والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا‘‘ وغیرہ جس سے بعد مرورِ عدت اَزواج کو اجازت نکاح نظر آتی ہے اس کے مخالف ہے۔ اگر رسول اللہ کو زندہ نہ مانئے، اگر شہدائ انہی ابدان کے حساب سے ہوتے تو پھر ان کا قبور میں مستور ہوجانابہت ہوتاتو مجرموں اور مظلوموں کے محبوس ہونے کے برابر ہوتا، نہ مال میں میراث چل سکتی نہ ازواج کو نکاح کی اجازت ہوتی۔ورنہ اس حساب سے تو ہم مردہ دل ہی اچھے رہتے جن کی زندگانی موت سے بدتر ہے کیونکہ اس نام کی زندگی پر ہمارے لئے تو یہ انعام کہ نہ مال میں کوئی تصرف کرسکے، نہ ازواج کی طرف کوئی نظر بھر کے دیکھ سکے اور وہ اس حیات کامل پر بھی اس دولت و عزت سے محروم رہے! مگر چونکہ یہاں کے اموال یہیں کے ابدان کے شکست و ریخت کے لئے ہیں اور یہاں کے ازواج انہیں ابدان کی ثمر کے تخم ریزی کے لئے’’ مصداق نسائکم حرث لکم‘‘ یہیں ہیں، تو بعد انفکاکِ تعلق، روح کو ان کے متعلقات سے کیا تعلق رہ جائے گا؟ بلکہ جیسے گھوڑا سواری کے لئے اور گھاس دانہ گھوڑے کے لئے۔ اور گھوڑا نہ رہے تو پھر گھاس دانہ سے بھی کچھ مطلب نہیں رہتا۔ایسا ہی ابدان﴿و﴾ارواح کے کاروبار کے لئے بلکہ اس کا مرکب اور اس کی سواری اور اموال و ازواجِ ابدان کے لئے اَور ابدان نہ رہیں تو پھر ان سے بھی مطلب نہ رہے گا، اس لئے شہدائ کے اموال و ازواج میں بھی بوجہ انفکاک تعلق مذکور اور وں کو بطور مناسب اجازت ہوگی اور یونہی بے کار نہ رہنے دیں گے۔ مگر ہاں جیسے گھاس دانہ کی طلب اور اس سے تعلق دلی اس بات پر شاہد ہوتا ہے کہ طالب اور صاحب تعلق کے گھر پر گھوڑا وغیرہ گھاس دانہ کھانے والا کوئی جانور ہوگا ایسا ہی اموال و ازواج سے تعلق اس بات پر شاہد ہوسکتا ہے کہ صاحب تعلق کو اپنے ابدان سے تعلق ہے۔

اس تقریر مختصر سے اس قدر تو بشرط فہم و انصاف خواہ مخواہ ذہن میں آہی جاتا ہے کہ انبیائ کرام کو اپنے ابدان سے اُس قسم کا تعلق اب بھی ہوگا جس قسم کا پہلے تھا، یہی نہیں کہ جیسے وطن سے باہر اپنے وطن کو یاد کرتے ہیں اوراس فاصلہ پر اور بستیاں ہوں تو ان کے کچھ خبر نہیں ہوتی، ایسے ہی انبیائ کی ارواح کو بھی مثل دیگر اموات اپنے ابدان سے ایک تعلق یادگاری محبت ہے مگر چونکہ اور ابدان سے محبت نہ تھی تو تعلق یادگاری ہی نہیں، ایسا ہی تعلق ہوتا تو احکام بھی یکساں ہوتے۔ ہاں!یوں کہئے تو خیر کہ خدا کے حکم محض پوچ اور بے حکمت ہوتے ہیں مگر چونکہ آپ سے یہی امید ہے کہ خداوند علیم و حکیم کو حکیم ہی سمجھتے ہوں گے اس لئے یہ بھی امید ہے کہ بدلالتِ حکم مذکور انبیائ کو ابدان دنیا کے حساب سے زندہ سمجھیں گے۔ پَر حسب ہدایت: کل نفس ذائقۃ الموت اور انک میت و انہم میتون تمام انبیائ کرام علیہم السلام خاص کر حضرت سرور اَنام کی نسبت موت کا بھی اعتقاد ضرور ہے مگر اس صورت میں یہ اِجتماعِ موت و حیات ایسا ہوگا جیسا وقت حرکت کشتی، جانشین کشتی کا حرکت و سکون۔جیسے یہاں سکون اصلی ہے اور حرکت عرضی، ایسی ہی وہاں بھی حیات اصلی اور موت عارضی ہوگی اس لئے استمرار بھی اگر تسلیم کرلیا جائے تو کچھ مخالف مطلب نہ ہوگا کیوں کہ حیات پھر بھی موجود ہے یا جیسے آب گرم میں اجتماع برودت حرارت کے لئے دلیل کی کیا حاجت وہ خود مشہود و محسوس ہے۔ ہاں برودت کی دلیل لیجئے اگر برودت نہ ہوتی تو آگ کو کیوں کر بجھا سکتا؟ آگ کے بجھانے کے یہی معنیٰ ہیں کہ مادہ حرارت کو کھو دیا اور نیست و نابود کردیا مگر ظاہر ہے کہ اَضداد کو بجز اضداد عالم اسباب اور کسی سبب سے باطل اور نیست و نابود نہیں کرسکتے ۔مگر یہ بھی تسلیم کرنا ضرور ہے کہ وقتِ موت، حیاتِ انبیائ کرام علیہم السلام اور بھی شدید ہوجائے کیوں کہ جب حیات اصلی، اس صورت میں کبھی قبر میں رہنا، کبھی آسمان پر نظر آنا ایسا ہوگا جیسا حالت حیات سابقہ میں کبھی زمین پر رہنا کبھی بوجہ معراج آسمان پر چلا جانا، زیر پردہ موت عرضی مستور ہوئی تو پھر ایسی صورت ہوجائے گی جیسے فرض کیجئے چراغ کو کسی طرف گلی میں رکھ کر سرپوش رکھ دیجیے۔ جیسے یہاں تمام شعاعیں باہر سے سمٹ کر اس ظرف میں آجاتی ہیں بلکہ خود شعلہ چراغ میں سما جاتے ہیں جس سے وہ اشتدادِ مشار الیہ نمایاں ہوجاتا ہے ایسے ہی یہاں بھی خیال فرما لیجئے۔

اس صورت میں موتِ انبیائ کرام علیہم السلام اور موتِ عوام میں ایسا فرق ہوگا جیسا چراغ کے طرف گلی میں مستور ہوجانے اور گل ہوجانے میں فرق ہے۔یہاں جیسے باعتبار مکان اندھیرا دونوں صورتوں میں برابر۔اورپھر اتنا فرق ہے کہ باعتبار اصل اتنا پہلے نہ تھا، ایسا ہی یہاں بھی سمجھ لیجئے اور شاید یہی وجہ ہے کہ’’انک میت‘‘ جدا کہا اور ’’انہم میتون‘‘ جدا فرمایا۔ مثل ’’ثم انکم یوم القیامۃ‘‘ جو اگلا جملہ ہے سب کو شامل کرکے ’’انکم میتون‘‘ نہ فرمایا کہ اسی فرق مراتب موت کی طرف اشارہ باقی رہے۔

بالجملہ حیات حال انبیائ کا مثل حیات سابق ہونا اور پھر اس سے اشدّ اور اعلیٰ ہونا یوں ظاہر ہے کہ مماثلت تو فی تعلق الابدان الدنیا ویہ سے یہ نہیں کہ مثل شہدائ تبدیل ابدان کئے گئے ہوں اور اشدّیت یوں ظاہر ہے کہ بوجہ احاطۂ ضد معلوم جس کو موت کہئے تمام فیض حیات جو مثل شعاع شمس و قمر اطراف بدن اور اس سے باہر تک بذریعہ اَفعال جاتا تھا سمٹ کر داخل بدن کی طرف چلا آیا۔ سمجھ لینے کے لئے تو یہ کافی ہے پھر اس سلامت اَجساد کو لحاظ کیا جائے تو اور بھی تائید ہوجاتی ہے۔ رہیں احادیث ان کے رجوع کرنے کی اس وقت ضرورت نہیں جو یہ تحقیق کی جائے کہ کونسی حدیث صحیح ہے اور کونسی ضعیف؟ پھر تِس پر مجھ کو ان باتوں کی خبر کم ہوتی ہے کیونکہ یہ باتیں کتابوں سے متعلق ہیں اور آپ خود جانتے ہیں کہ جیسے سپاہی بے ہتھیار ہوتے میں ایسا ہی یہ جاہل عالم بے کتاب ہے۔ یہ باتیں آپ خود حضرت شیخ کی تصانیف سے نکال لیں مگر ایسا یاد پڑتا ہے کہ اکثر احادیثِ بابِ حیات ضعیف ہیں۔ زیادہ کیا عرض کروں؟ ہاں اتنا عرض کئے دیتا ہوں کہ گو عقیدہ تو یہی ہے اور میں جانتا ہوں ان شائ اللہ تعالیٰ ایسا ہی رہے گا مگر اس عقیدہ کو عقائد ضروریہ میں سے نہیں سمجھتا، نہ تعلیم ایسی باتوں کی کرتا ہوں، نہ منکروں سے دست و گریبان ہوتا ہوں، خود کسی سے کہتا نہیں پھرتا، کوئی پوچھتا ہے اور اندیشۂ فساد نہیں ہوتا تو اِظہار میں دریغ بھی نہیں کرتا۔ آپ بھی اس امر کو ملحوظ رکھیں تو بہتر ہے۔ فقط
﴿لطائف قاسمیہ:۵﴾

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں نبی کریم ﷺ کی سچی محبت و ادب نصیب فرمائے اور ہر گمراہی سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372722 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.