شمائل نبویﷺ

آنحضرت سید المرسلین و خاتم النبیین و امام المتقین و قائد المجاہدین و محبوب رب العالمین کی ذات قدسی صفات محبوبیت کبرٰی کی حامل ہے۔روئے زمین پر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں ہوا۔رب العالمین نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ہر قسم کے ظاہری و باطنی حسن سے نواز دیا۔آپ جیسا حسین و خوبصورت انسان چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھا۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جو دیکھتا ،پہلی نظر میں مرعوب ہو جاتا،اور جو گھل مل جاتا،پیار کرتا۔یہ ایسی کامل اور مثالی ذاتی صفات ہیں جو کہیں اور دکھائی نہیں دیتیں۔
یہاں تک بڑھ گئی وارفتگی شوق نظارہ
حجابات نظر سے پھوٹ نکلا حسن جانانہ

حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے جمال مبارک کو کماحقہ تعبیر کر دینا ،یہ نا ممکن ہے۔نور مجسم کی تصویر کشی قابو سے باہر ہے،لیکن اپنی ہمت و وسعت کے موافق حضرات صحابہ کرام نے اسے ضبط فرمایا۔حضرات صحابہ کرام ر ضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا امت پر نہایت ہی بڑا احسان ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات معنوی علوم و معارف کے ساتھ ساتھ کمالات ظاہری حسن وجمال کی بھی امت تک تعلیم پہنچائی۔آئیے ذیل میں محبوب کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری حسن و جمال احادیث مبارکہ کی روشنی میں پڑھتے ہیں۔

حلیہ مبارکہ
﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا قد مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قد لے لحاظ سے نہ تو بہت لمبے تھے اور نہ کوتاہ قد،بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا قد مبارک درمیانہ تھا۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انتہائی خوبصورت،چودھویں کے چاند کی طرح گول چہرہ،رنگ سفید سرخی لیے ہوئے،بالکل سیاہ آنکھیں،لمبی اور گھنی پلکیں،سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔پیشانی کھلی اور کشادہ تھی۔ابرؤں کے بال خمدار اور لمبے مگر گھنے نہ تھے،رخسار متناسب اور معتدل ناک ستواں اور نورانی دہن مبارک ﴿اعتدال کے ساتھ﴾کشادہ۔دانتوں کے درمیان ذرا ذرا فاصلہ تھا۔سامنے کے دو دانتوں کے درمیان قدرے فاصلہ تھا۔مبارک دانت﴿مسکراتے وقت﴾ اولوں کی طرح چمکتے نظر آتے تھے۔جب خوش ہوتے تو رخ انور خوشی سے چمک اٹھتا اور جب غصے میں ہوتے تو غصہ چہرہ مبارک سے عیاں ہوتا۔
بہار حسن کو یوں جذب کر لوں دیدہ و دل میں
محبت پر مرا ذوق نظر معیار ہو جائے

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک نہ بہت سیدھے تھے اور نہ بہت گھنگریالے،سر اور داڑھی مبارک کے بال گھنے تھے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے بالوں کی لمبائی کان کی لو تک تھی۔چھاتی مبارک پر بالوں کی باریک لکیر تھی۔جو ناف تک جاتی تھی۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شانوں،بازؤں اور سینہ کے اوپر والے حصے پر بال تھے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت سر اور داڑھی کے بالوں میں بیس بال بھی سفید نہ تھے۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور قدم مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ اور قدم مبارک گوشت سے پُر اور قدرے بھاری تھے۔ہمیشہ قدم جما کر مضبوطی کے ساتھ چلتے۔چلتے وقت ایسا لگتا جیسے اونچی جگہ سے نیچے اتر رہے ہوں۔ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک لمبی اور نہایت خوبصورت تھی۔کسی سے بات کرتے یا دیکھے تو صرف گردن موڑ کر نہ دیکھتے بلکہ پورے جسم کے ساتھ اس طرف متوجہ ہو جاتے۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شانے مبارک،سینہ مبارک اور پیٹ مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان ﴿اور لوگوں کی نسبت﴾فاصلہ زیادہ تھا۔شانے مبارک بڑے تھے۔دونوں شانوں کے درمیان مہرنبوت تھی۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ مبارک کشادہ تھا۔سینہ کے اوپر والے حصے پر بال تھے۔سینہ اور پیٹ یکساں تھے۔

﴿سب سے زیادہ حسین،سب سے زیادہ خوبصورت﴾
حضرت انس (رض) بیان فرماتے ہیں کہ میں دس سال آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہا اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک کی خوشبو سے بڑھ کر کوئی خوشبو نہیں دیکھی۔

حضرت برائ بن عازب (رض) فرماتے ہیں : میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا۔

حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : میں نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جیسا ان سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھا۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم(ع) کا جسم اطہر جن اوصاف جمیلہ کے ساتھ متصف ہے کوئی دوسرا ان اوصاف میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جیسا نہیں ہو سکتا۔سیر احادیث و تواریخ کی کتابیں اس سے لبریز ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ نے کمالات باطنیہ کے ساتھ جمال ظاہری بھی علی الوجہ الاتم عطا فرمایا تھا۔الغرض حلیہ مبارک میں ہر ہر چیز حسن کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔
دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے
جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسین،اے ابد کے حسین
تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عادات و خصائل مبارکہ﴾
اس میں شک نہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دینی تعلیم کا صحیح عملی خاکہ اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم زندگی کی پوری پوری اتباع اگر کسی نے کی ہے تو صحابہ کرام کی جماعت ہے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ اگرنبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم ہو گئی تو صحابہ کرام (رض)پر متابعت ختم ہو گئی ۔چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے،کھاتے پیتے،غرض زندگی کے ہر حال میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت با برکت میں حاضر رہے جیسا آپ کو کرتے یا فرماتے دیکھا،اسکی حرف بہ حرف متابعت کرتے جاتے۔صحابہ کرام (رض) کو اپنی زندگی میں ہر ہر فعل و حرکت کی مثال حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ملتی چلی گئی اور وہ اسکا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتے چلے گئے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی کو حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے رنگ میں رنگ لیا تھا۔’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ‘‘کا عملی نمونہ بن کر چلے گئے اور رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے انعام کے حقدار ٹھہرے۔اگر صحابہ کرام (رض) صرف عبادت یا کسی ایک شعبہ زندگی میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت چاہتے تو چند روز میں یہ مقصد حاصل ہو سکتا تھا۔مگر دربار نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ہر وقت کی حاضری میں جو اندرونی اہم مقصد کام کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ زندگی کا کوئی جزوی سے جزوی شعبہ بھی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت سے خالی نہ رہ جائے۔چنانچہ نہ صرف وہ احکام شرع میں بلکہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی و فطری عادات و خصائل و مذاق و رجحان و طبع کی بھی ایسی متابعت کرتے چلے گئے کہ عقل حیران و ششدر ہے۔

اگر آج ہم اپنی موجودہ حالت پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ہماری ذہنیتیں اور خیالات صحیح نقطہ نظر سے ہٹ چکے ہیں اور ہماری زندگیاں دینی مرکز سے کتنی دور جا چکی ہیں۔آج ہم اپنی ذاتی مرضی کے بندے ہیں اور جدا جدا ذاتی رجحان طبع کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ہم میں سے اکثر کی زندگی متابعت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے یکسر خالی نظر آتی ہے۔کیونکہ ہم نے متابعت کے معنی کو صرف عبادات تک محدود کر دیا ہے۔حالانکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ہر فعل ہر عادت و خصلت ہمارے لیے بڑی نعمت ہیں۔ہم ان پیاری سنتوں پر عمل کر کے اپنی زندگی سنوار سکتے ہیں۔

آئیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں پیارے نبی کی پیاری عادات وخصائل سے دلوں کو منور کرتے ہیں۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا طعام﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کھانے سے پہلے ہاتھ دھوتے،ہمیشہ سیدھے ہاتھ سے کھانا کھاتے،کھانے کے بعد انگلیاں چاٹ لیا کرتے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو حلوا،سرکہ،شہد،کھجور اور گوشت میں گردن،دست اور پیٹھ کا گوشت بہت مرغوب تھا۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا لباس مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو کرتا بہت پسند تھا۔کبھی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کرتے کا گریبان کھول لیا کرتے اور سینہ اطہر صاف نظر آتا۔سفید رنگ کا لباس سب سے زیادہ محبوب تھا۔خالص اور گہرا سرخ رنگ کا کپڑا طبیعت کو بہت ناپسند تھا۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا عمامہ مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم عمامہ باندھتے تھے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا عمامہ مبارک تقریباسات گز کا ہوتا تھا۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عمامہ کا شملہ ایک بالشت کے قریب تھا۔عمامہ شریف کے نیچے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ٹوپی ضرور اوڑھا کرتے تھے۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا سونا جاگنا﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اول رات آرام فرماتے تھے۔سیدھی کروٹ پر سوتے تھے۔نصف آخر رات کے اول حصے میں بیدار ہو جاتے اور نوافل کا اہتمام فرماتے تھے۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا سفر مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خود سفر پر روانہ ہوتے یا کسی کو روانہ فرماتے تو جمعرات کے روز روانگی کو مناسب خیال فرماتے۔سفر میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کتنی ہی کم مدت کیلئے ٹھہرتے ،جب تک نماز دو گانہ ادا نہ فرما لیتے،وہاں سے روانہ نہ ہوتے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب سواری پر بیٹھ جاتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے اور پھر یہ الفاظ دعا کے لئے زبان مبارک پر جاری ہو تے’’سبحان الذی سخرلنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الیٰ ربنا لمنقلبون‘‘

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا خوشبو لگانا﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو مشک اور عود کی خوشبو بہت محبوب تھی۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ریحان کی خوشبو بھی پسند تھی۔سونے سے بیدار ہوتے تو قضائے حاجت سے فراغت کے بعد وضو کرتے اور پھر خوشبو منگوا کر لباس مبارک پر لگاتے۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا چلنا﴾
چلتے وقت آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے بدن مبارک کو آگے کی طرف جھکا کر چلتے،جس طرح کوئی بلندی سے پستی کی طرف اتر رہا ہو۔قدم لمبے لمبے رکھتے ،قدم گھسیٹ کر نہ چلتے تھے۔چلتے ہوئے جب کسی چیز کی طرف مڑ کر دیکھتے تو پورے جسم سے مڑتے،صرف گردن یا نظر نہ پھیرتے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایسے تیز چلتے کہ معمولی رفتار والا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلنے سے قاصر رہتا۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب گفتگو فرماتے تو الفاظ اتنے ٹھہر ٹھہر کر ادا فرماتے کہ سننے والا باآسانی یاد کر لیتا۔کسی بات پر زور دینا ہوتا اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے ہوتے تو ٹیک چھوڑ کر سیدھے بیٹھ جاتے اور خاص لفظ یا جملہ کو بار بار ارشاد فرماتے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو حیا والی ہوتی تھی۔کسی چیز کی طرف اشارہ کرنا ہوتا تو پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مزاح﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ مزاح میں بھی ایک الگ شان لیے ہوئی تھی۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مزاح میں جھوٹ بالکل نہیں ہوتا تھا۔بلکہ مزاح میں سراسر سچائی اور حق ہی کو بیان فرماتے تھے۔مزاح میں بھی کبھی کسی کی دل شکنی یا نفس مجروح نہ فرماتے۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بچوں پر شفقت و خوش طبعی﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بچوں سے بہت شفقت فرماتے،ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے،ان کو پیار کرتے اور ان کے حق میںدعائے خیر فرماتے۔ان سے خوش طبعی فرماتے۔کبھی گود میں بٹھا لیتے اور کبھی بڑی محبت سے بچوں کو کھلاتے۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس مبارک﴾
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم وعظ و تلقین کی مجلس ناغہ دے کر منعقد فرماتے تاکہ لوگ اکتا نہ جائیں۔کسی آنے والے کو اعزاز دینا ہوتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس کے لئے اپنی چادر مبارک بچھا دیتے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام (رض) کے مجمع میں ہوتے تو درمیان میں تشریف رکھتے۔دوران مجلس اگر کوئی شخص کھڑے کھڑے کسی بات کے متعلق سوال کرتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نا پسند فرماتے اور تعجب سے دیکھتے۔

﴿آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خصائل حمیدہ معاشرتی معاملات میں﴾
جب آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کان میں کوئی سرگوشی کرتا تو سر مبارک کو اسکے منہ سے جدا نہ فرماتے۔جب تک کہ وہ خود اپنی بات کہہ کر منہ نہ ہٹا لیتا۔جب کوئی نیا لباس پہن کر خدمت اقدس میں حاضر ہوتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تعریف فرماتے اور ’’حسنۃ حسنۃ‘‘یعنی ’’بہت خوب بہت خوب‘‘فرماتے۔جب کسی کو کوئی پیغام بھیجتے تو سلام ضرور کہلواتے۔راستہ میں کوئی مل جاتا تو سلام میں پہل کی کوشش فرماتے۔کوئی بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم دوست احباب کی طرف سے ہدایہ و تحائف ضرور قبول فرماتے اور اس کا بدلہ اتارنے کی کوشش فرماتے۔ملاقات کے وقت آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کبھی مصافحہ فرماتے ۔کبھی معانقہ فرماتے،اور کبھی بوسہ بھی دیتے۔اپنا کام خود اپنے دست اقدس سے کرنے کی کوشش فرماتے۔مصیبت زدہ کی دلجوئی فرماتے۔اپنے پڑوسیوں کا خاص خیال فرماتے۔

محبوب رب العالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا ،ہر عادت، ہر عمل ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔باعث نجات ہے۔پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عادات و خصائل پر علمائ امت نے مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔اس مضمون میں مختصر ترین عادات و خصائل کا ذکر کیا گیا ہے۔اللہ رب العزت ہمیں اپنی زندگیوں میں ان سنتوں پر عمل پیراہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین ثم آمین
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155663 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More