قرآن پانے کا نصاب

بقلم: مولانا طلحہ السیف حفظہ اللہ تعالٰی

ایمان لانا ہے مگر.
ایمان کی حقیقت کہاں سے معلوم ہو گی
ہر طرف فتنوں کے سیلاب ہیں ان سے بچنے کی صورت کیا ہوگی؟.
جہالت کے اندھیروں میں ہدایت کی روشنی کہاں سے ملے گی؟.
مسائل کے طوفان. راہ نجات کہاں؟.
دنیا میں عزت، مقام،سر بلندی اور آزادی چاہیے.
مگر اس کا نصاب؟.
ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے.
القرآن.
اور یقینی جواب ہے. ہر شک و شبہے سے بالاتر.
آئیے!’’ باب العلم‘‘ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پڑھیں.
’’حارث الاعور کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ لوگ فضول کہانیوں میں مشغول ہیں۔ میں سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ماجرا عرض کیا: کہ اے امیر المومنین! کیا آپ نہیں دیکھتے کہ لوگ قصے کہانیوں میں مشغول ہو چکے ہیں؟.
حضرت علی (رض) نے فرمایا: کیا واقعی لوگ ایسا کرنے لگے ہیں؟
میں نے عرض کیا: جی اے امیر المومنین(رض).
آپ نے فرمایا: میں نے تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے کہ عنقریب لوگ فتنے میں مبتلا ہو نگے.
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ اس سے نجات کا ذریعہ کیا ہو گا؟.
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن.
اس میں تم سے پہلے گزر چکے لوگوں کے واقعات بھی ہیں اور تمہارے بعد کے زمانے کے حالات بھی.
تمہارے باہمی معاملات کے فیصلے بھی اس میں مذکور ہیں.
وہ پکی اور حتمی بات ہے مذاق نہیں.
جو شخص تکبر کی وجہ سے اس کو چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دے گا.
اور
جو اس کے علاوہ کہیں ہدایت یا علم کو تلاش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا.
یہی اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی اور حکمت والا ذکر ہے اور یہی سیدھا راستہ ہے.
قرآن ہی وہ کتاب ہے جس سے خیالات میں کجی نہیں آتی.
زبانیں اس میں گڑ بڑ ﴿تحریف﴾ نہیں کر سکتیں.
اہل علم اس سے کبھی سیر نہیں ہوتے. بار بار پڑھنے سے یہ کتاب پرانی نہیں ہوتی.
اس کے حیرت انگیز مضامین کبھی ختم نہیں ہوتے.
یہی وہ کتاب ہے جسے جنات نے سنا تو بے اختیار پکار اٹھے.
’’ بے شک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، سو ہم اس پر ایمان لائے‘‘﴿ الجن﴾
جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچ کہا.
اور جس نے قرآن پر عمل کیا اس نے اجروثواب پایا.
جس نے قرآن کے مطابق فیصلہ کیا عدل کیا.
اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی وہ سیدھے راستے کی رہنمائی کیا گیا.﴿ جامع الترمذی ابواب فضائل القرآن﴾
ضرورت کی کونسی چیز رہ گئی جو قرآن میں نہیں رکھ دی گئی؟.
یقینا کوئی بھی نہیں.
ایک ایک سطر کو دل کی آنکھ سے پڑھیں اور دماغ میں اتاریں.
ہم ان سب چیزوں کے محتاج ہیں.
ایمان سے انصاف تک.
ہدایت سے دعوت تک.
فتنوں سے مسائل تک.
ہر چیز کی رہنمائی صرف قرآن سے ہی ملے گی.
ان لوگوں کی بات نہ سنیںجو قرآن سے کاٹتے ہیں اور.
مسائل کے حل کے لئے کسی اور طرف بلاتے ہیں.
وہ امت کے خیر خواہ نہیں. دوست نہیں.
بد خواہ ہیں . دشمن ہیں.
وہ خود ہدایت سے محروم ہیں اور دوسروں کو کرنا چاہتے ہیں.
ان کے پاس خالی باتیں اور بودی دلیلیں ہیں.
جبکہ قرآن سب سے بڑی حجت. سب سے مضبوط دلیل اور سب سے پکی بات ہے.
اللہ تعالیٰ نے عزت و سر بلندی قرآن میں رکھی ہے۔ قرآن تھامنے والوں کو ہی ملتی ہے.
حدیث شریف کا مفہوم ہے:
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو عزت سے نوازے گا اور دوسروں کو پست کردے گا﴿ صحیح مسلم﴾
یعنی کتاب سے محبت کرنے والے. عمل کرنے والے. اسکی طرف دعوت دینے اور اس کے غلبے کی محنت کرنے والے عزت پائیں گے.
اور اسے چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اپنالینے والے ذلیل و رسوا ہو جائیں گے.
اس لئے دعوت ہے کہ ہم سب قرآن کی طرف لوٹیں.
اس کے الفاظ سیکھیں اور احکام جانیں.
اس کی تلاوت کریں اور اس پر عمل.
اس کی طرف بلائیں اور اس کے غلبے کی محنت کریں.
اس کا ہر حکم اپنی ذات پر نافذ کریں اور پھر زمانے بھر پر نافذکرنے کی فکر.
اور ہاں! چونکہ یہ ہمارے خالق و مالک کا کلام ہے اس لئے اس کی عزت ، حرمت اور تقدس پر مر مٹنے کا سچا جذبہ. ہمارے ایمان کاتقاضا ہے.
ہماری زندگی قرآن کی طرف کیسے لوٹ جائے؟.
آئیے! اس کا ایک سادہ اور آسان نصاب پڑھتے ہیں جو تحریر فرمودہ ہے .
امیر المجاہدین حضرت مولنا محمد مسعود ازہر حفظہ اللہ تعالیٰ کا.
’’کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم قرآن پاک کو کیسے پا سکتے ہیں؟ ہم اللہ پاک تک پہنچانے والے اس نور کو کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ ہم دنیا آخرت میں کام آنے والی اس نعمت کو کیسے پا سکتے ہیں قرآن پاک کے پانچ حقوق کون سے ہیں؟ کیا ہم نے انہیں ادا کیا؟
اس نصاب کے پانچ اجزائ یا لازمی حصے ہیں.
﴿۱﴾ یقین ﴿۲﴾ ادب ﴿۳﴾ تلاوت﴿۴﴾ عمل﴿۵﴾ دعوت
یعنی قرآن پاک پر مکمل ایمان لانا اوراسکی ہر بات پر یقین رکھنا، قرآن پاک کا ہر طرح سے ادب کرنا، اس کے الفاظ کا، اس کے اوراق کا، اس کے درس کا، اس کے حاملین کا.الغرض قرآن پاک کے ساتھ جس چیز کی بھی نسبت ہو اس کا ادب کرنا.قرآن پاک کی درست تلفظ کے ساتھ خوب خوب تلاوت کرنا.رات بھی اور دن بھی.سفر میں بھی اور حضر میں بھی،مجالس میں بھی، تنہائی میں بھی،نماز میں بھی ، اور بازار میں بھی.قرآن پاک پر پورا پورا عمل کرنا یعنی اپنا عقیدہ، اپنا نظریہ اور اپنا عمل قرآن پاک کے مطابق بنانا. اور اپنی اجتماعی زندگی میں قرآن پاک ہی کو اپنا رہبر بنانا. اور ہر قدم پر پہلی رہنمائی اس سے لینا، اور پھر قرآن پاک کی دعوت کو. پوری دنیا تک پہنچانا اور روئے زمین کو. قرآنی نظام کا تابع بنانا. آپ یقین کریں. ہم یہ پانچ کام ﴿ان شائ اللہ﴾ کر سکتے ہیں. بشرطیکہ . ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہیں اور اپنی قبر اور آخرت کو سنوارنا چاہیں. اور ہمارے دل و دماغ پر. اسلام کی عظمت کا جذبہ سوار ہو.
usama hammad
About the Author: usama hammad Read More Articles by usama hammad: 22 Articles with 49555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.