شہر کی سڑکوں پر سفر کرتے اور
گلیوں سے گزرتے ہوئے اکثر مسائل کا ہم سامنا کرتے ہیں اور جب بھی ان مسائل کو
دیکھتے ہیں تو ہم متعلقہ اداروں کی ناقص کارردگی پر ان کو صلواتیں سناتے ہیں یا
پھر دل ہی دل میں کڑھ کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن عموماً ہم ان متعلقہ اداروں کی توجہ
ان مسئل پر مبذول نہیں کراتے ہیں اور میں بھی انہی افراد میں شامل ہوں۔آج میں
نے سوچا کہ کچھ ایسے ہیں مسائل کی طرف ناظم شہر کی توجہ مبذول کرائی جائے۔ اور
فی الحال ہم اپنی توجہ صرف ٹریفک سے متعلق چند مسائل پر رکھیں گے اگرچہ وہ
مسائل حل ہوں یا نہ ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اور آپ کو اپنی بات ضرور
ذمہ داران تک پہنچا دینی چاہیئے۔بقول شاعر:اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری
فریاد--نہیں داد کا طالب یہ بندہ بیداد
سب سے پہلا مسئلہ جس کو ہم سامنا کرتے ہیں وہ ٹریفک کا مسئلہ ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ
عموماً بس اسٹاپ پر نہیں رکتی ہیں۔بلکہ اسٹاپ سے پہلے یا بعد میں رکتی ہیں۔اور
اس میں صرف ٹرانسپورٹر ہی قصور وار نہیں ہیں بلکہ عوام بھی اس میں شریک ہیں
کیوں کہ عوام کا بھی جہاں دل چاہتا ہے گاڑی رکوانے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں
باقاعدہ بس اسٹاپ ہوتا ہے اس کے بجائے اس سے تھوڑا آگے ہی کھڑے ہوتے ہیں۔اس کا
مطلب واضح ہے کہ جہاں پسنجر ہونگے گاڑی وہیں رکے گی اس لیے میرے خیال میں اس
معاملے میں دونوں ہی (عوام اور ٹرانسپورٹر ) قصور وار ہیں۔اب یہ سٹی گورنمنٹ کی
ذمہ داری ہے کہ وہ گاڑیوں کو مقررہ بس اسٹاپ پر ہی روکنے پر پابند کرے اور عوام
کو بھی مقررہ اسٹاپ پر ہی کھڑے ہونے کا پابند کرے۔اور ویسے بھی آج کل کراچی میں
کمیونٹی وارڈنز کی موجودگی میں یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔
دوسرا مسئلہ بھی ٹرانسپورٹ سے متعلق ہے کہ مزدا گاڑیوں میں عموماً اور روٹ نمبر
ڈبلیو گیارہ میں بالخصوص تیز آواز میں ریکارڈنگ چلتی رہتی ہے اور گانے بھی بہت
ہی بیہودہ اور لچر قسم کے ہوتے ہیں جس سے عوام کو ذہنی اور جسمانی تکلیف پہنچتی
ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ مزدا والے خواتین کے لیے مخصوص حصے میں بھی مرد حضرات کو
بٹھا دیتے ہیں جس کے باعث خواتین کو دوران سفر جسمانی کے ساتھ ساتھ روحانی کرب
سے بھی اٹھانا پڑتا ہے۔اور اکثر مزدا گاڑیوں کے ڈرئیور اور کنڈکٹر حضرات خواتین
کو گاڑی میں بٹھاتے بھی نہیں ہیں خواتین ہاتھ ہلاتی رہ جاتی اور گاڑی رکتی نہیں
ہے۔یہ مسئلہ بھی ناظم شہر کی توجہ کا طالب ہے۔
اتفاق کی بات ہے کہ تیسرا مسئلہ بھی ٹریفک سے متعلق ہے وہ یہ کہ کافی عرصہ پہلے
(غالباً بارہ تیرہ سال قبل) عوام کی سہولت کے لیے بس اسٹاپ پر ویٹنگ کے لیے
شلٹر بنائے گئے تھے، یہ شیلٹر انتہائی مضبوط اور پائیدار ہیں لیکن ایک غلطی کے
باعث یہ بیکار ہوچکے ہیں اور عوام ان سے استفادہ نہیں کرتے ہیں۔ان میں پہلا
مسئلہ تو یہ ہے کہ ان شیلٹرز میں دکانیں یا اسٹال کہہ لیں بنا کر دیے گئے ہیں
ان کی تعمیر میں ٹیکنیکل غلطی یہ کی گئی ہے کہ ان تمام دکانوںیا اسٹالز کا رخ
اسی طرف ہے جس طرف سے گاڑی کو آنا ہوتا ہے اب ہوتا یہ ہے کہ اگر عوام ان شیلٹرز
کے اندر بیٹھ کر گاڑی کا نتظار کریں تو وہ گاڑی کو دیکھ نہیں پاتے ہیں کیوں کہ
سامنے کی طرف تو دکان ہوتی ہے اور کچھ نظر نہیں آتا ہے اسلیے عوام لامحالہ اس
شیلٹر سے نکل کر بس کا انتطار کرنا ہوتاہے ( چاہے بارش ہویا تیز دھوپ یا سردی
میں ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہوں)چند ایک کی نشاندہی ہم کردیتے ہیں سخی حسن چورنگی
پر دونوں اطراف میں بنے ہوئے شیلٹرز کی یہی صورتحال ہے،لیاقت آباد دس نمبر پر
امام بارگاہ کی سائیڈ پر بنا ہوا بس شیلٹر اور سائیٹ ایریا میں حبیب چورنگی پر
بنا ہوا شیلٹر اس کی مثال ہیں۔ دوسرا مسئلہ ان شیلٹرز کے ساتھ یہ ہے کہ جس
شیلٹر میں دکانیں نہیں ہیں وہاں نشہ بازوں،آوارہ گردوں اور بدمعاشوں کے جتھوں
نے اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے اور بالخصوص نشہ باز افراد کی اکثریت ان شلیٹرز میں
مستقل ڈیرے ڈال کر بیٹھی رہتی ہے اور اسکی واضح مثال ایم اے جناح روڈ پر این جے
وی اسکول کے نزدیک بنا ہوا شیلٹر، صدر سے برنس روڈ کی طرف جاتے ہوئے الٹے ہاتھ
پر بنا ہوا شیلٹر ہیں اور دیگر کا بھی یہی حال ہے۔یہ مسئلہ بھی ناظم شہر کی
توجہ کا طالب ہے کیوں کہ اس میں عوام تو تکلیف اٹھاتے ہی ہیں سرکاری زمینوں پر
غیر متعلقہ افراد کا قبضہ بھی لمحہ فکریہ ہے اس لیے ناظم شہر اس طرف فوری توجہ
دیں۔
تیسرا مسئلہ فٹ پاتھز پر تجاوزات کا ہے کہ فٹ پاتھ پر اکثر دکانداروں نے قبضہ
کیا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چھابڑی والے،ٹھیلے والے وہاں قبضہ کر کے بیٹھ
جاتے ہیں جس کے باعث عوام کو گذرنے میں بہت مشکل ہوتی ہے۔اور ناجائز تجاوزات کا
سارا کاروبار متعلقہ تھانے کے اہل کاروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔اس کے علاوہ
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اکثر بڑی دکان والوں نے اپنی دکانوں کے سامنے فٹ
پاتھ پر ٹائلز لگائے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عموماً لوگوں کے پیر پھسل جاتے ہیں
اور بالخصوص برسات کے موسم میں تمام عوام کو بہت پریشانی ہوتی ہے۔اور یہ فٹ
پاتھز بہت خطرناک ہوجاتی ہیں۔ یہ مسئلہ بھی بہت زیادہ توجہ کا متقاضی ہے۔
یہ ٹریفک کے کچھ عمومی مسائل ہیں جن کی طرف ہم نے ناظم شہر کی توجہ مبذول کرانے
کی کوشش کی ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ اس معتبر ویب سائٹ کے ذریعے یہ پیغام
ان تک پہنچ جائے گا اور اس پر انشاءاللہ کاروائی بھی ہوگی |