از مبلغ اسلام مولانا شاہ
عبدالعلیم میرٹھی رضوی
آسمان و زمین کا خوب صورت منظر جسے ہم ارد گرد دیکھتے ہیں، خود ایک عظیم فن
کار کی تخلیق ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ کائنات میں نظم و ترتیب کا یہ وجود جس
کا موجودہ سائنس سے پتا چلتا ہے ایک اعلیٰ و اولیٰ قوت اور ذہن پر یقین
کرنے کی طرف رہ نمائی کرتا ہے، جو اس پے چیدہ اور منظم نظام کا ضامن ہے،
گویا اس سے ایک مافوق الفطرت ہستی کا ثبوت ملتا ہے، جس نے کائنات کو وجود
اور حیات و نشو و نما کے لوازمات سے نوازا۔ قرآن پاک کے الفاظ میں اسی کا
نام ”رب العالمین“ ہے۔
سائنس کے مطابق کائنات مختلف اجزا کا ایسا مرکب ہے جس کے تمام حصے خوب
صورتی اور توازن کے ساتھ باہم متعلق ہیں، علاوہ ازیں یہ (کائنات) قانون کی
ایک مملکت (یا ریاست) ہے، جس میں ہر ذرہ قانون کے مطابق طے شدہ اور مستقل
راستے پر چلتا ہے، فضائی سیاروں سے لے کر ساحلِ سمندر کے ذراتِ ریگ تک کوئی
بھی اس راستے سے انحراف نہیں کر سکتا ۔ ان کی زندگی سائنس کے مطابق قوانین
فطرت اور مذہب کی زبان میں قوانین خدا کی پوری طرح تابع ہے، گویا ان کی
زندگی اسلام کی زندگی ہے، جس کے معنٰی ہیں ”قوانین خدا کی متابعت“ (اور
پابندی) دوسرے الفاظ میں وہ ”مسلم“ ہیں۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کے متعلق
یوں اشارہ کیا ہے:
وَلَہٓ اَسلَمَ مَن فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ طَوعًا وَّکَرھًا وَّاِلَیہِ
یُرجَعُونَ(سورة آل عمران:83)
”اور اسی کے حضور گردن رکھے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے
اور مجبوری سے اور اسی کی طرف پھریں گے“ (کنزالایمان)
اس عام اصول سے مستثنیٰ ہے تو صرف انسان۔ وہ عالَم تخلیق میں اس حد تک
واقعی بے مثل ہے کہ اسے عقل اور قوتِ ارادی بھی دی گئی ہے نتیجتاً اس کے
کردار و عمل کی راہیں غیر متعین ہیں۔ آپ سورج کے کام کی تو پیش گوئی کر
سکتے ہیں، کیوں کہ وہ اٹل قانون کے ما تحت کام کرتا ہے اور اس سے ہٹ نہیں
سکتا، مگر انسان کی بابت کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ اس کے سوا کائنات کی
ہر چیز مشینی انداز سے چلتی ہے مگر یہ (انسان) اپنے مقاصد کا انتخاب اور
انھیں حاصل کرنے کے ذرائع (اپنی مرضی کے مطابق) اختیار کر سکتا ہے لہٰذا وہ
عقل پر بھروسا کرتا ہے، لیکن اس سلسلے میں بڑی بڑی چیزیں حاصل کرنے کے ساتھ
ساتھ غلطیاں بھی کرتا ہے اور بالآخر اضطراب (یعنی پریشانی) میں گھر جاتا
ہے۔ وہی قوت یا حس جو فیصلہ کرنے میں اس کی مدد گار تھی غلط استعمال کی بنا
پر آلہ تخریب بن جاتی ہے، انسانی ذہن صرف مخصوص حدود تک اس کی رہ نمائی کر
سکتا ہے کیوں کہ (انسان) حقائق معلومہ کی بنا پر نامعلوم چیزوں کو دریافت
کرنا چاہتا ہے۔ یہ (ذہن) کسی حد تک طبعی (اور ظاہری) حقائق کے میدان میں
کام یابی سے کام کر سکتا ہے مگر جب صداقتوں کی تحقیق کرنے لگتا ہے جہاں
ماضی، حال اور مستقبل کے علم کی شدید ضرورت ہے تو یہ (ذہن) سوائے اندازا
کرنے اور نتیجہ نکالنے کے کچھ نہیں کر سکتا، گویا فطرتاً ہی یہ نہائی حقائق
کو دریافت کرنے سے عاجز ہے۔
بہر حال روحِ انسانی ان انتہائی حقیقتوں کو جاننے کی زبردست خواہش مند ہے
کیوں کہ ان کے بغیر زندگی کا اصل مقام غیر واضح اور انسانی کوششوں کا صحیح
ضابطہ غیر متعین رہتا ہے۔ سائنس یہ چیز مہیا نہیں کر سکتی، کیوں کہ اس کا
تعلق تو قریب ترین (اور بالکل ظاہری) طبعی حقیقت سے ہے۔ اسی طرح فلسفہ بھی
اسے بہم پہنچانے سے عاجز ہے۔ کیوں کہ اس کی بنیاد صرف مقولوں اور نتیجوں پر
ہے۔
انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی روح اس غیبی بلند و بالا ہستی سے رہ نمائی کی
درخواست کرتی ہے، اور اس کو روشنی کے لیے مشعل راہ کی اور یقینی (علم پر
مبنی) رہ نمائی کے لیے کسی رہ نما کی ضرورت ہے۔
انسانیت کو یقینی، مثبت اور جامع رہ نمائی کی ضرورت ہے تو اسی خلاقِ کریم
نے جو ہماری اور کائنات کی طبعی ضرورتیں پوری کرتا ہے، اس شدید ضرورت کا
پورا کرنا اپنے ذمہ کرم پر لے لیا ہے۔ انسانی تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ
مذہب حیاتِ انسانی کے آغاز ہی سے دنیا میں چلا آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے
کہ رب کریم نے بنی آدم کو ہدایت و تخلیق سے بہ یک وقت مشرف فرمایا تا کہ
اسے ٹھوکریں نہ کھانا پڑے (آسانی سے) قوانین فطرت کے مطابق چل سکے۔
ایسے (عظیم الشان) افراد جنھیں رب تعالیٰ نے خلقت کی ہدایت کے لیے مقرر
فرمایا مذہب کی اصطلاح میں رسول یا پیغمبر کہلاتے ہیں۔ انھوں نے خود تو وحی
الٰہی کی شکل میں وہ رہ نمائی حاصل کی اور انھوں نے اسے تحریری صورت میں
عوام پر پیش کیا ، الہامی کتاب میں وہ قوانین بیان کیے گئے ہیں جنھیں
کائنات کے خالق و قیوم نے صحیح زندگی کے لیے بنایا ہے۔ اس ہدایت کا مقصدِ
واحد قوانین الٰہی کی اطاعت سکھانا ہے اور اسی کو عربی زبان میں ”اسلام“
کہتے ہیں۔ اس رہ نمائی کا مطلب یہ ہے کہ انسان آزاد ہو کر بھی ویسے ہی اپنی
اصلی فطرت کے مطابق عمل و رویہ اختیار کرے جیسے باقی مخلوق قوانین فطرت کے
مطابق مشینی انداز میں کام کرتی ہے، یہی لفظ مسلم کا مفہوم ہے۔ قرآن پاک کے
ارشاد کا مفہوم ہے: فطرت جس میں خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی خلقت
میں کوئی تبدیلی نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔
خدا نے اس ہدایت کو کسی خاص گروہ یا قوم تک محدود نہیں رکھا بلکہ سب قوموں
اور نسلوں پر (ہدایت) پیش کی گئی۔ خدا کی نعمت سب کو عطا کی گئی جیسے کہ
ارشاد ہوتاہے:
وَ اِن مِّن اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیھَا نَذِیر (سورة فاطر:24)
”اور جو کوئی گروہ تھا سب میں ایک ڈر سنانے والا گزر چکا“ (کنزالایمان)
تاریخ نے ان سب ہادیوں میں چند ہی کے اسمائے گرامی محفوظ رکھے ہیں جب کہ
کئی دوسروں کے کاموں اورناموں کو بالکل فراموش کر دیا ہے۔ جن انبیا علیٰ
نبینا و علیہم السلام کے نام ہاے نامی ابھی تک یاد ہیں ان میں سے حضرت آدم،
حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت اسمٰعیل، حضرت اسحٰق، حضرت یعقوب، حضرت موسیٰ
و حضرت عیسیٰ علیہم السلام پہلے گروہ میں سے ہیں۔ آخری رسول ۱ (یعنی خاتم
النبیین) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔حضور پر نور علیہ
الصلاة والسلام نے ساتویں صدی عیسوی میں مبعوث ہو کر انبیائے سابقین علیہم
السلام کے بتائے ہوئے راستہ کی طرف بلایا اور دنیا کو قرآن کریم دیا، جس
میں انبیائے سابقین علیہم السلام کی تعلیمات کامل اور جامع ترین شکل میں
پیش کی گئی ہیں، لوگوں نے ان (تعلیمات) کو کبھی یہودیت اور کبھی عیسائیت
وغیرہ کا نام دیا، حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انھیں
”اسلام“ جیسا ابتدائی اور با معنٰی نام یاد دلایا۔
(۱)اِنَّ الدِّ ینَ عِندَاللّٰہِ الاِسلَامُ (سورة آل عمران:19)
”بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے“ (کنزالایمان)
(۲)مِلَّةَ اَبِیکُم اِبرٰہِیمَ ط ھُوَ سَمّٰکُمُ المُسلِمِینَ (سورة
الحج:78)
”تمہارے باپ ابراہیم کا دین اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے“
(کنزالایمان)
(۳)مَا کَانَ اِبرٰھِیمُ یَھُودِیًّاوَّلَا نَصرَانِیًّا وَّلٰکِن کَانَ
حَنِیفًا مُّسلِمًا (سورة آل عمران:67)
”ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے“
(کنزالایمان)
حضور ختم المرسلین علیہ الصلاة والسلام نے مذہب کو فرقہ پرستی کی سطح سے
اُٹھایا اور بتایا کہ الہامی دین جہاں کہیں پہنچا اور جس نے بھی اس کی
تبلیغ کی اسلام ہی کے نام سے موسوم ہوا، جس کا مطلب جیسا کہ پہلے بھی دو
دفعہ کہا ہے ”خدا کے مقرر کردہ قوانین کی اطاعت اور پابندی“ ہے۔ |