تحریر: طلحہ السیف
آیئے! ایک مہم شروع کرتے ہیں. تبدیلی نام مہم۔
ہم سب مل کر اپنے اپنے ناموں پر غور کرتے ہیں اور پھر تھوڑا سا ان کرداروں
پر غور کرتے ہیں جن کے ناموں سے ہم نے اپنے نام ملا رکھے ہیں مجھے یقین ہے
کہ تھوڑی دیر بعد آپ بھی میری طرح سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ
ہمیں اپنے نام بدل لینے چاہئیں۔
لیجئے ! میں بات اپنے نام سے شروع کرتا ہوں مضمون کی لوح پر میرا نام کافی
بڑا سا ہمیشہ لکھا ہوتا ہے آپ کو علم ہی ہے۔ احد کے سخت اور شدت والے دن جب
کافروں نے مل کر میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کر دیا تھا ان
کی نیت یہ تھی کہ آج پروانوں کے قدم اکھڑ چکے ہیں اچھا موقع ہے شمع بجھا دی
جائے۔ تیروں کی بوچھاڑ کر دی گئی تاکہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا جسم مبارک چھلنی کر دیا جائے ایسے میں کفار کے تیروں اور آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان ایک جسم حائل ہو گیا، پہلے تیر ہاتھ پر
روکے جب ہاتھ شل ہو گیا سینہ آگے کر دیا جب اس پر بھی جگہ باقی نہ رہی آقا
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منہ کر لیا اور تیر پیٹھ پر لے لئے تاکہ
اگر ایسے میں جان نکل جائے تو دیدار کی حالت میں نکلے، کفار ناکام ہو گئے،
عاشق کامیاب ہو گیا۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احد کا پورا دن
اسی عاشق کے نام کر دیا۔’’اے اللہ، آج کا دن طلحہ کے لئے کر دے‘‘ آج بے نسل
، بے اصل ، بے حسب و نسب گوروں نے میرے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی
ناموس پر تیر برسائے، میں ان میں سے ایک بھی اپنے تن پر نہ لے سکا، نہ ہاتھ
شل ہوا نہ سینہ چھلنی، نہ پیٹھ پر کوئی زخم آیا نہ چہرے پر، کیا مجھے حق ہے
کہ خود کو طلحہ کہوں؟
آپ بھی غور کیجئے!
ہم میں عبداللہ کتنے ہیں؟ لیکن کیا آج ایک بھی عبداللہ بن ابی قحافہ یا
عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہما جیسا نکلا؟ غارثور میں آقا صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم آرام فرما رہے تھے، اپنے عاشق کی گود میں سررکھ کر محو خواب تھے،
ایک موذی سانپ بار بار سرنکالتا تھا تاکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
گزند پہنچائے لیکن عاشق کا پائوں اس کے سر پر تھا، موذی بار بار ڈستا تھا
لیکن پائوں نہیں ہٹتا تھا، عاشق نے سارا زہر اپنے جسم میں اتار لیا محبوب
تک نہ پہنچنے دیا، یہ تھے عبداللہ بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ جو آقا کو
آرام پہنچا کر صدیق کہلائے ۔آج کون آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی
موذی سے ایسا آرام پہنچا سکا؟؟؟ مدینہ میں ایک بدبخت یہودی ساہو کار تھا
ابورافع، آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بکا کرتا تھا، داستان گوئی
کے انداز میں راتوں کو محفل لگا کر اشعار میں آپ کی ہجوکیا کرتا تھا، ایک
دن آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مجلس میں فرمایا ’’کون ہے جو مجھے
ابورافع سے راحت پہنچائے کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دے رہا
ہے‘‘ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ گئے اس بدبخت کے اونچے اور محفوظ قلعے
میں داخل ہو کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بدبخت کی زبان سے ہمیشہ
کے لئے راحت دلا آئے اور جنت کی بشارت پائی، آقا نے ایک اور یہودی بدزبان
کے متعلق بھی یہی الفاظ فرمائے’’ کون ہے جو ہمیں اس سے راحت پہنچائے، محمد
بن سلمہ رضی اللہ عنہ گئے اس کی ناپاک زبان بند کر آئے۔
مسلمانو! کان لگا کر سنو! ابورافع اور کعب بن اشرف کی ناپاک زریت آج بھی
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھونک رہی ہے، گنبد خضرائ سے من لی بھم کی صدا
شاید آج بھی آ رہی ہو، ہے کوئی عبداللہ یا محمد جو اس آواز پر دیوانہ وار
انا یا رسول اللہ کا نعرہ لگا کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، کو راحت
پہنچائے؟؟
آج تو عطائ اللہ شاہ بخاری بھی نہیں جو انگڑائی لے کر روضہ رسول اللہ کی یہ
صدا کسی مجمع میں سنا دیتا اور کسی علم الدین شہید کے کان سن لیتے، میرا
سنانا کیا معنی رکھتا ہے جبکہ میں خود بہرہ ہوں مسلمانو! کتنے عامر اور
عمیر نام والے ہم میں ہیں، کیا کوئی ایک بھی عامر بن جراح رضی اللہ عنہ
جیسا نہیں جنہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف میدان میں آے والے
اپنے حقیقی باپ کی گردن اڑا دی تھی۔؟؟
کیا کوئی آنکھوں والا عمیر اس بظاہر نابینا مگر دل کے بینا عمیر بن عدی کا
مثل نہیں جس نے گستاخ رسول کی آنتیں نکال باہر کی تھیں؟؟
امت کی گود میں کوئی ایک حبیب اور زید بھی نہیں جنہوں نے سولی پر چڑھ کر
بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک میں کانٹے کی تکلیف کا تصور
بھی گوارا نہ کیا۔ اتنے سارے سعد موجود ہیں کوئی سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ
جیسا بھی ہے جنہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں جان دیتے
وقت بھی اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ تمہاری زندگی میں اگر آقا صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو قیامت کے دن ہمیں منہ نہ دکھانا،
اگر قیامت کے دن سعد بن ربیع ہمارے راستے میں کھڑے ہو گئے تو.
ہم سے تو وہ ہی اچھے ہیں جو اب بھی اپنے ناموں کا حق ادا کر رہے ہیں، آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ازلی بدنصیب کو نامہ مبارک بھیجا تھا
کہ اسلام کی آغوش میں آ جا کامیاب ہو جائے گا، اس کمینے نے نامہ مبارک چاک
کر دیا تھا، کئی مسلمانوں کو اس بدبخت کا نام پسند آ گیا اور انہوں نے اپنے
بچوں کے نام اس کے نام پر رکھ دیئے، ان میں سے کسی نے آقا صلی اللہ علیہ
والہ وسلم کی میٹھی سنتوں اور پیاری پیاری باتوں سے انکار کر دیا اور جہنم
میں ٹھکانا بنایا، کسی نے پردہ داڑھی کا مذاق اڑانا اپنا شیوہ بنا لیا اور
کوئی قوم کی مائوں بہنوں بیٹیوں کو بے لباس کر کے سڑکوں پر لے آیا، آقا
مدنی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود فرمایا کہ نام کا انسان کی شخصیت پر
اثر ہوتا ہے، جن لوگوں کے نام آقا کے دشمنوں کے نام پر ہیں انہوں نے تو
اپنے پیشروئوں کی شخصیت اپنا لی ، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یاروں کے
نام اپنانے والے ان کی شخصیت کے سانچے میں کیوں نہیں ڈھلتے؟
ہم طلحہ بھی ہیں عبداللہ بھی، عمر، عامر، اسامہ، عمیر، سعد سب ہیں لیکن نہ
عشق ہے نہ غیرت، نہ کردار ہے نہ سچی گفتار، پھر کیوں نہ اپنی شخصیت کے
مطابق نام ڈھونڈ لائیں۔
ویسے ہم جن حشرات الارض کی زندگی جی رہے ہیں ان کے لئے نام کی ضرورت ہی کیا
ہے؟
جب ہم اپنی سب سے قیمتی متاع عشق مصطفی ا سے ہی خالی ہو گئے تو کسی شناخت
کی حاجت ہی کیا ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم جیسے دنیا کے پیچھے
پڑ کر عزت ، غیرت، حمیت، شوق شہادت اور عشق سے محروم ہو جانے والے لوگوں کا
نام خود ہی فرما دیا ہے۔ تعس عبدالدینار عبدالدرھم
جی ہاں ! جب ہماری زندگی کا محور صرف اور صرف دنیا اور اس کا عیش و آرام ہی
ہے تو ہمار ے لئے اس سے بہتر نام اور کون سا ہو گا؟ یا تو ہمت کر کے یہ نام
رکھ لیں یا پھر بے نام ہی ہو جاتے ہیں تاکہ پہلوں کے لئے ننگ و عار تو نہ
بنیں۔ |