پتھری بل کے مظلوم اور پتھر دل حکمراں

این ڈی اے کے دور حکومت میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ ہند(25-21مارچ 2000) سے ایک دن قبل جنوبی کشمیر میں واقع ضلع اننت ناگ کے گاﺅں چھتی سنگھ پورا میں ایک قیامت برپاہوئی۔رات کے وقت ہندستانی فوجی وردیوں میں ملبوس 18، 20مسلح افراد نے 35غریب سکھوں کو ان کے گھر سے نکالا اور مقامی گرودوارے کے سامنے ایک قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون ڈالا۔ قدرتی طور سے اس سنگدلی کاتعلق دہشت گردی کی اس رو سے جڑ گیا جس کو پڑوسی ملک کی شہ حاصل تھی۔ چنانچہ مسٹر کلنٹن کے ایجنڈے میں ’پاکستانی دہشت گردی‘ کا موضوع اہم بن گیا۔اگرچہ پاکستان نے اس واقعہ کی فوراً سخت مذمت کی اوروادی میں دہشت گردانہ سرگرمیوں ملوث گروہوں نے بھی اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ صدر کلنٹن نے سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی مگر کسی کا نام نہیں لیا، تاہم وہ دہلی سے اسلام آباد پہنچے تووہاں بھی یہ واقعہ ان کے ایجنڈے میں شامل رہا،۔اگرچہ یہ تصدیق آج تک نہیں ہوسکی کہ یہ کرتوت کس شیطانی ذہن کا اختراع تھا، لیکن بہت ساری باتیں محض گمان کی بنیاد پر چلتی رہتی ہیں۔واقعہ کشمیر کا تھا اور ہلاک شدگان غریب غیر مسلم تھے، اس لئے’بد اچھا، بدنام برا‘ کی مصداق اس کا الزام ’اسلامی دہشت گردی ‘ کے سر رکھا گیا، البتہ یہ سوال آج بھی جوا ب چاہتا ہے کہ اس خاص وقت کا انتخاب دہلی کی این ڈی اے سرکار کےلئے زیادہ سازگار تھا یا پاکستان کی مشرف سرکار کےلئے؟ یہ بات اہم ہے کہ مسٹر کلنٹن کا دورہ ہند پانچ دن کا تھا جب کہ وہ پاکستان صرف چند گھنٹے رکے اور خبروں کے مطابق ان کا رویہ پاکستانی حکام سے گفتگو کے دوران بڑا ہی درشت رہا۔ اخباروں میں جو تبصرے آئے ان میں اس امکان پر شادیانے بجائے گئے کہ سپرپاور امریکا بہادر کا رخ اب پاکستان کی جانب سخت اور ہماری جانب نرم ہونے لگا ہے۔ایک خاص سیاسی نظریہ کے حامل ہمارے برادران وطن کی باچھیں اس لئے بھی کھل اٹھیں کہ امریکا اور اسرائیل ایک دوسرے کے ہمزاد ہیں۔ امریکا قریب لگائے گا تو اسرائیل خود بخود قریب آجائے گا۔چنانچہ ایسا ہی ہورہا ہے۔

صدر کلنٹن کے دہلی سے اسلام آباد روانہ ہوتے ہی اس وقت کے نائب وزیراعظم اور مرکزی وزیر داخلہ مسٹر ایل کے آڈوانی مظلوم سکھوں سے اظہار ہمدردی جتانے چھتی سنگھ پورہ پہنچے تو مقامی پولیس اور فوج کے افسران نے ان کو یہ ’خوش خبری ‘سنائی کہ گزشتہ شب ایک ’انکاﺅنٹر‘ میں لشکر طیبہ کے ان ’پانچ دہشت گردوں‘ کو ڈھیر کردیا گیا ہے جو سکھوں کے قتل میںملوّث تھے۔ کرنل اجے سکسینہ اور ڈی ایس پی اننت ناگ مسٹر تیجندر سنگھ نے ایک نقشہ کی مدد سے مسٹر آڈوانی کو اس آپریشن کی تفصیل سمجھائی اور اس کارگزاری پر واہ واہی پائی۔ دعوا یہ کیا گیا کہ ہلاک شدگا ن میں تین پاکستانی تھے جبکہ دو کی شناخت نہیں ہوسکی۔ میڈیا نے اس بیان کوحرف آخر جانا اور یہ سوال اٹھانے کی ضروررت محسوس نہیں کی کہ ہلاک شدگان کے نام اور ان کی پاکستانی شہریت کا پتہ کس طرح چل گیاجبکہ فوج کے دعوے کے مطابق اس کاروائی میں پانچوں مقتول جھلس گئے تھے، چہرے مسخ ہوگئے تھے ۔ ایک کی آدھی کھوپڑی غائب تھی اور ایک کا بایاں ہاتھ اور سرنہیں تھا؟ ہماری پولیس اورسیکیورٹی عملے کو یہ کمال حاصل ہے کہ ان کی گولی سے جیسے ہی کوئی شخص مارا جاتا ہے، اس کی لاش بولنے لگتی ہے اور اپنی ساری ہسٹری بیان کردیتی ہے۔ کہاں کا رہنے والا ہے، کہاں تربیت حاصل کی، ہتھیار کہاں سے لایا اور کن کن وارداتوں میں ملوّث رہا ، اس کا نام ابو حمزہ ہے یا ابو اسامہ ہے وغیرہ؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ مبینہ انکاﺅنٹرمیں ہلاک شدگان تو 80فیصد تک جھلس گئے تھے مگر ان سے برامد دکھائے گئے اسلحہ پر دھواں تک نہیں لگا تھا۔

یہ واقعہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے دورکا ہے ۔ان کی پارٹی بھاجپا کے ساتھ این ڈی اے میں شریک تھی۔ کشمیر میں 1989 سے شورش کے دوران تقریبا آٹھ ،دس ہزار افراد جبراً لاپتہ ہوئے جن میں تقریبا 4 ہزارڈاکٹر فاروق عبداللہ کے دور اقتدار میں غائب ہوئے یا فورسز کی تحویل میں مارے گئے ۔ اب یہ تصدیق ہوچکی ہے اس دوران وہ بہت سے لوگ جن کو ہلاک کرکے یہ دعوا کیا جاتا تھا کہ پاکستانی درانداز مارے گئے، دراصل مقامی باشندے تھے جن کو مارکر انکاﺅنٹر کا دعوا کیا جاتا تھا۔ ہرچند کہ ان ہلاکتوں کےلئے فوج اور پولیس کو مطعون کیا جاتا ہے، لیکن یہ باور کرنامحال ہے کہ مسلسل ہلاکتوں کایہ سلسلہ سرکار کی منظور ی کے بغیر چلتا رہا۔ یقینا یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی جابرانہ حکمت عملی کے تحت کیا جاتا رہا ہے۔اس کے دو مقاصد بہت واضح ہیں۔ مقامی آبادی کو خوفزدہ کرکے ان کے حوصلے کو توڑنا تاکہ وہ جمہوری اور آئینی حقوق کی بحالی کے مطالبات کرنا بند کردیں ۔دوسرے پڑوسی ملک کی حریف حکومتوں کے خلاف عالمی سطح پر فضا بنانا۔ خدا کا شکر ہے اب یہ مشغلہ بند ہوگیا۔بیشک سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے کشمیر میں شورش پھیلائی مگر ان کے نامہ اعمال میں جتنے گناہ گنوائے جاتے ہیں ،ان سے تو وہ خود بھی حیرت زدہ ہونگے۔

پتھری بل کے اس سانحہ کا بھانڈا پھوڑ اس طرح ہوا کہ جائے واردات کے قرب جوار کے گاﺅں براری آنگن، ہالن اور اننت ناگ سے پانچ افراد کے لاپتہ ہونے کی رپورٹیں اس فرضی انکاﺅنٹر سے متصلاًپہلے درج کرائی گئی تھیں۔ ان میں سے پولیس اور 7راشٹریہ رائفل کا عملہ اٹھا کرلے گیاتھا۔انکاﺅنٹر کی کہانی پر عوام کو شک ہوا تو وہ سراپا احتجاج بن گئے۔ پولیس نے نہتھے مظاہرین پر گولی چلادی، جس میں مزید 9افراد ہلاک ہوگئے۔جس پر احتجاج کی لہر اور شدید ہوگئی اور عوام کے زبردست دباﺅ میں فاروق عبداللہ سرکار نے مجبوراًمجسٹریٹ سے جانچ کرائی ۔ لاشوں کو قبروں سے نکالا گیا تو ان کے اعزہ نے ان کو پہچان لیا۔ حتمی شناخت کےلئے ڈی این اے جانچ کا ڈرامہ دو مرتبہ رچا گیا اور دونوں مرتبہ خون کے نمونے بدل کر لیب بھیجے گئے۔آخر کو تیسری مرتبہ لیب کے عملے نے خود نمونے لئے جن سے تصدیق ہوگئی کہ جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دیکر واہ واہ لوٹی گئی تھی وہ دراصل علاقے کے غریب باشندے تھے اور سنگدلی سے ان کو قتل کیا گیا تھا۔پوسٹ مارٹم رپورٹوں سے ان زود کوب کئے جانے کی بھی تصدیق ہوئی۔

سنہ2000 کے آخر میں جانچ سی بی آئی کے سپرد کی گئی۔ مسٹر اشوک کالرا کی سربراہی میں جو جانچ ہوئی اس میں ’انکاﺅنٹر‘ کا جھوٹ طشت از بام ہوگیا اور سی بی آئی نے اس کو ’مجرمانہ سازش ‘قرار دیا۔ ہرچند کہ فوجی افسران نے جانچ میں پوری طرح تعاون نہیں کیا ،لیکن انکاﺅنٹر سے متعلق ان کی دستاویزات اور رپورٹوں سے جھوٹ کی پول کھل گئی۔ ساری خانہ پوری فرضی تھی اس لئے ان میں تضادات پائے گئے۔بہر حال سی بی آئی نے 7ویں راشٹریہ رائفلر کے افسران کرنل اجے سکسینہ ، میجر بی پی سنگھ، میجر سوربھ شرما اور صوبیدار ادریس خاں و دیگر نامعلوم عملے کے خلاف اغوا، قتل، مجرمانہ سازش اور ثبوتوں کے اتلاف کے الزامات کے تحت2006میں عدالت میں چارج شیٹ داخل کردی۔ لیکن ابھی عدالت میںکاروائی شروع بھی نہیںہوئی تھی کہ فوج نے اس بنیاد پر عذرداری پیش کی کہ’مسلح افواج خصوصی اختیارات ایکٹ‘ (AFSPA) کے بموجب کسی فوجی کاروائی کے خلاف مرکزی حکومت کے اجازت کے بغیر مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔ جوڈیشیل مجسٹریٹ نے اس دلیل کو رد کردیا اور کہا کہ بادی النظر میں مجرمانہ کیس بنتا ہے۔ تاہم فوج چاہے تو خود خاطی افسران پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے۔ فوج نے اس متبادل کو مسترد کردیا اور اس کے بعد اپیلوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آخر میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔

طویل سماعت کے بعد یکم مئی کوجسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس سوتنتر کمار کی دورکنی بنچ نے سی بی آئی کی اس دلیل سے اتفاق کیا کہ یہ ایک مجرمانہ معاملہ ہے اور اس طرح کے معاملات کو فوج کی ایسی منصبی کاروائی قرار نہیںدیا جاسکتا جس کو AFSPAکے تحت تحفظ فراہم ہے۔ عدالت نے فوج کوپھر یہ موقع دیا ہے کہ وہ اس جرم میں شریک افسران کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے، یا سول کورٹ سے تعاون کرے۔ اشارہ یہ مل رہا ہے فوج اب کورٹ مارشل کے متبادل کو قبول کرلےگی ۔

یہ صحیح ہے کہ انسانی حقوق کی عمداً پامالی کا کوئی جواز نہیں ہوسکتااور ایسے معاملے میں خطاکار افسران سے جواب طلبی ہونی چاہئے۔ لیکن آثار و قرائین سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ جرم ان افسران نے اپنے طور پر انجام نہیں دیا ہوگا بلکہ کسی بالادست نے طے شدہ ہدف حاصل کرنے کےلئے فوج کو استعمال کیا ۔یہ سوال اہم ہے اگر واقعی فوجی افسران نے یہ سنگین جرم اپنے طور پر انجام دیاتھا تو حکومت ان کی پشت پناہی کیوں کررہی ہے ، کیوں ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دے رہی اور کیوں نشانزد افسران کو ترقی پر ترقی دی جاتی رہی ہے؟اس دوران ریاستی حکومت نے جن پولیس افسران کو معطل کردیا تھا ان کوبھی بعد میں بحال کردیاگیا اور ان کو ترقیاں دی جاتی رہیں۔

یہ جانچ ہونی چاہئے کہ پولیس اورفوجی افسران نے یہ سنگین کاروائی کس کے حکم پر انجام دی؟ فوج کوبھی سچائی بیان کرنی چاہئے تاکہ ایوان اقتدار میں بیٹھی ہوئی وہ کالی بھیڑیں بے نقاب ہوں جو قانون شکنی اور انسانی حقوق کی پامالی کی اصلاً مرتکب ہیں۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ہماری فوج ڈسپلنڈہے اور سول حکام کے عندیہ کے خلاف نہیں چلتی۔اس لئے پتھر دل سیاسی قیادت اور افسر شاہی کے کالے کرتوتوں کےلئے فوج کو داغدار نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس معاملہ کو فرقہ ورانہ رنگ دینا بھی نادانی ہے۔ جو روش کشمیر میں اختیار کی گئی، وہی پنجاب ، آسام اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں اختیار کی گئی۔جوحال ہندستان میں ہے ویسا ہی پاکستان میں بھی ہے۔ اصل معاملہ انسانی حقوق کی پامالی اورقیادت کی سنگ دلی کا ہے جو سرکاری فیصلہ سازی میں بار بار نظرآتا ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163231 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.