زمین پر اگلے 40 برس، پیشین گوئیاں

آئندہ چار عشروں کے دوران ہماری دھرتی پر زندگی کی صورت کیا ہو گی؟ اس حوالے سے کلب آف روم نے رواں ہفتے کے آغاز پر ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں انسانوں کے لیے پریشانی کا سب سے بڑا سبب ہوں گی۔

کلب آف روم ایک غیر کاروباری تنظیم ہے، جو دُنیا کے مختلف ملکوں کے دانشوروں اور محققین کو بین الاقوامی اہمیت کے مختلف معاملات پر تبادلہ خیال کا موقع فراہم کرتی ہے۔ 1972ء میں اس تنظیم کی جانب سے ’اقتصادی ترقی کی حدیں‘ کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی۔ زمین پر اگلے چار عشروں میں آنے والی تبدیلیوں سے متعلق پیشین گوئیوں پر مبنی اِس رپورٹ کو پوری دُنیا میں سراہا گیا تھا۔ پہلے اس تنظیم کا ہیڈکوارٹر جرمن شہر ہیمبرگ میں ہوا کرتا تھا تاہم جولائی 2008ء سے یہ ہیڈکوارٹر سوئٹزرلینڈ کے شہر وِنٹرتھُور منتقل ہو چکا ہے۔
 

image


’’2052ء، اگلے چار عشروں کے لیے عالمگیر پیشین گوئی‘‘ کے نام سے تازہ رپورٹ روٹرڈیم میں جاری کی گئی ہے۔ اس میں کلب آف روم کی طرف سے چالیس سال قبل شائع ہونے والی رپورٹ ’اقتصادی ترقی کی حدیں‘ کے موضوعات ایک بار پھر سے اجاگر کیے گئے ہیں۔ جن 66 شخصیات کی کوششوں سے یہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے، اُن میں ممتاز اقتصادی ماہرین کے ساتھ ساتھ مستقبل پر تحقیق کرنے والے مشہور محققین بھی شامل ہیں۔

آبادی میں ہونے والا اضافہ اور اس بڑھتی آبادی کے لیے اَشیائے خوراک کی فراہمی اس رپورٹ کے اہم موضوعات ہیں۔ ساتھ ہی پیچیدہ حساب کتاب کی مدد سے یہ اندازے بھی بیان کیے گئے ہیں کہ کون سے ممالک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے اور کون سے آگے نکل جائیں گے۔ ان اندازوں کی تیاری کے سلسلے میں قدرتی وسائل کی دستیابی، صنعتی پیداواری صلاحیت، اَشیائے خوراک کی پیداوار، عالمی آبادی میں اضافے اور ماحول کی آلودگی جیسے معاملات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
 

image


اس رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے اور زمینی درجہ حرارت میں عنقریب اوسطاً 2.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کے مفروضے کی بنیاد پر پیشین گوئی کی گئی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دھرتی پر سیلاب، خشک سالی کے واقعات اور موسموں کی شدت بڑھتی جائے گی۔

چالیس سال پہلے کی رپورٹ کی طرح اس رپورٹ میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ زمین کے مستقبل کا انحصار اس نکتے پر ہے کہ انسان توانائی کے ضمن میں کیا پالیسیاں اختیار کرتا ہے۔ تازہ رپورٹ میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ انسان تیل اور گیس جیسے توانائی کے اُن معدنی وسائل سے بڑے پیمانے پر استفادے کا سلسلہ بدستور جاری رکھے گا، جو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے ضرر رساں مادوں کے اخراج کا باعث بنتے ہیں۔
 

image


کلب آف روم کے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اقتصادی ترقی کا عمل طویل عرصے تک جمود کا شکار رہنے کے بعد تقریباً سن 2050ء سے مکمل طور پر رُکنا شروع ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں کساد بازاری دیکھنے میں آئے گی اور عالمی آبادی پھر سے کم ہونا شروع ہو جائے گی۔

کلب آف روم کی طرف سے چالیس سال پہلے کی جانے والی پیشین گوئیوں میں سے کئی ایک اس لیے پوری نہ ہو سکیں کیونکہ انسان نے اپنی قوت متخیلہ کو استعمال کرتے ہوئے کئی ایسی ایجادات و اختراعات کیں، جن کا تب اس تنظیم کے محققین اندازہ نہیں لگا سکتے تھے۔ اب بھی یہ امکان ضرور موجود ہے کہ آنے والے برسوں میں انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اتنی ترقی کر جائے کہ اس تنظیم کی کئی پیشین گوئیاں پوری ہونے سے رہ جائیں اور اس دھرتی پر بسنے والے انسانوں کے لیے حالات زیادہ ناخوشگوار شکل اختیار نہ کریں۔

YOU MAY ALSO LIKE:

There “will not be total Armageddon’’ in the next 40 years, but humanity will confront daunting challenges – including a slowing global economy and unremitting climate change – on the road to 2052, according to a new report by a global think-tank that analyzes problems facing humanity’s future.