لیاری میں ”انقلاب“

پیپلز پارٹی کی ایک بڑی ”خوبی“ یہ ہے کہ کِسی معاملے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ انتہا پسندی اِس کے مزاج کا حصہ ہے۔ کِسی کو چاہتی ہے تو تمام حدیں پار کر جاتی ہے۔ اور اگر نفرت کرنے پر آئے تو اُسے یاد نہیں رہتا کہ حد وغیرہ بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے! ضیاءجالندھری نے کہا تھا
اُفتادِ طبیعت سے اِس حال کو ہم پہنچے
شِدّت کی محبت میں شِدّت ہی کے غلم پہنچے

پی پی پی قیادت کی زبانی سُنتے آئے تھے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ دیکھ بھی لیا۔ آپ اور ہم خوش نصیب ہیں کہ جمہوریت کو بہترین انتقام کی شکل میں صرف دیکھا ہے، لیاری کے غریبوں نے تو اِسے بھگتا ہے۔ چار سال سے ایک ہی جُملہ سُننے مل رہا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ عوام کی سادہ لوحی دیکھیے کہ اِس جُملے میں مفاہیم کا جہاں ڈھونڈنے نکلے تھے۔ اُن کی تلاش ختم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی مہربانی کہ اُس نے کوزے میں دریا بند کردیا یعنی تمام معاملات کو سمیٹ کر لیاری کی چوکھٹ تک لے آئی! لیاری میں کون رہتا ہے؟ اِس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ لیاری میں کون نہیں رہتا؟ کراچی کو مِنی پاکستان کہا جاتا ہے مگر درحقیقت مِنی پاکستان تو لیاری ہے۔ اِس چھوٹی سی دُنیا میں ایک بڑی اور خاصی مُتنوع دُنیا آباد ہے۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ سرکاری بیانات نے پوری کی۔ ہم ایک زمانے سے کراچی میں زندگی بسر کر رہے ہیں مگر ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ ہمارے پہلو میں بَسے ہوئے لیاری میں جرائم پیشہ عناصر کے شانہ بہ شانہ بلوچ علیٰحدگی پسند اور طالبان بھی سُکونت پذیر ہیں! اگر معلوم ہوتا تو ہم کچھ تو ڈرتے، سہمے سہمے وہاں سے گزرا کرتے!

لیاری کا قصور کیا تھا؟ پیپلز پارٹی سے محبت؟ یقیناً۔ مگر محبت میں گِلے شِکوے جائز نہیں۔ محبت کی دُنیا کا
اصول تو یہ ہے کہ محبوب خواہ کچھ کر گزرے، مُحِب کو صبر کے گھونٹ پینے چاہئیں۔ مگر پیپلز پارٹی سے محبت کرنے والوں کو یہ اصول راس نہ آیا۔ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ حد آئی اور اِس طور آئی کہ تمام معاملات منطقی حدود پھلانگ گئے۔ لیاری کے رہنے والے کیا جانتے تھے کہ جن کی محبت کا دم بھرتے ہوئے مظالم سہتے آئے ہیں وہ شِکوے اور گِلے کِسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ اُنہوں نے حقوق نہ ملنے پر صدائے احتجاج بلند کی تو ریاستی قوت استعمال کرکے دبا دی گئی۔ پیپلز پارٹی کے مزاج میں ”مافیا پن“ پہلے تو نہیں تھا۔ خدا جانے اِس پارٹی نے کِن لوگوں میں اُٹھنا بیٹھنا شروع کردیا ہے۔ جو لوگ عشروں سے بھٹو ازم کی باتیں کرتے آئے ہیں اُن پر بھٹو ہی کی پارٹی نے قیامت ڈھادی۔ لیاری والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اُن پر ایسا وقت بھی آسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی سے محبت کرنے والوں نے جب محبت کا صِلہ مانگا تو بلاول ہاؤس کے مکین چیں بہ جبیں ہوگئے۔ جب بے حساب محبت نچھاور کرنے پر کچھ حاصل نہ ہوا تو لیاری والوں کے دِماغ پھر گئے اور انہوں نے باغیانہ روش اختیار کی۔ ایسی ہی کسی کیفیت کے لیے عبدالحمید عدم کہہ گئے ہیں
نہ جانے کون سی منزل ہے یہ محبت کی
کہ تیرے نام سے نفرت سی ہوگئی ہے مُجھے!

ذوالفقار علی بھٹو ہوتے یا بے نظیر بھٹو ہوتیں تو اہل لیاری سے ناراضی کا سبب پوچھتیں۔ موجودہ قیادت کو لیاری والوں کی باغیانہ روش پسند نہ آئی۔ انتہا یہ ہے کہ وزیر داخلہ فرماتے ہیں ”عُزیر بلوچ کا مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنا ’غیر قانونی‘ عمل ہوگا!“

جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والوں نے لیاری کو فتح کرنے کا ارادہ کیا اور محبت کرنے والوں پر لشکر کشی کردی۔ چیل چوک کنٹرول کرنے کو ایک بڑا معرکہ سَر کرنے سے تعبیر کیا گیا۔ باوردی چیلوں نے بہت شور مچایا مگر چیل چوک پر نصب چیل نہ اُڑی۔ افشانی گلی تک پہنچ جانے کو پولیس کی مانگ میں کامیابی کی افشاں بھرنے کے مترادف قرار دے دیا گیا۔ کراچی کے لوگ بہت سادہ ہیں، اُنہیں تو کچھ پتہ ہی نہیں۔ اچھا ہوا کہ حکومت نے بتادیا شہر کی ایک بستی میں بسے ہوئے علیٰحدگی پسند اور شدت پسند پڑوسی ملک کا دیا ہوا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں! مگر یہ بھی عجب تماشا ہے کہ کل تک پیپلز پارٹی کا دم بھرنے والوں نے صاف بتادیا کہ متحدہ کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اُنہیں (پیپلز پارٹی کی) حکومت نے اسلحہ دیا تھا! اب کیا عوام اپنی حکومت کو پڑوسی ملک کی حکومت سمجھیں؟

لیاری میں چودھری اسلم کی کمان میں طبل جنگ بجایا گیا۔ پولیس نے ایسا جوش و جذبہ دکھایا جیسے بی آر بی نہر کے دفاع کے لیے میدان میں آئی ہو! لیاری کی گلیوں میں ہونے والی لڑائی کو کھیم کرن کے معرکے کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی! لاکھوں افراد کو ان کے گھروں میں محصور کردیا گیا۔ خواتین اور بچوں پر ترس کھانے کی روایت بھی ترک کردی گئی۔ ایسا تو حالتِ جنگ میں بھی نہیں ہوتا۔ مگر خیر، اب ملکوں کے درمیان تو جنگ ہوتی نہیں اِس لیے اپنوں ہی کو جنگ کا مزا چکھا دینے میں کیا ہرج ہے؟

ہمارے ہاں پروٹوکول کے نام پر پورے شہر کو روک کر وی آئی پیز کو راستہ دینے کی روایت ہے۔ لیاری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ شہر کے دیگر علاقوں کو محفوظ رکھنے کے نام پر ایک بستی کے لاکھوں مکینوں کو گھروں میں محصور کردیا گیا۔ لیاری شہر کی قدیم ترین بستیوں میں سے ہے جس میں ہر رنگ، نسل، ثقافت، زبان اور مسلک سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں۔ زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانے والے یہ لوگ کئی معاملات میں دوسروں سے بہت آگئے ہیں۔ اور پیپلز پارٹی سے محبت کے معاملے میں تو یہ سب سے آگے تھے۔ توقعات راکھ کا ڈھیر ثابت ہوں تو کوئی کب تک محبت کے ڈونگرے برساتا رہے؟ اقتدار میں رہتے ہوئے بھی کوئی پارٹی مسائل حل نہ کرے تو کوئی اُس سے کب تک اور کیوں وابستہ رہے؟

زندگی کی تھکن اپنے چہروں پر سجائے، کِسی نہ کِسی طرح صبح کو شام کرنے کے نام پر روزانہ جوئے شیر بہانے جیسی مشقت کرنے والے لیاری کے لوگ مزاجاً آزاد بھی تھے اور غلام بھی۔ وہ محبت کے غلام تھے۔ ایک سیاسی نظریے، فلسفے اور چند شخصیات سے محبت کا جُرم اُن سے سرزد ہوا تھا۔ جرم کیا تھا تو سزا بھی پائی۔ اب اگر یہ سزا اُنہیں زندگی بہتر انداز سے بسر کرنے کے چند گُر سِکھادے تو کیا کہنے۔

قائد کے شہر میں قدم قدم پر قائدین پڑے ہیں۔ شہر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے مجموعے کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے!

لیاری کے لوگ اپنی ڈگر سے ہٹنا چاہتے تھے۔ انہیں نظریہ اور ترجیح بدلنے کی سزا دی گئی۔ کالعدم امن کمیٹی کے رہنماؤں نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو خیرباد کہتے ہیں۔ اِس اعلان کی پاداش میں اُنہیں خاک و خون میں غلطاں کردیا گیا۔ لیاری میں جرائم پیشہ عناصر بھی ہیں۔ مگر وہ تو ایک زمانے سے ہیں۔ اور کون نہیں جانتا کہ جرائم کِن بڑوں کی معاونت سے سے ہوتے .... یا کئے جاتے ہیں؟

کل تک لیاری کے غریبوں کو حقوق کی جدوجہد میں بھرپور تعاون بلکہ سر دھڑ کی بازی لگانے کا یقین دلانے والے ذوالفقار مرزا نہ جانے کِس دنیا میں کھوگئے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے فیصلہ سازوں کے سامنے اہل لیاری تنہا ہوگئے! لیاری کے غریب سَر اُٹھاکر کہہ رہے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کو کسی حال میں ووٹ نہیں دیں گے۔ انقلاب برپا کرنے سے متعلق پیپلز پارٹی کا دعوٰی شاید دُرست تھا کہ کم از کم لیاری کے عوام تو انقلابی فکر سے ہمکنار ہو بھی چکے!

سیاسی مصلحتیں کِسی حکمراں جماعت کو کس حد تک کمزور کرسکتی ہیں اِس کا مشاہدہ کرنا ہو تو پیپلز پارٹی کو دیکھیے جو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے چار برسوں کے دوران ہر طرح کا مطالبہ مانتی آئی ہے، ہر حد سے گزر جانے کو درست سمجھتی رہی ہے اور اب یہ ہوا ہے کہ حلق کی ساری طاقت صرف کرکے جئے بھٹو کے نعرے لگانے والے اپنے کارکنوں ہی کو کچل ڈالا ہے۔ پارٹی قیادت کو بھی اندازہ ہے کہ اقتدار شاید آخری بار ملا ہے۔ ایسے میں شاید یہ بہتر سمجھا جارہا ہے کہ بغیر اقتدار کے پارٹی کسی کام کی نہیں ہوتی اِس لیے پارٹی ہی کو ٹھکانے لگادیا جائے! اور جمہوریت میں پارٹی کو ٹھکانے لگانے کا بہتر طریقہ اِس کے سوا کیا ہے کہ ورکرز کو کُھڈے لائن لگادیا جائے؟ لیاری ٹیسٹ کیس ہے۔ یعنی یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جس کے دَر سے وابستہ رہے ہو اُسی کے ہوکے بیٹھے رہو، وفاداری بدلی تو بدلہ لیا جائے گا!

حکمراں جماعت کے دُشمنوں کو اب اپنے لیے نئے مشاغل تلاش کرنے چاہئیں۔ اُن کے حصے کا کام تو پارٹی خود کر رہی ہے۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484199 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More