گذشتہ سے پیوستہ
پَڑوسن کامل کو بڑے پیار سے سمجھانے لگی کہ بیٹا اب تُمہارے اَبّا اِس
دُنیا میں نہیں رہے وہ اللہ تعالٰی کے پاس چلے گئے ہیں کامل علی کی سمجھ
میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ جب اَبّا گھر میں چارپائی پر سُورہے ہیں تُو
وہ اللہ تعالٰی کے پاس کیسے چَلے گئے لیکن جب دوسرے دِن لوگ اُسکے اَبّا کو
نہلا دُہلا کر قبرستان کی جانب لے گئے اور اُسکی آنکھوں کے سامنے اُسے قبر
میں اُتار چُکے تو اُسے کُچھ کُچھ سمجھ آنے لگا تھا۔
ابا کے انتقال کے بعد کامل کو بُہت جلد یہ احساس ہُوگیا تھا کہ باپ چاہے
بیمار ولاچار ہی کیوں نہ ہُو۔ جب تک زندہ رہتا ہے اُسکے سائے کی برکت سے
دُنیا کے تمام غَم اُسکی اولاد سے دُور رہتے ہیں۔ وقت رفتہ رفتہ گُزرنے لگا
اور مزید دو برس گُزر گئے اَبّا کے گُزرنے کے بعد اُنکے گھر اکثر نانا اور
ماموں آنے لگے تھے لیکن پھر نانا کا بھی انتقال ہوگیا اور ماموں کا بھی گھر
آنا کم ہُونے لگا تھا اب کامل کو اَبّا کی کمی کا بُہت زیادہ احساس ہُونے
لگا تھا جب تک اَبّا زندہ تھے وہ اُسکی ہر خُواہش پُوری کردیا کرتے تھے
لیکن اَب پہلے جیسی بات نہیں رہی تھی۔ اَمّاں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود
بھی شروع میں ماموں اُسکی ہر چھوٹی بڑی خُوشی کا خیال رکھتے تھے۔ لیکن پھر
ماموں نے بھی بیزاری دِکھانی شروع کردی تھی۔ اَب تو وہ اَماں سے بھی ضد
نہیں کرتا تھا کیوں کہ چند مہینوں سے وہ دیکھ رَہا تھا کہ اَمّاں سارا دِن
محلے والوں کے کپڑے سیتی رہتی تھی۔ جسکی وجہ سے کبھی کبھی اُنکے مزاج میں
چِڑ چِڑا پن آجایا کرتا تھا اور جب کبھی وہ اَماں سے کسی کھلونے کی فرمائش
کیا کرتا تو اَماں اُسے سمجھانے لگ جاتیں کہ میرے لعل اب ہمارے پہلے جیسے
حالات نہیں ہیں اب تو دُو وقت کی رُوٹی ہی بڑی مشکل سے نِکل پاتی ہے میں
تجھے کھلونے کہاں سے لاکر دُوں۔
مزید ایک سال گُزرنے کے بعد اَماں نے اُسے پرائیویٹ اسکول سے نِکال کر
گورنمنٹ اسکول میں داخل کرادِیا اور جب اُس نے اَمّاں سے احتجاج کیا تو
اَمّاں نے اُسے سمجھایا کہ وہ پرائیویٹ اسکول کی فیس اور کتابوں کا خرچ
برداشت نہیں کرسکتی لہذا اُسے گورنمنٹ اسکول میں ہی دِل لگا کر تعلیم حاصل
کرنی ہُوگی۔
اُسے گورنمنٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے میں بُہت دشواری کا سامنا کرنا
پڑرہا تھا اول تُو اساتذہ ہی اکثر کلاس رُوم میں نہیں آتے تھے اور اگر کوئی
ماسٹر صاحب غلطی سے کلاس رُوم میں آبھی جاتے تُو گویا جیسے کلاس رُوم میں
قیامت آجاتی۔ جب کبھی کامل کلاس کے دیگر بَچوں کی پِٹائی ہوتے دیکھتا تُو
اُسکا دِل چاہتا کہ وہ اسکول سے بھاگ جائے اور ماں کے دامن میں جا چُھپے۔
لیکن ہمیشہ اَماں کا بے بس اور مجبور چہرہ کامل کی نگاہوں میں آجاتا اور وہ
کوشش کے باوجود بھی اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رِہ جاتا۔
ایک مرتبہ اسکول میں اسپورٹس کے پروگرام چَل رہے تھے اس لئے اُن بچوں کو جو
کھیل میں حِصہ نہیں لے رہے تھے اُنہیں اِجازت ملی تھی کہ چاہیں تُو کھیل سے
لُطف اندوز ہُوں یا چاہیں تُو اپنے گھر کو چلے جائیں کامل کو اِن کھیلوں
میں خاص دِلچسپی نہیں تھی اسلئے وہ اپنے گھر کیلئے روانہ ہُوگیا گھر میں
داخِل ہوتے ہی اُسکی نظر ایک نوجوان پر پڑی جِس کے آگے اُسکی ماں ہاتھ جوڑے
کھڑی تھی کامل کے ننھے دِماغ نے خَطرے کو مِحسوس کرتے ہوئے دروازے کی اُوٹ
میں پناہ حاصل کرلی یہ کوئی اجنبی نوجوان تھا جو اِنکے مُحلے کا ہرگز نہیں
تھا اماں اُس نوجوان کے آگے ہاتھ جوُڑے التجا کررہی تھیں کہ وہ یہاں سے چلا
جائے اور انکا پیچھا چھوڑدے۔
پھر وہ مزید وہاں کھڑا نہیں رِہ پایا اور دروازے کی اُوٹ سے باہر کی جانب
دوڑا تاکہ مدد کیلئے اپنے پڑوسی ارشد چاچا کو بُلا سکے لیکن بدحواسی میں
اسکے اسکول بیگ کی ڈوری دروازے کی کُنڈی میں پھنس گئی جسکی وجہ سے وہ اپنا
توازن قائم نہ رکھ سکا۔ اور کامل علی اُوندھے مُنہ زمین پر رپٹ گیا۔
کامل علی کے مُنہ سے بے ساختہ ،، ماں ،، کی صدا بُلند ہوگئی جسکی وجہ سے وہ
اجنبی نوجوان ہوشیار ہُوگیا۔ اِس سے پہلے کے کامِل زمین پر اپنے قدم جما
پاتا وہ اجنبی نوجوان موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کامل کو پھلانگتے ہُوئے
گلی سے فرار ہُو چُکا تھا۔
کامل کی مَاں نے لپک کر کامل علی کو سنبھالتے ہوئے اپنے سینے سے لگا لیا وہ
کامل کے چہرے اور بَالوں پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کامِل کو گھر کے صِحن میں لے
آئی کامل کو چارپائی پر بِٹھانے کے بعد وہ دوڑتی ہُوئی پانی کے مٹکے کی
جانب لپکی اور پانی کا گلاس کامل کے ہُونٹوں سے لگاتے ہوئے تشویش کے عالم
میں کامل کے سراپے کا جائزہ لینے لگی کامل نے جُونہی پانی کے گِلاس کو اپنے
ہاتھوں میں تھاما ۔ اُسکی ماں وارفتگی سے اُسکے پائنچوں کو اوپر اُٹھاتے
ہُوئے اُسکی پنڈلیوں کا جائزہ لیتے ہُوئے گُویا ہوئی کمالے تجھے کہیں چُوٹ
تُو نہیں آئی میرے لال؟
اَمّاں چُوٹ تُو مجھے نہیں آئی مگر یہ آدمی کُون تھا اور تُو کیوں اسکے آگے
ہاتھ جُوڑ رہی تھی۔ کامِل نے گلاس ماں کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے تجسس سے
پُوچھا۔
کوئی نہیں بیٹا! یہ تماشہ تُو اب زندگی کا مُقدر ہے جب عورت کے سر پر اُسکے
مرد کا سایہ نہیں رہتا تب ایسے بھیڑیے گھات لگائے بیٹھے نظر آتے ہیں ذرا
نظر جھپکی نہیں کہ شِکاری شِکار پر جھپٹ پڑتے ہیں۔
کَامِل کے ننھے دِماغ میں اَمّاں کی ایک بات کا مطلب بھی سمجھ نہیں آیا تب
اُس نے اَماں سے اپنی کم مائیگی کا اِظہار کرتے ہُوئے پُوچھا اَماں کیا وہ
ہمارا دُشمن تھا۔ اَمّاں نے ایک نظر کامِل کی طرف دیکھتے ہوئے اُسے اپنی
گُود میں لِٹاتے ہوئے کہا ۔ ہاں میرے بچّے یہی سمجھ لے ایک وہ ہی کیا مجھے
تو ہر چہرے میں اب دُشمن ہی دُشمن نظر آنے لگے ہیں۔
کامِل کو اَمّاں کی باتوں سے خُوف محسوس ہُونے لگا تھا۔ اُسکا ننھا سا ذہن
بُہت تیز رفتاری سے اِس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہتا تھا لیکن وہ کِسی
نتیجے پر نہیں پُہنچ پارہا تھا بلاآخر وہ تھک ہار کر ماں سے اِتنا ہی کہہ
سکا۔ کہ وہ اب اسکول نہیں جائے گا بلکہ گھر پر ہی رہے گا اور اگر کسی نے
اُسے ستانے کی کوشش کی تو وہ اینٹ سے اُس دُشمن کا سر پھاڑ دے گا اور اگر
اُسے یہ شرط منظور نہیں تو ہم یہ مُحلہ ہی چھوڑ دیتے ہیں جہاں تیرے دُشمن
نہ ہُوں۔
اَماں نے اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا نا بیٹا اسکول چھوڑنے کی بات
دوبارہ نہ کرنا اسطرح تو میں اور بھی کمزور ہُوجاؤں گی۔ اور میرے لال محلہ
چھوڑنے سے بھی کُچھ نہیں ہُوگا۔ ایسے درندے اور وحشی جانور نُما انسان تو
ساری دُنیا میں پھیلے ہُوئے ہیں جو اپنی ہوس پوری کرنے کیلئے ذلت کی گہری
سے گہری دلدل میں اُتر سکتے ہیں۔ اگرچہ اماں کی فلسفیانہ گُفتگو کا ایک لفظ
بھی کامل کے پلے نہیں پڑ رہا تھا مگر وہ اتنا ضرور سمجھ رہا تھا کہ اَبّا
کے جانے کے بعد اَمَّاں کسی خُوفزدہ ہرنی کی مانند ہوگئی ہے۔ اور خطرے
بدستور بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہی سوچتے سوچتے وہ اَماں کی انگلیوں کے لمس
کے سبب ایک مرتبہ پھر آہستہ آہستہ پریوں کے دیس میں پُہنچ گیا جہاں ہمیشہ
کئی خُوبصورت پریاں اُسکے ساتھ کھیلنے کیلئے منتظر رہتی تھیں۔ اور چاچا
ارشد کی منجھلی بیٹی نرگِس بھی ہمیشہ اِس کھیل میں اِسکا ساتھ دَیا کرتی
تھی اور آخر میں نرگس جونہی کسی بات پر رُوٹھ کر اُس سے دُور جانے لگتی تب
اچانک نرگس کو پُکارتے ہُوئے اُسکی آنکھ کُھل جایا کرتی تھی۔
وقت گُزرتا رہا اور کامل دس برس کا ہُو گیا اَماں کی بس یہی خُواہش تھی کہ
کم از کم اُسے اِتنا کام مِل جائے کہ وہ گھر کا خرچ آسانی سے پُورا کرنے کے
بعد دوبارہ سے کامل کو کِسی پرائیویٹ اِسکول میں داخل کراسکے۔ لیکن حالات
دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے گویا مہنگائی کا جِن بے قابو ہُوچُکا ہے
اور وہ شائد کسی غریب کو جینے کا حق دینے کے حق میں نہیں ہے۔ تمام مُحلے
میں ایک چاچا ارشد کا گھر ایسا تھا کہ جہاں جانے کیلئے کامل کو اَماں سے
اجازت نہیں لینی پڑتی تھی۔ جہاں چاچا ارشد کی منجھلی بیٹی نرگس ہمیشہ اُسکی
منتظر رہا کرتی تھی لیکن کبھی کبھار کامل کو نرگس پر بے انتہا غصہ بھی آتا
کیونکہ نرگس کوئی بھی لڑکوں والا کھیل نہیں کھیلا کرتی تھی اُسے تو بس
گُڑیا کیساتھ کھیلنا پسند تھا یا زیادہ سے زیادہ آنگن میں پڑے جھولے سے
لگاؤ تھا نرگس کی بڑی بہن تو اکثر اپنی اَماں کا ہاتھ بٹاتی نظر آتی اور
نرگس سے چھوٹی بہن فرح کو اسکول کا اتنا خُوف سوار رَہتا کہ ہر وقت آنگن
میں بِچھے تخت پر اپنی کاپیاں اور کتابیں پھیلائے نظر آتی ۔
نرگس کی عمر 12 برس کے قریب تھی اور وہ ساتویں کلاس کی طالبہ تھی جبکہ
کاِمل اس برس پانچویں کلاس میں آیا تھا۔ اور اماں کی شب و روز کی محنت کی
وجہ سے کلاس میں مانیٹر تھا اماں بظاہر تو دس کلاس پاس تھیں لیکن ظاہری
حُسن کے ساتھ گُفتگو کا سلیقہ ایسا تھا کہ اکثر کالج میں پڑھنے والی بچیاں
بھی مدد کیلئے سارے مُحلے میں اَمّاں ہی کا انتخاب کرتیں ۔ کامل کئی مرتبہ
اماں سے کہہ چُکا تھا کہ اماں ہمارے ماسٹر صاحب گھر پر پڑھانے کے پورے تیس
روپیہ لیتے ہیں اور آپ تو ایک پیسہ بھی مُحلے کی بچیوں سے نہیں لیتی ہیں ۔
اماں ہمیشہ مسکرا کر ایک ہی جواب دیتیں کہ بیٹا علم بانٹنے سے گھٹتا نہیں
بلکہ بڑھتا ہے اور اسطرح علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
اگلے برس کامل پورے اسکول میں اول پوزیشن لایا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنی
جیب سے خاص دس روپیہ نقد اور ایک نیا قلم کامل کو انعام میں دیکر سرٹیفکٹ
کیساتھ رُخصت کیا تھا کیونکہ اِس اسکول میں پانچ سے زائد کلاسیں نہیں تھی۔
اماں کو جب کامل نے دس روپیہ اور قلم کا تُحفہ دِکھایا تو اَماں کئی منٹ
اسکے چہرے پر بُوسوں کی بارش کرتے ہوئے اُسے چُومتی رہیں لیکن وہ آنسو جو
اُمنڈ اُمنڈ کر اماں کی آنکھوں سے رُخسار پر آرہے تھے جنہیں بار بار اماں
اپنے دوپٹے کے پلّو سے صاف کر رہی تھیں کامل کی سمجھ سے بالا تر تھے۔
پھر اَماں نے جیسے تیسے کوشش کر کے کامل کو ہائی اسکول میں نئی یونیفارم
اور نئی کاپی کتابوں کیساتھ داخل کرادِیا۔ وقت گُزرتا رہا اور ایک دِن
اسکول سے واپس گھر آتے ہُوئے کامل کو معلوم ہُوا کہ مُحلے کی واحد مسجد کے
اِمام رمضان صاحب کی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ مُحلے کے سبھی لوگ آہستہ
آہستہ امام صاحب کے گھر کے باہر شامیانے میں جمع ہورہے تھے۔ کامل لمبے لمبے
قدم بھرتا جُونہی اپنے گھر کے نزدیک پُہنچا ۔ اُس کی نظر گھر سے کُچھ فاصلے
پر کھڑے اُسی اُوباش نوجوان پر پڑی جو اُس دِن اِنکے گھر سے نِکل کر بھاگا
تھا۔
(جاری ہے) |