جَال ۔ دَر ۔ جَال
(ishrat iqbal warsi, mirpurkhas)
ارے آئیے کرامت صاحب میں تُو کب
سے آپکی راہ دیکھ رَہا تھا ۔ وہ کیا خُوبصورت شعر ہے جو عموماً ایسے موقعوں
پر پڑھا جاتا ہے ۔۔؟ ہاں یاد آیا۔
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے ۔۔۔! ! نعمان علی خان نے صوفے سے اُٹھ
کر کرامت صاحب سے بغلگیر ہُوتے ہوئے شعر پڑھا۔
کیوں شرمندہ کرتے ہیں نعمان صاحب میں تُو خود آپکی فون کالز کا منتظر تھا
اور دیکھئے جونہی آپ کا بُلاوا مِلا ۔بندہ خُود حاضر ہوگیا کہیئے کیا فرقان
صاحب نے منظوری دے دی ۔ آپکے نئے پرپوزل کی۔۔ ؟ کرامت صاحب نے سِٹنگ رُوم
میں رکھے ایک خُوبصورت صوفے پر بیٹھتے ہی بڑے اشتیاق سے نعمان صاحب کی جانب
دیکھتے ہُوئے اِستفسار کیا ۔
منظوری تُو نہیں دِی لیکن میں بھی ہاں کرائے بغیر ماننے والوں میں سے نہیں
ہُوں ۔آج نہیں تو کل فرقان بھائی کو منظوری دینی ہی پڑے گی۔ اور ویسے بھی
فیکٹری چلانے کی تمام تر ذُمہ داری میری ہی تُو ہے۔ فرقان پہلے کونسا
فیکٹری چلانے میں میری مُعاونت کرتا تھا جُو اب فیکٹری کے معاملات میں
مُداخلت کرے گا۔ بس وہ تُو مجھ سے غلطی ہُوگئی جو انجانے میں اُس سے اِس
پرپوزل کے بارے میں اُسکی رائے معلوم کربیٹھا۔ اگر مُجھے ذرا بھی بھنک مِل
جاتی کہ فرقان آجکل مُولویوں میں اُٹھنے بیٹھنے لگا ہے تُو میں اُس سے اِس
نئےپرپوزل کا تذکرہ ہی نہیں کرتا ۔ نعمان صاحب نے تفصیل سے کرامت صاحب کو
تفصِیلات بتاتے ہُوئے کہا۔
لیکن اُن کی رضامندی تُو چاہیئے ہی ہُوگی نا ۔ بھئی آخر وہ بھی تُو پچاس
پرسنٹ کے حِصےدار ہیں آپکی فیکٹری میں ۔اور بنک ڈاکومینٹس پر اُنکے سگنیچر
بھی درکار ہُونگے اور بھی کافی مسائل درپیش ہُونگے۔ بنک لُون کی منظوری سے
قبل۔ لیکن اُنہیں اعتراض کیا ہے بنک لُون لینےپر ۔ آخر مجھے بھی تُو وجہ
معلوم ہُو۔ ویسے جہاں تک میری معلومات ہیں آجکل کسی فیکٹری کا بھی بنک کی
شراکت کے بغیر چلائے جانے کا تصور ہِی مُحال ہے ۔اور آپ تُو ماشاءَاللہ جو
پروجیکٹ شروع کرنے جارہے ہیں اُس میں ایک خطیر سرمائے کی ضرورت پیش آئیگی۔
اور میں نہیں سمجھتا کہ آپ اس پروجیکٹ کو بنک کی شراکت کے بَغیر چلا پائیں
گے۔ کرامت صاحب نے بھی تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہُوئے بنک کی اہمیت پر روشنی
ڈالی ۔
آپ بجا فرماتے ہیں کرامت صاحب اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ بنک کی شراکت کے
بغیر اِس پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک نہیں پُہنچایا جاسکتا۔ اور نہ ہی اِس کے
بِنَّا میں اپنا برسوں پُرانا خُواب حقیقت میں ڈھال سکوں گا ۔ لیکن یہ جُو
مولوی ٹائپ لوگ ہُوتے ہیں اِنکا حال تُو آپ کو معلوم ہی ہے۔ یہ نا خُود
ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی کِسی اور کی ترقی برداشت کرسکتے ہیں ۔اسی لئے میں
نے آپکو زِحمت دِی تھی تاکہ آپ سے معلوم کرسکوں ۔کہ کیا کوئی ایسی تدبیر
نہیں ہُوسکتی کہ فرقان کو اِس تمام معاملے میں اِنوالو کئے بغیر یہ لُون
حاصِل کیا جاسکے۔۔۔؟ نعمان نے اُمید بھری نِگاہوں سے بنک منیجر کرامت کو
دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں نعمان صاحب ایسا بالکل بھی مُمکن نہیں ہے کیوں کہ بات دَس کروڑ کے
لُون کی ہے کوئی پانچ دس ہزار رُوپے کی نہیں جو کوئی بے قاعدگی کی گُنجائش
نِکالی جاسکے اتنی بڑی رقم بنک کِسی کو دینے سے قبل اُسکی سیکیورٹی کا خاطر
خواہ انتظام ضرور کرے گی۔ یہ تو آپ خُوش نصیب ہیں جو میری معرفت آپکو یہ
لُون ایک مہینے میں حاصِل ہُوجائے گا ورنہ لوگ اتنی کم شرح انٹریسٹ پر لُون
حاصل کرنے کیلئے مہینوں نہیں بلکہ سالوں بنک کے چکر لگاتے ہیں تب کہیں جاکر
سینکڑوں شرائط پُوری کرنے کے بعد ہی قرض حَاصِل کرپاتے ہیں۔ کرامت صاحب نے
پہلو بدلتے ہُوئے جواب دِیا۔
میں جانتا ہُوں کرامت صاحب۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ ہماری ریپوٹیشن لاکھ
بہتر سہی لیکن آپکی کوششوں سے ہی اِس لون کی آفر ہمیں ہُوئی ہے لیکن نہ
جانے فرقان کس قِسم کے لوگوں کے چکر میں گرفتار ہُوگیا ہے۔ جو اُسے اُلٹی
سیدھی پٹی پڑھاتے رِہتے ہیں۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہمارے مُلک میں
ایسے لوگوں کی ویسے بھی کوئی کَمی نہیں ہے جنہیں دوسروں کے کام میں
خوامخواہ ٹانگ اَڑانے کی عادت ہُوتی ہے۔ آپ نے وہ مقولہ تُو ضرور سُنا
ہُوگاکہ۔ نہ ہم خُود کھائیں گے اور نہ کِسی اور کو کھانے دیں گے۔ نعمان نے
قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔
لیکن نعمان صاحب آپ نے بتایا نہیں کہ فرقان صاحب کو آخر اعتراض کیا ہے اس
ترقی کی راہ پر چلنے میں ؟ کرامت صاحب نے اپنا سوال ایک مرتبہ پھردُھراتے
ہُوئے کہا۔
ارے کرامت صاحب کیا بتاؤں آپکو موصوف وہی دقیانوسی باتیں لے کر بیٹھ جاتے
ہیں ۔ جیسی باتیں اکثر ناکام قسم کے لُوگ کرتے نظر آتے ہیں کہ بنک سے لین
دین حرام ہے اور اُنکا سار ا نظام اور کاروبار سودی ہُونے کی وجہ سے
کاروبار سے برکت چلی جاتی ہے ۔ اور پریشانیاں انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔
وغیرہ وغیرہ۔ نجانے کہاں سے فرقان کی مُلاقات ایک ریٹائرڈ پروفیسر صاحب سے
ہُوگئی ہے۔ جناب خُود تو کِسی کالج سے لاکھوں روپیہ لیکر فارغ ہُوگئے ہیں۔
اب فرقان کو بھی اپنے پیچھے لگا لیا ہے۔ نعمان نے بات کو واضح کرنے کے بعد
انٹر کام پر چائے کا آرڈر دیدیا۔
کُچھ دیر میں ملازم چائے کے دو گرما گرم کپ بِسکٹس کیساتھ سِٹنگ روم میں
رکھ کر واپس چلا گیا۔ کرامت صاحب نے چائے کا کپ ہاتھ میں اُٹھاتے ہوئے
نعمان صاحب کی طرف دیکھتے ہُوئے کہا۔ دیکھیئے نعمان صاحب میں دینی معاملات
میں تُو اپنی کوئی رائے پیش نہیں کرونگا۔ کیونکہ میری دِینی معلومات نہ
ہُونے کے برابر ہی سمجھیں ۔مگر میں آپ کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا۔
ہوسکتا ہے کہ اگلے ماہ یا دو ماہ میں میرا ٹرانسفر کِسی دوسرے شہر میں
ہُوجائے۔ اُسکے بعد میں آپکی کوئی مدد نہیں کرپاؤں گا۔ اِس لئے اگر آپ
چاہتے ہیں کہ آپکا کام آسانی سے ہُوجائے تُو آپکو جلد از جلد فرقان صاحب کو
راضی کرنا پڑے گا اِس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ یا دوسری صورت میں۔۔۔
کرامت صاحب نے بات کرتے کرتے جُملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
دوسری کیا صورت ہے کرامت صاحب آپ کُھل کر بات کریں۔ نعمان نے پُر اشتیاق
لہجے میں اِستفسار کیا۔ نعمان کا خیال تھا کہ شائد کرامت صاحب کوئی لین
دِین کی بات کرتے ہُوئے جھجک رہے ہیں ۔
دوسری صورت یہ ہے نعمان صاحب کہ۔۔۔ فرقان صاحب آپکو اَٹارنی پاور دے دیں۔
یا آپ اُن سے کِسی طرح شراکت ختم کردیں۔ اسطرح فیکٹری کے تمام معاملات کی
ڈیلنگ صرف آپ کے پاس آجائے گی اور میں آپکو قرضہ دِلوانے میں کامیاب
ہُوجاؤں گا ۔لیکن اسکے لئے بھی آپکو جلد از جلد تمام ڈاکومینٹس تیار کروانے
ہُونگے۔ یُوں سمجھ لیں کہ آپکے پاس زیادہ سے زیادہ بیس یا پچیس دِن ہُونگے۔
کرامت صاحب نے ہچکچاتے ہُوئے دوسری تجویز پیش کردی۔
ارے نہیں کرامت صاحب فرقان کیساتھ میری تب سے یاری ہے جب ہماری جیبوں میں
ایک پھوٹی کُوڑی بھی نہیں ہُوتی تھی یہ کروڑوں کا بزنس تو چند سال سے ہے
ورنہ ہمیں دیکھ کر تو لوگ یہی کہتے تھے کہ ۔ لُو آگئی 2 نکموں کی جُوڑی۔
اُس وقت ہماری جیب میں ایک چائے کے بھی پیسے نہیں ہُوتے تھے کہ آدھے آدھے
کپ کی عیاشی ہی کر لیتے۔ فرقان اتنا سخت انسان نہیں ہے ۔ اُسے دولت کی
اہمیت کا خُوب اندازہ ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آج لوگوں میں ہماری جو
عزت اور جو بھی ہماری کاروباری ساکھ ہے۔ وہ انہی پیسوں کی بدولت ہیں۔ میں
فرقان کو پھر سے سمجھاؤں گا ۔اور مجھے یقین ہے وہ بلاآخر میری بات مان ہی
جائے گا۔ نعمان نے جذباتی لہجے میں اپنی بات مکمل کرتے ہُوئے کہا۔
چلیں پھر ٹھیک ہے آپ فرقان صاحب سے بات کرلیں۔ کہتے ہیں ایک جگہ بار بار
قطرہ گرنے سے تُو پتھر میں بھی سُوراخ ہُوجاتا ہے ۔ اور اپنے فرقان صاحب
تُو نہایت نفیس اور سمجھدار انسان ہیں۔ ویسے بھی سُنا ہے کہ انسان کا قلب
مُنقلب ہُوتا ہے۔ ہُوسکتا ہے اِس مرتبہ آپ کی بات اُنکے دِل کو چھو جائے
آخر آپ اُنکے دوست اور خیر خُواہ ہیں ۔اور اس نئے پرپُوزل سے صرف آپکی ذات
کو ہی تُو فائدہ نہیں پُہنچے گا پچاس فیصد مُنافع تُو اُنہیں بھی مِلے گا
جو میرے خیال میں سالانہ دُو تین کروڑ سے کِسی طرح کم نہیں ہوگا۔ کرامت
صاحب نے بات مکمل کرنے کے بعد کھڑے ہُو کر مُصافحہ کیلئے نعمان کی جانب
ہاتھ بڑھاتے ہُوئے کہا۔
نعمان آفس کے گیٹ تک کرامت صاحب کو چھوڑنے کے بعد واپس آکراپنی آرام دہ
نشست پر نیم دراز ہُوگیا۔ اُسے کرامت صاحب کی دوسری تجویز قطعی پسند نہیں
آئی تھی۔ بلکہ اُسے حیرت اِس بات پہ تھی کہ کِس بات سے کرامت صاحب کو اتنی
ہمت ہُوئی کہ اُنہوں نے مجھے فرقان سے علحیدگی کا مشورہ دے ڈالا۔ حالانکہ
وہ ایسی کوئی بات کبھی اپنے ذہن کے پُوشیدہ گُوشے میں بھی نہیں لایا تھا۔
۔چہ جائیکہ کرامت صاحب نے وہ بات اپنی زُبان سے ادا کردی۔ اور نعمان کو صرف
گُمان نہیں بلکہ کامل یقین تھا کہ کبھی فرقان نے بھی ایسی کِسی بات کا تصور
نہیں کیا ہُوگا۔
نعمان کی زندگی میں اُسکے خوابوں کی بڑی اہمیت تھی لیکن وہ اُن خوابوں کے
لئے اپنے جگری یار کو قربان نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن آج کرامت صاحب کی گُفتگو
نے بیشُمار اندیشے اور خُوف کے بادل نعمان کے سر پر ایستادہ کردئیے تھے۔ وہ
جتنا اِن خیالات سے اپنی سوچ کو باز رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اُسی قدر
زیادہ خیالات کے ناگ اُسکے دِماغ پر اپنے مہیب پھَنّوں سے حملہ کر رہے
تھے۔چند جُملے بار بار نعمان کے دِماغ میں گُونج رَہے تھے ۔۔ کیا فرقان
کبھی میرا ساتھ چھوڑ سکتا ہے۔۔۔؟کیا میں فرقان کو اپنے خُوابوں کی بھینٹ
چڑھا سکتا ہُوں۔۔۔؟ کیا ہماری دوستی کِسی نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔۔۔؟ اور
ایسے ہی بیشُمار سوالات نعمان کی سُوچوں کو منتشر کررہے تھے۔ نعمان کو ایسا
محسوس ہُورَہا تھا جیسے یہ سوالات اُسکی دماغی شریانوں کو پھاڑ ڈالیں گے۔
پھر کُچھ سُوچ کر نعمان نے فُون کا رِیسیور اُٹھایا اور فرقان کے نمبر پنچ
کرنے لگا۔ دوسری جانب سے فرقان نے جونہی السلامُ علیکم کہا۔ نعمان نے فرقان
سے جلد فیکٹری میں آجانے کی استدعا کرتے ہُوئے فون کا ریسیور پٹختے ہُوئے
اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
(جاری ہے) |
|