استمداد اور صحیح حدیث

 میں نے استمداد اولیاء پر ایک کالم لکھا تو اس پر میرے ایک دوست نے یہ کہا کہ اگر آپ صحيح حدیث پیش کردو تو میں آپ کی بات مان لوں گا لیکن میرے بھائی کو یہ نہیں معلوم ہے کہ حدیث تو کبھی بھی ضعیف نہیں ہوتی بلکہ راوی میں ضعف ہوتا ہے اور جب راوی میں ضعف ہوتو محدثین اس کی روایت کو نہیں لیتے ہیں اور نہ ہی عمل کرتے ہیں لیکن بہت سی ایسی احادیث مبارکہ ہیں کہ جن کے راویوں میں ضعف ہوتا ہے لیکن کسی اور وجہ سے اس کی اس روایت کا ضعف ختم ہورہا ہوتا ہے تو اس حدیث کو قبول فرمالیتے ہیں نیز یہ بھی یا د رہے کہ کبار علماء فقہاء اور محدثین جس ضعیف حدیث کو قبول کر لیں تو وہ صحيح کے در جےمیں آجاتی ہے اور قابل عمل و حجت ہوتی ہے پھر صالح مسامونوں کا عمل خود حجت ہے لہذا ان صاحب کو چاہیے کہ اب وہ اہل حق جماعت میں شامل ہوجائیں اور میرے ا ن ساتھی نے حافظ ابن کثیر کو معتبر جانا اور ان کے حوالے مجھے دیئے تو میں نے سوچا کہ جب یہ ابن کثیر ہی کو صحیح عالم سمجھتے ہیں تو ان کے حوالے سے کچھ عبارتیں پیش کروں کیونکہ اگر ملا علی قاری کی دوں گا یا دوسروں کی تو یہ مجھ سے یوں لڑنا شروع ہوجائیں گے کہ ہم ان کو نہیں مانتے لہذا ہم نے ان کے ہی معتبر عالم کا حوالہ دیا اب میرے ساتھی سے گزارش ہے کہ یہ مت کہنا کہ ہم ابن کثیر کو بھی درست نہیں مانتے اگر آپ ایسی بات کرو گے تو پھر تو ہم کچھ نہیں کر سکتے کہ آپ کی فطرت ہی یہی ہے کہ جب پھنس جاو تو بولو کہ میں اس کو نہیں مانتا اور جب ضرورت ہو تو اس کی کتاب کے حوالے دو اور اس کی کتاب کا مطالعہ کرو

جامع الاحادیث میں بحوالہ طبرانی یہ حدیث موجود ہے’’إذا ضل أحدُکم شیئا أو أراد أحدُکم غوثا وہو بأرضِ لیس بہا أنیسٌ فلیقلْ
یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہ أغیثونی فإنِّ للہِ عبادا لا تراہم‘‘جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے یا کوئی شخص ایسی جگہ پر ہے کہ جہاں کوئی نہ ہو او ر وہ مدد لینا چاہے تو تین مرتبہ یہ کہے ’’یا عبادَ اللہِ أغیثونی‘‘یعنی: اے اﷲ کے بندوں میری مدد کرو ۔ بے شک اﷲ کے ایسے بندے ہیں جو تمہیں دیکھائی نہیں دیتے۔
جامع الاحادیث حدیث نمبر ۲۳۰۰المکتبۃالشاملۃ

اور اسی حدیث کو علامہ ملا علی قاری نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ میں نقل فرما یا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے اور مجرب عمل ہے

اس حدیث کے بارے میں محدثین فرماتے ہیں کہ اگرچہ کہ اس روایت کے راویوں میں ضعف ہے مگر اس کی توثیق کردی گی یعنی صحیح کا درجہ دیا گیا اور مجمع الزوئد اس مفہوم کی حدیث کے بارے میں فرمایاکہ اس کے راوی ثقہ ہیں

امام مشہور محدث امام نووی امام ابن السنی کی کتاب سے حدیث عبد اللہ بن مسعود نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے بعض اساتذہ نے جو بہت بڑے عالم تھے فرمایا کہ ایک مرتبہ ریگستان میں ان کی سواری بھاگ گئی اس کو اس حدیث کا علم تھا انہوں نے یہ کلمات ادا کئے اے اللہ کے بندو اسے روک لو تو اللہ تعالٰی نے اسے روک دیا علامہ نووی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں جماعت کےساتھ سفر میں تھا اس جماعت کی ایک سواری بھاگ گئی وہ اسکو روکنے سے عاجز آگئے میں نے یہ کلمات کہے تو بغیر کسی سب کے صرف ان کلمات کی وجہ سے وہ اسی وقت رک گئی کتاب الاذکار صفحہ ۲۰۱ مطبوعہ دار الفکر بیروت

اس کو ملا علی قاری نے اپنی مشہور تصنیف مرقاۃ المفاتیح میں نقل کیا ہے شیخ شوکانی نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے

چنانچہ ابن کثیر نے لکھا ہے
وقد ذكر جماعة منهم: الشيخ أبو نصر بن الصباغ في كتابه "الشامل" الحكاية المشهورة عن لعُتْبي، قال: كنت جالسا عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء أعرابي فقال: السلام عليك يا رسول الله، سمعت الله يقول: { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا } وقد جئتك مستغفرا لذنبي مستشفعا بك إلى ربي ثم أنشأ يقول:يا خيرَ من دُفنَت بالقاع (1) أعظُمُه ... فطاب منْ طيبهنّ القاعُ والأكَمُ ...نَفْسي الفداءُ لقبرٍ أنت ساكنُه ... فيه العفافُ وفيه الجودُ والكرمُ ...
ثم انصرف الأعرابي فغلبتني عيني، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم فقال: يا عُتْبى، الحقْ الأعرابيّ فبشره أن الله قد غفر له
یعنی ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ایک جماعت نے عتبی سے مشہور حکایت رویت کی ہے جس کو شیخ ابو نصر بن صباغ نے اپنی کتاب الشامل میں بھی تحریر کیا ہے عتبی نے کہا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور پر حاضر تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیک یا رسول اللہ میں نے اللہ تعالٰی کا یہ فرمان سنا ہے پھر سورہ نساء آیت ۶۴ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا
کی تلاوت کی اور کہا کہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے لئے اور آپ کو سفارشی پیش کرنے کے لئے آیا ہوں پھر اس نے یہ اشعار پڑھے اور چلا گیا عتبی کہتے ہیں کہ مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا پس میں نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عتبی اس اعرابی نے حق کہا اسے جا کر یہ خوشخبری سنا دو کہ اس کی مغفرت کردی گئی ہے
حوالہ جات تفسیر ابن کثیر سورۃ النساء آیت ۶۴
تفسیر ثعلبی سورۃ النساء آیت ۶۴
الوسیط لسید طنطاوی سورۃ النساء آیت ۶۴
المغنی لابن قدامہ جلد ۷صفحہ ۴۲۰
امام نووی کتاب الاذکار ص ۱۸۵ طبع مصری
تقویم النظر جلد ۲ صفحہ ۷۵۱ مکتبہ الرشد
علامہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی تفسیر مدارک
علامہ تقی الدین سبکی نے شفا السقام صفحہ ۶۴ اور شیخ عبد الحق نے جذب القلوب میں صفحہ ۱۹۵ میں اور علامہ بحر العلوم عبد العلی نے رسائل الارکان ص۲۸۰ طبع لکھنو میں نقل کیا ہے

عتبی کی حکایت مشہور ہے اور تمام مذاہب کے مصنفین نے مناسک کی کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے اور سب نے ہی اس کو مستحسن فرمایا ہے

مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کہ
مواہب میں بسند ابو منصور صباغ اور ابن النجار اور ابن عساکر اور اب الجوزی نے محمد بن حرب ہلالی سے روایت کیا کہ قبر میں قبر مبارکہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور زیارت کر کے عرض کیا یا خیر الرسل اللہ تعالی نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ارشاد ہے وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا
اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتاہوا اور اپنے رب کے حضور آپ کے وسیلے سے شفاعت چاہتا ہوا آیا ہوں پھر دو شعر پڑھے اور اس محمد بن حر ب کی وفات ۲۲۸ میں ہوئی غرض زمانہ خیر القرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں بس حجت ہوگیا نشر الطیب صفحہ ۲۵۴

نیز اسی طرح کا مفہوم مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی لکھاہے
Ali raza
About the Author: Ali raza Read More Articles by Ali raza: 10 Articles with 27542 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.