مومن یا مشرک؟قسط 1

دو اہم نزاعی عقائد استمداد بااللہ اوراللہ تعالٰی غیب کاعلم جسے چاہے عطا کرسکتا ہے۔ان دو اہم وعنوانات پر منکرین نے اپنے زعم فاسد میں کچھ اعتراضات وارد کئے آیئےحقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں!!!!

سب سے پہلے دو باتوں کو سمجھ لیجئے ، توحید اور شرک عربی کا مشہور مقولہ ہے '' الاشیاء تعرف باضدادھا ''ہرچیز اپنی ضد کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے مثلًاراحت کا ادراک وہی کرسکتا ہے جو کبھی پریشان ہوا ہو۔ جس نے کبھی رنج و غم ہی نہ پایا ہو وہ راحت کی لذت سے آشنا نہیں ہوسکتا دن کا اندازہ رات کے بغیر نہیں لگایا جاسکتا اسی طرح ظلمت کے بغیر نو ر کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا او ریہی وجہ ہے کہ باطل کا تصور اگر کسی کے سامنے نہ ہو تو وہ حق کی لذتوں سے آشنا نہیں ہوسکتا اسی طرح جو یہ نہ سمجھے کہ شرک کسے کہتے ہیںوہ توحید کو نہیں جان سکتا جسطرح حق کی پہچان باطل کے تصور سے ہوتی ہے اسی طرح یقینًا توحید کا صحیح ادراک بھی تب ہوگا جب ہم سمجھیں کہ شرک کسے کہتے ہیں۔

توحید کا معنی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کو اس کی ذات او رصفات میں شریک سے پاک ماننا یعنی جیسا اللہ تعالیٰ ہے ویسا ہم کسی کو نہ مانیں اگر کوئی اللہ عزجل کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کو '' اللہ '' تصور کرتا ہے تو وہ ذات میں شرک کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ جیسی صفات کسی اور کے لئے ماننا یہ صفات میں شرک ہے۔

ہمیں توحید کا معنی معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے ساتھ ذات و صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اگر ہم کسی دوسرے کے لئے علم ثابت کریں تو کیا یہ شرک ہوگا؟ اللہ تعالیٰ سنتا ہے دیکھتا ہے، اگر ہم کسی دوسرے کے لئے سننے اور دیکھنے کی صفات ثابت کریں تو کیا یہ بھی شرک ہوگا؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ حی (زندہ ) ہے اگر ہم کسی دوسرے کو زندہ کہیں تو کیا یہ شرک ہوگا جوابا ت سننے سے پہلے درج ذیل قرآنی آیات کو بغور ملاحظہ کیجئے:
١۔ ( سورۃ المجادلۃ اٰیۃ نمبر ١) ان اﷲ سمیع بصیر :بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔ (کنز الایمان )
٢۔ (سورۃ الاحزاب اٰیۃ نمبر ١) ان ﷲ کان علیما حکیما : بے شک اللہ علم و حکمت والاہے ۔ (کنز الایمان )
٣۔ ( سورۃ البقرۃ اٰیۃ ٣٥٥) اﷲ لا الہ الا ھو الحی القیوم: اللہ ہے جسکے سوا کوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے والا ۔ (کنز الایمان)

مذکورہ آیات سے اللہ عزوجل کے لئے سمیع، بصیر ، علیم ، حکیم ، حی، اور قیوم ہونا ثابت ہوا۔

اب درج ذیل آیات پر غور فرمائیے:
١( سورۃ الدھر اٰیۃ نمبر ٢ ) انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج نبتلیہ فجعلنہ سمیعا بصیرا:بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملی ہوئی منی سے کہ ہم اسے جانچیں تو اسے سنتا دیکھتا کردیا۔ (کنز الایمان )
٢ ( سورۃ النساء اٰیۃ نمبر ٥٧) والذین اٰمنوا وعملوا الصلحت سندخلھم جنت تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا ابدا:
اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے عنقریب ہم انھیں باغوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ان میں ہمیشہ رہیں گے۔(کنز الایمان )
٣۔( سورۃ یوسف اٰیۃ نمبر ٥٥) قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیھم: یوسف (علیہ الصلوۃ والسلام ) نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پرکردے بے شک میں حفاظت والاعلم والا ہوں ۔ (کنز الایمان )

مذکورہ آیات کی روشنی میں انسان کے لئے سمیع ، بصیر ، علیم وغیرھا ہونا ثابت ہوا اب اگر کوئی یہ کہے کہ '' اللہ کے علاوہ کوئی انسان سمیع نہیں، بصیر نہیں، علیم نہیں جو کوئی اللہ کے علاوہ کسی اور کو سمیع بصیر علیم مانے مشرک ہے ۔ '' کیا یہ کہنا درست ہوگا؟ یقینامذکورہ آیات پر ایمان رکھنے والا ہرگز ایسا نہیں کہے گا ورنہ کتنی ہی آیات کا انکار ہوجائیگا البتہ ایک سوال ذہن میں آتا ہے جب خالق اور مخلوق دونوں ہی کے لئے سمیع ، بصیر ، علیم ہونا ثابت ہے تو پھر معبود اور بندے میں فرق کیا ہے ؟ مندرجہ ذیل گفتگو بغور ملاحظہ کیجئے فرق واضح ہوجائیگا ان شاء اللہ تعالیٰ ۔

اللہ جل مجدہ کی حیات پر تو سب کا ایمان ہے اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے صفت حیات دی ہے وہ سب اس صفت سے متصف ہیں پس ہم نے اپنے لیے بھی حیات کی صفت کو جانا او راللہ تعالیٰ کے لئے بھی صفت حیات کو مانا اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حیات ہم اللہ تعالیٰ کےلئے مانتے یں وہ حیات نہ ہم اپنے لئے مانتے ہیں نہ کسی اور کے لئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی دینے والا ہے اللہ تعالیٰ کو کوئی حیات دینے والا نہیں ہماری حیات عارضی ہے اسکی دی ہوئی ہے، محدود اور فانی ہے اللہ تعالیٰ کی حیات عارضی نہیں عطائی نہیں اور محدود بھی نہیں پس جب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حیات عارضی ، عطائی اور محدود نہیں اور ہماری زندگی عطائی ہے اللہ تعالیٰ کی حیات باقی ہے اور ہماری فانی تو شرک ختم ہوگیا یہی تصورات تمام مسائل میں پیش کرتے چلے جائیے بات واضح ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر ہے ا ور فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو سمیع و بصیر یعنی سننے اوردیکھنے والا بنایا تو اللہ کی یہ تمام صفات بے نیاز و غنی ہو کر ہیں اور بندوں کی یہ صفات اسکے حاجت مند اور نیاز مند ہو کر ہیں کیونکہ انہیں یہ صفات رب نے دیں اور وہ خود اور اسکی صفات رب عزوجل کے قبضہ ا ور قدرت میں ہیں الوہیت اور عبدیت کے درمیان یہی فرق ہے۔

اب شرک کا مطلب واضح ہوگیا کہ جو صفات اللہ تعالٰی کی اپنی ہیں یعنی کسی کی عطا کردہ نہیں وہی کسی اور کے لئے ثابت کرنا شرک ہے اور ان صفات سے شرک لازم نہیں آتا جو اللہ جل مجدہ نے کسی کو بخشی ہیں اگر انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے صفات نہ بخشی ہوں تو پھر نہ کوئی سننے والا ہونہ دیکھنے والا ہو ، نہ زندہ ہونہ کوئی علم والا ہو پس ہم یہی کہیں گے کہ جو صفات اللہ تعالی کی ہیں وہ بندے کی نہیں ہوسکتیں اللہ تعالیٰ کی صفات ازلی و ابدی ہیں،بندے کی عارضی ہیں اللہ تعالیٰ کے کمالات بغیر کسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں، اور انسان کے کمالات اللہ تعالیٰ کے بحشے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ ہر کام باذن اللہ عین توحید ہے۔ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے:
( سورۃ البقرۃ ٢٥٥ ) من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ : وہ کون ہے جو اسکے یہاں سفارش کرے بے اسکے حکم ۔ (کنز الایمان )

پتہ چلا کہ بغیر اذن کے شفاعت کا اعتقاد شرک ہے اور اذن کے ساتھ عین توحید ہے پس جب یہ عقیدہ آیا کہ فلاں شخص اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی حاجت پوری کرسکتا ہے تو شرک ہے اور جب اذن الہٰی کا عقیدہ آیا تو شرک ختم ۔

حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام نے جب قوم کے سامنے تعلیم رسالت پیش کی تو ان سے فرمایا :
( سورۃ اٰل عمران اٰیۃ نمبر ٤٩ )وابریئ الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اﷲ : اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اورسفید داغ والے کو اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے۔ ( ترجمہئ کنز الایمان )

اب دیکھئے شفا دینا اور مردے کو زندہ کرنا یہ اللہ تعالٰی کا کام ہے اور حضرت سیدنا عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کاموں کا دعوی فرمارہے ہیں لیکن آپ آگے فرماتے ہیں '' باذن اللہ '' یعنی میں جو کچھ کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے اذن سے کرتا ہوں پس جہاں اذن الہٰی آجائے تو شرک چلا جاتا ہے اور جہاں اذن گیاتوحید بھی گئی یہی اذن الہٰی ہونا اور نہ ہونا تو حید اور شرک کا بنیادی نکتہ ہے۔

اب اگر کوئی انبیاء و اولیاء کو باذن اللہ حاجت روا کہے، مشکل کشا کہے، دافع البلاء کہے تو شرک ختم ہوگیا یہاں مشرکین بت پرست کے معاملہ کو بھی سمجھ لیجئے مشرکین دو طرح سے گمراہی میں مبتلاہوئے، ایک تو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر بتوں کو حاجت روا مانا دوسرا یہ کہ اگر وہ اذن کے ساتھ حاجت روا مانتے بھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اذن دیا نہ تھا تو اسطرح بھی گمراہ ہوئے ایک تو یہ کہ وہ حاجت روائی کے اہل نہ تھے اور ان کو حاجت روا مانا دوسرا یہ کہ اذن الہٰی کا محتاج بھی نہ مانا پس وہ کفر میں بھی مبتلاہوئے اور شرک میں بھی ۔

اب آئیے مؤمنین کی طرف کہ وہ شرک سے پاک ہیں کہ ان کے پاس باذن اللہ کا ثبوت ہے ا ور وہ باذن اللہ حاجت روا مانتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی اللہ جل مجدہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو اذن دیا ہے اس سلسلے میں درج ذیل حدیث قدسی ملاحظہ کیجئے:
عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اﷲ ؐ ان اﷲ تعالیٰ قال من عادی لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب وما تقرب الی عبد بشیئ احب الی مما افترضت علیہ و ما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احببتہ فاذا احببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصر بہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا وان سالنی لاعطینہ ولان استعاذنی لاعیذنہ ۔(بخاری )
ترجمہ : - اللہ عزوجل نے اپنے رسول اکرم ؐ کی زبان اقدس پر فرمایا کہ جس نے میرے ولی سے عداوت کی میرا اس سے اعلان جنگ ہے ا ور جن چیزوں کے ذریعے بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب چیز میرے نزدیک فرائض ہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میری طرف ہمیشہ نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے یہا ں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اسکے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اسکی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اسکے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگ کرکسی بری چیز سے بچنا چاہے تو میں اسے ضرور بچاتا ہوں۔

واضح رہے کہ اللہ عزوجل جسم و جسمانیت سے پاک ہے، ہاتھ ، پاؤں وغیرھما بننے سے پاک ہے اب حدیث کا مطلب کیا ہے! آئیے امام فخرالدین رازی علیہ رحمۃ الباری سے سنیئے:
'' وکذلک العبد اذا واظب علی الطاعات بلغ الی المقام الذی یقول اﷲ کنت لہ سمعا و بصرا فاذا صار نور جلال اﷲ سمعا لہ سمع القریب والبعید واذا صار ذلک النور بصرا لہ رأی القریب والبعید اواذا صار ذلک النور یدا لہ قدر علی الصرف فی الصعب والسھل والبعید والقریب ( تفسیر کبیر ، جلد نمبر ٧،ص٤٣٦، مطبوعہ دارالحدیث ملتان)
ترجمہ: اور اسی طرح جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی اختیار کرلیتا ہے تو اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کنت لہ سمعا و بصرا فرمایا جب اللہ کے جلال کا نور اس کی سمع ہوجاتا ہے تو وہ دور و نزدیک کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہی نور جلال اسکا ہاتھ ہوجائے تو یہ بندہ مشکل اور آسان دور اور قریب چیزوں میں تصرف کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔

حدیث قدسی کی شرح میں امام رازی علیہ رحمۃ الباری نے مقرب بندہ کی شان میں جو کچھ لکھا ہے وہ عبد ا ور بشر سمجھتے ہوئے لکھا ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس طرح ان صفات عالیہ کااس بندہ کے لئے ماننا اس کی عبدیت اور بشریت کے منافی نہیں۔ یہ انسانیت کا کمال ہے کہ بندہ صفات خداوندی کا مظہر ہوجائے جب اللہ تعالیٰ کی صفت سمع کی تجلیاں اس کی سمع میں چمکنے لگیں گی تو یہ ہر قریب و بعید کی آواز کو سن لے گا۔ یہ اسکی ذاتی صفت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تجلی کا ظل ہے عکس ہے اور پرتو ہے ۔ جب بندے نے اللہ عزوجل کا اتنا قرب حاصل کیا کہ خدا کی صفات کا آئینہ بن گیا تو جب اللہ تعالٰی کی بصر کا نور اس کی بصر کے صیقل شدہ آئینے میں چمکے گا تو وہ ہر نزدیک اور دور کی چیز کو دیکھ لے گا۔ جب اللہ رب العزت کی قدر ت کے نور کے جلوے اسکے ہاتھ پاؤں دل ودماغ میں ظاہر ہوں گے تو یہ ہر آسان ہر مشکل اور ہر دور و نزدیک کی چیز پر قادر ہوجائے گا۔

اب بتائیے کہ جب مشکل کشائی بندے کی قدرت میں ہوگئی تو مشکل کشا نہیں تو اور کیا ہے؟ مگر خوب یاد رکھئے کہ خدا کا مشکل کشائی فرمانا ذاتی ہے اور بندے کا مشکل کشا ہونا عطائی کیوں کہ بندہ اگر کسی کی مشکل حل کرتا ہے یا حاجت پوری کرتا ہے تو اللہ کی عطاء سے کرتا ہے پس واضح ہوگیاکہ ہمارا یہ عقیدہ شرک کی تمام جڑوں کو کاٹنے والا ہے اب بتائیے کہ عین توحید کو لوگ شرک کہتے ہیں تو اسلام پھر کیا ہوگا؟ پس یہ ادراکِ علم، سمع اور بصر جو ان مقربینِ بارگاہ الہٰی میں پائے جاتے ہیں او رجن میں دلیل موجود ہے ان میں آسان سے آسان کام پر بھی اللہ کے برگزیدہ بندوں کی قدرت ثابت ہوگئی اور یہ دلیل قائم ہوگئی کہ یہ نفع پہنچانے والے ہیں اور بارگاہ رب العالمین میں دعائیں کرکے رب کو راضی کرنے کی صلاحیتیں رکھنے والے ہیں ان میں مشکل کشائی کی قدر تیں بھی ہیں دور سے دیکھنے کی قدرتیں بھی ہیں اور بعید کی آواز کو بھی سن سکتے ہیں۔

کفار مکہ تو خدا پر یہ بہتان باندھتے تھے کہ خدا نے ان پتھروں اور بتوں کو اختیار دے رکھا ہے اور اذن دے دیا ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا اور جب ہم نے ان انبیاء و اولیاء پر اذن کی شرط لگائی تو شرک دور ہوگیا اور جب انکے اختیار کو ثابت کردیا تو کفر بھی جاتا رہا۔ الحمدللہ عزوجل ہم باذن اللہ کا اعتقاد کرکے شرک سے پاک اور انبیاء و اولیاء کے اختیارات ثابت کرکے کفر سے بھی پاک ہیں۔مذکور تفصیلی بحث سے امید ہے کہ آپ کے وسوسے دور ہوجائیں گے کہ اولیاء کرام سے مدد طلب کرنا توحید کے منافی نہیں جیسا کہ تفصیل سے گذرا نیز یہ حضرات قدسیہ اللہ کی عطا سے مشکل کشا ہوتے ہیں اس پر بھی گفتگو مذکور ہوچکی لہٰذا اہلسنت کاانبیاء علیھم السلام و اولیاء کرام سے مدد مانگنا توحید کے منافی نہیں لہٰذا اہلسنت انبیاء و اولیاء اللہ سے مانگ کر '' توحید '' سے ہٹے نہیں بلکہ عین توحید پر ہیں ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 355170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.