جال ۔ در۔ جال قسط 2
(ishrat iqbal warsi, mirpurkhas)
گُذشتہ سے پیوستہ
نعمان کی زندگی میں اُسکے خوابوں کی بڑی اہمیت تھی لیکن وہ اُن خوابوں کے
لئے اپنے جگری یار کو قربان نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن آج کرامت صاحب کی گُفتگو
نے بیشُمار اندیشے اور خُوف کے بادل نعمان کے سر پر ایستادہ کردئیے تھے۔ وہ
جتنا اِن خیالات سے اپنی سوچ کو باز رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اُسی قدر
زیادہ خیالات کے ناگ اُسکے دِماغ پر اپنے مہیب پھَنّوں سے حملہ کر رہے
تھے۔چند جُملے بار بار نعمان کے دِماغ میں گُونج رَہے تھے ۔۔ کیا فرقان
کبھی میرا ساتھ چھوڑ سکتا ہے۔۔۔؟کیا میں فرقان کو اپنے خُوابوں کی بھینٹ
چڑھا سکتا ہُوں۔۔۔؟ کیا ہماری دوستی کِسی نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔۔۔؟ اور
ایسے ہی بیشُمار سوالات نعمان کی سُوچوں کو منتشر کررہے تھے۔ نعمان کو ایسا
محسوس ہُورَہا تھا جیسے یہ سوالات اُسکی دماغی شریانوں کو پھاڑ ڈالیں گے۔
پھر کُچھ سُوچ کر نعمان نے فُون کا رِیسیور اُٹھایا اور فرقان کے نمبر پنچ
کرنے لگا۔ دوسری جانب سے فرقان نے جونہی السلامُ علیکم کہا۔ نعمان نے فرقان
سے جلد فیکٹری میں آجانے کی استدعا کرتے ہُوئے فون کا ریسیور پٹختے ہُوئے
اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
اب مزید پڑھیئے۔
نعمان کو اِنتظار کرتے ہُوئے تقریباً ۴۰ منٹ ہُوچُکے تھے۔ وہ بڑی بیقراری
سے فرقان کی آمد کا منتظر تھا۔ اُسنے اِن چالیس مِنٹوں میں بیسیُوں مرتبہ
وال کلاک کی جانب نِگاہ اُٹھا کر دیکھا تھا۔ اور اب تُونعمان میں مزید
انتظار کی تاب بھی نہ رہی تھی۔ وہ سُوچنے لگا ۔۔۔ کیا یہ وہی فُرقان ہے جو
میری ایک کال پر دوسرے شہر سے بھی اِہم سے اِہم کام چھوڑ چھاڑ کر بھاگتا
چَلا آتا تھا۔ مگر اب کتنا بدل گیا ہے میرا فُرقان۔ کہ شہر میں ہُونے کے
باوجود بھی اِتنا دُور ہے۔ جیسے راستہ میں دریا یا پہاڑ حائل ہُوگئے ہُوں۔
کہاں تُو سارا دِن ساتھ گُزارنے کے باوجود بھی گُھر پُہنچتے ہی کال کیا
کرتا کہ اب کیا پروگرام ہے۔ اور کہاں ساتھ چلنا ہے۔ اور کہاں یہ حالِ
تغافُل جیسے میری کوئی اہمیت ہی نہ ہُو اُسکی زندگی میں۔
نعمان جُوں جُوں ماضی و حال کو میزان کے پلڑوں میں تُولتا چلا جارھَا تھا ۔
اُسے کرامت صاحب کے الفاظ کِسی ہتھوڑے کی مانند اپنے سر پر برستے مِحسوس
ہُو رہے تھے۔ حالانکہ سِٹنگ رُوم میں دُو عدد اِسپلٹ ائر کنڈیشنر کمرے کو
18 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر رکھے ہُوئے تھے۔ لیکن نُعمان کی پیشانی پر
ننھے ننھے پسینے کے قطرے چمکنے لگے تھے۔ شائد نعمان کے دِماغ کا ٹمپریچر
کمرے کے درجہ حرارت سے کئی گُنَّا بڑھ چُکا تھا۔
نُعمان نے اپنی پیشانی پر آئے پسینے کے قطروں کو ٹِشو پیپر سے صاف کرتے
ہُوئے فرقان کو دُوبارہ کال مِلانے کیلئے ٹیلیفون کا ریسیور اُٹھایا ہی تھا
کہ اُس کہ کانوں میں فُرقان کی گاڑی کے ہارن کی آواز سُنائی دِی۔ نعمان نے
سِٹنگ رُوم کی جہازی سائز وِنڈو سے باہر دِیکھا۔ تو اُسے فرقان کی کار کی
جھلک دِکھائی دِی۔ نعمان کو فرقان کی آمد سے کُچھ اِطمینان حاصل ہُوا۔
نُعمان نے رِیسیور واپس رکھتے ہُوئے صوفہ کی پُشت سے اپنی کَمر لگالی۔
فُرقان السلامُ علیکم کہتا ہُوا دَروازے سے داخِل ہُوا ۔ نعمان نے جواب
دیتے ہُوئے فرقان کے سراپا پر نِگاہ دُوڑائی تُو فُرقان کی ظاہری حالت دیکھ
کر چُونک اُٹھا۔ ابھی چار دِن پہلے جب فرقان سے مُلاقات ہُوئی تھی تب
سِوائے کُچھ خیالات کی تبدیلی کے کوئی واضح فرق نہیں تھا۔ لیکن آج فرقان نے
ٹُو۔ پیس کیساتھ سر پر ایک سادہ سی ٹوپی بھی رکھی ہُوئی تھی جسکی وجہ سے
اُسکے بالوں کا خُوبصورت اِسٹائل ٹوپی میں چُھپ کر رِہ گیا تھا۔ حالانکہ یہ
وہی فرقان تھا جِسے اپنے بالوں کی اتنی پرواہ تھی کہ وہ کبھی لوکل برانڈ کا
شیمپو بھی استعمال نہیں کیاکرتا تھا۔ کہ مُبادا کہیں بَالوں کی خُوبصورتی
مانند نہ پڑجائے۔ سَر پہ ٹوپی کیساتھ فرقان کے چہرے پر تین ، چار دِن کی
بڑھی ہُوئی شِیو بھی نعمان کو بُہت عجیب سی محسوس ہورہی تھی۔
نُعمان نے کھڑے ہُوکر فرقان سے نہ صرف مصافحہ کیا بلکہ مُعانقہ کرتے ہُوئے
کہا۔ یار فرقان میں تُو سُوچ رَھا تھا کہ جب تُو آئے گا ۔تب میں تُجھے اپنی
پریشانی اور اپنا حَالِ دِل سُناؤں گا۔ لیکن یار تُجھے دیکھ کر تُو لگتا ہے
کہ تُو شائد مجھ سے بھی زیادہ ڈسٹرب ہے! یہ کہتے ہُوئے نعمان نے فُرقان کو
اپنے ساتھ ڈبل صوفے پر بِٹھالیا۔
نہیں یار الحَمدُ للہ میں بالکل ٹھیک ہُوں۔ مجھے اب نہ کوئی اُلجھن ہے اور
نہ ہی کوئی ذِہنی و جِسمانی پریشانی ہے۔ بلکہ میں تُو آجکل خُود کو بُہت
ہلکا اور فریش محسوس کررہا ہُوں۔ البتہ تُم سُناؤ ۔ تُمہارے دِل کو کیا
رُوگ لگ گیا ہے۔۔۔؟ فُون پر بھی تُمہاری آواز سے یہی مِحسوس ہُورھا تھا۔
جیسے تُم کِسی ذہنی خلقشار میں مُبتلا ہُو۔۔۔! ویسے یار مُجھے مُعاف کردینا
مجھے آنے میں کُچھ تاخیر ہُوگئی۔ دراصل پروفیسر اَبُّو العمران حسان صاحب
کا لیکچر اِتنا مسحور کُن اور پُر مغز تھا کہ میں باوجود کوشش کے بھی محفل
سے نہیں اُٹھ پارہا تھا۔ بس جیسے ہی حسّان صاحب کا لیکچر ختم ہُوا میں
فُوراً تیری جانب دوڑا چلا آیا۔ فُرقان نے مُعذرت کیساتھ ساتھ نعمان کو
تاخیر کی وجوھات بتاتے ہُوئے اُسکی خیریت دریافت کی۔
یار فرقان میں اپنی پریشانی تُو تُمہیں بتا ہی دونگا، مگر میرے یار یہ تُم
نے اپنا حُلیہ کیا بنا رکھا ہے۔۔۔؟ اور یہ تُم کِن چکروں میں پڑ گئے
ہُو۔۔۔؟
میرے دوست یہ جوانی پلٹ کر واپس نہیں آئے گی۔ کیوں چار دِن کی زِندگی کو
اِیسے مولوی ٹائپ لوگوں کے چکر میں ضائع کرنے پر تُلے ہُو۔۔؟ اگر ابھی
زندگی کو انجوائے نہ کیا ۔ تُو کیا بُڑھاپے میں اِنجوائے کرو گے ۔۔۔؟ جب نہ
قدم تُمہار اساتھ دیں گے ۔اور نہ ہی سانس قابو میں رہے گی۔ نعمان نے فرقان
کی حالت کی طرف اِشارہ کرتے ہُوئے مُحبت سے سمجھایا۔
نعمان میرے بھائی میں بھی اپنے حُلیہ، جوانی، ڈھلتی عمر، اور بڑھاپے کو
لیکر ہی متفکر ہُوں۔ لیکن بس تُمہارے اور میرے سُوچنے کا انداز جُدا
ہُوگیاہے۔
میں ابھی شائد اپنے احساسات کو الفاظ کے سانچے میں ٹھیک طرح سے نہ ڈھال
سَکوں ۔اور ہُوسکتا ہے کہ اپنی کم مایئگی کے اِحساس کی وجہ سے تُمہیں
مطمئین بھی نہ کرپاؤں ۔اسلئے میرے خیال میں ہمیں اِس بِحث میں پڑنے کے
بجائے وہ بات کرلینی چاہیئے جسکی خاطر تُم نے مجھے بُلایا ہے۔ میں تجھے بھی
حَسّان صاحب سے ایک بار ضرور مِلانا چاہُوں گا۔ اور مجھے یقین ہے کہ تُم
پہلی ہی مُلاقات میں اپنے تمام سوالوں کا اطمینان بخش جواب پاکر میری ہی
طرح سُوچنے لگو گے۔ فُرقان کی اِس خُواہش کا نعمان نے تڑخ کا جواب دیتے
ہُوئے کہا۔ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ایسے پیٹ کے پُجاریُوں سے زندگی کا
فلسفہ سمجھنے کی۔ جُو چندے کے نام پر ساری زِندگی اپنی تجوریوں کا وزن
بڑھانے میں لگے رِہتے ہیں۔ اور میرا یہ وعدہ ہے تُجھ سے۔۔۔۔۔۔ کہ میں ایک
دِن تجھے بھی اُس پروفیسر کے جھانسے سے ضرور نِکال لاؤں گا۔
پُروفیسر حَسّان صاحب کی شان میں ایسے نازیبا الفاظ سُن کر ایک لمحے کیلئے
فُرقان کے گندمی چہرے کا رنگ سُرخ ہُوگیا۔ فرقان کا جی چاہا کہ وہ اِس
گُستاخی کا بھرپور جواب نعمان کو دے یا فوراً احتجاجاً اپنی نِشست سے اُٹھ
جائے۔ لیکن اُسے فوراً حسّان صاحب کا جمُلہ یاد آگیا جُو اُنہوں نے آج ہی
بُہت زُور دیکر سامعین کوسمجھایا تھا۔ کہ انسان کا اصل اِمتحان حالت غُصہ
میں ہُوتا ہے۔ اگر اِنسان بھڑک جائے تو شیطٰان غالب رہتا ہے اور یُوں بندہ
ہَار جاتا ہے۔ لیکن اگر انسان اُس وقت حِلم و بردباری کا مظاہرہ کرے۔دلیل و
حِکمت کا ساتھ نہ چُھوڑے۔ تب انسان غالب اور شیطان مغلوب ہُوجاتا ہے اب یہ
بندے پر منحصر ہیکہ چاہے تو شیطان کو غالب کرے چاہے تُو خُود غالب رِہ کر
اُس لعین کو مغلوب کردے۔
فُرقان نے بَمشکل اپنے جذبات پر قابو پاتے ہُوئے ایک مرتبہ پھر نعمان سے
مُخاطب ہُوتے ہُوئے دھیمے لہجے میں کہا،، میرے خیال میں ہمیں اصل موضوع کی
طرف لُوٹ آنا چاہیے،، ایسا نہ ہُوکہ نماز کا وقت ہُوجائے اور ہماری مُلاقات
کا مقصد ہی فُوت ہوجائے۔ اور جہاں تک رہا ہماری لائف اِسٹائل کے انداز کی
بات کا تعلق ۔ تو میرے خیال میں ہمیں اِسمیں ایک دوسرے پر جبر نہیں کرنا
چاہیئے۔ ہاں کبھی وقت مِلا تو میں ضرور اس موضوع پر تُم سے تفصیلی گُفتگو
کروں گا۔ کیونکہ میں سمجھتا ہُوں کہ ایک دوسرے کا نظریہ جاننے سے عِلم میں
اضافہ ہُوتا ہے۔ فرقان نے گُفتگو کا موضوع بدلنے کی ایک آخری کوشش کرتے
ہُوئے سپاٹ لہجے میں کہا۔
نعمان نے بھی فرقان کے لہجے کے کرب کو مِحسوس کرتے ہُوئے موضوع بدلنے میں
ہی عافیت جانی ۔ اِس لئے نعمان نے اَصل موضوع کی جانب آتے ہُوئے۔ اُٹھ کر
دیوار پر نصب کیبنٹ کا لاک کھول کر ایک فائل نِکالی اورمسکراتے ہُوئے
فُرقان کی جانب بڑھادی۔
یہ کیا ہے۔۔۔؟ فرقان نے فائل ہاتھ میں لیتے ہُوئے نعمان سے کہا۔
یہ اُسی پیپر مِل کی فائل ہے جسکا تذکرہ میں نے تُم سے تُمہارے گھر پر کیا
تھا۔ نعمان نے بدستور مُسکراتے ہُوئے اُسے یاد دِہانی کرائی۔
لیکن تُم نے خُود ہی تُو بتایا تھا کہ اس پروجیکٹ کیلئے ہمارے اکاؤنٹ میں
خاطر خُواہ رقم موجود نہیں ہے۔ پھر یہ فائل دِکھانے کا مطلب۔ فُرقان نے
استفہامیہ انداز میں نعمان کو دیکھا۔
لیکن میں نے تُم سے کہا تھا نا ! کہ ہمیں اِس پروجیکٹ کے لئے قرض مِل رہا
ہے۔ اور یار تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ یہ صرف میرا ہی نہیں بلکہ ہمارا
مشترکہ خواب ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم اِس خُواب کو حقیت کے رُوپ میں
اپنے سامنے دِیکھیں۔ زمیں کا کوئی پرابلم ہی نہیں فیکٹری کیساتھ اضافی چھ
ایکڑ زمین ہمارے پاس موجود ہے ہم اِس تمام زمیں کو فیکٹری میں شامل کرلیں
تو ۔ ون یُونٹ میں دو پروجیکٹ کی دیکھ بھال بھی نہایت آسانی سے ہُو جائیگی
اور اضافی بجلی بھی ہم آسانی سے اِس پروجیکٹ میں استعمال کرسکیں گے۔ کُچھ
تعمیرات ہم اپنی رقم سے کرلیں گے باقی تعمیراتی کام اور مشینری کیلئے رقم
بنک سے مِل جائے گی۔ جبکہ خام مال ہمیں بازار سے کریڈٹ پر مِل ہی جائے
گا۔جس سے ہمارا مُنافع سہ گُنا ہوجائے گا۔ پھر تُم دیکھنا ہم کتنی جلد اِس
شہر کے سب سے بڑے رئیس کہلائیں گے۔ نعمان نے تفصیل سے پروجیکٹ کے متعلق
فرقان کوجُوشیلے لہجے میں بتاتے ہوئے کہا۔
لیکن نعمان تُم مجھے یہ تمام باتیں دوبارہ کیوں بتارہے ہُو۔۔۔؟ جبکہ ہم چار
دِن قبل بھی اِس موضوع پر بات کرچُکے ہیں اور تُمہیں میرا جواب بھی معلوم
ہے کہ میں بنک سے رقم اُدھار لینے کے قطعی حق میں نہیں ہُوں البتہ میں اب
بھی اپنی بات پر قائم ہُوں کہ اگر کوئی انویسٹر مِل جاتا ہے تُو تُم بِلا
شُبّہ اُسے بھی اپنی پارٹنر شِپ میں شامِل کرسکتے ہُو۔ مجھے بالکل اعتراض
نہیں ہُوگا۔ فرقان نے اپنا جواب سُناتے ہُوئے کہا۔
یار تُمہاری عقل کیا گھاس چَرنے گئی ہے۔۔۔؟ البتہ تو کوئی بھی انویسٹر اتنی
بڑی رقم ایک نئی فیکٹری میں لگائے گا ہی نہیں ۔اور اگر فرض کرلیں کوئی ایسا
اِنویسٹر مِل بھی جاتا ہے تُو وہ کم از کم پچاس ساٹھ پرسنٹ منافع سے کم میں
راضی نہیں ہُوگا۔ پھر ہم کیوں بیس یا پچیس پرسنٹ منافع کیلئے اِتنا جھمیلہ
پالیں جب بنک خُود ہمیں تمام مطلوبہ رقم دینے کو تیار ہے۔ اور میرے خیال
میں بنک کا انٹریسٹ زیادہ سے زیادہ مُنافع کا دس سے پندرہ پرسنٹ ہُوگا۔
نعمان نے غُصیلے لہجے میں جھنجلاتے ہوئے فرقان کو تُرکی بہ تُرکی جواب
دِیا۔
پھر تُم اُس وقت کا انتظار کیوں نہیں کرتے جب تک کہ مطلوبہ رقم مُنافع کے
ذریعہ سے ہماری دسترس میں نہیں آجاتی۔ فُرقان کے لہجے میں بھی نہ چاہتے
ہُوئے تلخی کی کڑواہٹ دَر آئی تھی۔
اِسکا مطلب ہے واقعی ہمارے راستے جُدا ہُونے کا وقت بُہت نزدیک ہے۔ نجانے
کسطرح یہ جُملہ نعمان کی زُبان سے بے اِختیار پِھسل گیا۔ نعمان خُود بھی
اپنے اِس جُملہ پر حیران تھا۔ لیکن اب دِیر ہُوچُکی تھی تِیر کَمان سے نِکل
چُکا تھا ۔ اور نشانہ بھی قائم کرچُکا تھا ۔ لیکن یہ نِشانہ نعمان کے نا
چاہتے ہُوئے بھی فرقان کا سینہ ہی تھا۔
(جاری ہے) |
|