گُذشتہ سے پیوستہ
یار تُمہاری عقل کیا گھاس چَرنے گئی ہے۔۔۔؟ البتہ تو کوئی انویسٹر اتنی بڑی
رقم ایک نئی فیکٹری میں لگائے گا ہی نہیں ۔اور اگر فرض کرلیں کوئی ایسا
اِنویسٹر مِل بھی جاتا ہے تُو وہ کم از کم پچاس ساٹھ پرسنٹ منافع سے کم میں
راضی نہیں ہُوگا۔ پھر ہم کیوں بیس یا پچیس پرسنٹ منافع کیلئے اِتنا جھمیلہ
پالیں جب بنک خُود ہمیں تمام مطلوبہ رقم دینے کو تیار ہے۔ اور میرے خیال
میں بنک کا انٹریسٹ زیادہ سے زیادہ مُنافع کا دس سے پندرہ پرسنٹ ہُوگا۔
نعمان نے غُصیلے لہجے میں جھنجلاتے ہوئے فرقان کو تُرکی بہ تُرکی جواب دِیا۔
پھر تُم اُس وقت کا انتظار کیوں نہیں کرتے جب تک کہ مطلوبہ رقم مُنافع کے
ذریعہ سے ہماری دسترس میں نہیں آجاتی۔ فُرقان کے لہجے میں بھی نہ چاہتے
ہُوئے تلخی کی کڑواہٹ دَر آئی تھی۔
اِسکا مطلب ہے واقعی ہمارے راستے جُدا ہُونے کا وقت بُہت نذدیک ہے۔ نجانے
کسطرح یہ جُملہ نعمان کی زُبان سے بے اِختیار پِھسل گیا۔ نعمان خُود بھی
اپنے اِس جُملہ پر حیران تھا۔ لیکن اب دِیر ہُوچُکی تھی تِیر میان سے نِکل
چُکا تھا ۔ اور نشانہ بھی قائم کرچُکا تھا ۔لیکن یہ نِشانہ نعمان کے نا
چاہتے ہُوئے بھی فرقان کا سینہ ہی تھا۔
اب مزید پڑھیئے
فرقان نے حیرت سے چند لمحے نعمان کے چہرے کو دِیکھا۔ اُسے گُمان بھی نہیں
تھا کہ کبھی نعمان اِس طرح کی کوئی بات ایسے تلخ لہجے میں اُس سے کہے
گا۔اور اب وہ مُنتظر تھا کہ نعمان خُود اپنے جُملے کی تشریح کردے۔ اے کاش
وہ کہہ دِے کہ،، یار مُجھے مُعاف کرنا،، میں کہنا تُو کُچھ اور چاہتا تھا
لیکن میری زُبان سے ،، نِکل نجانے کیا گیا۔۔ لیکن نُعمان کی زُباں سے نِکلے
جُملے نے نُعمان کو اِس قابِل ہی کہاں چھوڑا تھا کہ وہ مزید کوئی اور بات
کرپاتا۔
نُعمان سُوچ ہی رہا تھا کہ بِگڑی بات کو کِس طرح سنبھالے لیکن اُسُے کُچھ
سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ ایساکُونسا عُذر پیش کرے کہ جسکی وجہ سے کمرے
کے ماحول کی حِدت بھی رفع ہُوجائے۔ اور اُسکے یار کا دِل بھی اُسکی طرف سے
خراب نہ ہُو۔ کرامت کے جُملوں کی بازگشت نے اُسکے ذہن کو ایسا پراگندہ
کردِیا تھا کہ جِن اندیشوں سے نِکلنے کیلئے اُس نے فرقان کو بُلایا تھا۔
وہی جُملے اُسکی زُباں سے نادانستگی میں نِکل گئے تھے۔
فُرقان کو اِنتظار ِ یار میں خَاموشی کی چند گھڑیاں بھی یُوں مِحسوس ہو رہی
تھیں جیسے گُویا صَدیاں بیت گئی ہُوں۔ اور نُعمان کی مُسلسل خاموشی اُسے یہ
سمجھانے کیلئے کافی تھی کہ جو کُچھ نعمان نے فرقان سے کہا ہے۔ وہ کوئی
حادثاتی گُفتگو نہیں تھی۔ بلکہ وہ اِس مُعاملے میں کافی غُور و فِکر کر
چُکا ہے۔ اور سب کُچھ سُوچ سمجھ کر ہی اِس نتیجے پر پُہنچا ہے کہ اب ہمیں
اپنے راستے جُدا کرلینے چاہئیں۔ فرقان کیلئے یہ خیال ہی بڑا رُوح فرسا تھا
کہ اب وہ دونوں مزید ساتھ نہیں چل سکتے۔ اور اب فرقان میں اتنی سکت بھی
باقی نہ تھی کہ مزید وہاں بیٹھ سکتا۔ اُسے لگا کہ اگر وہ چند لمحے بھی وہاں
مزید بیٹھا تُو وہ رُو دِیگا۔ کیونکہ اُسے مِحسوس ہُو رہا تھا کہ اُسکے
آبگینے نَم ہُوچُکے ہیں اور کِسی بھی وقت چھلک جانے کو ہیں۔ وہ خُود کو
اپنی ہی فیکٹری میں لوگوں کے سامنے تماشہ نہیں بنانا چاہتا تھا۔ اسلئے
خاموشی سے اُٹھا اور سِٹنگ روم سے نِکل کر اپنی گاڑی میں روانہ ہُوگیا۔ آج
زِندگی میں پہلی مرتبہ ایسا ہُوا تھا کہ اُس نے فیکٹری سے نِکلتے ہُوئے گیٹ
کیپر سے کوئی جُملہ بازی کی اور نہ ہی گاڑی سے باہر اپنا ہاتھ نِکالا۔
رات کو عِشاء کی نماز کے بعد وہ حسب سابق پروفیسر حسان صاحب کی مِحفل میں
بیٹھا تُو اُسے بار بار نعمان کا جُملہ یاد آتا رہا۔ اُسکی بے چینی کو حسان
صاحب بھی دیکھ رہے تھے۔ لِہذا جب مِحفل برخاست ہوئی تب حسان صاحب نے فرقان
کے ہاتھوں کو نرمی سے اپنے ہاتھوں میں دَباتے ہُوئے سوال کیا،، فرقان میاں
خیریت تُو ہے آج آپکی طبیعت کُچھ ناساز نظر آرہی ہے۔۔۔؟
تب حسان سے نہ رہا گیا اور اُسکی آنکھیں مزید نَم ہُوگئیں۔ حسان صاحب نے
اُسکی حالت مُلاحِظہ کرتے ہُوئے فرقان کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُسے
دوبارہ نِشست گاہ میں بیٹھنے کی دعوت دِی اور تمام لوگوں سے فارغ ہُوکر
فرقان کے نزدیک آبیٹھے۔
تنہائی دِیکھ کر فرقان نے اپنے دِل کے تمام غُبار کا ماجرا ،، اول تا آخر،،
حسان صاحب کو سُنا ڈالا۔ اور ساتھ ہی نعمان کی اپنی زندگی میں اہمیت بھی
بیان کردی۔ جب فُرقان اپنی تمام کہانی سُنا چکا تب حسّان صاحب یُوں گُویا
ہوئے۔ دِیکھو فرقان میاں پہلے تُو زندگی میں چند چیزوں کی اہمیت کو مجھ سے
اچھی طرح سے سمجھ لُو۔ اور ساتھ ہی اُن چیزوں کی قیمت بھی ہمیشہ کیلئے اپنے
ذِہن کے کِسی گُوشے میں محفوظ کرلینا۔
چند چیزیں انسان کی زندگی میں نہایت اِہم ہُوتی ہیں۔ اور اُنکی قیمت بھی
انمول ہوتی ہے جِس کے پاس یہ چیزیں یا یُوں کہہ لُو کہ یہ نعمتیں ہُوں اور
وہ اُنکی قدر و قیمت نہ جانے وہ دُنیا کا اِحمق ترین انسان ہُوتا ہے کیونکہ
جب تک کِسی شئے کی قیمت ہی انسان کو معلوم نہ ہُو۔ وہ اُسکی اہمیت بھی کبھی
نہیں جان پائے گا اور جب اہمیت اور قیمت نہیں جان پائے گا تُو قوی خدشات
ہیں کہ انسان اُن نعمتوں کی قدر نہ کرنے کے باعث اُن سے کبھی بھی محروم
ہُوسکتا ہے۔
دِیکھو مِثال کے طُور پر ہَرانسان کو اللہ کریم نے کَم و زیادہ وقت کی
مُہلت عطا فرماکر اِس دُنیا میں بھیجا ہے۔ تاکہ وہ اپنے مقررہ وقت میں
زیادہ سے زیادہ دائمی زندگی میں کامیابی حاصِل کرنے کیلئے کوشش کرے۔ لیکن
تُم نے مُشاہدہ کیا ہُوگا کہ بے شُمار لُوگ ایسے بھی ہیں جُو اپنی زندگی کے
قیمتی لمحات بلکہ وقت کےانمول گوُھَروں کو یونہی بے دریغ ۔ لغویات و
فضولیات میں ضائع کررہے ہوتے ہیں۔ اُنکی مِثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی اِنسان
کِسی اِہم کام کیلئے اپنے گھر سے بازار کیلئے نِکلے۔ اور جب وہ بازار میں
پُہنچے تب وہ اُس اہم کام کو بُھول جائے کہ جس کیلئے وہ اپنے گھر سے نِکلا
تھا۔ اور تمام دِن بازار کی زینت میں گُم رہے۔ یہاں تک کہ رات کا اندھیرا
دِن کی روشنی کو نِگل جائے اور بازار سِمٹ جائے۔ تب اُسے افسوس کے سِوا
کُچھ ہاتھ نہیں آتا اور وہ خالی ہاتھ ہی بازار سے گھرکی جانب ناکام و
نامُراد لُوٹ آتا ہے۔
بالکل اِسی طرح سے اچھا دُوست۔ نیک بیوی اور کُشادہ گھر بھی اللہ کی نعمتوں
میں سے ہیں اور انکا کوئی مُتبادِل نہیں ہے۔ اور جُو اِن نعمتوں میں سے کسی
نعمت کو پانے کے بعد ضائع کردے میری نِگاہ میں وہ بھی بُہت بڑابےوقوف ہے۔
حَسّان صاحب نے اپنی گُفتگو چند لمحوں کیلئے رُوک کر پانی کے چند گُھونٹ
اپنے حلق سے اُتارنے کے بعد اپنی گُفتگو کو دوبارہ وہیں سے جُوڑتے ہُوئے
کہا۔ دِیکھو بیٹا فرقان تُم نے جو اپنی اور نعمان کی دوستی کی رُوداد ابھی
کُچھ لمحے پہلے مُجھے سُنائی تھی۔ میں نے اُس سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ کہ
فطرتاً نعمان ایک شریف النفس انسان ہے ۔ جو تُمہاری عدم موجودگی کے باوجود
بھی تُمہیں تُمہارے حق سے محروم نہیں رکھتا۔ اور اپنا کام دیانت داری اور
خُوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے۔ بس عِلم سے دُوری کے سبب وہ صحیح اور غلط
میں تمیز نہیں کرپارہا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ تُم سے چُھٹکارہ حاصِل کرنا
چاہتا ہُوگا۔ بلکہ میرا ذاتی تجربہ اور مُشاہدہ کہتا ہے کہ ضرور تُم دونوں
میں کُچھ غلط فہمی پیدا ہُوگئی ہے۔
دِیکھو بیٹا جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اچھا دوست اللہ کی نعمت
ہُوتا ہے اور اللہ کی نعمت سے مُنہ موڑنا کُفران نعمت ہُوتا ہے۔ دوست اگر
ٹھوکر کھاکر غِلاظت میں جاگِرے تب اُسکی غِلاظت سے مُنہ پھیر کر نِکل جانا
دانائی نہیں بلکہ کمال تُو تب ہے کہ ایسے وقت میں دوست کو سہارا دیکر گندگی
سے نِکال لیا جائے چاہے اُسکے لئے چند لمحوں کیلئے غِلاظت میں اُترنا ہی
کیوں نہ پڑجائے۔ اسلئے میں تُمہیں تاکید کرتا ہُوں کہ اُسے اِحسن طریقے سے
سمجھانے کی کوشش جاری رکھنا۔ اُسکے ساتھ سختی کے بجائے نرمی اور حکمت سے
کام لینا۔ اُسکی بے رُخی کا جواب ہرگز بے رُخی سے دینے کی غلطی نہ کرنا۔
اور ہر ممکن وہ راہ اِختیار نہ کرنا کہ جسکی وجہ سے خلش میں اضافہ ہُو اگر
تُمہیں سمجھانے میں دُشواری پیش آئے تو اُسے میرے پاس لے آنا میں اُسے
سمجھانے کی کوشش کرونگا۔
حضرت صاحب ! اگر وہ آپ کے پاس آنے سے اِنکار کردے اور میں بھی اُسے سمجھانے
میں ناکام ہُوجاؤں تب کیا کروں۔۔۔؟ فرقان نے حسان صاحب کی جانب دیکھتے
ہُوئے عرض کیا۔ وہ حَسّان صاحب کے متعلق نعمان کی کیا رائے ہے بتانے میں
ہچکچا رہا تھا۔
تب بھی کوئی بات نہیں۔ کبھی ایسا بھی ہُوتا ہے کہ انسان اپنی خُواہشات کے
آگے اتنا بے بس ہُوجاتا ہے کہ اپنے خالق و مالک کو بھی بھول جاتا ہے لیکن
ایسا تب ہُوتا ہے جب اُسے اپنے فیصلوں اور اپنی سمجھ سے زیادہ کِسی کی بات
قابلِ توجہ نہیں لگتی۔ اور یہ بھی انسان کے علم سے دوری کی وجہ سے ہی ممکن
ہوتا ہے کیونکہ حقیقی عِلم عاجزی پیدا کرتا ہے ۔ اور سینے میں ایسی روشنی
پیدا کردیتا ہے کہ وہاں خالق و مالک کے فضل سے کبھی اندھیروں کا گُزر ممکن
نہیں ہوتا۔ اور جہالت کا مُقابلہ عِلم ہی سے ممکن ہے جہالت سے نہیں۔ اور
عِلم کا کمال یہ ہے کہ علم رکھنے والا خود کو کبھی عالِم نہیں سمجھتا بلکہ
طالبِ علم سمجھتا ہے ۔
اس طرح اُسکی رُوح کبھی عِلم سے سیراب نہیں ہُوتی۔اور جام تُو وہیں بھرے
جاتے ہیں جہاں تشنگی کا اظہار ہُو۔عاجزی کا انداز ہُو۔ نِگاہ ہی خَم نہ ہُو
بلکہ گردن بھی جذبہ ءِ اطاعت کے بُوجھ سے جُھکی جاتی ہُو۔ اور جبتک یہ
کمالات مخلوق میں پیدا نہ ہُوں تو سمجھ لو۔ کہ اندھیرے پال کر کوئی روشنی
نہیں پھیلا سکتا۔ اور پہلے سے بھرے جام میں اگر کوئی ڈالنا بھی چاہے تو جام
چھلک جاتا ہے۔ جسطرح شیطان کے ساتھ معاملہ ہُوا کہ ۔ رَب کے عطا کئے ہُوئے
عِلم کو اپنی میراث اور اپنا ذاتی کمال سمجھ بیٹھا اور اپنے اعمال و اَصنام
کو جِسمِ آدم سے بِہتر اور اپنے مِحدود عِلم کو کُل سمجھتے ہُوتے حُکم
خُداوندی اور اطاعت کو نہ سمجھ پایا۔ اور پھر خودی کے نشے سے ایسا سرشار
ہُوا کہ اپنا وجود اُسے ،، سب سے بِہتر،، نظر آنے لگا۔ یہانتک کہ اُسکے جہل
نے اُسے
بارگاہَ خُداوندی میں مردود قرار دِلوایا۔
اِس لئے میرے بچّے علم کی تشنگی کو اپنے سینے میں مزید فِزوں کرو۔ اور
دانائی اور حِکمت کے موتیوں سے اپنی جھولی بھرلو۔ اور اگر پھر بھی تُم اُسے
نا سمجھا پاؤ تو اُسے رضائے رَب سمجھ کر جُدا ہُوجانا کہ ہمارا کام صرف
سمجھانا ہے دِلوں میں تاثیر پیدا کرنا اُسی کا خاصہ ہے جِس نے تمام عالم
بنائے اور سجائے ہیں۔ مگر میری اتنی بات ضرور یاد رکھنا کہ اُسکی واپسی
کیلئے کوئی ایک دروازہ ضرور کُھلا چھوڑ دینا۔ تاکہ اگر وہ کبھی نادِم ہُوکر
لُوٹنا چاہے تُو واپس آجائے۔ کیونکہ واپسی کا راستہ تُو خُدا بھی کِسی پر
بند نہیں کرتا۔ تُو ہم غُلاموں کو یہ کہاں زیب دیتا ہے کہ تمام راستے اور
تمام دروازے، کھڑکیاں ہمیشہ کیلئے بند کرلیں۔ چُونکہ وہ ابھی نہیں جانتا کہ
وہ کِس کیساتھ لڑنے جارہا ہے اسلئے وہ بے خبر ہے اِس لڑائی کے انجام سے
جِسکی ابتداء وہ کرنے جارہا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اگر چلا بھی گیا
تُو ایک دِن ہار کر واپس لوٹ آئے گا۔
حَسّان صاحب نے بات ختم کرنے کے بعد گھڑی پر نِگاہ جمائی تو وال کلاک میں
رات کے ساڑھے گیارہ بجنے کو تھے پروفیسر صاحب نے اِسکے بعد دُعا کیلئے ہاتھ
اُٹھاتے ہُوئے فرقان کو گھرجانے کا عِندیہ دے دِیا۔
دُعا سے فارغ ہُوکر فرقان نے حَسّان صاحب کے ہاتھوں کو بُوسہ دیتے ہُوئے
اجازت طلب کی اور پھر اپنی گاڑی میں سوار ہُوکر گھر کی جانب چل دِیا گھر کے
گیٹ پر پُہنچ کر فرقان نے جونہی کار کا ہارن بجایا۔ چند ہی لمحوں میں
چُوکیدار نے مین گیٹ کھول دِیا۔ مگر جیسے ہی فرقان کار پُورچ میں دَاخِل
ہُوا تُو اُسے نعمان کی کار پہلے سے وہاں کھڑی نظر آئی۔
فرقان جونہی کار سے نِکلا تُو چُوکیدار نے اُسے اطلاع دِی کہ نُعمان صاحب
پِچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے ڈرائنگ رُوم میں بڑی بے چینی سے اُسکا انتظار کر رہے
اور کافی مرتبہ آپکو کال بھی مِلا چُکے ہیں مگر آپکا فون تب سے بند مِل رہا
ہے۔ تب فرقان کو یاد آیا کہ اُس نے نماز کے بعد سے اپنا موبائیل فُون ابھی
تک آن نہیں کیا ہے۔
وہ ڈرائینگ رُوم کی جانب بڑھتے ہُوئے یہی سُوچ رہا تھا ۔ اللہ خیر کرے۔
کہیں وہ بالکل ہی تمام ناطے تُو ختم کرنے نہیں چلا آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے) |