ابھی اُمیدِ سحر باقی ہے!
میں اپنے پیارے کراچی کے بارے میں لکھنے کی جستجو کرتا ہوں تو دل افسردہ ہو
جاتا ہے اور قلم کانپنے لگتا ہے لیکن تلخ حقیقت سے فرار بھی تو ناممکن ہے۔
لکھتے ہوئے ذہن ماﺅف ہے ۔ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں میرے عزیزجان کراچی!
ہم سب کو کم از کم اتنا تو سوچنا ہی پڑے گا کہ ایک ایسا شہر جو پُر امن اور
پُر سکون تھا، جہاں پر ہر مذہب کے ماننے والے، ہر طرح کی زبان کے بولنے
والے اور ہر نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے میں اس قدر شیر و شکر ہو
کر رہا کرتے تھے، وہاں آہستہ آہستہ تعصبات اور نفرت نے اپنا بسیرا کیوں
بنایااور آج ہمارے روشنیوں کے شہر کا دنیا بھر میں فساد زدہ شہروں میں کیوں
شمار کیا جانے لگا ہے۔ان تمام حالاتِ زار کی شروعات میںوہاں سے کرتا ہوں
جہاں سے میری یادشتیں زندہ و تابندہ ہیں۔ بُرا نہ مانو تو تعارفی کلمات سے
اس سفر (فسانے) کا آغاز کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
قیام پاکستان کے بعد نو آموز مملکتِ اسلامی کا دارالخلافہ یہی کراچی تھا۔
لیکن پھر نہ جانے اُس وقت کے اربابِ اختیار کو کیا سُوجھی کہ کراچی سے اِس
کا یہ حق چھین کر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ یوں تو کراچی کے تاریخ کی
ابتداءعرب کے دور سے جانا جاتا ہے۔ عربی اور ان کے کرتا دھرتااس علاقے کو
دیبل کے نام سے جانتے تھے۔ یہیں سے محمد بن قاسم نے اپنی بے پناہ فتوحات کا
نقطہ آغاز کیا۔ایک برطانوی تاریخ دان کے مطابق کراچی کے چند حصے اور منوڑہ
کا خوبصورت جزیرہ بھی دیبل میں شامل تھا۔ بھلے دنوں کی بات ہے کہ گاﺅں
کولاچی جو گوٹھ کے بندرگاہ کو بحرین اور مسقط کے ساتھ تجارت کا واحد ذریعہ
منتخب کیا گیا۔ یوں یہ پورے کا پورا گاﺅں مرکزِ تجارت میں تیزی سے بدلنے
لگا۔
کسی زمانے میں ایک مشہور شخصیت خان قلات کی مملکت میں بھی ہماراکراچی شامل
تھا۔ 1775ءمیں سندھ کے حکومتی کرتا دھرتاﺅں اور خان قلات کے درمیان خوں ریز
جنگ چھڑی اور یوں کراچی پر سندھ دھرتی کی حکومت کا قبضہ ہوا۔کراچی کی آبادی
میں روز افزوں اضافے کی خاص وجہ یہ تھی کہ یہاں سے بڑے بڑے ملکوں کے ساتھ
تجارتی روابط بڑھنے لگے تھے ۔ اس تجارتی سرگرمیوں کی وجہ نے ملک کے طول و
عرض سے اپنے اپنے کنبوں (فیملی) کے ساتھ یہاں رہائش اختیار کرنا شروع کر
دیا۔ پھر کیا تھا انگریزوں کو کراچی جیسا شہر وہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن
دیکھا نہیں گیا اور فروری 1839ءمیں انگریزوں نے کراچی پر حملہ کرکے اسے
اپنے شکنجوں میں جکڑ لیا۔ اور انگریزوں نے ہندوستان سے گٹھ جوڑ کرکے اسے
ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔یہ اس دور کی بات ہے جب کراچی میں مشہور سواری
گھوڑا گاڑی (ٹم ٹم یا بگھی) بھی چلا کرتی تھی۔کیا شاہی سواری تھی آج بھی
کہیں کہیں اس کی سواری نظر آتی ہے تو ماضی کی یادداشتیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔
اس پر ایک گانا بھی موجود ہے جس کی پہلی لائین میں صرف اور صرف یاد داشت
کیلئے تحریر کئے دیتا ہوں۔ ” بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی“
پھر سال1876ءکی آمد ہوئی ، اور یہ سال کی اہمیت ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں۔
جی ہاں! اسی سال کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پیدائش ہوئی۔
کراچی اس وقت تیزی سے ترقی کے منازل طے کر رہا تھا، اور اس کا خاص انحصار
بندرگاہ تھا۔ 1880ءکے اوائل میں کراچی کو ہندوستان کے ساتھ جوڑنے کیلئے ریل
کی پٹریاں بچھائی گئیں۔ وقت تیزی سے رات اور دن میں تبدیل ہوتا رہا اور
بالآخر 1947ءمیں مملکتِ خداداد پاکستان وجود میں آگیا۔ ایک اعداد و شمار کے
مطابق اس زمانے میں کراچی کی آبادی بہت مختصر یعنی صرف 04لاکھ تھی۔اس وقت
کے صدرِ پاکستان نے کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے پیشِ نظر اور کچھ
گم گشتہ ترجیحات کی وجہ سے راولپنڈی سے جُڑے ہوئے علاقے میں بھرپور ترقیاتی
کام کروا کر 1968ءمیں کراچی سے دارالخلافہ کا تاج چھین کر اس نئی جگہ یعنی
اسلام آباد کو پاکستان کا دارالخلافہ بنا دیا۔
1980-90کی دہائی میں کراچی میں ٹریفک کا ایک حادثہ کیا ہواجس میں ایک طالبہ
بشریٰ زیدی گلبہار چورنگی (گولیمار)پر ہلاک ہو گئی ۔(یہ ہمارے کالج لائف کے
زمانے کی بات ہے) کراچی کو جیسے اسی دن سے نظر لگی ہوئی ہے ،پھر کیا تھا
کراچی میں جیسے آگ و خون کا کھیل کھیلا جانے لگا۔ان حالات سے تنگ فیکٹریوں
کے مالکان اپنی انڈسٹری کو بند کرنے لگ گئے اور کچھ نے تو اپنا بوریا بستر
لپیٹ کر دوسرے شہروں کا رُخ کرنا شروع کر دیاتھا۔ روشنیوں کے شہر کراچی کی
سڑکیں سنسان ہو گئی تھیں۔کسی نے پٹھان پنجابی اور مہاجر کی لڑائی لگوانے کی
کوشش کی تو کسی نے اپنی اجڑتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے کیلئے دوسرے حربے
استعمال کئے۔ پتہ نہیں ہمارے پیارے کراچی کو کس کی نظر لگ گئی۔ ہر روز دنگے
، فساد اور کرفیو کا بازار گرم ہو گیا۔ ہر گلی، ہر محلے ، ہر چوراہے پر قتل
و غارت گری ہوتی رہی اور اربابِ اختیار منہ دیکھتے رہے۔ آج جو میرے پیارے
کراچی کا حال ہے اس پر اس شعر میں چھپے بے شمار تشریحات موجود ہیں گر آپ
سمجھنا چاہیں۔
نکلو گے تو ہر موڑ پہ مل جائینگی لاشیں !
ڈھونڈھو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا!
کراچی میں پھر ایک ایسا دور بھی آیا جب ایک جانباز، تعلیم کے زیور سے مالا
مال ، اور کام کرنے کی بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال ”ناظم کراچی“ کی ذمہ
دار کرسی کا چارج سنبھالا،اس کے فوراً بعد کراچی جو ہنگامے ، بلوے اور دیگر
فساد کی وجہ سے تباہ حال تھا اس کی مرمت اور ترقی کی ذمہ داری سنبھالی۔ اور
چار سال تک میرے پیارے کراچی کو بھرپور طریقے سے سنوارا اور یوں کراچی اِ س
وقت دنیا کے 10بہترین بین الاقوامی شہروں میں شامل ہے۔ آج کراچی میں فلائی
اوور ، انڈر پاسیسز، اور وسیع و عریض شاہراہوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔
خوبصورت یوطرنز، اور خوبصورت ترین پارکوں کا انبار ہے ۔ یونیورسیٹیز کی
اچھی خاصی تعداد علمی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ملا رہی ہیں۔آج کراچی میں
”ہمارا کراچی فیسٹیول“ بھی ہر سال منایا جاتا ہے، کرکٹ کے شیدایوں کیلئے
ٹورنامنٹ بھی منعقد ہو رہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ عفریت کا عنصر بھی
پہلے سے کہیں زیادہ غالب ہے۔اسٹریٹ کرائمز، چوری چکاری، اغوا برائے تاوان،
اور ٹارگٹ کلنگ بھی اپنے حد وںکو چُھو رہی ہے۔ انسان کی کوئی قدر و قیمت
نہیں ہے۔ صبح اپنے اپنے کام پر جانے والوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ شام کو
اپنے بچوں کے پاس واپس صحیح سلامت پہنچے گا یا نہیں۔ بجلی کا نہ ختم ہونے
والی لوڈ شیڈنگ اپنے پورے عروج پر ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ اپنی جگہ برقرار
ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں بھی خلل واقع ہوا ہے۔ اور
اچھے خاصے علاقے میں پانی کی سپلائی متاثر ہے اور لوگ بمعہ اپنے بچوں کے
گاہے بگاہے ڈبے اٹھائے پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں۔
کراچی میں ایک دور ایسا بھی آیا جب یہاں برطانوی طرز کے بلدیاتی طریقہ
کارکو رائج کیا گیا تھا جو کافی کامیاب رہا تھا ، گو کہ یہ کارنامہ فوجی
حکومت کا تھا اس لئے سیاسی مدبران اس نظام کو قبول نہیں کر پا رہے ۔ مگر
میری یہ درخواست ہے کہ کوئی بھی طریقہ کار چاہے کوئی بھی رائج کرے اگر وہ
عوامی مفاد میں ہے تو اسے جاری رکھا جانا چاہیئے۔ اس نظام سے ایک عام آدمی
کو حقیقتاً اس کے دروازے پر سہولیات میسر تھیں۔ کئی سال ہو گئے اس سسٹم کو
ختم کئے ہوئے مگر آج تک بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے گئے اس کی یہی وجہ ہے
کہ کون سا نظام لایا جائے۔ اور کون سا ختم کیا جائے۔ ہونا یہ چاہیئے کہ جس
نظام میں عوام کا فائدہ ہو اسے نافذ العمل ہونا چاہیئے ۔ معمولی سی بات ہے
کہ اگر کسی کو کوئی فارم میں تصدیق کی ضرورت ہوتی تھی تو اس کے اپنے علاقے
میں ناظم یا نائب ناظم موجود ہوتا تھا اور وہ یہ کام باآسانی شام کو ان کے
آفس جاکر کروا لیتا تھا مگر آج اس ادنیٰ کام کیلئے کوسوں دور تک جانا پڑتا
ہے، اور یوں اسے اپنے آفس یا ملازمت سے ایک دن کی چھٹی لینا بھی ناگزیر ہو
جاتا ہے۔ تو پھر سوچیئے کہ اگر کسی کو کوئی بڑا کام پڑ جائے تو وہ کہاں تک
کامیاب ہوگا۔
پیارے کراچی! کس کس محفل کا ذکر کروں؟ کون کون سے مشاعرے کو یاد دلاﺅں؟ وہ
پرانی راتیں جب اندھیرے میں آسمان پر چاند کی روشنی پھیلی ہو اور لوگ گلی
میں چارپائی ڈال کر بے خوف و خطرسو جایا کرتے تھے ،یادوں کا ایک بے کراں
سمندر ہے جو اس وقت میرے سینے میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔ اردو شعر و ادب کی
جو تم نے خدمت اور آبیاری کی وہ عرصہ دراز تک یاد رکھی جائیں گی۔ زندگی بھر
تم نے اس پورے ملک کے لوگوں کو اپنے سینے میں جگہ دی اور سب کو خوش کرنے کی
کوشش کی اور کامیاب بھی رہے یہی وجہ ہے میرے کراچی کہ تم دنیا بھر میں
مشہور ہو۔اتنا کچھ سہنے کے بعد بھی تم نے اپنی دائمی مسکراہٹ برقرار رکھی۔
اور اس کا بھی میں چشمِ دید گواہ ہوں کہ تم نے اپنی گود میں بسنے والے ہر
ذی شعور کیلئے رزق کا، ترقی کا اور شادمانیوں کا دروازہ واہ کئے رکھا۔
ہماری دعا ہے کہ تم اس سے بھی کہیں زیادہ ترقی کرو۔ کچھ تبدیلوں کے ساتھ اس
شعر کا ذکر کرتے ہوئے کہ تمہاری خوشی، شادمانی، کامرانی کا دور واپس مل
جائے، لوڈ شیڈنگ ، گیس کا ناغہ، اور نہ جانے کیا کیا ، بس اتنا کہ وہ سب
کچھ تمہاری گود میں واپس آ رہے جس کی تمہاری گود میں بسنے والے لوگ متمنی
ہیں۔
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آسماں تیری زمیں پر شبنم افشانی کرے
اجازت:( تمہارا اپنا وابستہ قدیم: محمد جاوید اقبال صدیقی) |