عربی ادب سے ماخوذ کچھ واقعات

تو آزاد ہے
ایک مالدار بخیل نے اپنے خادم سے کہا: کھانا لااور دروازہ بند کر‘‘
خادم:’’ اے میرے سردار! آپ غلط کہہ رہے ہیں‘‘
سردار:’’ وہ کیوں ؟‘‘
خادم:’’ آپ کو یوں حکم دینا چاہئے تھا’’دروازہ بند کر اور کھانا لا‘‘۔
سردار:’’ جا! تو اللہ کے لئے آزاد ہے ، کیونکہ تجھے اہم امور کی شناخت ہو گئی ہے‘‘۔﴿العربی: تشرین/۲، ۵۸۹۱﴾

بدو اور مہدی
عباسی خلیفہ مہدی شکارکے لئے نکلا، دوران شکار اس کا گھوڑا بدک کر ایک بدو کے خیمے میں جا گھسا، مہدی نے کہا:’’ بدو! میری مہمانی کے لئے کچھ ہے؟‘‘ بدو نے جو کی روٹی پیش کی،وہ کھا گیا، پھر بدو نے کچھ دودھ دیا تو وہ بھی پی گیا، پھر چمڑے کے برتن میں اسے نبیذ﴿ شیرئہ کھجور﴾ پیش کیا تو وہ اسے بھی پی گیا، جب سب کھا پی چکا تو بدو سے کہنے لگا.
مہدی:’’جانتے ہو میں کون ہوں؟‘‘
بدو:’’نہیں‘‘
مہدی: ’’میں امیر المومنین کا خصوصی خادم ہوں‘‘
بدو:’’اللہ تجھے تیرے عہدے میں برکت دے‘‘ بد و نے اسے دوسرا جام پلایا
مہدی:﴿تھوڑی دیر کے بعد﴾’’بدو! جانتے ہومیں کون ہوں؟‘‘
بدو :’’ابھی تو آپ نے بتایا ہے کہ آپ امیر المومنین﴿ خلیفہ وقت﴾ کے خصوصی خادم ہیں۔‘‘
مہدی: نہیں، میں تو امیر المومنین کا ساربان ہوں‘‘۔
بدو: ’’خدا کرے آپ کے شہر سر سبز و شاداب ہوں، آپ کی مرادیں پوری ہوں‘‘ یہ کہہ کر اس نے مہدی کو تیسرا جام پلایا، مہدی جب پی چکا تو اس نے پھر کہا:
مہدی:’’جانتے ہو میں کون ہوں؟‘‘
بدو: ’’آپ نے ابھی بتایا ہے کہ آپ خلیفۂ وقت کے ساربان ہیں‘‘۔
مہدی:’’نہیں، میں خود امیرالمومنین ہوں‘‘۔
بدونے یہ سنتے ہی چمڑے کا پیالہ اپنی جگہ رکھا اور کہا:’’ دفع ہوجا! اگر میں نے تجھے چوتھا جام پلایا تو تونبوت کا دعویٰ کر دے گا کہ اللہ کا رسول ہے‘‘
یہ سن کر مہدی اس قدر ہنسا کہ اس پر بیہوشی کی سی کیفیت طاری ہو گئی، تھوڑی دیر کے بعد مہدی کے ہمراہیوں اور شہسواروں نے خیمہ گھیرے میں لے لیا،بڑے بڑے امرائ و شرفائ خیمے میں داخل ہوئے، یہ منظر دیکھ کر خوف کے مارے بدو کا رنگ فق ہو گیا، مہدی نے کہا:’’گھبرانے کی ضرورت نہیں‘‘، پھر اس نے بدو کے لئے لباس اور بڑے انعام کا فرمان جاری کیا۔﴿الا بشیھی: المستطرف، ۲ / ۳ ۳۲﴾

مرغیوں کی بندر بانٹ
ایک دیہاتی کسی شہری کے ہاں مہمان ٹھہرا، شہری کے پاس بہت سی مرغیاں تھیں اور گھر میں اس کی بیوی ، دوبیٹے اور دوبیٹیاں تھیں، شہری کا کہنا ہے کہ میں نے بیوی سے کہا:’’ آج آگ پہ مرغی بھونو اور کھانے میں ہمیں پیش کرو، جب سب مل کر بیٹھیں گے تو مرغی دیہاتی کی طرف بڑھا کر بولیں گے اسے ہمارے درمیان تقسیم کردو،اس سے ہم اس کی ہنسی اُڑائیں گے‘‘ جب مرغی تیار ہوگئی اور سب مل کر بیٹھ گئے تو میں نے دیہاتی کو مرغی تقسیم کرنے کی پیشکش کی ، دیہاتی نے کہا:’’ میں صحیح تقسیم نہیں کرسکتا، لیکن اگر تم میری تقسیم پر ہی مصر ہو تو لائو! میں تقسیم کر دیتا ہوں‘‘ ہم نے کہا:’’ ہم خوش ہیں‘‘ دیہاتی نے مرغی کا سرا لگ کیا اور یہ کہتے ہوئے مجھے دیا:’’الراس للرئیس‘‘سر سر دار کو ملنا چاہئے۔
پھر دو بازو الگ کئے اور کہا:’’ یہ دوبیٹوں کے ہیں‘‘پھر مرغی کی دوٹانگیں الگ کیں اور کہا:’’یہ بیٹیوں کی ہیں‘‘ پھر اس کی دم کاٹی اور کہا:’’العجزللعجوز‘‘پچھلا حصہ﴿سرین﴾ بڑھیا کے لئے ہے۔پھر کہا:’’ الزور للزائر‘‘ سینے کے درمیان کا بالائی حصہ مہمان کا ہے۔
جب اگلا دن ہوا تو میں نے بیوی سے کہا: ’’آج پا نچ مرغیاں بھونو‘‘جب کھانا لگ گیا تو میں نے دیہاتی سے کہا: اسے تقسیم کر دو‘‘ اس نے کہا:’’جفت جفت یا طاق طاق؟‘‘ میں نے کہا:’’ طاق تقسیم کرو‘‘ اس نے کہا:’’تم اور تمہاری بیوی اور ایک مرغی تین ہوگئے،یہ کہہ کر ایک مرغی ہماری طرف بڑھادی پھر کہا:’’تمہارے دوبیٹے اور ایک مرغی تین ہو گئے،ایک مرغی ان کی طرف بڑھادی،اور کہا:’’تمہاری دو بیٹیاں اور ایک مرغی تین ہو گئے،پھر کہا:میں اور دومرغیاں تین ہوگئے‘‘ یہ کہہ کردو مرغیاں اپنے پاس رکھ لیں،ہم بیٹھے اس کی مرغیوں کو گھورنے لگے، کہنے لگا، ’’شاید تمہیں میری طاق تقسیم پسند نہیں آئی، ہم نے کہا: آپ انہیں جفت جفت تقسیم کریں، اس نے مرغیاں سب سے لے کر اپنے قبضے میں کیں اور جفت تقسیم کرنے لگا:’’آپ اور آپ کے دو بیٹے اور ایک مرغی کل چار ہو گئے‘‘ یہ کہہ کر ایک مرغی ہم تین باپ بیٹوں کی طرف پھینک دی، پھر کہا:’’ بڑھیا، اس کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی کل چار ہو گئے‘‘ ایک مرغی ان کی طرف بھی اچھال دی اور کہا:’’میں اور تین مرغیاں کل چار ہو گئے‘‘ اور تین مرغیاں خود سمیٹ لیں، تھوڑی دیر کے بعد سر آسمان کی طرف اُٹھاکرکہنے لگا:الحمد للّٰہ، انت فھمتنیھا
اے اللہ! تیرا شکر ہے، آپ نے مجھے مرغیاں تقسیم کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔﴿ابن الجوزی: اخبارالظراف:ص ۷۶﴾
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155796 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More