"ایک ایسا آستانہ جہاں ہر وقت
فضائیں ذکر الٰہی سے گونجتی ہیں "
( تحریر محمد شرافت علی عامر)
خانقاہیں ، درگاہیں ، دربار ، آستانے اولیاءکرام کی آخری آرام گاہیں ہیں ۔
یہ درگاہیں خلقِ خدا کے لئے قلبی سکون اور روحانی تسکین کے مراکز ہیں۔
اولیاءکرام جن کی زندگیاں ریاضتوں ، مشقتوں اور مجاہدوں سے معمور رہیں اور
جو خود بنفسہ ہر وقت رضائے الٰہی کے حصول اور احترام انسانیت پر عمل پیرا
رہنے کا عملی نمونہ رہے انہی کی برکتوں سے یہ آستانے اور درگاہیں
زندہءجاوید ہیں اور عقید تمند وں کے لئے
روحانیت کی تعلیم کی بہترین تربیت گاہیں ہیں۔
حدیث مبارکہ ہے "افضل الذکر لاا لہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ" جس کا مفہوم ہے
کہ ذاکرین کے لئے ذکروں میں بہترین ذکر "لاا لہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ" ہے
اس حدیث مبارکہ سے اذکار میں سے بہترین ذکر الٰہی کی افضلیت آشکار ہوتی ہے
۔
دربار عالیہ گھمکول شریف، کوہاٹ ایک ایسی درگاہ، ایک ایسا آستانہ ہے جہاں
ہر وقت"افضل الذکر لاا لہ اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ" کا نشاط انگیز ورد جاری رہتا
ہے۔ اس آستانے کے درو دیوار ، وہاں کی فضائیں ہر وقت اللہ کے محبوب صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پسندیدہ ذکر "لاا لہ الا اللہ" سے گونجتی رہتی ہیں۔
اس آستانے کا یہی ماحول،یہی روایت اس دربار کو دیگر مزارات اور درباروں سے
منفرد و ممتاز کرتی ہے -
دربارِ عالیہ نقشبندیہ گھمکول شریف ، کوہاٹ شہر کے نواح میں پہاڑوں کے
درمیان آباد ایک ایسا آستانہ ہے جہاں ہر وقت فضا پرسکون اور خاموش رہتی ہے
۔ اس خاموشی میں جب دربار عالیہ پر مامور ذکر خوان اپنے مخصوص انداز میں ،
جذب و مستی میں ڈوب کر انتہائی پر کیف انداز میں" لاا لہ الا اللہ" پڑھتا
ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر طرف اللہ رب العالمین کا ہی جلوہ ہے
اور یہ خاموش ، سر اٹھائے کھڑے پہاڑ ، سبک رفتار فضائیں ، چمکدار دن کی
روشنی اور اجلی راتوں کی چاندنی سب ذکر خدا کی برکتیں سمیٹ رہی ہیں ۔
اگر مزارات کے موجودہ ماحول اور وہاں پر رائج روایات کا تنقیدی جائزہ لیں
تو اس بات کا اندازاہ ہو گا کہ انوار و تجلیات کے مراکز ان مزارات پر ایسی
روایات عام ہو چکی ہیں جو اصول دین اور تعلیمات اسلامی کے منافی ہیں جن کی
وجہ سے یہ مزارات اور وہاں کا ماحول خاصا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو
تبلیغ حق اور راہ حق کی نشاندہی کے منافی ہیں ۔ در حقیقت یہ مروجہ روایات
ان تمام مزارات اور صاحب مزارات کی حقیقی تعلیم و تبلیغ کے برعکس ہیں ۔ درس
مساوات ، احترام انسانیت، تزکیہ نفس اور رجوع الی اللہ ہی اولیاءکرام کی ز
ندگی کا مقصد و نصب العین رہا ہے اور ان اولیاءکرام کے وصال کے بعد بھی ان
کی درگاہیں انہی تعلیمات کا منبہ و مرکز رہی ہیں تا ہم نئی اور فرسودہ
روایات کے رائج ہو جانے سے ان مزارات سے رشد و ہدایات کا جاری یہ نظام خاصا
متاثر ہو اہے جبکہ ان تما م حالات کے بر عکس دربارِ عالیہ گھمکول شریف ایک
ایسا آستانہ ہے جو ان تما م فرسودہ اور غیر اسلامی روایات سے پاک ہے۔ دربار
عالیہ کا سبز گنبد جو کہ گنبد خضریٰ سے مماثل ہے اس دربار کی دربار رسالت
مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت اور صاحب مزار کی محبوب خدا صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے دیوانہ وار محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس دربار عالیہ میں ہر
وقت "لاا لہ الا اللہ" کے ذکر سے گونجتا ہوا ماحول اللہ عز و جل کی ربوبیت
، اس کی بزرگی اور وحدانیت کا اقرار و اعتراف کرتا نظر آتا ہے۔ دربار عالیہ
پر مامور خدام سفید لباس ( جو کہ تقویٰ کی نشانی ہے ) میں ملبوس داڑھی
مبارک چہروں پر سجائے انتہائی اہتمام کے ساتھ اپنے روزانہ کے معمولات اور
امور زندگی انجام دینے کے ساتھ ساتھ ذکر خوانی کرتے نظر آتے ہیں۔ دربار
عالیہ کا کشادہ صحن صاحب مزار کی وسعت قلبی اور وہاں پر ہر وقت جاری لنگر
اس بات کا ثبوت ہے کہ دربار عالیہ پر آنے والے زائرین اس دربار کے لئے کس
قدر معزز ہیں جن کی ضیافت و اکرام دربار عالیہ کا خاصہ ہے۔ دربار عالیہ کا
نظام اور صاحب مزار کی اپنی حیات خلق خدا کی رہنمائی اور رشد و ہدایت اور
راہ حق کی جستجو کرنے والوں کے لئے ہمیشہ ممدود و معاون رہی ہیں۔
صاحب مزار ، حضرت خواجہ زندئہ پیر علیہ الرحمتہ الرحمٰن کسی تعارف کے محتاج
نہیں ، آپ ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے کوہاٹ کے نواح میں واقع ان پہاڑوں کے
درمیان قیام اور عبادت و ریاضت سے یہ آستانہ آباد کیا جو آج گھمکول شریف کے
نام سے مشہور ہے اور ہزاروں لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہے۔
حضر ت خواجہ زندئہ پیر علیہ الرحمتہ الرحمٰن کا اصل نام حضرت شاہ تھا مگر
آپ مختلف وجوہات کی وجہ سے خواجہ زندئہ پیر کے نام سے مشہور ہوئے۔ صوفی رب
نواز صاحب اپنی تصنیف "کنز العرفان فی الشانِ حضرت خواجہ زندئہ پیر علیہ
الرحمتہ الرحمٰن"میں آپ علیہ الرحمتہ الرحمٰن کا سن پیدائش 1912 بتاتے ہیں،
حضرت خواجہ زندئہ پیر علیہ الرحمتہ الرحمٰن حضرت پیر غلام رسول کے ہاں
کوہاٹ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد بھی ایک صاحب حال بزرگ تھے۔
حضرت خواجہ زندئہ پیر علیہ الرحمتہ الرحمٰن کی طبیعت اوائل عمری سے ہی
ریاضت و عبادت کی طرف مائل تھی، نفلی روزے کا اہتمام اور قیام الیل شروع سے
ہی آپ کے معمولات میں تھے ۔ ذکر خدا کی کثرت اور محبوب خدا صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت نے آپ کو تصوف کی لذت اور معرفت کے مدارج سے
آشکار کیا جس میں تزکیہءنفس کی آمیزش سے آپ عرفان کی منزلیں طے کرتے ہوئے
اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔
خاصان خدا اور اولیاءکرام کو اللہ کے خزانوں سے علم لدنی نصیب ہوتی ہے ۔
وہی علم لدنی جو اسرار الیہیہ کا سر چشمہ ہوتا ہے۔ عالم کی نظر حروف وسطور
پر ہوتی ہے جب کہ فقیر ان حروف و سطور کے مابین چھپی حقیقت کو دیکھ رہا
ہوتا ہے۔ جس چیز کو عالم ظاہری آنکھ سے دیکھ رہا ہوتا ہے فقیر اس چیز کو
بہت پہلے دل کی آنکھ سے دیکھ چکا ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ زندئہ پیر علیہ الرحمتہ الرحمٰن کی طلب ِ طریقت کی راہ میں اپنے
وقت کے ممتاز صو فیائے عظام سے بالخصوص پیر سید جماعت علی شاہ صاحب اورحضرت
پیر حافظ محمد عبدالکریم سے شرف ملاقات رہا ۔ تاہم بے قرار دل کو طلب حق کی
راہ کے حصول میں قرار نہیں مل رہا تھا ۔ چنانچہ حضرت امام علی الحق شہید
المعروف امام صاحب (سیالکوٹ) میں جا کر مراقب ہوئے جہاں سے آپ کو موہڑہ
شریف (مری) میں جانے کااشارہ ہوا ۔ جہاں آپ نے حضرت باوا قاسم سرکار رحمتہ
اللہ علیہ کے ہاتھ پر شرف ِ بیعت حاصل کیا اور ان کے آخری خلیفہ مجاز قرار
پائے۔
گھمکول شریف کی آباد کاری کا معاملہ بھی ا نتہائی عجیب اور پر کیف ہے۔
1952میں جب حضرت خواجہ زندئہ پیر علیہ الرحمتہ الرحمٰن نے پہلی بار حج بیت
اللہ کی سعادت حاصل کی تو فریضئہ حج کی ادائیگی کے بعد آپ مدینہ منورہ میں
بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری دی جہاں آپ نے گنبد
خضریٰ کے سامنے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درخواست پیش کی کہ
"سرکار میرے لئے کیا حکم ہے" چنانچہ گنبد خضریٰ سے حبیب خدا صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے دست رحمت کشا کا اشارہ ہوتا ہے کہ ان پہاڑوں کی طرف دیکھیں ،
اللہ کریم کی قدرت سے حائل تما م حجابات اٹھا لئے جاتے ہیں اور آ پ دیکھتے
ہیں کہ پہاڑی علاقے میں ایک حجرہ مبارک پر "زندہ پیر اور دربار عالیہ
گھمکول شریف "لکھا ہو اہے۔ چنانچہ آپ بمطابق حکم انہی پہاڑوں میںپہنچ کر
اسی غار میں قیام پذیر ہوتے ہیں اور دربار عالیہ گھمکول شریف کی آباد کاری
کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
دربار عالیہ گھمکول شریف ایک ایسا باوقار آستانہ ہے جس کی آباد کاری خود
رسا لتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت و حکم اور راہنمائی سے ہوئی
۔ اس لئے اس دربار کے درو دیوار اور فضائیں ہر وقت "افضل الذکر لاا لہ الا
اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ" کے ذکر سے گونجتی رہتی ہیں گویا کہ یہ مزار ایک ECHOING
SHRINEہو۔ جہاں دنیا کے طول و عرض سے عقیدت مند شریک ہوتے ہیں ۔ حضر ت
خواجہ زندئہ پیر علیہ الرحمتہ الرحمٰن کے عقیدت مند دنیا کے ہر کونے میں
موجود ہیں اکثر ممالک میں آپ کا عرس مبارک منایا جاتا ہے۔
حضر ت خواجہ زندئہ پیر علیہ الرحمتہ الرحمٰن راہ حق کی شمع روشن کر کے
3ذوالحجہ 1419ھ بمطابق 22مارچ1999ءکو اس دار فانی سے رخصت ہوئے ۔ |