اصول دین: توحید،رسالت، آخرت۔ قسط3

تحریر: حافظ محمود حسن

توحید کی اقسام
عقیدۂ توحید کی اہمیت جان لینے کے بعد اب عقیدۂ توحید کی حقیقت اور اس کی ضروری تفصیلات ذکر کی جاتی ہیں۔ حضرات اہل علم نے توحید کی مختلف اقسام بیان کی ہیں اور مقصد ان سب کا توحید کی حقیقت دلوں میں بٹھانا ہے اس لئے ان حضرات نے قرآن و سنت میں غور کرکے اس موضوع پر جس قدر حقائق معلوم ہوسکتے ہیں ان کو جمع کیا ہے تاکہ اس اہم ترین عقیدے سے متعلق کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے۔ عام طور سے توحید کی تین اقسام بیان کی جاتی ہیں ﴿۱﴾توحید فی الذات ﴿۲﴾توحید فی الصفات ﴿۳﴾ توحید فی الافعال

توحید فی الذات
توحید فی الذات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور اپنی ہستی میں یکتا و تنہا ہے، دوسرا کوئی اس کی ہستی میں شریک نہیں ہے۔ جیسا کہ عیسائیوں نے ایک کے بجائے تثلیث کا عقیدہ بنایا ہوا ہے کہ الٰہ تین ہیں، پھر وہ تین الٰہ کون سے ہیں؟ اس میں ان کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ، حضرت جبرائیل اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام، ان تینوں کا مجموعہ اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ، حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا مجموعہ ان کا خدا اور الٰہ ہے۔ معاذ اللہ

قرآن مجید میں عیسائیوں کے اس باطل عقیدے کی صاف تردید کی گئی ہے اور بتلایا گیا ہے کہ جو ذات ’’الٰہ‘‘ یعنی معبود برحق ہے وہ ایک ہی ہے اور جو ایک سے زائد مانتے ہیں وہ کافر ہیں اور ہدایت سے محروم ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لقد کفر الذین قالوا ان اللّٰہ ثالث ثلاثۃ و مامن الٰہ الا الٰہ واحد و ان لم ینتہو عما یقولون لیمسن الذین کفروا منہم عذاب الیم
ترجمہ: بلاشبہ وہ کافر ہوئے جنہوں نے کہا: اللہ تین معبودوں میں سے ایک معبود ہے حالانکہ ایک معبود﴿اللہ﴾ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اگر یہ لوگ اس بات سے باز نہ آئے جو وہ کہتے ہیں تو ضرور ضرور ان لوگوں کو جو ان میں سے کفر پر جمے رہیں گے دردناک عذاب پہنچ جائے گا۔ ﴿ ما ئدہ:۳۷﴾

دیکھیں!اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کتنی سختی سے ان لوگوں کو ڈرایا ہے اور ان کی مذمت کی ہے جو ایک الٰہ کی بجائے متعدد خدائوں کے قائل ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ نے آغازآیت میں ہی کافر قرار دیا ہے اور ساتھ میں تنبیہ کردی ہے کہ جو اس باطل عقیدے پر جما رہے گا وہ دردناک عذاب کا مستحق ہے۔ الٰہ یعنی معبود ذات تو ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعا لیٰ کی ذات ہے۔

اس سے اگلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو عقیدۂ توحید فی الذات سے کٹ کر شرک فی الذات میں مبتلا ہوگئے تھے، انہیں ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
افلا یتوبون الی اللّٰہ ویستغفرونہ، واللّٰہ غفور رحیم﴿مائدہ:۴۷﴾

کیا وہ لوگ اللہ کے حضور توبہ نہیں کرتے اور اس سے مغفرت نہیں چاہتے؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
یعنی اگر اسی باطل شرکیہ عقیدے پر قائم رہے تو پھر نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت ملے گی اور نہ اس کی رحمت نصیب ہوگی۔ اس لئے ابھی دنیا دار الامتحان میں موجود ہو، ابھی آخری وقت نہیں آیا لہٰذا یہ شرکیہ عقیدہ چھوڑو اور اللہ تعالیٰ کی توحید خالص کا اقرار کرکے اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرو، اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت اور تم پر رحمت فرمائے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے ہی ایمان والوں کے لئے غفور رحیم ہے۔

اس آیت کے بعد ایک آیت چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے اور محبوب ترین نبی جناب محمد رسول اللہ کی زبان مبارک سے ان کافروں کو کہلوایا:قل اتعبدون من دون اللّٰہ مالا یملک لکم ضرا و لا نفعا واللّٰہ ہو السمیع العلیم ﴿مائدہ:۵۷﴾
آپ فرما دیجئے! کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، اور اللہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔

اس آیت میں نبی کریم کی زبانی ان عیسائیوں کو خطاب ہے جو یا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہی معبود مانتے تھے یا پھر تین شخصیات کو ایک معبود قرار دیتے تھے، البتہ اس آیت کے الفاظ میں تمام مشرکین کو خطاب ہے کہ اے عیسائیو اور اے اللہ کی عبادت میں شریک کرنے والو! حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا ان کی والدہ ہوں یا حضرت جبرائیل ہوں یا ان کے علاوہ مخلوق میں سے کوئی شخصیت ہو، نبی ہو یا ولی ہو، کوئی بھی کسی کے لئے نفع و نقصان کا مالک نہیں، نفع و ضرر اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ و قدرت میں ہے۔ پھر تم اس عظیم معبود ذات کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ جو تمہارے نفع و ضرر کے مالک نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا، تمہیں رزق دیا، تمہاری زندگی اور موت کا اختیار اس کے پاس ہے اور تم عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا یا خود معبود سمجھ کر ان کی عبادت کرتے ہو وہ تو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں پھر بھلا وہ تمہارے معبود کیسے ہوسکتے ہیں۔بلکہ عبادت کے لائق صرف وہ ہے جس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے اور جو ہر چیز پر قادر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الملک کے آغاز میں فرمایا:تبارک الذی بیدہ الملک و ہو علی کل شیٔ قدیر ﴿الملک:۱﴾
’’بڑی بابرکت وہ ذات ہے جس کے قبضے میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

پس تم اسی کی خالص عبادت کرو، نہ کہ اس کو چھوڑ کر اس کی عاجز مخلوق کی جو تمہارے نفع و ضرر کے مالک نہیں ہیں۔
اس آیت میں ایک جملہ ہے:
ومالا یملک لکم ضرا و لانفعا﴿المائدہ﴾
جو تمہارے نفع و ضرر کے مالک نہیں

حضرات مفسرین نے اس جملے کا مصداق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو قرار دیا ہے کیونکہ عیسائی ان حضرات کو معبود قرار دیتے تھے۔ اب اہل السنت والجماعت علمائ حق اس قسم کی آیات کی روشنی میں جب یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے سوائ خواہ کوئی نبی ہو یا ولی، قطب ہو یا غوث یا ان کے نام کا تراشا ہوا بت ہو یا قبر ہو، کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ کے سوائ کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں کہ اس کی لالچ میں ان کی عبادت کی جائے تو اہل بدعت جو شرکیہ افعال میں مگن ہیں اور ان سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں فوراً یہ شور مچاتے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ بتوں والی آیتوں کو﴿معاذ اللہ﴾ انبیائ علیہم السلام اور اولیائ عظام پر فٹ کرتے ہیں اور اس طرح سادہ عوام کو ورغلانے کے لئے واویلا کرتے ہیں لیکن اس آیت سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ علمائ حق قطعاً بتوں والی آیات کو انبیائ و اولیائ پر فٹ نہیں کرتے بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ اس کی عبادت میں اور نفع و نقصان کے مالک ہونے میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے خواہ کوئی نبی ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ تھا اور ظاہر ہے کہ جب یہ عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق درست نہیں تو کسی اور نبی کے متعلق کیسے درست ہوگا اور نہ ہی کسی ولی کے متعلق درست ہوگا۔

عقیدۂ توحید اور سورۃ الاخلاص
توحید فی الذات کو دلوں میں راسخ کرنے کے لئے سورۃ الاخلاص کی زیادہ تلاوت کرنا اور اس کے ترجمہ و تفسیر میں غور و فکر کرنا بہت مفید ہے بلکہ اگر اچھی طرح غور کیا جائے تو ہر قسم کی توحید دلوں میں پختہ ہو جائے اور ہر شرک کی جڑ کٹ جائے۔ لیجئے سورۃ الاخلاص کا ترجمہ و تفسیر ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ سے ملاحظہ کیجئے!
قل ہو اللّٰہ احد
کہہ دو بات یہ ہے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے۔

یہ قرآن کریم کا لفظ ’’احد‘‘ کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صرف ’’ایک‘‘ کا لفظ اس کے پورے معنیٰ ظاہر نہیں کرتا۔ ’’ہر لحاظ سے ایک‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات اس طرح ایک ہے کہ اس کے نہ اجزائ ہیں، نہ حصے ہیں اور نہ اس کی صفات کسی اور میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بھی ایک ہے اور اپنی صفات میں بھی۔
اللّٰہ الصمد
اللہ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔

یہ قرآنِ کریم کے لفظ ’’الصمد‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا مفہوم بھی اردو کے کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ عربی میں ’’الصمد‘‘ اس کو کہتے ہیں جس سے سب لوگ اپنی مشکلات میں مدد لینے کے لئے رجوع کرتے ہوں اور سب اس کے محتاج ہوں اور وہ خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ عام طور سے اختصار کے پیشِ نظر اس لفظ کا ترجمہ ’’بے نیاز‘‘ کیا جاتا ہے لیکن وہ اس کے صرف ایک پہلو کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن یہ پہلو اس میں نہیں آتا کہ سب اس کے محتاج ہیں۔ اس لئے یہاں ایک لفظ سے ترجمہ کرنے کے بجائے اس کا پورا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔
لم یلد و لم یولد
نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔

یہ ان لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔
ولم یکن لہ کفواً احد
اور اس کے جوڑ کا کوئی بھی نہیں۔
یعنی کوئی نہیں ہے جو کسی معاملے میں اس کی برابری یا ہمسری کرسکے۔

اس سورت کی ان چاروں مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔ پہلی آیت میں ان کی تردید ہے جو ایک سے زیادہ خدائوں کے قائل ہیں۔ دوسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا، کارساز یا حاجت روا قرار دیتے ہیں۔ تیسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد مانتے ہیں اور چوتھی آیت میں ان لوگوں کا رد کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں، مثلاً بعض مجوسیوں کا کہنا یہ تھا کہ روشنی کا خالق کوئی اور ہے اور اندھیرے کا خالق کوئی اور، یا بھلائی پیدا کرنے والا اور ہے اور برائی پیدا کرنے والا کوئی اور۔ اس طرح اس مختصر سورت نے شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دے کر خالص توحید ثابت کی ہے۔ اسی لئے اس سورت کو سورۂ اخلاص کہا جاتا ہے اور ایک صحیح حدیث میں اس کو قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین عقیدوں پر زور دیا ہے، توحید، رسالت اور آخرت۔ اور اس سورت نے ان میں سے توحید کے عقیدے کی پوری وضاحت فرمائی ہے۔ اس سورت کی تلاوت کے بھی احادیث میں بہت فضائل آئے ہیں۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372732 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.