خریدوفروخت میں تاجر کا کچھ
زیادہ دینا
بعض علاقوں میں یہ طریقہ بھی رائج ہے کہ تاجر سامان حوالہ کرنے کے بعد اپنی
طرف سے کچھ دیا کرتا ہے،مختلف جگہوں پرا س کو مختلف ناموں سے موسوم کیا
جاتا ہے اس سلسلہ میں تاجر سے مطالبہ کرنا یا زبردستی اس سے لینا جائز نہیں
کیونکہ خرید وفروخت میں آدمی اتنے ہی مال کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے جو باہم
طے پایا ہے، ہاں اگر تاجرخوداپنی طرف سے کچھ دے دے تو مضائقہ نہیں،اس لئے
فقہائ نے اس بات کو درست قرار دیا ہے کہ تاجر بطور خود سودے میں کچھ اضافہ
کر دے:
’’خریدار کے لئے جائز ہے کہ تاجر کے لئے قیمت میں کچھ اضافہ کر دے اور
بیچنے والے کو درست ہے کہ خریدار کے لئے سود ے میں کچھ اضافہ کر دے قیمت
میں کچھ کمی کر د ے ۔ ‘ ‘ ﴿ مختصرالقدوری:ص۱۸باب المرابحہ و ا لتولیہ﴾
فرضی بیع
آج کل’’فرضی بیع‘‘ کی صورت بھی مروّج ہے ،یعنی خریدوفروخت مقصودنہیں ہوتی
البتہ کسی مصلحت سے اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم دونوں نے باہم خرید وفروخت کا
معاملہ کیا ہے، اس صورت میں بیع نہیں ہوتی یعنی خریدار اس شے کا مالک نہیں
ہوتا بلکہ وہ حسب سابق اصل مالک ہی کی ملک میں باقی رہے گی البتہ یہ بات
اسی وقت ثابت ہو سکتی ہے جب یاتودونوں کو اس کااقرارہویااس خفیہ معاہدہ پر
کوئی دوسراشرعی ثبوت موجود ہو۔فقہ کی اصطلاح میں اس طرح کے معاملہ کو’’بیع
تلجیہ‘‘ کہا جاتا ہے:’’تلجیہ ‘‘وہ معاملہ خریدوفروخت ہے جس کو کسی ضرورت کی
بنائ پرکیا جائے جیسا کہ اس کو اس پر مجبور کر دیا گیا ہو، اس کی تین قسمیں
ہیں جن میں سے ایک صورت یہ ہے کہ خود بیع میں یہ بات پیش آئے، اس طرح کہ
ایک آدمی دوسرے آدمی سے کہے میں ظاہر کروں گا کہ میں نے اپنا مکان تم کو
فروخت کر دیا ہے حالانکہ حقیقت میں خریدوفروخت مقصود نہ ہوگی، اس ﴿خفیہ
معاہدہ﴾ پر گواہ بنا لے پھر بہ ظاہر فروخت کرے تو بیع باطل ہو گی۔‘‘﴿الفتاویٰ
الھندیہ: ۳ ، ۱ ۰ ۱ ﴾
تالاب میں مچھلی کی بیع
ہمارے زمانے میں تالاب میں مچھلی کی خر ید و فروخت کا معاملہ کثرت سے رائج
ہے، جس میں بعض دفعہ معاملہ شریعت کے مقررہ اصولوں کے خلاف طے پاتا ہے، اس
لئے ضرورت ہے کہ اس کے احکام اچھی طرح سمجھ لئے جائیں، کسی چیز کو فروخت
کرنے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں: اول یہ کہ جو چیز بیچی جارہی ہو وہ بیچنے
والے کی ملکیت ہو، یہ تو ظاہر ہی ہے، دوسرے یہ کہ اس کی حوالگی اور سپردگی
ممکن ہو اگر وہ فی الحال اس کے حوالے کرنے پر قادر نہ ہو تو بیع درست نہ ہو
گی، مثلاً بھاگے ہوئے جانور یا کسی گم شدہ سامان کو فروخت کیا جائے کہ گو
وہ اپنے اصل مالک ہی کی ملکیت ہے لیکن بروقت اس کو حوالہ کرنے پر قادر نہیں
ہے۔
مچھلی کے سلسلہ میں بھی یہی تفصیل ہے، اگر مچھلی اس شخص کی ملک میں داخل ہے
اور وہ باآسانی اس کے حوالہ کرنے پر قادر بھی ہے تو اس کی خریدوفروخت درست
ہو گی، اگر وہ اس کی سپردگی پر قادر نہ ہو یا ابھی اس کا مالک ہی نہ ہوا ہو
تو خرید و فروخت کا معاملہ جائز نہ ہو گا۔
مچھلی کا مالک بننے کی تین صورتیں ہیں: اول یہ کہ مچھلیوں کی نشوونما کے
لئے اس کو بطور خاص کسی نے تالاب میں رکھا ہو، تو اب اس مچھلی اور اس کی
نسل کا وہی مالک قرار پائے گا، دوسری صورت یہ ہے کہ مچھلی تو اس نے نہ ڈالی
ہو لیکن مچھلیوں کے تالاب میں لانے یا آنے والی مچھلیوں کے واپس نہ جانے کے
لئے اس نے کوئی تدبیر کی ہو، اب اس تالاب یا حوض میں آنے والی مچھلیوں کا
مالک وہی ہو گا، تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مچھلی کا شکار کر کے اسے
اپنے برتن میں محفوظ کر لے، چوتھی صورت جس میں آدمی مچھلی کامالک نہیں
ہوپاتاہے یہ ہے کہ کسی کا تالاب ہو، اس میں ازخود مچھلیاں آجائیں، اس کی
سعی و کوشش کو اس میں کوئی دخل نہ ہو، یہاں محض یہ بات کہ تالاب اس کی زمین
میں واقع ہے اس بات کے لئے کافی نہیں کہ اس کو ان مچھلیوں کا مالک قرار دیا
جائے،چنانچہ فقہائ نے محض اس بات کو کہ پرندہ کسی کے کھیت میں بچہ یا انڈا
دے دے اس بات کے لئے کافی نہیں سمجھا ہے کہ اس زمین کا مالک ان بچوں اور
انڈوں کا بھی مالک ہو بلکہ جو بھی اس بچہ یا انڈا کو اُٹھالے وہی اس کا
مالک ہے:
’’اذاأفرخ طیرفی أرض رجل فھولمن أخذہ، وکذااذا باض فیھا‘‘﴿الھدایہ:۳،۸۸﴾
مچھلی کے بآسانی مقدور التسلیم ہونے کی د و صو ر تیں ہیں: ایک یہ کہ شکار
کے بعد وہ کسی برتن میں محفوظ کر لے، جیسا کہ عام طور پر ہوا کرتا ہے یا
مچھلی کو کسی ایسے چھوٹے گڑھے میں رکھے جس سے نکالنا آسان اور سہل ہو۔
اب ظاہر ہے کہ جن صورتوں میں آدمی مچھلی کا مالک ہی نہ ہو، اس میں تو
خریدوفروخت درست ہی نہیں ہے اور جب مچھلی کا مالک ہو جائے تب بھی اسی وقت
درست ہو گی جب اوپر ذکر کی گئی دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت پائی جائے۔
اوپر جو تفصیلات ذکر کی گئی ہیں، حافظ ابن ہمام(رح) نے ہدایہ کی شرح’’فتح
القدیر‘‘ میں ان کو لکھا ہے اورابن عابدین شامی(رح) نے نقل کیا ہے ،یہاں
بھی عبارت نقل کی جاتی ہے:
’’مچھلی جب گڑھے میں داخل ہو تو یا اس نے اس کو اسی مقصد کے لئے تیا ر کیا
ہو گا یا نہیں، پہلی صورت میں وہ اس کا مالک ہو جائے گا اور کسی کو اس کے
لینے کا حق نہ ہو گا، پھر اگر کسی و سیلہ و ذریعہ کے بغیر اس کا لینا ممکن
ہو تو اس کو فروخت کرنا بھی درست ہوگا، اس لئے کہ وہ ملک میں بھی ہیں اور
اس کی حوالگی بھی ممکن ہے ورنہ درست نہیں ہو گا اس لئے کہ اس کو حوالہ کرنا
ممکن نہیں ہے دوسری صورت میں چونکہ وہ اس کا مالک نہیں بنتا اس لئے اس کی
بیع بھی جائز نہ ہو گی سوائے اس کے کہ گڑھے میں مچھلی داخل ہونے کے بعد وہ
اس کا راستہ بند کردے، اب وہ اس کا مالک ہو جائے گا پھر اگر کسی دشواری کے
بغیر اس کا لینا ممکن ہوتو بیع درست ہو گی ورنہ نہیں اور اگر اس نے گڑھا تو
خود نہیں بنایا لیکن مچھلی لے کر اس میں چھوڑی تو اب بھی اس کا مالک قرار
پائے گا اور اگر کسی دشواری کے بغیر اس کا لینا ممکن ہوتو بیع جائز ہو جائے
گی اس لئے کہ اس کی حوالگی ممکن ہے اور اگر اس کے حوالہ کرنے میں دشواری ہو
تو اب یہاں بھی بیع جائز نہ ہو گی کیونکہ وہ اس کی ملک میں تو ہے لیکن اس
کا حوالہ کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘﴿شامی:۴،۶۰۱﴾
ناموں کی رجسٹریشن
ناموں کے رجسٹریشن کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے نام کو قانوناً
محفوظ کر لیتا ہے ، اب دوسروں کے لئے اس نا م سے فائدہ اٹھانے کی گنجائش
باقی نہیں رہتی، اس کو اصطلاح میں گڈول﴿GOOD WILL (کہا جاتا ہے۔
اس طرح حق محفوظ کرنا درست ہو گا کیونکہ اس سے اپنے مفادات کا تحفظ کیا
جاسکتا ہے، عوام کو دھوکہ دہی سے بچایا جا سکتا ہے،اگر ایسا نہ ہو تو دوسرے
لوگ اس نا م کا استحصال کر کے اس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور عوام کو
دھوکہ بھی دے سکتے ہیں کہ لوگ جس کمپنی کی مصنوعات کو پسند کرتے ہوں اس
کانا م لے کرنقلی اوراس سے کمتر مال ان کو دیا جائے۔
چونکہ اس سے تجارتی منفعت بھی حاصل ہوتی ہے اس لئے اس کی خرید و فروخت بھی
جائز ہوگی، مولانا اشرف علی تھانوی(رح) لکھتے ہیں:
اپنے کاروبار کا کوئی نام رکھنے کا ہر شخص کو حق حاصل ہے لیکن اگر ایک شخص
نے اپنے کاروبار کا نام ’’عطر ستان یا گلشن ادب‘‘ رکھ لیا اور اس سے اس کا
تجارتی مفاد وابستہ ہو گیا تو دوسرے شخص کو وہ نام رکھنے کا حق نہیں رہا
اور جبکہ ایک خاص نا م کے ساتھ مستقبل میںتحصیل مال اورتجارتی منفعت مقصود
ہے تو’’گڈول‘‘ کا معاوضہ لینا جائز ہے۔
روپیہ بھنانے میں بٹہ لے لینا
روپیہ بھنانے میں دونوں فریق کی طرف سے رقم ہوتی ہے۔ البتہ ایک شخص بڑی رقم
کا سکہ یا نوٹ لیتا ہے اوردوسرااسی قیمت کے چھوٹے سکے یانوٹ۔ یہاں نوٹ کا
کاغذ یا سکہ کا وہ معدنی ٹکڑا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کی قانونی قدر و
قیمت اور حیثیت مقصود ہوتی ہے۔ اس لئے فقہ کی اصطلاح میں یہ ’’ثمن‘‘ کی بیع
’’ثمن‘‘ سے ہوئی جس کو ’’بیع صرف‘‘ کہا جاتا ہے۔
بیع صرف میں اصول یہ ہے کہ کسی فریق کی طرف سے کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔اگر
ایک کی طرف سے زیادہ اور دوسرے کی طرف سے کم ہو تو ربا پیدا ہوجائے گا جو
حرام ہے۔ لہٰذا روپے بھناتے ہوئے اس میں سے کچھ بٹہ کاٹ لینا جائز نہیں ہے
اور سود میں داخل ہے۔ |