شریعت کیا کہتی ہے (2)

چٹ فنڈ
اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک خاص رقم متعین ہوتی ہے، چند افراد اس کے ممبر بنتے ہیں، وہ مقررہ تناسب کے مطابق ہر ماہ رقم ادا کرتے ہیں اور مجموعی رقم ہر ماہ قرعہ اندازی یا باہمی اتفاق رائے سے کسی ایک کو دے دی جاتی ہے، مثلاً دو ہزار کی چٹھی ہو، دس آدمی شریک ہوں تو دس ماہ تک ہر شخص دوسو روپے جمع کرے گا اور ہر ماہ کسی ایک کو یکمشت یہ رقم مل جایا کرے گی۔

یہ صورت مباح ہے،اس لئے کہ اس کے نادرست ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے،جو شخص مدت کی تکمیل سے پہلے چٹھی کی رقم حاصل کرتا ہے اس کی حیثیت مقروض کی ہے اور دوسرے ارکان کی قرض دہندہ کی،قرض دینے والااس کو ایک مدت کی مہلت دیتا ہے،اس طرح کہ اس پر کوئی نفع حاصل نہیں کرتا، یہ نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ انسانی ہمدردی اور اسلامی اخلاق کا تقاضا بھی ہے۔

لیکن آج کل چٹ فنڈ کی بعض ایسی صورتیں بھی چل پڑی ہیں جن میں ارکان میں سے کوئی جلد رقم حاصل کرنے کی غرض سے خسارہ بردا شت کر لیتا ہے اور چٹھی کی متعینہ رقم سے کم لے لیتا ہے ، اس طرح اس کے حصہ کی جو رقم بچ رہتی ہے وہ کمیشن کے طور پرتما م شرکائ میں تقسیم ہوجاتی ہے، یہ صورت ناجائز اور سود میں داخل ہے، اس لئے کہ کمیشن کی صورت میں قرض دینے والوں نے اپنے قرض پر نفع اٹھایا اور قرض دے کر مقروض سے فائدہ اُٹھاناناجائز ہے اور ’’ربا‘‘ میں شامل ہے۔
اشیائ ضرور یہ کا نرخ مقرر کرنا اور اس سے زیادہ میں فروخت کرنا

مارکیٹ میں اشیائ ضروریہ کی خریداری کو آ سا ن بنانے اور قیمت پر کنٹرول قائم رکھنے کے لئے حکومت کی جانب سے بعض اوقات اشیائ کا نرخ متعین کر دیا جاتا ہے اور دوکاندار اسی قیمت پر سا ما ن فروخت کرنے کے پابند ہوتے ہیں، حکومت کے اس طرح کے اقدام کو فقہائ نے خصوصی حا لا ت میں جائز قرار دیا ہے، چنانچہ حصکفی(رح) کا بیان ہے:
’’حاکم اشیائ کا نرخ متعین نہیںکرے گا سوائے اس کے کہ تاجر حضرات قیمت میں غیر معمولی اضافہ کردیں۔‘‘﴿درمختار:۵،۶۵۶﴾

تاجروں کے لئے اس متعینہ نرخ کی پابندی واجب ہے اور اس سے زیادہ قیمت لینا مکروہ ہے، اسی لئے فقہائ نے عدول حکمی کرنے والوں کی سرزنش اور قید وغیرہ کی اجازت دی ہے ، تاہم اگر اس نے زیادہ قیمت میںسامان فروخت کیا تو یہ رقم اس کے لئے جائز و حلال ہو گی، عالمگیری میں ہے:
’’پس اگر حکومت کی طرف سے متعین نرخ سے بڑھ کر نان بائی نے قیمت لے لی تو بھی خرید وفروخت جائز ہوگی۔‘‘﴿ھندیہ:۳،۳۰۱﴾

بیعانہ کی رقم کا حکم
خرید وفروخت کا معاملہ طے ہونے کے بعد بطورسندووثیقہ کے خریداربیچنے والے کومتعینہ قیمت کا ایک حصہ دے دیتا ہے جسے عرف میں ’’بیعانہ‘‘ کہا جاتا ہے، فقہ کی اصطلاحی زبان میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مشتری کی جانب سے ثمن کے بعض حصہ پر قبضہ دلانا ہے، اس میں کچھ حرج نہیں۔

لیکن اس کی مروجہ صورت کہ اگر بعد کو خریدار نے نہ لیاتو اس کی یہ رقم سوخت اور کالعدم ہو جا ئے،درست نہیں ہے،حدیث میں اس کو’’بیع عر بان‘‘ کہا گیا ہے،چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب(رح) کا بیا ن ہے:
’’حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ بائع کو ثمن کا کچھ حصہ دیا جائے کہ اگر اس نے خرید لیا تو وہ قیمت میں محسوب ہوگا اور نہ خریدا تو بائع کو وہ رقم مفت حاصل ہو جائے گی، اس میں جواپایا جاتا ہے۔‘‘ ﴿حجۃ اللہ البالغہ:۲،۰۰۱﴾

اگر خرید وفروخت کا معاملہ طے پاچکا تھا اور پختہ ہو گیا تھا تو خریدار کے لئے ضروری ہے کہ پوری قیمت دے کر وہ سامان لے لے یا دونوں باہمی آمادگی سے اس طرح معاملہ کو ختم کر دیں کہ کوئی کسی سے کچھ نہ لے اور بیعانہ کی رقم واپس کر دے اور اگر خریدار نے یہ رقم دینے کے ساتھ ساتھ مہلت بھی لے لی تھی تو خریدار کو تین دنوں کے لئے غور فکر کا موقع حاصل رہے گا جسے ’ ’ خیا رِ شرط‘‘ کہتے ہیں، اس مدت میں اس کو معاملہ کے ختم کر دینے یا بر قرار رکھنے کا مکمل اختیار ہوگا، اگر معاملہ ختم کر دے تو بیعانہ کی رقم واپس کر دینی ضروری ہوگی اور اگر یہ مدت گزر گئی تو اب معاملہ پختہ ہو گیا اور خریدار کو مکمل قیمت دے کر متعلقہ شئی خرید کر لینی چاہئے،چونکہ عام طور پر خریدار سے رقم ادا کرنے کی جو مدت طے پاتی ہے وہ تین دنوںسے ز یادہ ہی ہوتی ہے،اس لئے اس میں’’خیار نقد‘‘سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جس کے قائل حنفیہ اور حنابلہ ہیں خیار نقد کی مدت عام فقہائ کے نزدیک تو وہی تین دن ہے، مگر امام محمد(رح) کے یہاں جو مدت باہم طے کر لی جائے اس کا اعتبار ہو گا اور اگر مدت مقررہ پر قیمت ادا نہیں کی تو خودبخود معاملہ ختم ہو جائے گا، فی زمانہ بدعہدی اور وعدہ کے تغافل کے پیش نظر میرا خیال یہ ہے کہ اسی قول پر فتویٰ دیا جانا چاہئے۔

بیع بہ شرطِ واپسی
آج کل شہروں میںبعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جتنا روپیہ قرض لینا یا دینا ہوتا ہے مقروض اپنا مکان قرض دینے والے کے ہاتھ اس شرط کے ساتھ فروخت کر دیتا ہے کہ وہ جب قرض ادا کر دے گا تو اپنا مکان واپس لے لے گا اور پھر وہ مکان بدستور اس کی ملک میں آجائے گا۔

فقہائ کے یہاں اس کو’’بیع بالوفا‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، شریعت کے اصول کے مطابق اگر کوئی ایسی شرط لگادی جائے جو تقاضائے بیع کے خلاف ہو تودرست نہیں ہوتی،یہاںچونکہ اس معاملہ کے ساتھ یہ شرط بھی لگائی گئی ہے کہ ایک مدت کے بعد وہ شئی واپس کر دینی ہو گی اور یہ بیع کے اصول اور تقاضوں کے خلاف ہے، اس لئے بیع درست نہیں،البتہ عملاًاس بیع کی صورت بالکل رہن کی سی ہے اور فقہائ نے بھی ایک طرف اس کے غیر معمولی تعامل اور دوسری طرف فقہی قباحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو رہن کی حیثیت سے جائز رکھا ہے، اب اس معاملہ کو رہن قرار دینے کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ وہ شخص جو خریدار ہے اس کا مالک نہیں ہوگا، اصل مالک بائع ہے،اس طرح خریدار کے لئے زمین یا مکان وغیرہ فروخت ہو تو حق شفعہ اصل مالک ہی کوہوگا اس خریدار کو جس کی حیثیت دراصل رہن رکھے گئے مال کے امین کی ہے اور جسے فقہ کی اصطلاح میں مرتہن سے تعبیر کیا جاتا ہے اس سے استفادہ کا کچھ حق نہیں ہوگا۔

’’وہ بیع جس کا آج کل ہمارے زمانے میں سود سے بچنے کے لئے حیلہ کیا جارہا ہے اور اسے بیع وفا کہا جاتا ہے درحقیقت رہن ہے جس کا خرید نے والا نہ مالک ہوتا ہے اور نہ اس سے نفع اٹھا سکتا ہے‘‘۔﴿ردالمحتار:۴،۶۴۳﴾

ذخیرہ اندوزی
ذخیرہ اندوزی کو عربی میں احتکار کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، ’’ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔‘‘چنانچہ خلفائ راشدین(رض) اس پر خاص نظر رکھتے کہ لوگ ذخیرہ اندوزی کر کے بازار کو گراں نہ کریں، سیدنا عمر(رض) بسا اوقات بازار میں اس کی نگرانی کیا کرتے تھے، حضرت علی(رض) ایک مقام سے گزرے اور ایک ذخیرہ اندوز تاجر کا مال دیکھا تو اسے نذر آتش کرادیا۔

فقہائ نے بھی اسے مکروہ بلکہ حرام قرار دیا ہے. اس لئے کہ اس کی وجہ سے بازار گراں ہوتا ہے اور عام لوگوں کے لئے ضروریات زندگی کا حصول دشوار ہو جاتا ہے،اکثر فقہائ کے یہاں یہ ذخیرہ اندوزی صرف غذائی اشیائ اور حیوانات کے چارے میںممنوع ہے، غیر معمولی حالات میں امام مالک (رح)اور امام احمد(رح) کے نزدیک تمام ہی اشیائ ضروریہ میں احتکار حرام ہے اور یہی رائے امام ابو یوسف(رح) کی ہے،غالباً یہ رائے زیادہ قرین صو ا ب ہے، اس ذخیرہ اندوزی کی مدت’’۰۴‘‘ دن متعین کی گئی ہے یعنی۰۴ دنوں تک مال کاروک رکھنا تاکہ گراں فروشی کا موقع فراہم ہو سکے، احتکار ہے اور ممنوع ہے یہاں تک کہ فقہائ نے حکومت اور انتظامیہ کو اس بات کا حقدار گردانا ہے کہ وہ ضروری سمجھے تو بالجبر ایسا مال نکال کر فروخت کرا دے۔
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166583 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More