مُحترم قارئینِ کرام السلامُ علیکم
تمام تعریفیں اللہ کریم کیلئے جُو مالِک ہے تمام کائنات کا۔ جُو مالک ہے
رُوزِ جزا کا۔ جس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے انبیاءِ کرام علیہم
السلام کو مبعوث فرمایا۔ اور ہم لاچاروں، گُنہگاروں پر مزید احسان فرماتے
ہُوئے۔ ہم میں اپنے مِحبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جلوہ افروز فرمایا۔
تاکہ ہم نجات پاجائیں۔۔۔۔۔ مُحبتِ رَسُولﷺ اور اتباعِ رَسوُلﷺ کے ذریعہ سے
اللہ کریم کی معرفت کو پہچان جائیں۔۔!
اُس کریم عزوجل کا جسقدر شُکر ادا کیا جائے کم ہے۔۔۔ اور اُس پروردِیگارِ
عظیم کی جِسقدربھی ثَنَّا بیان کی جائے شکریہ کا حَق ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔۔۔
کہ اُس نے اپنے مِحبوبِ اعظمﷺ کے عشق کی لازوال دُولت ہمارے سینوں میں رکھ
دِی۔ اور نبیءِ بے عیب وَ دانائے غیب کی محبت سے سرشار تمام اَصحاب پیعمبر
ﷺ اور اولیائے کاملین کی عقیدت ہمارے دِلوں میں ڈال دی تاکہ ہم حَق کے
راستہ پر چلتے ہُوئے فلاح پاجائیں۔ اِمام ابن کثیر رَحم اللہ اجمعین کی
البدایہ والنھایہ میں ایک نہایت خُوبصورت جُملہ پڑھنے کو مِلا تھا جو قرطاس
ذہن پر نقش ہُو کر رِہ گیا تھا۔ وہ آپکی نذر کررہا ہُوں۔ کہ۔ جِس طرح ذکرِ
انبیاءَ علیہم السلام عبادت ہے۔ اُسی طرح ذِکرِ اولیائے کاملین گُناہُوں کے
مِٹائے جانے کا باعث ہے۔(سُبحان اللہ)
اور کروڑ ہا کروڑ دُرود ۔و ۔ سلام نبیِ مہربان و رَسُولِ ذیشانﷺ پر کہ جنکے
اِخلاق کو قران مجید نے خُلق عظیم کہا۔جنہوں نے پتھر برسانے والوں کو اپنی
دُعا سے نوازا۔ راہ میں تکلیف پُہنچانے والوں کی دِلجوئی کا سامان فرمایا۔
جنکی صحبت سے فیض یافتہ ہُو کر اصحابِ رَسُول(رِضوانُ اللہ اجمعین) نے
عطائے رَسول سے تمام عالم کو مُنور کردیا۔ کوئی صِدق و وفا کے پیکر کہلائے
۔ تو کوئی عدل و عدالت کی بے مِثال نظیر ثابت ہُوئے۔کِسی کی سخاوت نے حَاتم
طائی کی سخاوت کو گِہنا کر رکھ دِیا۔ تو کِسی کی شُجاعت نے بہادری و قربانی
کی ایسی مِثال قائم کرڈالی کہ شیر خُدا کہلائے۔ کِسی کی امانت نے امین
الاُمت کے خِطاب سے سرفراز کیا۔ تو کِسی کی حِکمت و دانائی نے رُوم سے
ایران تک کُفر کے دِلوں پر لرزہ طاری کردِیا اور سیف اللہ یعنی اللہ کی
تلوار کہلائے۔
یہ روشنی کا سفر مسلسل اپنی منزلیں طے کرتا رَہا یہانتک کہ لوگوں نے عاشِق
ِمدینہ کا زمانہ پایا۔ جِن سے فقہی مسائل سیکھنے کیلئے لوگوں نے دُنیا بھر
سے سفر کیا حتی کہ دُنیا بھر سےآنے والوں لوگوں نے اُنکی تلاش میں اپنے
اُونٹوں کے جِگر پِگھلا ڈالے۔ اور زمانہ پُکار اُٹھا کہ رُوئے زمین پر عالم
مدینہ سے بڑھ کر کوئی عالِم موجود نہیں۔ دوسری جانب کُوفہ میں آفتاب عِلم
کی کرنیں تمام عالم کو اپنی جانب مُتوجہ کررہی تھیں اور زمانہ یہ کہنے پر
مجبور تھا۔ کہ کوفہ کے صاحب ہی اِمام اعظم کہلانے کے مُسحق ہیں اور یہ وہ
ہیں جُو عِلم کو( ثریا) سے زمین پر لاسکتے ہیں۔ پھر ایک روشن ستارہ امام
اعظم کے دُنیا سے پردہ فرمانے کی رات مُلکِ شام میں ایسا چمکا کہ ملک شام
سے تمام عرب و عجم میں اُس کی روشنی کے چرچے بُلند ہُونے لگے۔ عُلما اور
بادشاہان ِ وقت اِمام شافعی علیہ الرحمہ کی علمی دلیلوں کے سامنے خُود کو
عاجز مِحسوس کرنے لگے۔ اُور زمانہ اُنکی فصاحت و بلاغت کے سامنے مرعوب
ہُوکر رِہ گیا۔ اُسی زمانے میں اِمام یوسف، وامام حسن شیبانی کے علمی
کارنامے لوگوں کو حیران کئے دے رہے تھے۔ پھر انہی روشنی کی مشعلوں سے
فیضیاب ہُوکر اِمام احمد(رَحمُ اللہِ اجمعین) لوگوں کے قُلوب و اذہان پر
اپنی قابلیت کا سِکہ جماتے رہے۔
پھر چھٹی ہجری صدی کا زمانہ بھی لوگوں نے دیکھا۔ جہاں ایک طرف بغداد میں
خاندانِ نبوت کے چشم بےِ مِثال سیدنا عبدالقادر جیلانی (رِحمتہ اللہ
علیہ)کے عِلم و عِرفاں کی روشنی سے کفر شدید پریشاںِ حال تھا۔اُنکی اکِ
نِگاہِ فیض نے زمانے کا چلن ہی بدل کر رکھ دِیا۔ اور دُنیا سِمٹ کر اپنی
گردن اُنکے قدموں میں رکھ رہی تھی۔ تُو دوسری جانب عطائے رسول خُواجہ مُعین
الدین چشتی سنجری (رِحمتہ اللہ علیہ) ہند میں نَوے لاکھ کافروں کے دِلوں کو
فتح کر رَہے تھے۔جسکی بدولت کُفر کے سب سے بڑے قلعے میں ایسی دراڑ پری کہ
جہاں اصنام پرستی میں مُبتلا دُنیا کی سب سے بڑی قُوم کُفر و ضلالت کے
اندھیروں میں گُم تھی وہاں کے ہر گُوشے گُوشے سے توحید کی اَذاں بُلند
ہُونے لگی۔
اسطرح رَسُول اکرم نُورِ مُجسم شفیع الامم ﷺ نے عِلم و عِرفاں کی جو شمع
تقریباً سوا چُودہ سُو برس قبل روشن فرمائی تھی اُسے آج بھی اولیائے کاملین
(رَحَمُ اللہِ اجمعین) بَفِیض مُصطفےٰ و یٰسین ﷺ اپنے ہاتھوں میں تھامے
ہُوئے ہیں۔اور خُدا کے حُکم سے قیامت تک تھامے رہیں گے۔ وہ خَلقِ خُدا سے
کل بھی پیار کرتے تھے۔ آج بھی کرتے ہیں اور یونہی قیامت تک عِلم و حِکمت کے
مُوتی بکھیرتے رہیں گے۔
فیضان اسم اعظم کے سلسلے کی یہ کڑی بھی اِنہی فیض یافتہ اولیائے کاملین (رَحَمُ
اللہِ اجمعین) کی غُلامی کے نتیجے کا سر چشمہ ہے۔ جنہوں نے ہمیشہ انسانیت
کی فلاح کا درس دیتے ہُوئے یہ سبق سِکھایا۔کہ عِلم کی روشنی کو پھیلاوٗ۔
کُفر کی تاریکی خُود بخُود چھٹ جائےگی ۔ لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرو ۔جنت
تُمہارے لئے خُود منتظر ہُوجائے گی۔
آج کے اِس آرٹیکل میں بھی آپکے لئے ایک بیش بہا تحفہ لیکر حاضر ہُوا ہُوں
جِسے پاکر آپ یقیناً بے حد خُوش ہُونگے۔ آزمائش شرط ہے صرف آپکے کامل یقین
اور عملی اِقدام کی حاجت درپیش ہے۔
آپ لوگوں نے جسطرح اسم اعظم کے آرٹیکلز کو پسندیدگی کا شرف بُخشا اُسکے لئے
آپ تمام اِحباب کا بُہت مشکور ہُوں جسکے سبب اسم اعظم کے کئی کالمز ،،ہماری
ویب ،، کے موسٹ وِیوڈ کالم۔ کا حِصہ بنے ہیں۔ اسم اعظم حَسبِ سابق کمنٹس
باکس سے حَاصِل کئے جاسکتے ہیں جبکہ ۔استخارہ۔ جنات وجادو کی کاٹ ۔یا کوئی
اور رُوحانی خِدمت ۔ فی سبیل اللہ بذریعہ اِی میل یا فیس بُک پر میسج کے
ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔ بیرونی مماُلک میں مُقیم بھائی بِہن ایمرجنسی کی
صورت میں اِس نمبر پر بذریعہ کال رابطہ کرسکتے ہیں۔ اور پاکستان میں مقیم
لوگ بھی اس نمبر پر کسی ایمرجنسی میں( صِرف میسج )بھیج سکتے ہیں۔ لیکن آپ
سبھی سے گُزارش ہے کہ صرف بُہت ضروری اور اہم کاموں کیلئے ہی اس نمبر کو
استعمال کریں۔03332969939
خُوف کا علاج۔۔۔
اگر آپکو رات یا دِن میں کِسی مکان، بلڈنگ، یا کاروباری مرکز پر خُوف
مِحسوس ہُوتا ہو۔ تُو اس جگہ پر رُوزانہ تین مرتبہ پہلے پارے میں موجود
سورہ البقرہ کی آیت نمبر ،163،164۔ باآواز بُلند تلاوت فرمائیں اسکے ساتھ
اکتالیس مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھیں اور سات مرتبہ یا مُمیتُ اپنے سینے پر ہاتھ
رکھ کر اپنے سینے پردَم کریں انشاءَ اللہ خُوف فوراً ختم ہُوجائے گا۔(اول
آخر دُرودِ پاک طاق تعداد میں ضرور پڑھ لیں)۔
سورہ البقرہ آیت نمبر 163 تا 164 یہ ہے لیکن اِسے قران مجید سے ہی لکھئے گا
بلکہ ہُوسکے تو یاد کرلیں۔
وَاِلٰهُكُمۡ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحۡمٰنُ
الرَّحِيۡم اِنَّ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ
الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَالۡفُلۡكِ الَّتِىۡ تَجۡرِىۡ فِى الۡبَحۡرِ بِمَا
يَنۡفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ
فَاَحۡيَا بِهِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَا وَبَثَّ فِيۡهَا مِنۡ کُلِّ دَآ
بَّةٍوَّتَصۡرِيۡفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَيۡنَ السَّمَا
ءِ وَالۡاَرۡضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّعۡقِلُوۡنَ
گُمشدہ چیزیں
اگر آپ کِسی جگہ پر کوئی شئے مثلاً زیور ، رقم ، قیمتی کاغذات وغیرہ وغیرہ
رکھ کر بھول گئے ہُوں اور اب آپ کو یاد نہ آرہا ہُو کہ آپ نے مکان دُکان یا
کِسی بھی جگہہ وہ شئے کِس مقام پر رکھی ہے تُو نذدیکی کِسی دیوار پر 11
مرتبہ دُرودِ پاک پڑھنے کے بعد (یا کَلِیمُ) سیدھے ہاتھ کی شہادت والی
اُنگلی سے دِیوار پر لکھ دیں اور اُس جگہہ کو اپنے ذہن میں مِحفوظ رکھیں
جہاں آپ یا کلیمُ لکھ رہے ہیں۔ انشاءَاللہ عزوجل بُہت جلد وہ شئے خُود آپکی
نظروں کے سامنے آجایئگی۔ آزمائش شرط ہے۔( جب وہ شئے آپکو مِل جائے تب اپنا
داہنا ہاتھ اُسی مقام پر پھیر دیں)
چوری سے حِفاظت
اگر آپکو چُوری کا خَدشہ مِحسوس ہُو تو اپنے مال ، دُکان، تجوری وغیرہ کو
بند کرتے ہُوئے 7 مرتبہ بِسم اللہ توکلتُ عَلَی اللہ کہیں اِسکے بعد( 10)
مرتبہ یا جامِعُ پڑھیں(اول آخر دُرودِ پاک پڑھیں) انشاءَاللہ عزوجل دوسرے
دِن تک مال چُوری سے مِحفوظ رہے گا۔ اور اگر حادثہ یا آتشزدگی کا خطرہ لاحق
ہُو تب حادثات سے حِفاظت کی دُعا پڑھ لیں جو کہ حضرت ابوالدردا (رضی اللہ
تعالی عنہ) سے منسوب ہے آتشزدگی اور حادثات سے صبحُ تا شام اَمان میں رہیں
گے (یہ دُعا میرے فیس
فیس بُک اکاؤنٹ سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور مائی پیج اکاونٹ سے بھی مِل
جائے گی)
https://www.facebook.com/ishratiqbal.warsi
اور احسان الحق وارثی بھائی سے بھی اِس اِی میل ایڈریس کے ذریعہ سے حَاصِل
کرسکتے ہیں
[email protected]
چوری برآمد کرنے کیلئے
اگر مال چُوری ہُوجائے تب آدھا پاؤ دیسی گھی آدھا پاؤ گُڑ اور آٹا لیکر 3
میٹھی رُوٹیاں پکالیں اور اُن پر سیدنا علی اِحمد مست اَبدال (رحمتہ اللہ
علیہ) کی فاتحہ دِلوائیں چُور چاہے کِتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہُو آپ کا مال
آپکو ضرور واپس ملے گا۔ بشرطیکہ مال ضائع نہ کردیا گیا ہُو۔ جب چُوری شُدہ
مال واپس مِل جائے تو چار رُوٹیوں پر مزید اسی طریقہ سے فاتحہ دِلوادیں۔
(یہ تمام اعمال الحمدُ للہ عزوجل میرے آزمودہ ہیں۔ اور اِنکے ذریعہ سے
ہزاروں کی تعداد میں لوگ فائدہ حَاصِل کرچُکے ہیں)
التجا :مُحترم قارئین کرام آخر میں آپ سے ایک التجا بھی کرنی ہے۔ کہ آپ
اِحباب جب کال کرتے وقت مجھ جیسےکَم عِلم انسان کو القابات سے نوازنا شروع
کرتے ہیں۔ تُو میرا شرم کے مارے بُرا حال ہُوجاتا ہے۔ مرد حضرات پھر بھی
کُچھ اِحتیاط سے کام لیتے ہُوئے مناسب الفاظوں کا اِستعمال کرلیتے ہیں لیکن
اسلامی بِہنیں کُچھ ذیادہ ہی عقیدت کا اِظہار فرماتے ہُوئے۔ علامہ صاحب ،
مولانا صاحب، مُفتی صاحب، اور بعض تُو مُرشد کہہ کر بھی مُخاطِب کرلیتی ہیں
جبکہ میں نہ ہی کوئی عالِم دِین و مفتی ہُوں۔ اور نہ ہی کوئی مُرشد و
رَہنما ہُوں ۔ بلکہ صرف ایک ادنیٰ سا طالب علم اور نہایت ہی گُنہگار و بے
عمل اِنسان ہُوں ۔ مجھے آپ پر سِوائے گُناہوں کے کوئی سبقت حاصِل نہیں ۔
لِہذا مہربانی فرما کر اگر مُحبت کا اظہار ہی کرنا مقصود ہے۔ تو مجھے بھائی
یا عشرت بھائی کہہ کر مُخاطب کرلیاکریں ۔ یا میری غیبت میں میرے لئے دُعا
فرمادیا کریں۔ کہ مجھے آپکی دُعاوٗں کی اشد ضرورت ہے۔ اُمید ہے کہ اگر آپ
مجھ سے واقعی مُحبت کرتے ہیں تُو میری اِس گُزارش پر بھی ضرور عمل کرتے
ہُوئے مجھے آئیندہ شرمندہ نہیں ہُونےدِینگے ۔
فیضانِ اسم اعظم کے آرٹیکلز کا سلسلہ قریباً ایک برس سے میری بیماری کی وجہ
سے موقوف چلا آرہا تھا انشاءَ اللہ عزوجل اَس سلسلہ کو اَب پھر سے جاری
رکھنے کا اِرادہ ہے۔ تاکہ لوگوں کو ذیادہ سے ذیادہ روحانی مسائل کے حل کی
آگاہی حاصِل ہُوسکے۔اللہ کریم سے دُعا ہے کہ وہ مجھے اِستقامت عطا فرمائے
میرے مُرشدِ کریم سیدنا سِراج الدین وارثی (رِحمتہ اللہ علیہ) اکثر مجھ
فقیر سے ایک جُملہ اِرشاد فرمایا کرتے تھے،، کہ بیٹا اِخلاص کیساتھ کی جانے
والی عبادت سے جنت ملتی ہے۔ مگر عبادت کیساتھ مخلوقِ خُدا کی خِدمت سے خُدا
مِل جاتا ہے۔ اَب یہ انسان پر مُنحصر ہے کہ وہ چاہے تُو جنت کی طلب میں لگا
رہے ۔ یا چاہے تو تمام عالمین کے رَبّ عزوجل کو پانے کی سعی میں اپنی تمام
زندگی گُزار دِے۔ پھر فَرماتے۔ اگر ہُوسکے تو رَبّ کو ہی پانے کی کوشش کرنی
چاہیئے۔۔۔۔!
اسلئے کوشش تُو بس یہی ہے کہ خلق خُدا کی خِدمت کرتے ہُوئے مدینہ طیبہ میں
گُنبد خِضریٰ کے سائے تلے ایمان وعافیت پر شہادت کی موت نصیب ہُوجائے۔ اور
بقیع پاک میں اے کاش مدفن مُیسر آجائے۔
(آمین بجاہ النبی الکریم وصلی اللہُ تعالٰی علیہ وآلہ و ازواجہ واصحابہ
واولیائے ملتہ اجمعین وبارک وسلم) |