تحریر: محمد حماد حبیب
گزشتہ دنوں میرے پاس ایک پیغام ﴿ایس ایم ایس﴾ آیا۔ پیغام ایک محترم دوست کا
تھا۔ انگریزی حروف اور اردو زبان میں تھا، پوری انگریزی دانی آزما کر بڑی
مشکل سے میں اس کو پڑھ سکا، لکھا تھا ’’میری طرف سے آپ کو ایڈوانس رجب
مبارک ہو، رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی کو رجب
کی خوشخبری دے اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ اس لئے میں آپ کو ایڈوانس رجب کی
خوشخبری دیتا ہوں‘‘۔
پڑھ کر افسوس ہوا، انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور فوراً اپنے ساتھی کو
تنبیہ کی کہ اس طرح کی من گھڑت باتوں کو رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی طرف منسوب نہ کیا کرو، نیز آپ نے بلا تحقیق اسے پھیلا کر بڑی غلطی کی ہے
،توبہ کریں، استغفار کریں اور جن لوگوں کو آپ نے مذکورہ پیغام بھیجا ہے ان
سب کو بتا دیں کہ مجھ سے غلطی ہوگئی یہ حدیث نہیں اس کو آگے پھیلانے سے
گریز کریں اور جس نے آپ کو بھیجا ہے اسے بھی سختی سے تنبیہ کریں کہ آپ
حدیثکے نام پر گمراہی پھیلا رہے ہیں، اس سے توبہ کریں اور اسے پھیلانا بند
کردیں۔
آج کل یہ وبا بہت عام ہوگئی ہے کہ حدیث کے نام پر مختلف قسم کی باتیں
پھیلائی جاتی ہیں اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ حدیث کا معاملہ
بڑا سخت ہے۔ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: من کذب علی متعمداً
فلیتبوأ مقعدہ، من النار۔ ﴿ترمذی﴾
جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
اکابر صحابہ و تابعین حدیث بیان کرتے وقت کانپتے تھے کہ کہیں مذکورہ وعید
میں داخل نہ ہوجائیں، حدیث تو حدیث ہے، شریعت میں کسی بھی بات کے بلا تحقیق
پھیلانے کو ناپسند قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کے آئے تو اس کی خوب تحقیق
کر لیا کرو۔ ﴿الحجرات:۶﴾
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کفی
بالمرئ کذبا ان یحدث بکل ما سمع۔
آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرے۔
دین کو مساجد میں، مدارس میں مستند دیندار علمائ سے سیکھیں یا مستند علمائ
کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ مستند ذرائع کے علاوہ آپ کے پاس دین کی جو بھی
بات پہنچے علمائ سے تحقیق کئے بغیر اس کے آگے پھیلانے سے گریز کریں۔ اسی
میں سلامتی ہے۔
رجب، ربیع الاول، رمضان یا کسی بھی مہینے سے متعلق جو اس قسم کی حدیثیں
پھیلائی جاتی ہیں کہ جو شخص فلاں مہینے کی خوشخبری دے گا اس کے لئے جنت کی
خوشخبری وغیرہ وغیرہ ایسی تمام احادیث من گھڑت ہوتی ہیں ان سے ہوشیار رہیں۔
ایسی احادیث کا حدیث کے مستند مجموعوں میں کوئی وجود نہیں، موضوع﴿جعلی﴾
ہونے کی علامات اس کی واضح ہیں، بلکہ کتب موضوعات میں ایسی چند احادیث کو
موضوع قرار دیا گیا ہے۔
بعض پیغامات میں لکھا ہوتا ہے کہ اس کو پندرہ لوگوں تک پہنچائو گے تو اتنی
خوشیاں اور اتنا مال ملے گا، ڈیلیٹ کرو گے تو اس قدر نقصان ہوگا، پریشانیاں
اور بیماریاں آئیں گی۔ ان تمام باتوں کی کوئی اصل نہیں یہ سب بے سروپا ہیں۔
اللہ تعالیٰ تمام ظاہری و باطنی فتنوں سے حفاظت فرمائیں۔ ﴿آمین﴾ |