گُذشتہ سے پیوستہ
چاچا ارشد کے لاکھ اِصرار کے باوجود اَمّاں کی نا! اقرار میں نہیں بدلی۔
اسکے بعد چاچا ارشد اِجازت لیکر واپس پلٹ گئے اگر چہ اُنکے چہرے پر معمول
کی مسکراہٹ تھی لیکن کامل اُس مسکراہٹ کے پیچھے چُھپے تناؤ کو صاف مِحسوس
کرسکتا تھا ۔
اِس واقعہ کو ایک مہینہ بھی نہیں گُزرا تھا کہ ایک رات سُوتے ہُوئے اچانک
کِسی دھمک کے سبب کامِل کی آنکھ کُھل گئی کامل کی نِگاہ سب سے پہلے اَماں
پر پڑی جو ہُونٹوں پر انگلی رکھے خاموشی سے کامل کو کمرے کے کُونے میں رکھی
الماری کے پیچھے جانے کا اِشارہ کر رہی تھیں۔ دروازہ اگرچہ اندر سے بند تھا
لیکن کامل کو الماری کے پیچھے جاتے ہُوئے کھڑکی کے شیشے سے تین آدمیوں کا
ھیولا نظر آرہا تھا جو صحن سے کمرے کے دروازے کی جانب ہی بڑھ رہے تھے ۔
اَب مزید پڑھیئے۔
باہر سے کِسی شخص کی سرگوشی کی آواز کامل کے کانوں میں پڑی۔ جُو کسی کو
مخاطِب کرتے ہُوئے کہہ رہا تھا۔ لگتا ہے وہ حرامزادی اِسی کمرے میں اپنے
پِلّے کیساتھ سُورَہی ہے اُس وقت تو دِن کی روشنی میں اپنے محلے والوں کی
موجودگی میں بڑی شیرنی بن رہی تھی۔ آج دیکھوں گا کہ رات کہ اندھیرے میں
کُون سُورما اِسے بچانے آتا ہے۔ بولنے والے کے لہجے میں اگرچہ فرعونیت کُوٹ
کُوٹ کے بھری تھی لیکن اُس کی دَبی دَبی اور بھنچی ہُوئی سرگوشیاں اس بات
کی غَمازی کر رہی تھیں۔ کہ درحقیقت وہ اپنے دِل میں چُھپے خُوف کو چھپانے
کی ناکام کوشش کررَہا ہے۔ اُسکی آواز اور اُسکی گُفتگو سننے کے بعد کامِل
کو یقین ہُوگیا تھا کہ آج بھی گھر میں وہی نوجوان موجود ہے جو ایک مرتبہ
پہلے بھی اِسکے گھر میں دِن کے اُجالے میں داخِل ہُوچکا تھا۔ اور جِسے
اَمّاں نے سرعام گال پر تھپڑ رسید کیا تھا۔ وہ شائد آج اپنے ساتھیوں کیساتھ
اَمّاں سے انتقام لینے کیلئے رات کی تاریکی میں گھر میں گُھس آیا ہے اور
یہی سُوچ سُوچ کر کامل کا ننھا سا دِماغ پریشان ہورہا تھا کہ نجانے وہ آج
وہ اِنکا کیا حشر کرنے والے ہیں۔
لیکن جب کاِمل کی نِگاہ اَمّاں کے چہرے پر پڑی تُو اُسے اَمّاں کے چہرے پر
سِوائے سکون و اِطمینان کے کُچھ نظر نہیں آیا کامل سُوچنے لگا اَمّاں کتنی
بہادر ہیں کہ گھر میں دشمن کے گھس آنے کے باوجود اُنکے چہرے پر خُوف کا
کوئی نِشان نظر نہیں آرہا ۔ حالانکہ وہ جب بھی نماز پڑھتی ہیں تو لگتا ہے
،، جیسے کوئی چشمہ اَمّاں کی آنکھوں سے وقت دُعا جاری ہُوجاتا ہے،، کامل
خُوف و یقین کی شاہراہ پر گامزن تھاکہ کہ اُس نے اَمّاں کے اُٹھتے ہاتھوں
کو دیکھا۔ جو شائد اللہ تعالی سے مدد و ہمت مانگ رہے تھے۔
اَمّاں نے خَاموش دُعا کے بعد اپنے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرتے ہُوئے
اچانک کمرے میں زیرو کا بلب روشن کردیا اور کامل کی جانب بڑھتے ہُوئے بُلند
آواز سے چِلائیں امجد بھائی ۔ امجد بھائی اُٹھیئے شائد کوئی لفنگا ہمارے
گھر میں دَاخل ہوگیا ہے ۔ اَمّاں نے یہ جُملہ اتنے اعتماد سے دہرایا کہ
کامل بھی خالی کمرے میں نِگاہیں گُھمانے پر مجبور ہُوگیا ۔کہ اَمّاں امجد
ماموں کو کیوں پُکار رہی ہیں حالانکہ اَبّا کے چالیسویں کے بعد امجد ماموں
نے بُھولے سے بھی کبھی اپنا چہرہ نہیں دِکھایا تھا۔ لیکن جُونہی کامل نے
گھر کا دروازہ کھلنے اور کُچھ لوگوں کے سرپٹ بھاگنے کی آواز سُنی تُو کامل
کی سمجھ میں سب آنے لگا اور وہ اَمّاں کی جانب حیرت سے دیکھنے لگا جنہوں نے
اتنی عقلمندی سے اُن لوگوں کو یہ تاثر دیکر کہ وہ گھر میں تنہا نہیں بلکہ
اُنکے بھائی بھی موجود ہیں۔ بھاگنے پر مجبور کردِیا تھا۔
چند ہی لمحوں بعد علاقے کی چُوکیدار کی چُور، چُور کی صدائیں بُلند ہُونے
لگی ۔ شائد چوکیدار نے راونڈ لگاتے ہُوئے اُن لوگوں کو کامل کے گھر سے نِکل
کر بھاگتے دیکھ لیا تھا۔ کُچھ ہی دیر میں مُحلہ کے کئی دروازوں کے کھلنے کی
صداؤں اور لوگوں کی باتوں نے تاریک رات کی خاموشی کے جَمود کو تُوڑ ڈالا۔
پھر گھر کے دروازے سے ارشد چاچا کی آواز سُنائی دی۔ وہ بُلند آواز سے کامل
کو پُکار رہے تھے۔اَمّاں چادر سے چہرے کو ڈھانپتے ہُوئے کمرے کی کُنڈی کھول
کر گھر کے مرکزی دروازے کی جانب بڑھنے لگیں ۔جِسکے دروازے پہلے سے ہی وَا
،تھے کامل بھی چاچا ارشد کی آواز سُن کر اَمّاں کے پیچھے پیچھے گھر کے
دروازے تک پُہنچ گیا۔
کیا ہُوا تھا بیٹا۔۔؟ کون لوگ تھے ۔ اور چُور کیا سامان لے گئے ہیں ۔۔۔؟
اور تُم لوگوں کو تُو کوئی نقصان نہیں پُہنچایا اُن کمبختوں نے۔۔۔؟چاچا
ارشد نے کامل کو مُخاطب کرتے ہُوئے دھیمے لہجے میں جلدی جلدی کئی سوالات
ایک ہی سانس میں دریافت کر ڈالے۔ کامِل سوچ ہی رَہا تھا کہ پہلے کِس سوال
کا جواب دے۔ تبھی اَمّاں نے چاچا ارشد کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔ ارشد
بھائی وہ کوئی چُور یا ڈاکو نہیں تھے۔ بلکہ وہی شخص تھا جِسے میں نے اُس
دِن گال پر تھپڑ رسید کیا تھا۔ وہ اپنی خِفت مٹانے کیلئے آج اپنے ساتھیوں
کیساتھ گھر میں کُود کر داخل ہُوا تھا۔ میں نے جھوٹ مُوٹ میں امجد بھائی کو
پُکارنا شروع کردیا۔ جسکی وجہ سے وہ یہ سمجھ کر فرار ہُوگئے کہ گھر میں
کوئی مرد بھی موجود ہے۔ اَمّاں بڑی تفصیل اور اعتماد سے چاچا ارشد کو
تفصیلات مُہیا کر رہی تھیں۔
باہر سے کسی نے ارشد چاچا کو مخاطب کرتے ہُوئے صلاح دِی کہ اِس معاملہ کی
اِطلاع پُولیس کو ضرور دی جانی چاہیئے۔ اور ہاں بھابی سے یہ ضرور معلوم
کرلیں کہ کیا وہ اُن بدمعاشوں کو جانتی ہیں جو بار بار اِنہیں تنگ کررہے
ہیں۔ نجانے اُس شخص نے جان بُوجھ کر یا بے اِختیار ،،جانتی ہیں ،،اِس انداز
میں ادا کیا تھا کہ اَمّاں کے چہرے پر کرب کا ایک رنگ آکر گُزر گیا۔
اُس شخص کے خاموش ہُوتے ہی چاچا ارشد کہنے لگے میں بھابی سے پہلے ہی معلوم
کر چُکا ہُوں۔ بھابی اُس شخص کو قطعی نہیں جانتیں اور میں نے بھی اُس
نوجوان کو اِس سے پہلے کبھی محلہ میں نہیں دیکھا۔ البتہ اب پُولیس میں
رپورٹ کرنی بُہت ضروری ہے۔ تاکہ آئندہ کسی ممکنہ پریشانی سے بچنے کا تدارک
کیا جاسکے۔ چاچا ارشد کے گھر سے نرگِس کی امی کے علاوہ مُحلے کی کُچھ
خَواتین بھی کامل کی اَمّاں کی دلجوئی کیلئے چلی آئیں تھیں۔ نصف گھنٹے بعد
پولیس بھی چاچا ارشد کے ساتھ آگئی اور انسپکٹر نے چند ضروری سوالات کیساتھ
اُن بدمعاشوں کا حُلیہ بھی دریافت کیا۔ اَمّاں نے چونکہ واحد اُسی اُوباش
نوجوان کو دیکھا تھا لِہذا اُسکا حُلیہ انسپکٹر صاحب کو بتادِیا جسکے بعد
پولیس اپنی کاروائی مکمل کر نےکے بعد اپنے مکمل تعاون کا یقین دِلاتے ہوئے
واپس چلی گئی۔ فجر کی نماز تک تمام خَواتین اَمّاں کیساتھ ہی رہیں پھر
اَمّاں کے اِصرا ر پر اپنے گھروں کو واپس لُوٹ گئیں۔
اِس واقعہ کے بعد چُوکیدار نے اِہل مُحلہ کے کہنے پر کامل کے گھر کے سامنے
ہی اپنی نشست لگالی چاچا ارشد نے ایک پلاسٹک کی کُرسی بھی فراہم کرتے ہُوئے
چوکیدار کو خَاص تاکید کردی تھی کہ تمام مُحلہ کا ایک چکر لگانے کے بعد چند
منٹ یہاں قیام ضرور کرے۔ اِس اقدام کے چند دِن بعد مولوی رمضان صاحب کے گھر
سے ایک بچی چہرے پہ نِقاب ڈالے مُحلے کی ایک خاتون کیساتھ تمام مُحلے میں
قرآن خُوانی کی دعوت دے رہی تھی۔ وہ خاتون جب کامل کے گھر دعوت دینے آئی تب
اَمّاں نے اُس بچی کو غُور سے دیکھتے ہُوئے پُوچھا،، یہ مُولوی صاحب کی
بیٹی جِلباب ہے نا ۔۔۔؟
جی ہاں بِہن آپ نے خُوب پِہچانا۔یہ مولوی صاحب کی اکلوتی بیٹی جلباب ہی ہے۔
خَاتون نے اثبات میں سر ہِلاتے ہُوئے جواب دِیا۔
ماشااللہ کتنی خُوبصورت ہے اور کِتنی بڑی بھی ہُوگئی ہے۔ اَمّاں نے شربت کے
2 گِلاس آگے بڑھاتے ہُوئے کہا تھا۔ میں نے پانچ برس پہلے گلی میں کھیلتے
دیکھا تھا۔ جب بمشکل آٹھ برس کی تھی۔ پھر شائد مولوی صاحب نے اسکے باہر
نِکلنے پر پابندی لگادِی تھی۔ مگر اب تو کہیں سے بھی دیکھنے میں یہ تیرہ
برس کی نظر نہیں آتی۔ ماشااللہ بالکل اپنی ماں پر گئی ہے۔
جلباب بیٹا یہ تُو بتاؤ تُمہارا یہ نام کِس نے رکھا تھا۔ اسکا مطلب کیا ہے
۔اور تُمہارا ننھیال کہاں ہے ۔۔۔؟ اَمّاں نے جلباب سے براہِ راست سوال کرتے
ہُوئے کہا۔
خالہ جِلباب عربی نام ہے ۔ جسکا مطلب غالباً چادر ۔یا۔ اوڑھنی ہے۔ یہ نام
میرے نانا نے رکھا تھا ۔اور اِنکا تعلق کشمیر سے ہے۔ جلباب نے خالی گلاس
ٹرے میں واپِس رکھتے ہُوئے ایک ہی سانس میں اَمّاں کے تمام سوالوں کے
جوابات دیتے ہوئے کہا۔ اسکے بعد اپنی چادر سے چہرے پر نِقاب ٹھیک کیا اور
اَمّاں سے رُخصت چاہی اَمّاں کے بے حد اِصرار پر بھی وہ نہیں رُکی ۔ اَمّاں
کو چالیسویں کی دعوت کی یاد دِہانی کراتے ہُوئے دروازے سے نِکل گئی۔
مولوی صاحب کی بیوی کے چالیسویں پر اَماں کیساتھ کامِل پہلی مرتبہ مولوی
صاحب کے گھر قران خُوانی میں گیا تھا۔ اماں نے چونکہ تجوید کیساتھ قران پاک
پڑھا ہُوا تھا اسی وجہ سے کامل نے بُہت آسانی کیساتھ اماں سے ناصِرف قران
پاک پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ بلکہ کامل کو کئی قرانی سورتیں اور دُعائیں بھی
ازبر تھیں۔ اِس لئے صبح اسکول میں اسمبلی کے ابتدا پر قرات بھی اکثر وہی
کیا کرتا تھا۔ لہذا ایک سپارہ کامل بھی سنبھال کر اماں کے پہلو میں بیٹھ
گیا۔
تبھی ایک خاتون نے کامِل کو خَواتین کے درمیان دیکھ کر اَمّاں سے کہا،، بہن
اسے مَردوں میں بھیج دیں مولوی صاحب کے گھر میں اتنے بڑے بچے نہیں آتے،،
اماں نے ملتجی لہجے میں اُن خاتون سے کہا کہ اِسے رہنے دیں۔ یہ میرے بغیر
وہاں اکیلا نہیں بیٹھ پائے گا۔ تبھی نرگِس کی اماں نے بھی کہا ۔بھئی رہنے
بھی دو یتیم بچہ ہے۔ اور ابھی تو ہے بھی بہت چھوٹا سا، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
لیکن وہ خاتون بضد تھیں کہ کامِل کو باہر بھیجا جانا چاہیئے تبھی ایک دوسری
خَاتون نے مداخلت کرتے ہُوئے اُس خاتون سے کہا،، زُلیخا رہنے بھی دُو ،، یہ
چھوٹا سا بچہ ہے۔ جس کے بیٹھنے پر بھائی جان کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہُوگا
۔ اَمّاں نے سرگوشی میں اپنے ساتھ بیٹھی ایک خاتون سے استفسار کیا ۔ یہ
دونوں کُون ہیں آج سے پہلے تو کبھی اِنہیں مُحلہ میں نہیں دِیکھا ۔اُس
خاتون نے آہستہ سے یہ کہتے ہُوئے سِپارہ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔ کہ یہ
دونوں ہی مولوی رمضان صاحب کی شادی شُدہ بِہنیں زُلیخا اور سفینہ ہیں ایک
جِہلم میں جبکہ دوسری سیالکوٹ میں بیاھی ہے ۔
دوسرے دِن کامل کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسکول سے واپسی پر اُس نے مولوی
صاحب کی دونوں بِہنوں کو اَماں کیساتھ اپنے گھر میں بیٹھا دِیکھا۔ کامِل
سلام کرنے کے بعد اپنے کمرے میں چلا گیا۔
(جاری ہے) |